سلفیت کے خلاف پروپیگنڈہ/ بن سلمان ایک بہانہ
(بن سلمان کے مکمل انٹرویو کا اردو ترجمہ کے ساتھ)
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں دی اٹلانٹک کے نمائندے جیفری گولڈ بیرگ سے ایک سوال کے جواب میں رافضی ایران کے ظالم حکمرانوں، اخوانیوں اور دہشت گرد تنظیموں کو جب سے بدی کا تکون (The Triangle of Evil) کہا ہے یہ رافضی اور تحریکی اسی وقت سے بلبلا رہے ہیں۔ سیاق و سباق سے عبارت کو کاٹ کر مملکت توحید اور سلفیت کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ بی بی سی لندن، الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر رافضی اور تحریکی اخبارات اپنی اپنی گند پورے عالم میں پھیلا رہے ہیں۔ خصوصا بر صغیر کے تحریکی اور رافضی ان جھوٹی اور من گھڑت باتوں میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں جس سے سنی مسلمانوں میں مملکت توحید کے تعلق سے ایک طرح کی بے چینی کا پایا جانا فطری چیز ہے۔ حتی کہ سلفیت کا دعویٰ کرنے والے اچھے پڑھے لکھے بعض لوگوں نے بھی مملکت کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے مناسب سمجھا کہ محمد بن سلمان کے اس انٹرویو کا مکمل اردو میں ترجمہ پیش کر دیا جائے جسے پڑھ کر لوگوں کی بے چینی اور شبہات دور ہوجائیں نیز سلفیت کے دشمنوں کی مکاری، فریب کاری، دشمنی اور دجل ودروغ کا پردہ بھی چاک ہو جائے۔
ایک اہم نقطہ یہ کہ اس عظیم دورے کے جو اہم مقاصد، اہداف، ایشوز اور بنیادی اقتصادی، سیاسی وعسکری وجوہات تھے ان میں سے کسی بھی نقطوں کو ان دشمنان مملکہ نے نہیں چھیڑا۔ کسی غیر اہم جانبی انٹرویو کے غیر اہم ایشوز کو اپنے مقصد بر آری کی خاطر سیاق و سباق سے عبارت کو توڑ مروڑ کر ہمیشہ پیش کی ہے ان دشمنان سلفیت نے۔
خصوصی طور پر ان اعدائے سلفیت نے وہابی نظریہ کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا۔ اس کے پیچھے ان ظالموں کے دو مقاصد تھے: ایک تو سلفیت کو بدنام کرنا اور دوسرے محمد بن سلمان کے مطلب اور حقیقی سیاق و سباق کو گڈ مڈ کر دینا تا کہ لوگ اس پس منظر کو نہ سمجھ سکیں جس پس منظر کو سامنے رکھ کر متشدد آئیڈیا لوجی کی مدد کی بات محمد بن سلمان نے کی تھی۔ در اصل محمد بن سلمان نے کمیونزم کے خلاف جس متشدد فکر کی بات کی تھی اور ستر اسی کی دہائی میں اس وقت جو انٹی کمیونزم تھے وہ جماعت اسلامی، اخوان المسلمین، حزب التحریر، افغان مجاہدین، یمن کی شاہی فورسیز، طالبان، یونس خالص، ابو رسول سیاف، گلبدین حکمتیار، جلال الدین حقانی، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور حزب اسلامی تھے۔
ان احسان فراموشوں اور خائنین دین وملت نے جہاں ایک طرف خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب سے خوب خوب مالی فائدہ اٹھایا لیکن ہانڈی میں سوراخ کر کے ہمیشہ رافضی ایران کی غلامی کی اور کرتے آ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان کے ایک بڑے علاقے میں شیخ جمیل الرحمٰن نے اسلامی امارت قائم کر لی تھی جو خالص کتاب وسنت کے منہج پر تھی لیکن ان سب غدار یاروں نے اس امارت کی کھل کر مخالفت کی اور جمہوری حکومت کی بات کی شیخ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود ان مکاروں نے ایک نہ سنی اور شیخ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ اور ووٹنگ کے ذریعے ان غداران قوم وملت نے جمہوریت قائم کی جس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔
نیز یہ کہ محمد بن سلمان نے اس وقت وہابیت کا نام ہی نہیں لیا تھا اس نے متشدد فکر کے تعاون کی بات کہی تھی جس میں سعودی عرب کے ساتھ یورپ اور امریکہ بھی شامل تھے کیوں کہ اس وقت کمیونزم کے خلاف ایک عالمی بلاک بنا ہوا تھا۔ اور مزید وضاحت طلب کرنے پر بن سلمان نے صاف صاف بتا دیا کہ وہابیت نہیں اس متشدد فکر سے مراد اخوان المسلمین وغیرہ ہیں۔ اور پھر جب دی اٹلانٹک کے نمائندے نے خاص کر وہابیت کی تعریف پوچھی تو بن سلمان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے وہابی فکر کیا چیز ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ جسے آپ لوگ وہابی فکر کہتے ہو ہمارے یہاں اس کا وجود ہی نہیں ہے۔
واقعی اپنی برائی چھپانے کے لئے لوگ کس قدر جھوٹ بولتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لیکن اہل حق کے ذریعے ہمیشہ اللہ انہیں ذلیل ورسوا کرتا ہے۔
اس کے لئے تفصیل دیکھیں ان تینوں لنکز کو:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1741680229203842&id=340267439345135
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1475274435934659&id=100003563501036
https://www.maghress.com/akhbarona/237170
واقعی اس حالیہ انٹرویو کے اندر محمد بن سلمان نے جس توحید پرستی اور سلفیت کا دفاع کیا ہے، وہابی ازم کے پروپیگنڈے اور مملکت کے تعلق سے شبہات کا جس انداز میں جواب دیا ہے اور وہ بھی امریکہ جیسے کٹر ملک میں ایک کٹر مسیحی نمائندے کے سامنے وہ اپنے آپ میں حیران کن ہے۔ ایسا جواب ایک بے خوف موحد ہی دے سکتا ہے۔
لیجئے ترجمہ حوالے کے ساتھ پیش خدمت ہے:
گولڈ بیرگ: بہتر ہوتا اگر آپ بعض ان چيزوں كے بارے ميں بتاتے جن كے تعلق سے يہ وعده كيا ہے كہ سعودى عرب ميں انہيں كركے دكهائيں گے، گرچہ وه ابهى اپنے ابتدائى مراحل ميں ہيں۔ آپ كا ملك بہت بڑا اور پيچيده مانا جاتا ہے ، وہاں كى ثقافت وتہذيب ميں بدلاؤ بہت مشكل ہے۔ كيا آپ پہلے كچھ مذہب اسلام كے بارے ميں بتا سكتے ہيں اور يہ كہ يہ دين دنيا بهر ميں كيا كردار ادا كرسكتا ہے؟
محمد بن سلمان: اسلام سلامتى كا دين ہے، اسلام كا صحيح مفہوم يہى ہے، ہمارے رب نے اسلام كے اندر ہمارے كندھوں پر دو ذميدارى ڈال ركهى ہے: پہلى ذميدارى: ايمان ، اور ہر وه كام كرنا جو بہتر ہو اور گناہوں سے بچنا، اور نافرمانى كى صورت ميں كل قيامت كے دن الله ہمارا حساب لے گا۔ دوسرى ذميدارى: مسلمان ہونے كے ناطے ہمارى يہ ذميدارى ہے كہ ہم الله سبحانہ وتعالى كے كلمے (دين اسلام) كو پھيلائيں۔چوده صدى تك مسلمان پورے مشرق وسطى، شمال افريقہ اور يورپ وغيره ميں الله كے كلمے كو پھيلاتے رہے، جہاں بہتر طريقے سے انہيں دين پھيلانے كا موقعہ نہيں ديا گيا وہاں جنگ كرنے پر مجبور ہوئے اور يہى ہمارى ذميدارى ہے۔
يہى وجہ ہے كہ ہم ديكهتے ہيں كہ ايشيا ميں بہت سارے ممالك جيسے انڈونيشيا ، مليشيا اور ہندوستان وغيره ايسےہيں جہاں مسلمانوں نے پورى آزادى سے الله كے كلمے كو پھيلايا ہے، وہاں كے لوگوں نے ان كا استقبال كيا اور كہا كہ تمہيں جو كہنا ہو كہو جسے ايمان لانا ہوگا لائے گا۔ يہاں اسلام تلوار سے نہیں پھيلا بلكہ امن وسلامتى كے ذريعے پھيلا۔
گولڈ بیرگ: بدى كے تكون سے آپ كى كيا مراد ہے؟
محمد بن سلمان: اسلام امن وسلامتى كا دين ہے جب كہ ايران، اخوان المسلمين اور دہشت گرد جماعتيں برائى كا تكون ہيں۔ يہ سب اپنے مذموم عزائم كى تكميل كيلئے دين كا اصل چہره مسخ كر رہے ہيں۔اپنى اپنى سوچ پر مبنى خواہشات وحرص ولالچ كى خاطر طاقت وقوت كى زور سے دنيا بهر ميں سلطنت قائم كركے حكومت كرنا چاہتے ہيں جبكہ ہميں اس طرح نہ تو الله نے حكم ديا ہے اور نہ نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے كيلئے كہا ہے۔ الله نے ہميں اپنے كلمے كو پھيلانے كيلئے كہا ہے ۔ اور اس ذميدارى كا پورا كرنا بہت ضرورى ہے۔ آج غير اسلامى ملكوں ميں ہر شخص كيلئے يہ آسان ہوگيا ہے كہ وه جس چيز پر چاہے ايمان لائے اور جيسا چاہے اعتقاد ركهے۔ نيز دينى كتابوں كا خريدنا ہر ملك ميں ممكن ہوگيا ہے۔ اور اسى طرح دين كا پيغام پہونچ رہا ہے۔ اب يہ ضرورى نہ رہا كہ ہم اسلام پھيلانے كيلئے جہاد كريں جب تك ہم مسلمانوں كو بہتر طريقے سے دعوت دين كى اجازت ہے۔ ليكن بدى كے يہ تكون مسلمانوں كے جذبات سے كهيل رہے ہيں اور انہيں يہ بتا رہے ہيں كہ مسلمان ہونے كے ناطے اور اپنى عزت وشرافت كى وجہ سے ہمارے لئے يہ ضرورى ہے كہ ہم اسلامى سلطنت قائم كريں اور وه بهى تشدد، طاقت ، ہنسا اور ان محرف آئيڈيالوجى كى روشنى ميں جو ان تينوں تكون كے يہاں پائے جاتے ہيں۔
گولڈ بیرگ: بدى كے تكون (The triangle of evil)سے متعلق مزيد كچھ تفصيل بتائيں۔
محمد بن سلمان: پہلے ہم ايرانى رجيم كى بات كريں گے جو ولايت فقيہ كے متشدد نظريئے كے تحت اپنے رافضى نظام كو پھيلانے كيلئے كوشاں ہے اور وه پورى دنيا پر حكمرانى كا خواب ديكھ رہا ہے۔انہوں نے يہ عقيده گڑھ ليا ہے كہ اسى رافضى فكر كے پھيلنے كے بعد ہى غائب امام كا ظہور ہوگا جو ايران سے پورى دنيا پر حكومت كريں گے اور اسلام کو امريكہ تك پھيلائيں گے۔ 1979 ميں ايرانى انقلاب كے دن سے ليكر برابر يہ يہى كہتے چلے آرہے ہيں، ان كے رافضى قوانين كا يہ حصہ ہے اور انكا كردار اسے ثابت بهى كررہا ہے۔
تكون كا دوسرا كونا اخوان المسلمين كى جماعت ہے ، يہ ايك تشدد پسند تنظيم ہے، يہ خلافت اسلاميہ كا ڈهونگ رچ كر پورى دنيا ميں اپنى متشدد فكر اور دہشت گردى پر مبنى آڈيالوجى پھيلا رہے ہيں۔ جمہورى نظام كا سہارا ليكر حكومتوں تك پہونچتے ہيں پھر اسے تشدد پر مبنى حقيقى استبدادى نظام ميں بدل ديتے ہيں جس كا حاكم انكا مرشد ہوتا ہے۔
