معیت اللہ یعنی اللہ کا ساتھ ہونا،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کا طریقہ،کیفیت:::
::: معیت اللہ یعنی اللہ کا ساتھ ہونا،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کا طریقہ،کیفیت:::
بسّم اللَّہِ الذی أحاط مخلوقاتہ کلھا بعلمہ و بقُدراتہِ ، و الحمد للَّہ الذی لا یخفی علیہ شیءٌ فی السَّماواتِ و لا فی الارضِ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیَ مَن لا نبی بعدہ ُ محمد رسول اللَّہ:::
اللہ کے نام سے آغاز ہے جِس نے اپنی ساری ہی مخلوق کو اپنے عِلم اور اپنی قدرتوں کے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جِس سے اِسمانوں اور زمین میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ، اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ پر جِن کے بعد کوئی نبی نہیں،
اللہ جلّ و عُلا کی ذات مُبارک کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی میں جو کہ خود اللہ کے کلام مُبارک میں قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ہم تک پہنچی ، اِس وحی میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ جلّ جلالہُ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند ، اپنے عرش سے اُوپر ہے ،
الحمد للہ ، کہ اللہ ہی کی توفیق سے میں نے اِسلامی عقیدے کے اِس أہم اور بنیادی عقیدے کی وضاحت کے بارے میں ایک کتاب بعنوان """ اللہ کہاں ہے ؟ """ تیار کی جو برقی میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے ،
آن لائن مُطالعہ اور برقی نسخہ کے حصول کے لیے درج ذیل ربط دیکھیے :::
http://bit.ly/1IxNUWR
میں نے اِس کتاب میں لکھا تھا :::
""" ( 7 ) اللہ الکریم کا فرمان ہے :::
﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اِستَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ سورت الحدید(57)/آیت 4 ۔
:::::::: اِس مندرجہ بالا آیت مُبارکہ میں ہمارے اِس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ، جِس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالی کی "" معیت "" یعنی اِس کا ساتھ ہونا ،جِس کے بارے میں عموماًٍ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی ذات مُبارک کے ذریعے کِسی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ دُرُست نہیں ہے کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے خود ہی اپنی """ معیت """ کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ وَاللَّہ ُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ ::: اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اِس کے علم و قدرت، سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ، نہ کہ اِس کی ذات مُبارک کے وجود پاک کے ساتھ کِسی کے ساتھ ہونا ہے، اِن شاء اللہ اِس موضوع پر بات پھر کِسی وقت۔"""
گو کہ اِس وضاحت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ( یعنی اُس کے اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے )کے ذِکر کی بنا پر اِس شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ کا ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کا ساتھ ہونا ہے ،
لیکن پھر بھی قارئین کرام کی طرف سے ایسے سوالات یا شبہات کا اظہار ہوا ہےجو اُن آیات مُبارکہ سے ، جِن میں اللہ تعالیٰ کے اپنی کِسی مخلوق کے ساتھ ہونے کا ذِکر ہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساتھ ہونا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا ساتھ ہونا ہے ،
جِسے """معیت اللہ """کہا جاتا ہے ،
اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ میں اُن آیات مُبارکہ کی تفسیر پیش کروں گا جِن آیات مُبارکہ میں اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کا ذِکر ہے ، جِس سے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گاکہ اللہ سُبحانہ و تعالٰی کی معیت اُس کی ذات کا ساتھ ہونا نہیں ،