اس تكون كا تيسرا كونا القاعده اور داعش جيسى دہشت گرد تنظيميں ہيں جو طاقت اور جبر وزور سے سب كچھ كرنا چاہتے ہيں اور طاقت ہى كے زور پر سارے مسلمانوں بلكہ سارى دنيا كو مجبور كرنا چاہتے ہيں كہ سب انہيں كے متشدد نظرئيے اور حكومت كے ماتحت رہيں۔
قابل ذكر بات يہ ہے كہ القاعده اور داعش كے تمام رہنما اخوان المسلمين كے ممبر ره چكے ہيں جيسے اسامہ بن لادن، ايمن ظواہرى اور داعش كا سربراه۔
بدى كا تكون يہ فكر لوگوں ميں پھيلا رہاہے كہ الله اور دين اسلامى ہميں صرف دين كا پيغام ہى پھيلانے كا حكم نہيں ديتا ہے بلكہ ايك ايسى سلطنت كے قائم كرنے كا بهى حكم ديتا ہے جہاں سے وه اپنى اپنى متشدد فكر اور آئيڈيالوجى كے تحت حكومت كريں گے جو ہمارى اسلامى شريعت اور سمجھ سے بالكليہ مخالف ہوگى۔ اور يہ بات بهى علم ميں رہے كہ انكى يہ آئيڈيالوجى اور فكر اقوام متحده كے مباديات كے بهى خلاف ہے۔ ہر ملك ميں اپنى اپنى ضرورت كے مطابق قوانين بنائے جاتےہيں ۔ مملكت سعودى عرب، مصر، اردن، بحرين، عمان، كويت ، امارات اور يمن وغيره اس آئيڈيالوجى اور فكر كى حمايت كرتے ہيں كہ سارے آزاد ممالك اپنى اپنى مصلحتوں پر توجہ ديں اور اقوام متحده كى مباديات كى روشنى ميں ايك دوسرے سے بہتر تعلقات بنائے ركھيں جب كہ بدى كے يہ تكون ايسا نہيں كرنا چاہتے۔
گولڈ بیرگ: پھر بهى كيا يہ صحيح نہيں ہے كہ 1979 كے بعد بلكہ اس سے پہلے بهى سعودى عرب كے اندر وه طبقہ جو دين كے معاملے ميں سب سے زياده تحفظ كا شكار ہے اسى نےتيل كى دولت كو اس وہابى آئيڈيالوجى كے پھيلانے ميں استعمال كيا ہے جو اسلام ميں سب سے زياده متعصب اور متشدد مانا جاتا ہے، اور ممكن ہے جس كے بارے ميں يہ كہنا مناسب ہو كہ يہ فكر اخوان المسلمين كى فكر سے متفق ہے۔
محمد بن سلمان: سب سے پہلے كيا آپ ہميں يہ بتا سكتے ہيں كہ وہابيت كى اصطلاح سے كيا مطلب ہے؟ اسكے بارے ميں ہم تو كچھ بهى نہيں جانتے؟
گولڈ بيرگ: آپ كچھ بهى نہيں جانتے اس سے آپ كا كيا مطلب ہے؟
محمد بن سلمان: وہابيت كيا ہے؟
گولڈ بيرگ: آپ مملكت سعودى عرب كے ولى عہد ہيں ۔ آپ ضرور وہابيت كے بارے ميں جانتے ہوں گے۔
محمد بن سلمان: در اصل وہابيت اصطلاح كى تعريف كرنا كسى كيلئے ممكن ہى نہيں ہے۔
گولڈ بيرگ: يہ ايك تحريك ہے جس كى بنياد ابن عبد الوہاب نے اٹھارہويں صدى ميں ڈالى تهى، جو كہ فطرى طور پر تشدد پسندى اصول پر مبنى اور سلفيت كى سخت گير تفسير تهى۔
محمد بن سلمان: جو نام آپ لوگ وہابى ازم كا ديتے ہو اسكے بارے ميں ہم نہيں بتا سكتے ۔ ہمارے یہاں ايسى كوئى چيز نہيں ہے جسے اس طرح كى وہابيت كہا جائے۔ اور نہ ہى ہميں يقين ہے كہ اس طرح كى وہابيت ہمارے يہاں پائى جاتى ہے۔ بلكہ ہمارے يہاں مملكت سعودى عرب ميں اہل سنت مسلمان رہتے ہيں، ہمارے يہاں شيعہ بهى ہيں۔ ہم اس بات پر بهى يقين ركهتے ہيں كہ اہل سنت مسلمانوں ميں چار فقہى مدارس پائے جاتے ہيں۔ ہمارے يہاں معتبر شريعت كے ماہر علماء ہيں اور افتاء كى مجلس ہے۔ جى ہاں! مملكت سعودى عرب ميں سارى چيزيں واضح ہيں، ہمارے سارے قوانين شريعت اسلاميہ اور قرآن پر مبنى ہيں، ہمارے يہاں چاروں مذاہب – جنبلى، حنفى، شافعى اور مالكى- پائے جاتے ہيں۔ گرچہ ان چاروں كے مابين بعض امور ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ اور يہ ضرورى بهى ہے جس ميں لوگوں كيلئے رحمت بهى ہے۔
سوال يہ ہے كہ پہلى سعودى حكومت كى بنياد كيوں پڑى؟ نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء اربعہ كے بعد جزيره عرب كے اندر دوباره لوگ آپس ميں لڑنے لگے جيسے ہزاروں سال پہلے كرتے تھے۔ ليكن چھ سو سال پہلے يعنى پہلى سعودى حكومت كے قيام سے پہلےميرے خاندان نے زيرو سے ايك شہر بسايا جسے درعيہ كہا جاتا ہے۔ اسى شہرسے بعد ميں پہلى سعودى حكومت نے جنم ليا جو ديكهتے ہى ديكهتے جزيره عرب كے اندر سب سے بڑى اقتصادى طاقت بن گئى ۔اس حكومت نے اس وقت كے بگڑتے حالات كو بدلنے ميں كافى مدد كى۔اكثر دوسرے شہر آپس ميں تجارت كو ليكر لڑتے جهگڑتے تهے اور اس پر قبضہ كرنے كى كوشش كرتے تهےليكن ميرے قبيلے نے دوسرے دو جهگڑنے والے قبيلوں سے كہا كہ تجارتى راستوں پر حملہ كرنے كے بدلے ہم آپس ميں مل كر ان علاقوں كى حفاظت كيوں نہ كرليں؟ اسى سے تجارت بڑھے گى اور شہر كى ترقى ہوگى۔ اسى طريقے پر عمل كيا گيا۔ اور تين سو سالوں تك اسى پر عمل ہوتا رہا۔ہميشہ ہم لوگوں كى يہى پلاننگ رہى ہے كہ جزيره عرب كے اندر ہميں عظيم عقلمندوں كى ضرورت ہے چاہے وه فوجى جنرل ہوں ، قبيلوں كے سربراه ہوں يا علماء دين ہوں جو سب مل كر ايك ساتھ كام كريں۔ انہيں ميں سے ايك عظيم شخصيت محمد بن عبد الوہاب كى تهى۔ ہميشہ ہمارى بنيادى ترجيح لوگوں كو امن دينا پهر تمام مصحلتوں كى حفاظت كرنا رہى ہے انہيں مصلحتوں ميں اقصادى مصلحت بهى ہے۔ ہم كبهى بهى (ان بدى كے تكون كى طرح )توسيعى آئيڈيالوجى مصلحتوں پر عمل پيرا نہيں ہوئے ہيں۔
سعودى عرب كے اندر ہمارے پاس بہت سارے مشترك معاملات ہيں: ہم سب مسلمان ہيں، ہم سب عربى زبان بولتے ہيں، ہمارى ثقافت ايك ہے، ايك ہى سماج كا خيال ہے۔ چنانچہ جب آپ جيسے لوگ وہابى ازم كے بارے میں بات كرتے ہو تو نہیں سمجھ پاتے كہ در اصل كس چيز كے بارے ميں بات كر رہے ہيں۔ محمد بن عبد الوہاب آل الشيخ كا خاندان اس وقت بہت معروف ومشہور ہے، اور اسى طرح سعودى عرب كے اندر ہزاروں خاندان پائے جاتے ہيں۔ آپ كو یماری حکومت کے اندر مجلس وزراء ميں شيعہ مل جائيں گے، حكومتى محكموں ميں آپ كو شيعہ مليں گے، سعودى عرب ميں ايك اہم يونيورسٹى كا صدر ايك شيعہ ہے۔ در اصل ہميں اس بات پر يقين ہے كہ ہمارے پاس مختلف طرح كے مدارس اور اسلامى طبقات پائے جاتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: ليكن آپ شدت پسندوں كى مالى سرپرستى كے تعلق سے كيا كہيں گے؟
محمد بن سلمان: اگر ہم گفتگو كريں گے مالى سرپرستى كے تعلق سے اور خاص كر 1979 سے پہلے، تو ہميں سرد جنگ كے تعلق سے گفتگو كرنا پڑے گى۔ در اصل كميونزم ہر جگہ پھيل چكى تهى جو امريكہ ، يورپ اور ہم سب كيلئے ايك خطره بن چكى تهى۔ مصر اس وقت تقريبا كمنسٹ نظام كے بالكل قريب پہونچ چكا تها۔ اس وقت ہم نے اس خطرے سے نپٹنے كيلئے ہر اس شخص كے ساتھ كام كيا جس نے ہمارى مدد كى۔ انہيں ميں سے يہ اخوان المسلمين بهى تهے جن كى مالى سرپرستى خود مملكت سعودى عرب نے كى اور امريكہ نے بهى كى۔
گولڈ بيرگ: كيا ايسا كر كے آپ لوگوں نے غلط كيا؟
محمد بن سلمان: اگر زمانے كے اعتبار سے پيچھے چلے جائيں تو ايسا ہى كريں گے۔ ليكن اب ہميں كميونزم سے بھی بڑا خطره لاحق ہے، اب ہمارے لئے ضرورى ہے كہ اخوان المسلمين كى اس جماعت كے ساتھ دوسرا برتاؤ كريں اور ان كے راستے كو بدليں ، يہ كہا جاتا ہے كہ امريكہ كے ايك صدر نے اس جماعت كو آزادى كے خلاف لڑنے والا كہا ہے۔
ہم نے ان كى تمام حركات اور پلانوں پر كنٹرول پانے كى ہر ممكن كوشش كى ہے۔ ليكن 1979 كے بعد ہر چيز ميں تبديلى آگئى، اس ايرانى انقلاب نے ايسا نظام قائم كيا جو محض بدى كى آئيڈيا لوجى پر منحصر ہے۔ يہ نظام قوم كيلئے نہيں بنايا گيا ہے، يہ ايك تشدد پسند خاص آئيڈيالوجى كا خادم ہے۔ سنى ممالك ميں شدت پسند بالكل يہى تجربہ كرنا چاہتے ہيں۔ چنانچہ ہم نے مسجد حرام پر حملہ برداشت كيا، ہم ايران ميں انقلابى حالت كو ديكھ چكے ہيں وه اسى كو مكہ ميں نافذ كرنا چاہتے ہيں۔ ہم نے مملكت سعودى عرب اور مصر ميں دہشت گردى ديكهى ہے۔ ہم نے بہت پہلے شروع ہى ميں اسامہ بن لادن كو گرفتار كرنے كا مطالبہ كيا تها كيونكہ وه مملكہ سے فرار تها۔ دہشت گردى سے لڑ كر ہم نے بڑى مصيبت جهيلى ہے يہاں تك كہ 11/ ستمبر كا حادثہ پيش آيا۔ يہى اصل قصہ ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں نے پچھلى صدى كى نوے كى دہائى اور موجوده صدى كے اوائل ميں پاكستان اور افغانستان كے اندر بہت وقت گزارا ہے۔وہاں ره كر ميں نے يہى جانا كہ وہاں كے دينى مدارس مملكت سعودى عرب سے پيسہ حاصل كرتے ہيں۔ شايد آپ يہى كہنا چاه رہے ہيں كہ آپ كى حكومت اور خاندان كے دائره اختيار سے يہ معاملہ نكل گياجس سے آپ لوگوں كو ، آپ كے دوست اور حليف ممالك كو اس سے نقصان پہونچنا شروع ہوا جس كى بنياد پر دھيرے دھيرے اس آئيڈيالوجى كى مدد كرنا آپ لوگوں نے ترك كرديا ۔
محمد بن سلمان: جى ميں نے يہ بات كہى ہے كہ سرد جنگ كے موقع پر ہم سبهى نے اخوان المسلمين كى مدد كى ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں يہ نہيں كہتا كہ امريكہ اس سے برى ہے۔
محمد بن سلمان: جى ہاں كچھ مصلحتيں تهيں جن ميں ہمارے ساتھ اور بہت سارے لوگ تهے جن ميں امريكہ بهى شامل ہے۔ ہمارے يہاں ايك بادشاه نے ان تشدد پسندوں كے در آنے كے بعدان كے تدخلات كو ختم كرنے ميں اور انہيں صحيح راستے پر لانے ميں اپنى جان كى قربانى دے دى، وه ملك فيصل كى شخصيت ہے ، مملكت سعودى عرب كى ايك عظيم ہستى۔
اور جہاں تك بات شدت پسند گروپوں كى مالى سرپرستى كرنے كى ہے تو ميں چيلنج كرتا ہوں كہ كوئى بهى آئے سامنے اور ايك بهى دليل پيش كردے كہ حكومت سعودى عرب نے شدت پسند گروپوں كى مالى سرپرستى كى ہے۔ ہاں سعودى عرب ميں كچھ ايسے اشخاص پائے گئے ہيں جنہوں نے دہشت گرد گروپوں كى مالى سرپرستى كى ہے جوكہ سعودى قانون كے خلاف ہے۔ اور انہيں ميں سے بہت سارے لوگوں كو فى الحال جيل ميں ڈال ديا گيا ہے صرف دہشت گرد گروپوں كى مالى سرپرستى ہى كى وجہ سے نہيں بلكہ ان كى معنوى مدد كى وجہ سے بهى۔ قطر كے ساتھ ہمارے جو اختلافات پيدا ہوئےہيں ان ميں سے ايك يہ بهى ہے كہ ہم نہيں چاہتے ہيں كہ سعوديوں سے دولت اكٹھا كركے شدت پسند گروہوں تك پہونچايا جائے۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ نہيں چاہتے كہ قطر كے ساتھ دوباره تعلقات قائم ہوجائيں؟
محمد بن سلمان: ضرورى ہے كہ ايسا ہوجائے۔ ميں اميد كرتا ہوں كہ وه جلد ہى سبق سيكھ ليں گے ، اس مسئلے كا انحصار انہيں پر ہے۔
گولڈ بيرگ: آپ ايران اور اسكے آئيڈيالوجى كے بارے ميں بڑى صراحت سے گفتگو كرتے ہيں بلكہ آپ تو اس كے مرشد اعلى كو ہٹلر سے تشبيہ ديتے ہيں۔ اسے آپ ہٹلر كس معنى ميں كہتے ہيں كيونكہ ہٹلر تو ہر اعتبار سے بہت برا شخص تها؟
محمد بن سلمان: ميرى رائے ميں ہٹلر كى تشبيہ ايران كے مرشد اعلى سے بہتر اور كسى شخص كى نہيں ہوسكتى۔
گولڈ بيرگ: يقيناً؟
محمد بن سلمان: در اصل ہٹلر وه نہ كرسكا جو يہ ايرانى مرشد كر رہا ہے۔ ہٹلر نے يورپ پر قبضہ كرنا چاہا اور يہ برى چيز تهى۔
گولڈ بيرگ: جى ، بالكل برى چيز تهى۔
محمد بن سلمان: ليكن ايران كا مرشد چاہتا ہے كہ پورى دنيا پر قبضہ كرلے۔ اسكا اعتقاد ہے كہ وه پورى دنيا كا مالك ہے۔ دونوں شرير ہيں ، يہ مشرق وسطى كا ہٹلر ہے۔ پچھلى صدى كى دوسرى اور تيسرى دہائى ميں يہ كوئى نہيں سمجهتا تها كہ ہٹلر دنيا كيلئے خطره ہے سوائے چند لوگوں كے جبكہ ايسا ہوا۔ ہم نہيں چاہتے كہ مشرق وسطى ميں پھر اسى تاريخ كو دہرايا جائے جسے يورپ جهيل چكا ہے۔ ہم اسے سياسى، اقتصادى اور استخباراتى تمام پہلوؤں سے روكنا چاہتے ہيں ۔ ہم جنگ سے بچنا چاہتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: آپ كى رائے ميں كيا اصل پريشانى فرقہ واريت ہے؟
محمد بن سلمان: جيسا كہ ميں نے بتايا سعودى عرب ميں شيعہ فطرى زندگى گزار رہے ہيں۔ شيعى مذہب سے ہميں كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہميں صرف ايرانى نظام ولايت فقيہ كے آئيڈيالوجى سے پریشانی ہے۔ ہمارى پريشانى يہ ہے كہ ہم يہ بالكل نہيں چاہتے كہ ہمارے معاملات ميں كوئى دخل اندازى كرے ، اور ہم كسى بهى حال ميں انہيں اس كى اجازت نہيں ديں گے۔
گولڈ بيرگ: اس مسئلے كو ليكر بارك اوبامہ اور ٹرمپ كے تعلق سے مجهے بڑى الجهن ہوتى ہے۔ شايد آپ يہ سمجهتے ہوں كہ ٹرمپ اس مسئلے ميں باراك اوبامہ سے زیادہ سمجھ دار ہيں۔
محمد بن سلمان: اس مسئلے كو دونوں سمجهتے ہيں۔ البتہ ميرا خيال ہے كہ صدر بارك اوبامہ نے دوسرا اسلوب اختيار كيا؛ چنانچہ انہوں نے سوچا كہ ايران كو كچھ مہلت دى جائے ہوسكتا ہے وه اپنى اصلاح كرلے، ليكن ايران اپنے متشدد نظريئے پر قائم ہونے كى وجہ سے كچھ بهى نہ بدل سكا۔ ايران كى معيشت كے (60) فيصد حصے پر پاسدان انقلاب كا قبضہ ہے۔ ايٹمى معاہدے سے ايران كو جو معاشى فوائد حاصل ہوئے ہيں وه ايرانى قوم كو كچھ بهى نہ مل سكا۔ انہوں نے اس معاہدے كے بعد (150) ارب امريكى ڈالر حاصل كيا ہے۔ كيا اس خطير رقم سے انہوں نے ايران ميں كوئى تعميرى كام كيا؟ كيا انہوں نے اس رقم سےكوئى سڑك اور تيز رفتار چلنے والى گاڑيوں كيلئے كسى راستے كو بنايا ؟ مملكت سعودى عرب كى نظر ميں اس معاہدے سے ايران ميں (0%.1) فيصد بهى تبديلى نہيں آئى ہے۔
ہم ايران كے جنگجويانہ حركات كو لگام لگا رہے ہيں۔ ہم يہ كام ايشيا اور افريقہ ميں مليشيا، سوڈان ، عراق ، لبنان اور يمن ميں كر چكے ہيں۔ ہم يہ سمجهتے ہيں كہ اس لگام كے بعد اس طرح كے مشكلات ايران كى طرف منتقل ہوجائيں گے۔ ہم نہيں جانتے كہ اس سے ايرانى نظام كا خاتمہ ہوجائے گا اور نہ ہى يہ ہمارا مقصد ہے۔ ليكن اگر ختم ہوجاتا ہے تو يہ بڑى بات ہوگى اور يہ ان كىا درد ہے۔ البتہ فى الحال تو مشرق وسطى ہى ميں جنگ كا منظر نامہ چل رہا ہے۔ اب مزيد اس خطرے كو ہم برداشت نہيں كرسكتے۔ ہميں مستقبل ميں كئى تكليف ده قراردادوں كے مقابلے ابهى اور اسى وقت كچھ تكليف ده قرار دادوں كے اپنانے كى ضرورت ہے۔
گولڈ بيرگ: انہيں تكليف ده قراردادوں ميں سے كيا آپ يمن كو بهى ركھتےہيں جسے ان عسكرى كارستانيوں ميں شمار كيا جا رہا ہے جو انسانى آفتوں كا سب بنا ہے؟ كيونكہ بہت سارے لوگوں نے اس حملے پر اعتراض كيا ہے۔
محمد بن سلمان: سب سے پہلے ہميں دليلوں اور حقيقى وضاحتوں كى طرف آنے كى ضرورت ہے۔ يمن كى تباہى 2015 ميں شروع نہيں ہوئى(جس وقت سعودى اتحاد نے حملہ كيا تھا) بلكہ يہ تباہى ايك سال پہلے ہى ہوچكى تهى۔ اور يہ اقوام متحده كى رپورٹ كى روشنى ميں كہہ رہا ہوں نہ كہ اپنى رپورٹوں كى بنياد پر۔ يمن كے اندر ايك قانونى حكومت كے خلاف بغاوت كى گئى۔ اور دوسرى جانب القاعده نے بهى اسے اپنى مصلحت اور اپنے خاص افكار كيلئے استعمال كيا۔ پہلے ہم نے شام اور عراق ميں تشدد پسندوں سے نپٹنے كى كوشش كى پھر انہوں نے يمن ميں پناه لينا شروع كرديا۔ عراق اور شام كے مقابلے يہاں يمن ميں ان سے نپٹنا زياده دشوار ہوگيا۔ كيونكہ ساتھ ہى ہمارا مقصد وہاں كے قانونى حكومت كى مدد، ملكى استحكام كو قائم ركهنا اور يمنى قوم كا تعاون بهى ہے۔ يمن كى سب سے زياده مدد كرنے والا سعودى عرب ہى ہے۔ اور ان مالى امداد كے ساتھ سب سے زياده كهلواڑ حوثى كرتے ہيں جو يمن كے تقريبا دس فيصد حصوں پر ہی قابض ہيں۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ عورتوں كے مساوات كے قائل ہيں؟
محمد بن سلمان: ميں مملكت سعودى عرب كے ساتھ ہوں، اور مملكت سعودى عرب كى نصف آبادى عورتوں پر مشتمل ہے۔ پھر ميں عورتوں كے مساوات كا كيونكر قائل نہيں ہوں گا
گولڈ بيرگ: ليكن مساوات كيلئے وہاں كى سوسائٹى ميں آپ كيا كر رہے ہيں؟
محمد بن سلمان: ہمارے دين ميں مرد اور عورتوں ميں كوئى فرق نہيں ہے۔ كچھ واجبات مردوں پر ہيں اور كچھ واجبات عورتوں پر ہيں۔ ليكن يہاں مساوات كے تعلق سے ہمارے يہاں مختلف شكليں ہيں۔ مثلا سعودى عرب ميں مالى معاوضہ عورتوں كو وہى ملتا ہے جو مردوں كو ملتا ہے۔
گولڈ بيرگ: ليكن آپ كے يہاں عورتوں پر سرپرستى كے تعلق سے كيا قوانين ہيں؟ كيا آپ انہيں بالكل ختم كرنا چاہتے ہيں؟ ميں سمجهتا ہوں آپ كے عورتوں كے تعلق سے كار ڈرائيونگ كى اجازت نے سارے لوگوں كو ششدر كر ديا ہے۔
محمد بن سلمان: 1979 سے پہلے ہمارے يہاں سماجى پہلوؤں ميں كچھ زياده ہى سہولتيں تهيں۔ اس وقت مملكت سعودى عرب ميں اس طرح كى سرپرستى كے كوئى قوانين نہيں تهے۔ ميں زياده پہلے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور كى بات نہيں كر رہا ہوں بلكہ گزشتہ صدى كى چھٹى دہائى كى بات كر رہا ہوں جب عورتوں پر ضرورى نہيں تهاكہ وه مرد سرپرستوں كے ساتھ سفر كريں بلكہ محفوظ جماعت كے ساتھ سفر كرليتى تهيں۔ ليكن اب صورت حال بدل چكى ہے۔ ہم اس مسئلے كا حل تلاش رہےہيں ليكن ايسى شكل ميں كسى خاندان كو پريشانى كا سامنا نہ كرنا پڑے اور نہ ہمارى اسلامى تہذيب وثقافت كو كوئى نقصان پہونچے۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ ان قوانين كو كالعدم كرديں گے؟
محمد بن سلمان: ہمارے يہاں بہت سارے خاندان ابهى بهى دينى معاملات ميں بڑى محافظت كرتے ہيں گرچہ بہت سے خاندان ايسے بهى ہيں جو بدل رہے ہيں۔ چنانچہ كچھ تو ايسےہيں جو ابهى بهى سرپرستى كى حمايت كرتے ہيں اور كچھ عورتيں ايسى بهى ہيں جو مردوں كى سرپرستى كے خلاف ہيں۔ اب اگر ميں ہاں كہتا ہوں تو ان خاندانوں كيلئے مشكلات پيدا ہوسكتے ہيں جو عورتوں كو زياده آزادى دينے كے قائل نہيں ہيں۔ در اصل سعودى اپنى شناخت ختم نہيں كرنا چاہتے۔ يہ صحيح ہے كہ ہم عالمى ثقافت وتہذيب كا حصہ بننا چاہتےہيں اور اپنى ثقافت كو عالمى ثقافت كے ساتھ ملاكر ركهنا چاہتے ہيں اس حيثيت سے كہ ہمارى ثقافت ميں كوئى فرق نہ پڑے۔
گولڈ بيرگ: ميرے پاس ايك سوال ہے جسكا تعلق اقدار سے ہے ۔ آپ كا تعلق ايسے ملك سے ہے جو ہمارے ملك سے بالكل مختلف ہے۔ آپ كے ملك ميں بادشاہى نظام ہے جہاں لوگوں كو ووٹ كا حق نہيں ہےاور وہاں ايسى جسمانى سزائيں اور موت كى سزائيں دى جاتى ہيں جسے ہمارے يہاں اكثر امريكى ناپسند كرتے ہيں۔
محمد بن سلمان: جى ، اقدار ميں ہم ايك دوسرے سے بالكل مختلف ہيں۔ بلكہ ميں يہ بهى سمجهتا ہوں كہ خود امريكہ ميں بهى كچھ صوبے ايسے ہيں جو دوسرے صوبوں سے اقدار ميں مختلف ہيں۔ جو اقدار كيلى فورنيا ميں ہيں وه ٹكساس ميں نہيں ہيں۔ پھر آپ ہم كيسے اميد كر سكتے ہيں كہ آپ كے اقدار كے ساتھ ہم سو فيصد متفق ہوجائيں جبكہ آپ لوگ خود ان اقدار ميں متفق نہيں ہو۔ ہاں اقدار كے كچھ بنيادى مباديات ہوتے ہيں جن ميں سارے انسان مشترك ہوتے ہيں ليكن ساتھ ہى ملكى اور صوبائى پيمانے پر بہت سے اختلافات بهى ہوتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: ليكن مطلق بادشاہى نظام كے بارے ميں آپ كا كيا خيال ہے؟