بلکہ اللہ عزّ و جلّ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے سے مُراد، اُس مخلوق کا ، اور اُس کے ظاہری اور باطنی افعال و اقوال کا اپنے عِلم ، سماعت ، بصارت ، حِکمت ، قُدرت اور تدبیر کےذریعے احاطہ کیے رکھنا ہے،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق کے ساتھ ہونا ، دو بنیادی اِقسام میں ہے ، یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دو بنیادی انداز میں ہوتا ہے ،
::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ،
::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ،
اِن شاء اللہ ، کوشش کروں گا اِن دونوں اِقسام کا مختصر لیکن کافی و شافی تعارف اِسی مضمون میں ذِکر کر سکوں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی اِس صِفت یعنی """معیت ، ساتھ ہونا """ کی کیفیت کو دُرُست طور پر سمجھنے میں لوگوں کو دو اِسباب سے غلط فہمی ہوتی ہے :::
::::::: (1) ::::::: غلط فہمی کا پہلا سبب :::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کو اللہ ہی کی دی ہوئی خبر کے مُطابق نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کی معیت کی صِفت کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ،
وہ اللہ کی مخلوق کی صِفات کے مُطابق ، اللہ کے بارے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کِسی کا کِسی جگہ پر مُوجُود ہوئے بغیر اُس جگہ پر ہونے والی حرکات و سکنات کو جاننا ممکن نہیں ، جب کہ ہمارے اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو کچھ برقی اور برقیاتی آلات مہیا کروا دیے ہیں اُن کی مُوجُودگی میں اِس قسم کا کوئی خیال نہیں آنا چاہیے ،
::::::: (2) ::::::: غلط فہمی کا دُوسرا سبب :::::::: اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کی کیفیت سمجھنے میں غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے لوگ"""معھُم ، یا ، معکُم، یا ، معہُ ،یا ، معک َ """ یعنی """ اُن سب کے ساتھ ، یا ،تُم لوگوں کے ساتھ ، یا ، اِس کے ساتھ ، یا ، تمہارے ساتھ"""وغیرہ قسم کے اِلفاظ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کِسی ایک شخصیت یا چیز کا کِسی دُوسری شخصیت یا چیز کے ساتھ ہونے کے ذِکر سے یہ لازم ہوتا ہے دونوں اپنی اپنی ذات کے وجود کے ساتھ ، ایک دُوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں ،اور قران کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمائے ہوئے فرامین مُبارکہ کے مُطابق ہی دُرُست نہیں ، اِس کا ذِکر بھی اِن شاء اللہ آگےہوتا چلے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کِسی کے ساتھ ہونے کا ذِکر اپنی کتاب کریم میں کئی مُقامات پر ، اور ایک سے زیادہ انداز میں فرمایا ہے ،
اِن شاء اللہ اِس مضمون میں ، ہم اُن آیات کریمہ کا مُطالعہ کریں گے جِن آیات مُبارکہ کو نا دُرُست طور پر سمجھنے کی وجہ سے سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ، اور معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، کچھ تو ایسے بھی ہوئے اور ہیں جو ان آیات مُبارکہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس کی مخلوق میں، مخلوق کے اندر ، مخلوق کے ساتھ مختلط ہونے کا کفریہ عقیدہ اپنانے کی دلیل بناتے ہیں، اور اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر ہُو ، ہُو کے کفر میں گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، اور اِسے اللہ کا ذِکر سمجھتے ہیں ،
اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر نام نہاد تخیلاتی مدارج کی بلندی کے بعد ہُو ، ہُو نامی ، خود ساختہ اورباطل عقیدے پر مبنی شور شرابہ کِسی بھی طور اللہ کا ذِکر نہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کے انکار کا اعلان ہیں ، کیونکہ نہ تو اللہ پاک ہر جگہ مُوجُود ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اِس دُنیا میں کِسی کو نظر آتی ہے ،
اِس موضوع پر اِن شاء اللہ کِسی اور وقت بات کروں گا ، فی الحال تو اپنے اِس رواں موضوع یعنی""" اللہ کی معیت ، اللہ کا ساتھ ہونا """کی طرف واپس آتا ہوں ، اورقران کریم ہی کی روشنی میں اُن آیات کریمہ کو دُرُست طور سمجھتے ہیں جِن آیات شریفہ کی بنا پر لوگ"""معیت اللہ """ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بذاتہ اُس کی مخلوق میں مُوجُود ہونا سمجھتے ہیں ،
No comments:
Post a Comment