محمد بن سلمان: يہ مطلق بادشاہى نظام كيا كسى ملك كيلئے خطره ہے؟ آپ مطلق بادشاہى نظام (Absolute Monarchy) كا لفظ اس طرح استعمال كر رہے ہيں ايسا لگتا ہے يہ كوئى خطرے كى گھنٹى ہے۔ اگر يہى مطلق بادشاہى نظام نہ ہوتا تو آپ كے پاس آج امريكہ نہ ہوتا۔ كيونكہ فرانس كے اسى مطلق بادشاہى نظام نے امريكہ كے وجود ميں مدد كى تهى۔ اور يہ مطلق بادشاہى نظام امريكہ كا كبهى دشمن نہيں رہا بلكہ ايك لمبے زمانے سے اسكا حليف رہا ہے۔
گولڈ بيرگ: واقعى آپ نے جواب بڑى عقلمندى سے دى ہے۔ ليكن سوال ہمارا مختلف ہے۔
محمد بن سلمان: اچهى بات ہے۔البتہ ہر ملك اور نظام كيلئے ضرورى ہے كہ وه ايسے قانون لائے جو وہاں قابل عمل ہو۔ مملكت سعودى عرب در اصل ہزاروں مطلق بادشاہى نظاموں كے ايك جال سے عبارت ہے ۔ ہمارے يہاں قبائلى مطلق بادشاہى نظام ہےجہاں قبيلوں كے شيوخ اور سربراه ہوتے ہيں۔ ہمارے يہاں شہرى مطلق بادشاہى نظام ہے جہاں كچھ سربراه مطلق حاكم ہوتے ہيں پھر ان كے بعد ان كى اولاد حكومت كرتى ہے۔ مملكت كے اندر مطلق بادشاہى نظام كے اس ڈھانچے كو چھيڑنے سے بہت سارے مشكلات پيدا ہوسكتے ہيں۔ يقيناً سعودى عرب كى بناوٹ اور تركيب اس سے كہيں زياده پيچيده ہے جتنا آپ سوچ سكتے ہيں۔ اسى لئے حقيقت ميں ہمارے يہاں بادشاه كو وه مطلق اختيار واقتدار حاصل نہيں جو آپ سمجھ رہے ہيں۔ بلكہ اس كى طاقت اور اختيار ات قانون كى بنياد پر ہوتے ہيں۔ اسى لئے اگر كوئى شاہى فرمان جارى كرنا ہوتو يہ نہيں كہہ سكتے كہ ميں بادشاه سلمان ہوں اور اس چيز كا فيصلہ كر رہا ہوں۔ آپ جب شاہى فرامين كو پڑھيں گے توپہلے بہت سارے قوانين ديكهيں گے جو بادشاه كو كسى بهى فرمان يا قرارداد كے پاس كرنے كو جواز فراہم كرتے ہوں گے۔ اسى مناسبت سے يہ بهى بتاتا چلوں كہ برطانيہ ميں ملكہ كو كسى بهى قانون كو بدلنے كيلئے مطلق طاقت اور اختيار حاصل ہے ليكن وه ايسا نہيں كرتى ہيں ۔ اسى لئے كہتا ہوں كہ مسئلہ بڑا پيچيده ہے۔
گولڈ بيرگ:كيا ايسا ممكن ہے كہ مملكہ ميں ايسا نظام لاگو ہو جس كے تحت لوگ اپنے اپنے نمائندوں كو ووٹ دے سكيں؟ اور كيا اسى عمل كو تبديلى نہيں كہيں گے؟
محمد بن سلمان: ميرے لئے جو كرنا ممكن ہے وه قانون كى طاقت كو مضبوط بنانا ہے۔ ہم چاہتے ہيں كہ اپنى طاقت بهر اظہار رائے كى آزادى كو بڑھاوا ديں ليكن ساتھ ہى ہم يہ بهى نہيں چاہتے كہ لوگوں كو اس كے ذريعے تشدد كا موقع ديں۔ ہمارے لئے ممكن ہے كہ قانون اور ضابطے كے تحت عورتوں كے حقوق اور معيشت كو بہتر سے بہتر بنائيں۔ ہمارے سامنے كچھ چيلنجز ہيں ليكن ہميں اپنى ذميدارى ادا كرنى ہے۔
گولڈ بيرگ: آئيے مشرق وسطى كے بارے ميں كچھ مزيد وسيع پيمانے پر گفتگو كرتے ہيں۔كيا آپ چاہتے ہيں كہ يہودى قوم كو يہ حق ہونا چاہئيے كہ وه بهى كم سے كم اپنے باپ دادا كے وطن پر اپنے لئے ايك قومى حكومت قائم كريں؟
محمد بن سلمان: ميرا خيال ہے كہ ہر قوم كو كسى بهى جگہ اسے اپنے امن پسند ملك ميں زندگى گزارنے كا حق ہونا چاہئيے۔ ميرا خيال ہے كہ فلسطينى اور اسرائيلى ہر ايك كو اپنے اپنے مخصوص سرزمين پر رہنے كا حق حاصل ہے۔ ليكن ضرورى ہے كہ ہمارے پاس ايك ايسا منصف ، عدل پسند سلامتى كا معاہده ہو جس كى روشنى ميں ہر ايك كو استقرار اور استقامت كے ساتھ رہنے اور تمام قوموں كے مابين طبعى تعلقات بحال كرنے كى ضمانت ہو۔
گولڈ بيرگ:كيا آپ كو دينى اعتبار سے اسرائيل كے وجود پر اعتراض ہے؟
محمد بن سلمان: ميں تاكيد كے ساتھ كہتا ہوں كہ ہميں القدس ميں مسجد اقصى كے انجام كے تعلق سے اور فلسطينى قوم كے حقوق كے تعلق سے دينى خدشات لاحق ہيں۔ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ يہى ہے۔ اسكے علاوه دوسرے لوگوں كے وجود پر ہميں كوئى اعتراض نہيں ہے اگر وه منصف سلامتى كے معاہدے كے تحت رہتے ہوں۔
گولڈ بيرگ: مملكت سعودى عرب ميں چوں كہ لوگ روايت پسند ہيں اور وہاں سے سامى دشمنى كثرت سے پائى جاتى ہے ۔ تو كيا آپ كو اپنے ملك ميں انٹى سامى مشكلات كا سامنا ہے؟
محمد بن سلمان: ہمارے ملك ميں يہوديوں كے ساتھ كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك يہودى عورت سے شادى كى تهى۔ يہودى آپ كے پڑوسى تهے۔ اس وقت بهى سعودى ميں يورپ اور امريكہ سے بہت سارے يہودى كام كيلئے آتے ہيں۔ ہمارے نزديك مسلمانوں، عيسائيوں اور يہوديوں كے مابين كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہمارے يہاں مشكلات ہيں ليكن ان كا تعلق انہيں مشكلات سے ہے جوعام طور سے ہر جگہ پائےجاتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ كے خيال ميں ايران كى وجہ سے آپ لوگ اسرائيل سے قريب ہورہے ہيں؟ اور كيا ايران كو چھوڑ كر آپ لوگوں كے اسرائيل كے ساتھ مشتركہ مصلحتيں ہوسكتى ہيں؟
محمد بن سلمان: اسرائيل اپنے حجم كے اعتبار سے ايك بڑے اقتصاد كا مالك ہے اور ساتھ ہى اس كى معيشت ترقى پر ہے۔ ايران كے مقابلے ميں اگر ديكها جائے تو اسرائيل اور خليجى ملكوں كے مابين بہت سارى مشتركہ مصلحتيں ہوسكتى ہيں۔
(يعنى ايران كے خلاف اسرائيل اور خليجى ملكوں ميں سے ہر كوئى اپنے اپنے ايجنڈوں پر كام كرے تو ديكهنے ميں ايران كے خلاف ان سب كى مصلحتيں مشترك ہوسكتى ہيں ۔ اس سے كوئى ضرورى نہيں كہ خليجى ممالك اسرائيل كے ساتھ مل كر ايران كے خلاف كچھ كريں۔اور عملا ايسا كچھ ہے بهى نہيں سوائے قطر كےكہ جسے خليجى ممالك نے بائيكاٹ كيا ہوا ہے)
گولڈ بيرگ: مجهے آپ كى جوانى كو ليكر الجهن ہے ۔ كيا يہ ذميدارى ايك نوجوان كےلئے ايك پيچيده امر نہيں ہے؟
محمد بن سلمان: ميرا يقين ہے كہ انسان اپنى عمر كے آخرى مرحلے تك سيكهتے رہتے ہيں۔ اگر كوئى يہ دعوى كردے كہ وه سب كچھ جانتا ہے تو وه كچھ بهى نہيں جانتا ہے۔ ہم جس چيز كى كوشش كر رہے ہيں وه يہ ہے كہ تيزى سے سيكهيں تيزى سے سمجهيں اور ہم عقلمند اشخاص كے بيچ ميں رہيں۔ اور ميں نہيں سمجهتا كہ ميرى جوانى كوئى مشكل پيدا كرے گى۔ ميرا خيال ہے كہ بہتر سے بہتر ايجادات نوجوانوں ہى كے ہاتھ ہوئى ہيں۔ ايپل كمپنى اس كى بہتر مثال ہوسكتى ہے جسے (Steve Jobs) نے قائم كيا جس وقت كہ وه تقريبا بيس سال كا تها۔ سوشل ميڈيا ميں فيس بك كى مثال ہمارے سامنے ہےجسے ايك نوجوان نے قائم كيا ہے۔ لہذا ميں سمجهتا ہوں كہ ہمارى نوجون نسل بہت كچھ كر سكتى ہے۔
گولڈ بيرگ: اسٹيو جوبز جن چيزوں كا مالك تها انہيں ميں سے ايك آزادى تهى۔ وه ايسے ملك ميں رہتا تها جہاں كچھ بهى آزادى سے كر سكتا تها ۔ اور ميں نہيں سمجهتا كہ سعودى عرب ميں حقوق انسانى اور آزادى كے نقطہ نظر سے کوئی كچھ بهى كر سكتا ہو۔
محمد بن سلمان: سعودى عرب ميں آپ جو چاہيں كر سكتے ہيں اور تجارت كے ميدان ميں جس چيز ميں بهى ترقى كرنا چاہيں كر سكتے ہيں۔ ہاں اظہار رائے كى آزادى كا معيار ہمارے يہاں مختلف ہے۔ ہمارے يہاں سعودى عرب ميں تين لائنيں ايسى ہيں جن سے آپ آگے نہيں جاسكتے ۔ چنانچہ كسى بهى شخص كو كچھ بهى لكهنے يا بولنے كى اجازت ہے ان تين لائنوں كو تجاوز كئے بغير۔ اور يہ حكومت نہيں بلكہ سعودى قوم كى مصلحت ميں ہے۔
پہلى لائن اسلام ہے۔چنانچہ دين اسلام كے وقار كو مجروح كرنا يا اسكے حدود سے آگے بڑھنا كسى كيلئے جائز نہيں ہے۔ اور يہ سعودى قوم كى مصلحت ميں ہے۔
دوسرى لائن : بطور وضاحت كے ميں كہہ سكتا ہوں كہ امريكہ ميں ممكن ہے كسى شخص ، كمپنى يا وزير پر تنقيد كرنا جبكہ سعودى ميں گرچہ اس طرح ممكن ہے ليكن سعودى ثقافت وتہذيب لوگوں كو يہ اجازت نہيں ديتى كہ كسى كى شخصيت كو مجروح كريں، بلكہ ان كا ايمان ہے كہ شخصى امور سے دورى بنا كے رہيں۔ يہ سعودى ثقافت وتہذيب كا حصہ ہے۔
تيسرى لائن: قومى سلامتى ہے۔ ہم ايسے علاقے ميں رہتے ہيں جس كے چاروں طرف نہ تو ميكسيك ہے نہ كناڈا ہے نہ بحر اٹلانٹك ہے اور نہ ہى بحر الكاہل ہے۔ ہمارے پاس داعش ہے ، القاعده ہے، حماس ہے، حز ب الله اور ايرانى نظام ہے۔ يہاں تك كہ بحرى قزاقى بهى ہے ۔ جى ہاں ہمارے یہاں بحرى قزاق ہيں جو كشتيوں كو اچك ليتے ہيں۔ ايسى صورت ميں ہمارے لئے قومى سلامتى كو خطرے ميں ڈالنا اچھى بات نہيں ہوگى۔ ہم نہيں چاہتے كہ عراق ميں جو كچھ ہورہا ہے سعودى ميں بھى وہى سب ہو۔ ہم اس كے برخلاف چاہتے ہيں۔ ہمارى قوم كو آزادى اسكے معيار اور پسند كے اعتبار سے بہتر طريقے سے فراہم ہے۔ مثال كے طور پر ہم نے نہ تو ٹويٹر پر پابندى لگائى ہے اور سوشل ميڈيا تك رسائى حاصل كرنے كيلئے نہ تو فيس بك ، اسنيپ چيٹ وغيره پر پابندى لگائى ہے۔ سارى چيزيں سعوديوں كيلئے فراہم ہيں۔ عالمى پيمانے پر ديكها جائے تو ہمارے يہاں سب سے زياده سوشل ميڈيا استعمال كيا جاتا ہے۔ايران ميں ايسى سہولتوں پر پابندى ہے اسى طرح اور كئى ممالك ميں يہى صورت حال ہے۔ سعودى باشنده دنيا كے كسى بهى كونے ميں كسى سے بهى سوشل ميڈيا سے جڑ سكتا ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں نہيں سمجهتا كہ ٹويٹر تہذيب وتمدن كيلئے كوئى بہت اچهى چيز ہے ۔ ليكن پهر بهى اسے ہم بعد كى گفتگو كيلئے چهوڑتے ہيں ۔ آپ كا بہت بہت شكريہ
اصل انٹرویو اس لنک پر دیکھیں: https://www.theatlantic.com/international/archive/2018/04/mohammed-bin-salman-iran-israel/557036/
(بن سلمان کے مکمل انٹرویو کا اردو ترجمہ کے ساتھ)
✍بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں دی اٹلانٹک کے نمائندے جیفری گولڈ بیرگ سے ایک سوال کے جواب میں رافضی ایران کے ظالم حکمرانوں، اخوانیوں اور دہشت گرد تنظیموں کو جب سے بدی کا تکون (The Triangle of Evil) کہا ہے یہ رافضی اور تحریکی اسی وقت سے بلبلا رہے ہیں۔ سیاق و سباق سے عبارت کو کاٹ کر مملکت توحید اور سلفیت کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ بی بی سی لندن، الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر رافضی اور تحریکی اخبارات اپنی اپنی گند پورے عالم میں پھیلا رہے ہیں۔ خصوصا بر صغیر کے تحریکی اور رافضی ان جھوٹی اور من گھڑت باتوں میں آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں جس سے سنی مسلمانوں میں مملکت توحید کے تعلق سے ایک طرح کی بے چینی کا پایا جانا فطری چیز ہے۔ حتی کہ سلفیت کا دعویٰ کرنے والے اچھے پڑھے لکھے بعض لوگوں نے بھی مملکت کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے مناسب سمجھا کہ محمد بن سلمان کے اس انٹرویو کا مکمل اردو میں ترجمہ پیش کر دیا جائے جسے پڑھ کر لوگوں کی بے چینی اور شبہات دور ہوجائیں نیز سلفیت کے دشمنوں کی مکاری، فریب کاری، دشمنی اور دجل ودروغ کا پردہ بھی چاک ہو جائے۔
ایک اہم نقطہ یہ کہ اس عظیم دورے کے جو اہم مقاصد، اہداف، ایشوز اور بنیادی اقتصادی، سیاسی وعسکری وجوہات تھے ان میں سے کسی بھی نقطوں کو ان دشمنان مملکہ نے نہیں چھیڑا۔ کسی غیر اہم جانبی انٹرویو کے غیر اہم ایشوز کو اپنے مقصد بر آری کی خاطر سیاق و سباق سے عبارت کو توڑ مروڑ کر ہمیشہ پیش کی ہے ان دشمنان سلفیت نے۔
خصوصی طور پر ان اعدائے سلفیت نے وہابی نظریہ کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا۔ اس کے پیچھے ان ظالموں کے دو مقاصد تھے: ایک تو سلفیت کو بدنام کرنا اور دوسرے محمد بن سلمان کے مطلب اور حقیقی سیاق و سباق کو گڈ مڈ کر دینا تا کہ لوگ اس پس منظر کو نہ سمجھ سکیں جس پس منظر کو سامنے رکھ کر متشدد آئیڈیا لوجی کی مدد کی بات محمد بن سلمان نے کی تھی۔ در اصل محمد بن سلمان نے کمیونزم کے خلاف جس متشدد فکر کی بات کی تھی اور ستر اسی کی دہائی میں اس وقت جو انٹی کمیونزم تھے وہ جماعت اسلامی، اخوان المسلمین، حزب التحریر، افغان مجاہدین، یمن کی شاہی فورسیز، طالبان، یونس خالص، ابو رسول سیاف، گلبدین حکمتیار، جلال الدین حقانی، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور حزب اسلامی تھے۔
ان احسان فراموشوں اور خائنین دین وملت نے جہاں ایک طرف خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب سے خوب خوب مالی فائدہ اٹھایا لیکن ہانڈی میں سوراخ کر کے ہمیشہ رافضی ایران کی غلامی کی اور کرتے آ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان کے ایک بڑے علاقے میں شیخ جمیل الرحمٰن نے اسلامی امارت قائم کر لی تھی جو خالص کتاب وسنت کے منہج پر تھی لیکن ان سب غدار یاروں نے اس امارت کی کھل کر مخالفت کی اور جمہوری حکومت کی بات کی شیخ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود ان مکاروں نے ایک نہ سنی اور شیخ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ اور ووٹنگ کے ذریعے ان غداران قوم وملت نے جمہوریت قائم کی جس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔
نیز یہ کہ محمد بن سلمان نے اس وقت وہابیت کا نام ہی نہیں لیا تھا اس نے متشدد فکر کے تعاون کی بات کہی تھی جس میں سعودی عرب کے ساتھ یورپ اور امریکہ بھی شامل تھے کیوں کہ اس وقت کمیونزم کے خلاف ایک عالمی بلاک بنا ہوا تھا۔ اور مزید وضاحت طلب کرنے پر بن سلمان نے صاف صاف بتا دیا کہ وہابیت نہیں اس متشدد فکر سے مراد اخوان المسلمین وغیرہ ہیں۔ اور پھر جب دی اٹلانٹک کے نمائندے نے خاص کر وہابیت کی تعریف پوچھی تو بن سلمان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے وہابی فکر کیا چیز ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ جسے آپ لوگ وہابی فکر کہتے ہو ہمارے یہاں اس کا وجود ہی نہیں ہے۔
واقعی اپنی برائی چھپانے کے لئے لوگ کس قدر جھوٹ بولتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لیکن اہل حق کے ذریعے ہمیشہ اللہ انہیں ذلیل ورسوا کرتا ہے۔
اس کے لئے تفصیل دیکھیں ان تینوں لنکز کو:
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1741680229203842&id=340267439345135
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1475274435934659&id=100003563501036
https://www.maghress.com/akhbarona/237170
واقعی اس حالیہ انٹرویو کے اندر محمد بن سلمان نے جس توحید پرستی اور سلفیت کا دفاع کیا ہے، وہابی ازم کے پروپیگنڈے اور مملکت کے تعلق سے شبہات کا جس انداز میں جواب دیا ہے اور وہ بھی امریکہ جیسے کٹر ملک میں ایک کٹر مسیحی نمائندے کے سامنے وہ اپنے آپ میں حیران کن ہے۔ ایسا جواب ایک بے خوف موحد ہی دے سکتا ہے۔
لیجئے ترجمہ حوالے کے ساتھ پیش خدمت ہے:
گولڈ بیرگ: بہتر ہوتا اگر آپ بعض ان چيزوں كے بارے ميں بتاتے جن كے تعلق سے يہ وعده كيا ہے كہ سعودى عرب ميں انہيں كركے دكهائيں گے، گرچہ وه ابهى اپنے ابتدائى مراحل ميں ہيں۔ آپ كا ملك بہت بڑا اور پيچيده مانا جاتا ہے ، وہاں كى ثقافت وتہذيب ميں بدلاؤ بہت مشكل ہے۔ كيا آپ پہلے كچھ مذہب اسلام كے بارے ميں بتا سكتے ہيں اور يہ كہ يہ دين دنيا بهر ميں كيا كردار ادا كرسكتا ہے؟
محمد بن سلمان: اسلام سلامتى كا دين ہے، اسلام كا صحيح مفہوم يہى ہے، ہمارے رب نے اسلام كے اندر ہمارے كندھوں پر دو ذميدارى ڈال ركهى ہے: پہلى ذميدارى: ايمان ، اور ہر وه كام كرنا جو بہتر ہو اور گناہوں سے بچنا، اور نافرمانى كى صورت ميں كل قيامت كے دن الله ہمارا حساب لے گا۔ دوسرى ذميدارى: مسلمان ہونے كے ناطے ہمارى يہ ذميدارى ہے كہ ہم الله سبحانہ وتعالى كے كلمے (دين اسلام) كو پھيلائيں۔چوده صدى تك مسلمان پورے مشرق وسطى، شمال افريقہ اور يورپ وغيره ميں الله كے كلمے كو پھيلاتے رہے، جہاں بہتر طريقے سے انہيں دين پھيلانے كا موقعہ نہيں ديا گيا وہاں جنگ كرنے پر مجبور ہوئے اور يہى ہمارى ذميدارى ہے۔
يہى وجہ ہے كہ ہم ديكهتے ہيں كہ ايشيا ميں بہت سارے ممالك جيسے انڈونيشيا ، مليشيا اور ہندوستان وغيره ايسےہيں جہاں مسلمانوں نے پورى آزادى سے الله كے كلمے كو پھيلايا ہے، وہاں كے لوگوں نے ان كا استقبال كيا اور كہا كہ تمہيں جو كہنا ہو كہو جسے ايمان لانا ہوگا لائے گا۔ يہاں اسلام تلوار سے نہیں پھيلا بلكہ امن وسلامتى كے ذريعے پھيلا۔
گولڈ بیرگ: بدى كے تكون سے آپ كى كيا مراد ہے؟
محمد بن سلمان: اسلام امن وسلامتى كا دين ہے جب كہ ايران، اخوان المسلمين اور دہشت گرد جماعتيں برائى كا تكون ہيں۔ يہ سب اپنے مذموم عزائم كى تكميل كيلئے دين كا اصل چہره مسخ كر رہے ہيں۔اپنى اپنى سوچ پر مبنى خواہشات وحرص ولالچ كى خاطر طاقت وقوت كى زور سے دنيا بهر ميں سلطنت قائم كركے حكومت كرنا چاہتے ہيں جبكہ ہميں اس طرح نہ تو الله نے حكم ديا ہے اور نہ نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے كيلئے كہا ہے۔ الله نے ہميں اپنے كلمے كو پھيلانے كيلئے كہا ہے ۔ اور اس ذميدارى كا پورا كرنا بہت ضرورى ہے۔ آج غير اسلامى ملكوں ميں ہر شخص كيلئے يہ آسان ہوگيا ہے كہ وه جس چيز پر چاہے ايمان لائے اور جيسا چاہے اعتقاد ركهے۔ نيز دينى كتابوں كا خريدنا ہر ملك ميں ممكن ہوگيا ہے۔ اور اسى طرح دين كا پيغام پہونچ رہا ہے۔ اب يہ ضرورى نہ رہا كہ ہم اسلام پھيلانے كيلئے جہاد كريں جب تك ہم مسلمانوں كو بہتر طريقے سے دعوت دين كى اجازت ہے۔ ليكن بدى كے يہ تكون مسلمانوں كے جذبات سے كهيل رہے ہيں اور انہيں يہ بتا رہے ہيں كہ مسلمان ہونے كے ناطے اور اپنى عزت وشرافت كى وجہ سے ہمارے لئے يہ ضرورى ہے كہ ہم اسلامى سلطنت قائم كريں اور وه بهى تشدد، طاقت ، ہنسا اور ان محرف آئيڈيالوجى كى روشنى ميں جو ان تينوں تكون كے يہاں پائے جاتے ہيں۔
گولڈ بیرگ: بدى كے تكون (The triangle of evil)سے متعلق مزيد كچھ تفصيل بتائيں۔
محمد بن سلمان: پہلے ہم ايرانى رجيم كى بات كريں گے جو ولايت فقيہ كے متشدد نظريئے كے تحت اپنے رافضى نظام كو پھيلانے كيلئے كوشاں ہے اور وه پورى دنيا پر حكمرانى كا خواب ديكھ رہا ہے۔انہوں نے يہ عقيده گڑھ ليا ہے كہ اسى رافضى فكر كے پھيلنے كے بعد ہى غائب امام كا ظہور ہوگا جو ايران سے پورى دنيا پر حكومت كريں گے اور اسلام کو امريكہ تك پھيلائيں گے۔ 1979 ميں ايرانى انقلاب كے دن سے ليكر برابر يہ يہى كہتے چلے آرہے ہيں، ان كے رافضى قوانين كا يہ حصہ ہے اور انكا كردار اسے ثابت بهى كررہا ہے۔
تكون كا دوسرا كونا اخوان المسلمين كى جماعت ہے ، يہ ايك تشدد پسند تنظيم ہے، يہ خلافت اسلاميہ كا ڈهونگ رچ كر پورى دنيا ميں اپنى متشدد فكر اور دہشت گردى پر مبنى آڈيالوجى پھيلا رہے ہيں۔ جمہورى نظام كا سہارا ليكر حكومتوں تك پہونچتے ہيں پھر اسے تشدد پر مبنى حقيقى استبدادى نظام ميں بدل ديتے ہيں جس كا حاكم انكا مرشد ہوتا ہے۔
اس تكون كا تيسرا كونا القاعده اور داعش جيسى دہشت گرد تنظيميں ہيں جو طاقت اور جبر وزور سے سب كچھ كرنا چاہتے ہيں اور طاقت ہى كے زور پر سارے مسلمانوں بلكہ سارى دنيا كو مجبور كرنا چاہتے ہيں كہ سب انہيں كے متشدد نظرئيے اور حكومت كے ماتحت رہيں۔
قابل ذكر بات يہ ہے كہ القاعده اور داعش كے تمام رہنما اخوان المسلمين كے ممبر ره چكے ہيں جيسے اسامہ بن لادن، ايمن ظواہرى اور داعش كا سربراه۔
بدى كا تكون يہ فكر لوگوں ميں پھيلا رہاہے كہ الله اور دين اسلامى ہميں صرف دين كا پيغام ہى پھيلانے كا حكم نہيں ديتا ہے بلكہ ايك ايسى سلطنت كے قائم كرنے كا بهى حكم ديتا ہے جہاں سے وه اپنى اپنى متشدد فكر اور آئيڈيالوجى كے تحت حكومت كريں گے جو ہمارى اسلامى شريعت اور سمجھ سے بالكليہ مخالف ہوگى۔ اور يہ بات بهى علم ميں رہے كہ انكى يہ آئيڈيالوجى اور فكر اقوام متحده كے مباديات كے بهى خلاف ہے۔ ہر ملك ميں اپنى اپنى ضرورت كے مطابق قوانين بنائے جاتےہيں ۔ مملكت سعودى عرب، مصر، اردن، بحرين، عمان، كويت ، امارات اور يمن وغيره اس آئيڈيالوجى اور فكر كى حمايت كرتے ہيں كہ سارے آزاد ممالك اپنى اپنى مصلحتوں پر توجہ ديں اور اقوام متحده كى مباديات كى روشنى ميں ايك دوسرے سے بہتر تعلقات بنائے ركھيں جب كہ بدى كے يہ تكون ايسا نہيں كرنا چاہتے۔
گولڈ بیرگ: پھر بهى كيا يہ صحيح نہيں ہے كہ 1979 كے بعد بلكہ اس سے پہلے بهى سعودى عرب كے اندر وه طبقہ جو دين كے معاملے ميں سب سے زياده تحفظ كا شكار ہے اسى نےتيل كى دولت كو اس وہابى آئيڈيالوجى كے پھيلانے ميں استعمال كيا ہے جو اسلام ميں سب سے زياده متعصب اور متشدد مانا جاتا ہے، اور ممكن ہے جس كے بارے ميں يہ كہنا مناسب ہو كہ يہ فكر اخوان المسلمين كى فكر سے متفق ہے۔
محمد بن سلمان: سب سے پہلے كيا آپ ہميں يہ بتا سكتے ہيں كہ وہابيت كى اصطلاح سے كيا مطلب ہے؟ اسكے بارے ميں ہم تو كچھ بهى نہيں جانتے؟
گولڈ بيرگ: آپ كچھ بهى نہيں جانتے اس سے آپ كا كيا مطلب ہے؟
محمد بن سلمان: وہابيت كيا ہے؟
گولڈ بيرگ: آپ مملكت سعودى عرب كے ولى عہد ہيں ۔ آپ ضرور وہابيت كے بارے ميں جانتے ہوں گے۔
محمد بن سلمان: در اصل وہابيت اصطلاح كى تعريف كرنا كسى كيلئے ممكن ہى نہيں ہے۔
گولڈ بيرگ: يہ ايك تحريك ہے جس كى بنياد ابن عبد الوہاب نے اٹھارہويں صدى ميں ڈالى تهى، جو كہ فطرى طور پر تشدد پسندى اصول پر مبنى اور سلفيت كى سخت گير تفسير تهى۔
محمد بن سلمان: جو نام آپ لوگ وہابى ازم كا ديتے ہو اسكے بارے ميں ہم نہيں بتا سكتے ۔ ہمارے یہاں ايسى كوئى چيز نہيں ہے جسے اس طرح كى وہابيت كہا جائے۔ اور نہ ہى ہميں يقين ہے كہ اس طرح كى وہابيت ہمارے يہاں پائى جاتى ہے۔ بلكہ ہمارے يہاں مملكت سعودى عرب ميں اہل سنت مسلمان رہتے ہيں، ہمارے يہاں شيعہ بهى ہيں۔ ہم اس بات پر بهى يقين ركهتے ہيں كہ اہل سنت مسلمانوں ميں چار فقہى مدارس پائے جاتے ہيں۔ ہمارے يہاں معتبر شريعت كے ماہر علماء ہيں اور افتاء كى مجلس ہے۔ جى ہاں! مملكت سعودى عرب ميں سارى چيزيں واضح ہيں، ہمارے سارے قوانين شريعت اسلاميہ اور قرآن پر مبنى ہيں، ہمارے يہاں چاروں مذاہب – جنبلى، حنفى، شافعى اور مالكى- پائے جاتے ہيں۔ گرچہ ان چاروں كے مابين بعض امور ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ اور يہ ضرورى بهى ہے جس ميں لوگوں كيلئے رحمت بهى ہے۔
سوال يہ ہے كہ پہلى سعودى حكومت كى بنياد كيوں پڑى؟ نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء اربعہ كے بعد جزيره عرب كے اندر دوباره لوگ آپس ميں لڑنے لگے جيسے ہزاروں سال پہلے كرتے تھے۔ ليكن چھ سو سال پہلے يعنى پہلى سعودى حكومت كے قيام سے پہلےميرے خاندان نے زيرو سے ايك شہر بسايا جسے درعيہ كہا جاتا ہے۔ اسى شہرسے بعد ميں پہلى سعودى حكومت نے جنم ليا جو ديكهتے ہى ديكهتے جزيره عرب كے اندر سب سے بڑى اقتصادى طاقت بن گئى ۔اس حكومت نے اس وقت كے بگڑتے حالات كو بدلنے ميں كافى مدد كى۔اكثر دوسرے شہر آپس ميں تجارت كو ليكر لڑتے جهگڑتے تهے اور اس پر قبضہ كرنے كى كوشش كرتے تهےليكن ميرے قبيلے نے دوسرے دو جهگڑنے والے قبيلوں سے كہا كہ تجارتى راستوں پر حملہ كرنے كے بدلے ہم آپس ميں مل كر ان علاقوں كى حفاظت كيوں نہ كرليں؟ اسى سے تجارت بڑھے گى اور شہر كى ترقى ہوگى۔ اسى طريقے پر عمل كيا گيا۔ اور تين سو سالوں تك اسى پر عمل ہوتا رہا۔ہميشہ ہم لوگوں كى يہى پلاننگ رہى ہے كہ جزيره عرب كے اندر ہميں عظيم عقلمندوں كى ضرورت ہے چاہے وه فوجى جنرل ہوں ، قبيلوں كے سربراه ہوں يا علماء دين ہوں جو سب مل كر ايك ساتھ كام كريں۔ انہيں ميں سے ايك عظيم شخصيت محمد بن عبد الوہاب كى تهى۔ ہميشہ ہمارى بنيادى ترجيح لوگوں كو امن دينا پهر تمام مصحلتوں كى حفاظت كرنا رہى ہے انہيں مصلحتوں ميں اقصادى مصلحت بهى ہے۔ ہم كبهى بهى (ان بدى كے تكون كى طرح )توسيعى آئيڈيالوجى مصلحتوں پر عمل پيرا نہيں ہوئے ہيں۔
سعودى عرب كے اندر ہمارے پاس بہت سارے مشترك معاملات ہيں: ہم سب مسلمان ہيں، ہم سب عربى زبان بولتے ہيں، ہمارى ثقافت ايك ہے، ايك ہى سماج كا خيال ہے۔ چنانچہ جب آپ جيسے لوگ وہابى ازم كے بارے میں بات كرتے ہو تو نہیں سمجھ پاتے كہ در اصل كس چيز كے بارے ميں بات كر رہے ہيں۔ محمد بن عبد الوہاب آل الشيخ كا خاندان اس وقت بہت معروف ومشہور ہے، اور اسى طرح سعودى عرب كے اندر ہزاروں خاندان پائے جاتے ہيں۔ آپ كو یماری حکومت کے اندر مجلس وزراء ميں شيعہ مل جائيں گے، حكومتى محكموں ميں آپ كو شيعہ مليں گے، سعودى عرب ميں ايك اہم يونيورسٹى كا صدر ايك شيعہ ہے۔ در اصل ہميں اس بات پر يقين ہے كہ ہمارے پاس مختلف طرح كے مدارس اور اسلامى طبقات پائے جاتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: ليكن آپ شدت پسندوں كى مالى سرپرستى كے تعلق سے كيا كہيں گے؟
محمد بن سلمان: اگر ہم گفتگو كريں گے مالى سرپرستى كے تعلق سے اور خاص كر 1979 سے پہلے، تو ہميں سرد جنگ كے تعلق سے گفتگو كرنا پڑے گى۔ در اصل كميونزم ہر جگہ پھيل چكى تهى جو امريكہ ، يورپ اور ہم سب كيلئے ايك خطره بن چكى تهى۔ مصر اس وقت تقريبا كمنسٹ نظام كے بالكل قريب پہونچ چكا تها۔ اس وقت ہم نے اس خطرے سے نپٹنے كيلئے ہر اس شخص كے ساتھ كام كيا جس نے ہمارى مدد كى۔ انہيں ميں سے يہ اخوان المسلمين بهى تهے جن كى مالى سرپرستى خود مملكت سعودى عرب نے كى اور امريكہ نے بهى كى۔
گولڈ بيرگ: كيا ايسا كر كے آپ لوگوں نے غلط كيا؟
محمد بن سلمان: اگر زمانے كے اعتبار سے پيچھے چلے جائيں تو ايسا ہى كريں گے۔ ليكن اب ہميں كميونزم سے بھی بڑا خطره لاحق ہے، اب ہمارے لئے ضرورى ہے كہ اخوان المسلمين كى اس جماعت كے ساتھ دوسرا برتاؤ كريں اور ان كے راستے كو بدليں ، يہ كہا جاتا ہے كہ امريكہ كے ايك صدر نے اس جماعت كو آزادى كے خلاف لڑنے والا كہا ہے۔
ہم نے ان كى تمام حركات اور پلانوں پر كنٹرول پانے كى ہر ممكن كوشش كى ہے۔ ليكن 1979 كے بعد ہر چيز ميں تبديلى آگئى، اس ايرانى انقلاب نے ايسا نظام قائم كيا جو محض بدى كى آئيڈيا لوجى پر منحصر ہے۔ يہ نظام قوم كيلئے نہيں بنايا گيا ہے، يہ ايك تشدد پسند خاص آئيڈيالوجى كا خادم ہے۔ سنى ممالك ميں شدت پسند بالكل يہى تجربہ كرنا چاہتے ہيں۔ چنانچہ ہم نے مسجد حرام پر حملہ برداشت كيا، ہم ايران ميں انقلابى حالت كو ديكھ چكے ہيں وه اسى كو مكہ ميں نافذ كرنا چاہتے ہيں۔ ہم نے مملكت سعودى عرب اور مصر ميں دہشت گردى ديكهى ہے۔ ہم نے بہت پہلے شروع ہى ميں اسامہ بن لادن كو گرفتار كرنے كا مطالبہ كيا تها كيونكہ وه مملكہ سے فرار تها۔ دہشت گردى سے لڑ كر ہم نے بڑى مصيبت جهيلى ہے يہاں تك كہ 11/ ستمبر كا حادثہ پيش آيا۔ يہى اصل قصہ ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں نے پچھلى صدى كى نوے كى دہائى اور موجوده صدى كے اوائل ميں پاكستان اور افغانستان كے اندر بہت وقت گزارا ہے۔وہاں ره كر ميں نے يہى جانا كہ وہاں كے دينى مدارس مملكت سعودى عرب سے پيسہ حاصل كرتے ہيں۔ شايد آپ يہى كہنا چاه رہے ہيں كہ آپ كى حكومت اور خاندان كے دائره اختيار سے يہ معاملہ نكل گياجس سے آپ لوگوں كو ، آپ كے دوست اور حليف ممالك كو اس سے نقصان پہونچنا شروع ہوا جس كى بنياد پر دھيرے دھيرے اس آئيڈيالوجى كى مدد كرنا آپ لوگوں نے ترك كرديا ۔
محمد بن سلمان: جى ميں نے يہ بات كہى ہے كہ سرد جنگ كے موقع پر ہم سبهى نے اخوان المسلمين كى مدد كى ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں يہ نہيں كہتا كہ امريكہ اس سے برى ہے۔
محمد بن سلمان: جى ہاں كچھ مصلحتيں تهيں جن ميں ہمارے ساتھ اور بہت سارے لوگ تهے جن ميں امريكہ بهى شامل ہے۔ ہمارے يہاں ايك بادشاه نے ان تشدد پسندوں كے در آنے كے بعدان كے تدخلات كو ختم كرنے ميں اور انہيں صحيح راستے پر لانے ميں اپنى جان كى قربانى دے دى، وه ملك فيصل كى شخصيت ہے ، مملكت سعودى عرب كى ايك عظيم ہستى۔
اور جہاں تك بات شدت پسند گروپوں كى مالى سرپرستى كرنے كى ہے تو ميں چيلنج كرتا ہوں كہ كوئى بهى آئے سامنے اور ايك بهى دليل پيش كردے كہ حكومت سعودى عرب نے شدت پسند گروپوں كى مالى سرپرستى كى ہے۔ ہاں سعودى عرب ميں كچھ ايسے اشخاص پائے گئے ہيں جنہوں نے دہشت گرد گروپوں كى مالى سرپرستى كى ہے جوكہ سعودى قانون كے خلاف ہے۔ اور انہيں ميں سے بہت سارے لوگوں كو فى الحال جيل ميں ڈال ديا گيا ہے صرف دہشت گرد گروپوں كى مالى سرپرستى ہى كى وجہ سے نہيں بلكہ ان كى معنوى مدد كى وجہ سے بهى۔ قطر كے ساتھ ہمارے جو اختلافات پيدا ہوئےہيں ان ميں سے ايك يہ بهى ہے كہ ہم نہيں چاہتے ہيں كہ سعوديوں سے دولت اكٹھا كركے شدت پسند گروہوں تك پہونچايا جائے۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ نہيں چاہتے كہ قطر كے ساتھ دوباره تعلقات قائم ہوجائيں؟
محمد بن سلمان: ضرورى ہے كہ ايسا ہوجائے۔ ميں اميد كرتا ہوں كہ وه جلد ہى سبق سيكھ ليں گے ، اس مسئلے كا انحصار انہيں پر ہے۔
گولڈ بيرگ: آپ ايران اور اسكے آئيڈيالوجى كے بارے ميں بڑى صراحت سے گفتگو كرتے ہيں بلكہ آپ تو اس كے مرشد اعلى كو ہٹلر سے تشبيہ ديتے ہيں۔ اسے آپ ہٹلر كس معنى ميں كہتے ہيں كيونكہ ہٹلر تو ہر اعتبار سے بہت برا شخص تها؟
محمد بن سلمان: ميرى رائے ميں ہٹلر كى تشبيہ ايران كے مرشد اعلى سے بہتر اور كسى شخص كى نہيں ہوسكتى۔
گولڈ بيرگ: يقيناً؟
محمد بن سلمان: در اصل ہٹلر وه نہ كرسكا جو يہ ايرانى مرشد كر رہا ہے۔ ہٹلر نے يورپ پر قبضہ كرنا چاہا اور يہ برى چيز تهى۔
گولڈ بيرگ: جى ، بالكل برى چيز تهى۔
محمد بن سلمان: ليكن ايران كا مرشد چاہتا ہے كہ پورى دنيا پر قبضہ كرلے۔ اسكا اعتقاد ہے كہ وه پورى دنيا كا مالك ہے۔ دونوں شرير ہيں ، يہ مشرق وسطى كا ہٹلر ہے۔ پچھلى صدى كى دوسرى اور تيسرى دہائى ميں يہ كوئى نہيں سمجهتا تها كہ ہٹلر دنيا كيلئے خطره ہے سوائے چند لوگوں كے جبكہ ايسا ہوا۔ ہم نہيں چاہتے كہ مشرق وسطى ميں پھر اسى تاريخ كو دہرايا جائے جسے يورپ جهيل چكا ہے۔ ہم اسے سياسى، اقتصادى اور استخباراتى تمام پہلوؤں سے روكنا چاہتے ہيں ۔ ہم جنگ سے بچنا چاہتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: آپ كى رائے ميں كيا اصل پريشانى فرقہ واريت ہے؟
محمد بن سلمان: جيسا كہ ميں نے بتايا سعودى عرب ميں شيعہ فطرى زندگى گزار رہے ہيں۔ شيعى مذہب سے ہميں كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہميں صرف ايرانى نظام ولايت فقيہ كے آئيڈيالوجى سے پریشانی ہے۔ ہمارى پريشانى يہ ہے كہ ہم يہ بالكل نہيں چاہتے كہ ہمارے معاملات ميں كوئى دخل اندازى كرے ، اور ہم كسى بهى حال ميں انہيں اس كى اجازت نہيں ديں گے۔
گولڈ بيرگ: اس مسئلے كو ليكر بارك اوبامہ اور ٹرمپ كے تعلق سے مجهے بڑى الجهن ہوتى ہے۔ شايد آپ يہ سمجهتے ہوں كہ ٹرمپ اس مسئلے ميں باراك اوبامہ سے زیادہ سمجھ دار ہيں۔
محمد بن سلمان: اس مسئلے كو دونوں سمجهتے ہيں۔ البتہ ميرا خيال ہے كہ صدر بارك اوبامہ نے دوسرا اسلوب اختيار كيا؛ چنانچہ انہوں نے سوچا كہ ايران كو كچھ مہلت دى جائے ہوسكتا ہے وه اپنى اصلاح كرلے، ليكن ايران اپنے متشدد نظريئے پر قائم ہونے كى وجہ سے كچھ بهى نہ بدل سكا۔ ايران كى معيشت كے (60) فيصد حصے پر پاسدان انقلاب كا قبضہ ہے۔ ايٹمى معاہدے سے ايران كو جو معاشى فوائد حاصل ہوئے ہيں وه ايرانى قوم كو كچھ بهى نہ مل سكا۔ انہوں نے اس معاہدے كے بعد (150) ارب امريكى ڈالر حاصل كيا ہے۔ كيا اس خطير رقم سے انہوں نے ايران ميں كوئى تعميرى كام كيا؟ كيا انہوں نے اس رقم سےكوئى سڑك اور تيز رفتار چلنے والى گاڑيوں كيلئے كسى راستے كو بنايا ؟ مملكت سعودى عرب كى نظر ميں اس معاہدے سے ايران ميں (0%.1) فيصد بهى تبديلى نہيں آئى ہے۔
ہم ايران كے جنگجويانہ حركات كو لگام لگا رہے ہيں۔ ہم يہ كام ايشيا اور افريقہ ميں مليشيا، سوڈان ، عراق ، لبنان اور يمن ميں كر چكے ہيں۔ ہم يہ سمجهتے ہيں كہ اس لگام كے بعد اس طرح كے مشكلات ايران كى طرف منتقل ہوجائيں گے۔ ہم نہيں جانتے كہ اس سے ايرانى نظام كا خاتمہ ہوجائے گا اور نہ ہى يہ ہمارا مقصد ہے۔ ليكن اگر ختم ہوجاتا ہے تو يہ بڑى بات ہوگى اور يہ ان كىا درد ہے۔ البتہ فى الحال تو مشرق وسطى ہى ميں جنگ كا منظر نامہ چل رہا ہے۔ اب مزيد اس خطرے كو ہم برداشت نہيں كرسكتے۔ ہميں مستقبل ميں كئى تكليف ده قراردادوں كے مقابلے ابهى اور اسى وقت كچھ تكليف ده قرار دادوں كے اپنانے كى ضرورت ہے۔
گولڈ بيرگ: انہيں تكليف ده قراردادوں ميں سے كيا آپ يمن كو بهى ركھتےہيں جسے ان عسكرى كارستانيوں ميں شمار كيا جا رہا ہے جو انسانى آفتوں كا سب بنا ہے؟ كيونكہ بہت سارے لوگوں نے اس حملے پر اعتراض كيا ہے۔
محمد بن سلمان: سب سے پہلے ہميں دليلوں اور حقيقى وضاحتوں كى طرف آنے كى ضرورت ہے۔ يمن كى تباہى 2015 ميں شروع نہيں ہوئى(جس وقت سعودى اتحاد نے حملہ كيا تھا) بلكہ يہ تباہى ايك سال پہلے ہى ہوچكى تهى۔ اور يہ اقوام متحده كى رپورٹ كى روشنى ميں كہہ رہا ہوں نہ كہ اپنى رپورٹوں كى بنياد پر۔ يمن كے اندر ايك قانونى حكومت كے خلاف بغاوت كى گئى۔ اور دوسرى جانب القاعده نے بهى اسے اپنى مصلحت اور اپنے خاص افكار كيلئے استعمال كيا۔ پہلے ہم نے شام اور عراق ميں تشدد پسندوں سے نپٹنے كى كوشش كى پھر انہوں نے يمن ميں پناه لينا شروع كرديا۔ عراق اور شام كے مقابلے يہاں يمن ميں ان سے نپٹنا زياده دشوار ہوگيا۔ كيونكہ ساتھ ہى ہمارا مقصد وہاں كے قانونى حكومت كى مدد، ملكى استحكام كو قائم ركهنا اور يمنى قوم كا تعاون بهى ہے۔ يمن كى سب سے زياده مدد كرنے والا سعودى عرب ہى ہے۔ اور ان مالى امداد كے ساتھ سب سے زياده كهلواڑ حوثى كرتے ہيں جو يمن كے تقريبا دس فيصد حصوں پر ہی قابض ہيں۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ عورتوں كے مساوات كے قائل ہيں؟
محمد بن سلمان: ميں مملكت سعودى عرب كے ساتھ ہوں، اور مملكت سعودى عرب كى نصف آبادى عورتوں پر مشتمل ہے۔ پھر ميں عورتوں كے مساوات كا كيونكر قائل نہيں ہوں گا
گولڈ بيرگ: ليكن مساوات كيلئے وہاں كى سوسائٹى ميں آپ كيا كر رہے ہيں؟
محمد بن سلمان: ہمارے دين ميں مرد اور عورتوں ميں كوئى فرق نہيں ہے۔ كچھ واجبات مردوں پر ہيں اور كچھ واجبات عورتوں پر ہيں۔ ليكن يہاں مساوات كے تعلق سے ہمارے يہاں مختلف شكليں ہيں۔ مثلا سعودى عرب ميں مالى معاوضہ عورتوں كو وہى ملتا ہے جو مردوں كو ملتا ہے۔
گولڈ بيرگ: ليكن آپ كے يہاں عورتوں پر سرپرستى كے تعلق سے كيا قوانين ہيں؟ كيا آپ انہيں بالكل ختم كرنا چاہتے ہيں؟ ميں سمجهتا ہوں آپ كے عورتوں كے تعلق سے كار ڈرائيونگ كى اجازت نے سارے لوگوں كو ششدر كر ديا ہے۔
محمد بن سلمان: 1979 سے پہلے ہمارے يہاں سماجى پہلوؤں ميں كچھ زياده ہى سہولتيں تهيں۔ اس وقت مملكت سعودى عرب ميں اس طرح كى سرپرستى كے كوئى قوانين نہيں تهے۔ ميں زياده پہلے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دور كى بات نہيں كر رہا ہوں بلكہ گزشتہ صدى كى چھٹى دہائى كى بات كر رہا ہوں جب عورتوں پر ضرورى نہيں تهاكہ وه مرد سرپرستوں كے ساتھ سفر كريں بلكہ محفوظ جماعت كے ساتھ سفر كرليتى تهيں۔ ليكن اب صورت حال بدل چكى ہے۔ ہم اس مسئلے كا حل تلاش رہےہيں ليكن ايسى شكل ميں كسى خاندان كو پريشانى كا سامنا نہ كرنا پڑے اور نہ ہمارى اسلامى تہذيب وثقافت كو كوئى نقصان پہونچے۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ ان قوانين كو كالعدم كرديں گے؟
محمد بن سلمان: ہمارے يہاں بہت سارے خاندان ابهى بهى دينى معاملات ميں بڑى محافظت كرتے ہيں گرچہ بہت سے خاندان ايسے بهى ہيں جو بدل رہے ہيں۔ چنانچہ كچھ تو ايسےہيں جو ابهى بهى سرپرستى كى حمايت كرتے ہيں اور كچھ عورتيں ايسى بهى ہيں جو مردوں كى سرپرستى كے خلاف ہيں۔ اب اگر ميں ہاں كہتا ہوں تو ان خاندانوں كيلئے مشكلات پيدا ہوسكتے ہيں جو عورتوں كو زياده آزادى دينے كے قائل نہيں ہيں۔ در اصل سعودى اپنى شناخت ختم نہيں كرنا چاہتے۔ يہ صحيح ہے كہ ہم عالمى ثقافت وتہذيب كا حصہ بننا چاہتےہيں اور اپنى ثقافت كو عالمى ثقافت كے ساتھ ملاكر ركهنا چاہتے ہيں اس حيثيت سے كہ ہمارى ثقافت ميں كوئى فرق نہ پڑے۔
گولڈ بيرگ: ميرے پاس ايك سوال ہے جسكا تعلق اقدار سے ہے ۔ آپ كا تعلق ايسے ملك سے ہے جو ہمارے ملك سے بالكل مختلف ہے۔ آپ كے ملك ميں بادشاہى نظام ہے جہاں لوگوں كو ووٹ كا حق نہيں ہےاور وہاں ايسى جسمانى سزائيں اور موت كى سزائيں دى جاتى ہيں جسے ہمارے يہاں اكثر امريكى ناپسند كرتے ہيں۔
محمد بن سلمان: جى ، اقدار ميں ہم ايك دوسرے سے بالكل مختلف ہيں۔ بلكہ ميں يہ بهى سمجهتا ہوں كہ خود امريكہ ميں بهى كچھ صوبے ايسے ہيں جو دوسرے صوبوں سے اقدار ميں مختلف ہيں۔ جو اقدار كيلى فورنيا ميں ہيں وه ٹكساس ميں نہيں ہيں۔ پھر آپ ہم كيسے اميد كر سكتے ہيں كہ آپ كے اقدار كے ساتھ ہم سو فيصد متفق ہوجائيں جبكہ آپ لوگ خود ان اقدار ميں متفق نہيں ہو۔ ہاں اقدار كے كچھ بنيادى مباديات ہوتے ہيں جن ميں سارے انسان مشترك ہوتے ہيں ليكن ساتھ ہى ملكى اور صوبائى پيمانے پر بہت سے اختلافات بهى ہوتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: ليكن مطلق بادشاہى نظام كے بارے ميں آپ كا كيا خيال ہے؟
محمد بن سلمان: يہ مطلق بادشاہى نظام كيا كسى ملك كيلئے خطره ہے؟ آپ مطلق بادشاہى نظام (Absolute Monarchy) كا لفظ اس طرح استعمال كر رہے ہيں ايسا لگتا ہے يہ كوئى خطرے كى گھنٹى ہے۔ اگر يہى مطلق بادشاہى نظام نہ ہوتا تو آپ كے پاس آج امريكہ نہ ہوتا۔ كيونكہ فرانس كے اسى مطلق بادشاہى نظام نے امريكہ كے وجود ميں مدد كى تهى۔ اور يہ مطلق بادشاہى نظام امريكہ كا كبهى دشمن نہيں رہا بلكہ ايك لمبے زمانے سے اسكا حليف رہا ہے۔
گولڈ بيرگ: واقعى آپ نے جواب بڑى عقلمندى سے دى ہے۔ ليكن سوال ہمارا مختلف ہے۔
محمد بن سلمان: اچهى بات ہے۔البتہ ہر ملك اور نظام كيلئے ضرورى ہے كہ وه ايسے قانون لائے جو وہاں قابل عمل ہو۔ مملكت سعودى عرب در اصل ہزاروں مطلق بادشاہى نظاموں كے ايك جال سے عبارت ہے ۔ ہمارے يہاں قبائلى مطلق بادشاہى نظام ہےجہاں قبيلوں كے شيوخ اور سربراه ہوتے ہيں۔ ہمارے يہاں شہرى مطلق بادشاہى نظام ہے جہاں كچھ سربراه مطلق حاكم ہوتے ہيں پھر ان كے بعد ان كى اولاد حكومت كرتى ہے۔ مملكت كے اندر مطلق بادشاہى نظام كے اس ڈھانچے كو چھيڑنے سے بہت سارے مشكلات پيدا ہوسكتے ہيں۔ يقيناً سعودى عرب كى بناوٹ اور تركيب اس سے كہيں زياده پيچيده ہے جتنا آپ سوچ سكتے ہيں۔ اسى لئے حقيقت ميں ہمارے يہاں بادشاه كو وه مطلق اختيار واقتدار حاصل نہيں جو آپ سمجھ رہے ہيں۔ بلكہ اس كى طاقت اور اختيار ات قانون كى بنياد پر ہوتے ہيں۔ اسى لئے اگر كوئى شاہى فرمان جارى كرنا ہوتو يہ نہيں كہہ سكتے كہ ميں بادشاه سلمان ہوں اور اس چيز كا فيصلہ كر رہا ہوں۔ آپ جب شاہى فرامين كو پڑھيں گے توپہلے بہت سارے قوانين ديكهيں گے جو بادشاه كو كسى بهى فرمان يا قرارداد كے پاس كرنے كو جواز فراہم كرتے ہوں گے۔ اسى مناسبت سے يہ بهى بتاتا چلوں كہ برطانيہ ميں ملكہ كو كسى بهى قانون كو بدلنے كيلئے مطلق طاقت اور اختيار حاصل ہے ليكن وه ايسا نہيں كرتى ہيں ۔ اسى لئے كہتا ہوں كہ مسئلہ بڑا پيچيده ہے۔
گولڈ بيرگ:كيا ايسا ممكن ہے كہ مملكہ ميں ايسا نظام لاگو ہو جس كے تحت لوگ اپنے اپنے نمائندوں كو ووٹ دے سكيں؟ اور كيا اسى عمل كو تبديلى نہيں كہيں گے؟
محمد بن سلمان: ميرے لئے جو كرنا ممكن ہے وه قانون كى طاقت كو مضبوط بنانا ہے۔ ہم چاہتے ہيں كہ اپنى طاقت بهر اظہار رائے كى آزادى كو بڑھاوا ديں ليكن ساتھ ہى ہم يہ بهى نہيں چاہتے كہ لوگوں كو اس كے ذريعے تشدد كا موقع ديں۔ ہمارے لئے ممكن ہے كہ قانون اور ضابطے كے تحت عورتوں كے حقوق اور معيشت كو بہتر سے بہتر بنائيں۔ ہمارے سامنے كچھ چيلنجز ہيں ليكن ہميں اپنى ذميدارى ادا كرنى ہے۔
گولڈ بيرگ: آئيے مشرق وسطى كے بارے ميں كچھ مزيد وسيع پيمانے پر گفتگو كرتے ہيں۔كيا آپ چاہتے ہيں كہ يہودى قوم كو يہ حق ہونا چاہئيے كہ وه بهى كم سے كم اپنے باپ دادا كے وطن پر اپنے لئے ايك قومى حكومت قائم كريں؟
محمد بن سلمان: ميرا خيال ہے كہ ہر قوم كو كسى بهى جگہ اسے اپنے امن پسند ملك ميں زندگى گزارنے كا حق ہونا چاہئيے۔ ميرا خيال ہے كہ فلسطينى اور اسرائيلى ہر ايك كو اپنے اپنے مخصوص سرزمين پر رہنے كا حق حاصل ہے۔ ليكن ضرورى ہے كہ ہمارے پاس ايك ايسا منصف ، عدل پسند سلامتى كا معاہده ہو جس كى روشنى ميں ہر ايك كو استقرار اور استقامت كے ساتھ رہنے اور تمام قوموں كے مابين طبعى تعلقات بحال كرنے كى ضمانت ہو۔
گولڈ بيرگ:كيا آپ كو دينى اعتبار سے اسرائيل كے وجود پر اعتراض ہے؟
محمد بن سلمان: ميں تاكيد كے ساتھ كہتا ہوں كہ ہميں القدس ميں مسجد اقصى كے انجام كے تعلق سے اور فلسطينى قوم كے حقوق كے تعلق سے دينى خدشات لاحق ہيں۔ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ يہى ہے۔ اسكے علاوه دوسرے لوگوں كے وجود پر ہميں كوئى اعتراض نہيں ہے اگر وه منصف سلامتى كے معاہدے كے تحت رہتے ہوں۔
گولڈ بيرگ: مملكت سعودى عرب ميں چوں كہ لوگ روايت پسند ہيں اور وہاں سے سامى دشمنى كثرت سے پائى جاتى ہے ۔ تو كيا آپ كو اپنے ملك ميں انٹى سامى مشكلات كا سامنا ہے؟
محمد بن سلمان: ہمارے ملك ميں يہوديوں كے ساتھ كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك يہودى عورت سے شادى كى تهى۔ يہودى آپ كے پڑوسى تهے۔ اس وقت بهى سعودى ميں يورپ اور امريكہ سے بہت سارے يہودى كام كيلئے آتے ہيں۔ ہمارے نزديك مسلمانوں، عيسائيوں اور يہوديوں كے مابين كوئى پريشانى نہيں ہے۔ ہمارے يہاں مشكلات ہيں ليكن ان كا تعلق انہيں مشكلات سے ہے جوعام طور سے ہر جگہ پائےجاتے ہيں۔
گولڈ بيرگ: كيا آپ كے خيال ميں ايران كى وجہ سے آپ لوگ اسرائيل سے قريب ہورہے ہيں؟ اور كيا ايران كو چھوڑ كر آپ لوگوں كے اسرائيل كے ساتھ مشتركہ مصلحتيں ہوسكتى ہيں؟
محمد بن سلمان: اسرائيل اپنے حجم كے اعتبار سے ايك بڑے اقتصاد كا مالك ہے اور ساتھ ہى اس كى معيشت ترقى پر ہے۔ ايران كے مقابلے ميں اگر ديكها جائے تو اسرائيل اور خليجى ملكوں كے مابين بہت سارى مشتركہ مصلحتيں ہوسكتى ہيں۔
(يعنى ايران كے خلاف اسرائيل اور خليجى ملكوں ميں سے ہر كوئى اپنے اپنے ايجنڈوں پر كام كرے تو ديكهنے ميں ايران كے خلاف ان سب كى مصلحتيں مشترك ہوسكتى ہيں ۔ اس سے كوئى ضرورى نہيں كہ خليجى ممالك اسرائيل كے ساتھ مل كر ايران كے خلاف كچھ كريں۔اور عملا ايسا كچھ ہے بهى نہيں سوائے قطر كےكہ جسے خليجى ممالك نے بائيكاٹ كيا ہوا ہے)
گولڈ بيرگ: مجهے آپ كى جوانى كو ليكر الجهن ہے ۔ كيا يہ ذميدارى ايك نوجوان كےلئے ايك پيچيده امر نہيں ہے؟
محمد بن سلمان: ميرا يقين ہے كہ انسان اپنى عمر كے آخرى مرحلے تك سيكهتے رہتے ہيں۔ اگر كوئى يہ دعوى كردے كہ وه سب كچھ جانتا ہے تو وه كچھ بهى نہيں جانتا ہے۔ ہم جس چيز كى كوشش كر رہے ہيں وه يہ ہے كہ تيزى سے سيكهيں تيزى سے سمجهيں اور ہم عقلمند اشخاص كے بيچ ميں رہيں۔ اور ميں نہيں سمجهتا كہ ميرى جوانى كوئى مشكل پيدا كرے گى۔ ميرا خيال ہے كہ بہتر سے بہتر ايجادات نوجوانوں ہى كے ہاتھ ہوئى ہيں۔ ايپل كمپنى اس كى بہتر مثال ہوسكتى ہے جسے (Steve Jobs) نے قائم كيا جس وقت كہ وه تقريبا بيس سال كا تها۔ سوشل ميڈيا ميں فيس بك كى مثال ہمارے سامنے ہےجسے ايك نوجوان نے قائم كيا ہے۔ لہذا ميں سمجهتا ہوں كہ ہمارى نوجون نسل بہت كچھ كر سكتى ہے۔
گولڈ بيرگ: اسٹيو جوبز جن چيزوں كا مالك تها انہيں ميں سے ايك آزادى تهى۔ وه ايسے ملك ميں رہتا تها جہاں كچھ بهى آزادى سے كر سكتا تها ۔ اور ميں نہيں سمجهتا كہ سعودى عرب ميں حقوق انسانى اور آزادى كے نقطہ نظر سے کوئی كچھ بهى كر سكتا ہو۔
محمد بن سلمان: سعودى عرب ميں آپ جو چاہيں كر سكتے ہيں اور تجارت كے ميدان ميں جس چيز ميں بهى ترقى كرنا چاہيں كر سكتے ہيں۔ ہاں اظہار رائے كى آزادى كا معيار ہمارے يہاں مختلف ہے۔ ہمارے يہاں سعودى عرب ميں تين لائنيں ايسى ہيں جن سے آپ آگے نہيں جاسكتے ۔ چنانچہ كسى بهى شخص كو كچھ بهى لكهنے يا بولنے كى اجازت ہے ان تين لائنوں كو تجاوز كئے بغير۔ اور يہ حكومت نہيں بلكہ سعودى قوم كى مصلحت ميں ہے۔
پہلى لائن اسلام ہے۔چنانچہ دين اسلام كے وقار كو مجروح كرنا يا اسكے حدود سے آگے بڑھنا كسى كيلئے جائز نہيں ہے۔ اور يہ سعودى قوم كى مصلحت ميں ہے۔
دوسرى لائن : بطور وضاحت كے ميں كہہ سكتا ہوں كہ امريكہ ميں ممكن ہے كسى شخص ، كمپنى يا وزير پر تنقيد كرنا جبكہ سعودى ميں گرچہ اس طرح ممكن ہے ليكن سعودى ثقافت وتہذيب لوگوں كو يہ اجازت نہيں ديتى كہ كسى كى شخصيت كو مجروح كريں، بلكہ ان كا ايمان ہے كہ شخصى امور سے دورى بنا كے رہيں۔ يہ سعودى ثقافت وتہذيب كا حصہ ہے۔
تيسرى لائن: قومى سلامتى ہے۔ ہم ايسے علاقے ميں رہتے ہيں جس كے چاروں طرف نہ تو ميكسيك ہے نہ كناڈا ہے نہ بحر اٹلانٹك ہے اور نہ ہى بحر الكاہل ہے۔ ہمارے پاس داعش ہے ، القاعده ہے، حماس ہے، حز ب الله اور ايرانى نظام ہے۔ يہاں تك كہ بحرى قزاقى بهى ہے ۔ جى ہاں ہمارے یہاں بحرى قزاق ہيں جو كشتيوں كو اچك ليتے ہيں۔ ايسى صورت ميں ہمارے لئے قومى سلامتى كو خطرے ميں ڈالنا اچھى بات نہيں ہوگى۔ ہم نہيں چاہتے كہ عراق ميں جو كچھ ہورہا ہے سعودى ميں بھى وہى سب ہو۔ ہم اس كے برخلاف چاہتے ہيں۔ ہمارى قوم كو آزادى اسكے معيار اور پسند كے اعتبار سے بہتر طريقے سے فراہم ہے۔ مثال كے طور پر ہم نے نہ تو ٹويٹر پر پابندى لگائى ہے اور سوشل ميڈيا تك رسائى حاصل كرنے كيلئے نہ تو فيس بك ، اسنيپ چيٹ وغيره پر پابندى لگائى ہے۔ سارى چيزيں سعوديوں كيلئے فراہم ہيں۔ عالمى پيمانے پر ديكها جائے تو ہمارے يہاں سب سے زياده سوشل ميڈيا استعمال كيا جاتا ہے۔ايران ميں ايسى سہولتوں پر پابندى ہے اسى طرح اور كئى ممالك ميں يہى صورت حال ہے۔ سعودى باشنده دنيا كے كسى بهى كونے ميں كسى سے بهى سوشل ميڈيا سے جڑ سكتا ہے۔
گولڈ بيرگ: ميں نہيں سمجهتا كہ ٹويٹر تہذيب وتمدن كيلئے كوئى بہت اچهى چيز ہے ۔ ليكن پهر بهى اسے ہم بعد كى گفتگو كيلئے چهوڑتے ہيں ۔ آپ كا بہت بہت شكريہ
اصل انٹرویو اس لنک پر دیکھیں: https://www.theatlantic.com/international/archive/2018/04/mohammed-bin-salman-iran-israel/557036/
No comments:
Post a Comment