find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Gairullah Se Fariyad karna aur Ya Use Pukarna Shirak Hai.

غیر اللہ سے فریاد کرنا یا اسے پکارنا شرک ہے(1)​

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
[qh](وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (106) وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [/qh](سورة يونس10: 107))
“اور تم اللہ کو چھوڑ کر کسی کو مت پکارو جو تمھارا بھلا کرسکے نہ نقصان، اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں (یعنی مشرکوں)میں سے ہو جاؤ گے اور اگر اللہ تمھیں کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کرسکتا اور اگر وہ تمھارے ساتھ بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو روک نہیں سکتا۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔”(2)
نیز ارشاد الہی ہے:
[qh](إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ [/qh](سورة العنكبوت29: 17))
“تم اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ پس اللہ ہی سے رزق طلب کرو۔ اور اس کی بندگی کرو اور اس کا شرک بجالاؤ۔ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔”(3)
مزید ارشاد الہی ہے:
[qh](وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5) وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ[/qh] (سورة الأحقاف46: 6))
“اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک (اس کی پکار سن کر)اسے جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی پکار سے غافل اور بے خبر ہیں اور قیامت کو جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے تو اس وقت وہ ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے۔ اور ان کی پرستش کا انکار کریں گے۔”(4)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:
[qh](أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ [/qh](سورة النمل27: 62))
“جب کوئی لاچار فریاد کرے تو کون ہے جو اس کی پکار اور فریاد کو سنے؟ کون اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔ تو بھلا اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔”(5)

اور امام طبرانی رحمہ اللہ علیہ نے باسند بیان کیا ہے کہ نبیﷺکے زمانے میں ایک منافق مومنوں یعنی صحابہ کرام کو بہت ایذائیں دیا کرتا تھا۔ صحابہ نے مشورہ کیا کہ چلو رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر اس سے گلو خلاصی کے لیے استغاثہ کریں۔ نبی ﷺنے فرمایا دیکھو! مجھ سے فریاد نہیں کی جاسکتی۔ بلکہ فریاد و پکار صرف اللہ تعالی سے کرنی چاہئے۔”

مسائل
1) دعا(پکارنا)عام ہے اور استغاثہ (فریادکرنا)خاص۔ پس استغاثہ کے بعد دعا کا ذکر کرنا [qh]“عَطْفُ الْعَامِّ عَلَى الْخَاصِّ”[/qh]کے قبیل سے ہے۔
2) آیت مبارکہ [qh]“وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ”[/qh]کی تفسیر بھی ہوئی۔
3) غیر اللہ کو پکارنا اور اس سے فریاد کرنا شرک اکبر ہے۔
4) نیز ثابت ہوا کہ اگر کوئی انتہائی برگزیدہ بندہ بھی غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے اسے پکارے تو وہ بھی ظالموں میں سے ہو گا۔
5) اس باب سے[qh] “وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ”[/qh]سے بعد والی آیت [qh]“وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ”[/qh]کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔
6) غیر اللہ کو پکارنا دنیا میں کچھ نفع بخش نہیں اور پھر یہ کفر بھی ہے۔
7) تیسری آیہ مبارکہ [qh]“فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ”[/qh]کی تفسیر بھی ہوئی۔
8) اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے سے روزی مانگنا ایسے ہی درست نہیں جیسے اس کے سوا کسی دوسرے سے جنت نہیں مانگی جاسکتی۔
9) اس بحث سے چوتھی آیہ مبارکہ [qh]“وَمَنْ أَضَلُّ”[/qh]کی تفسیر بھی ہوتی ہے۔
10) جو شخص کسی غیر اللہ کو پکارے یا اس سے فریاد کرے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں۔
11) جن(غیراللہ)کو پکارا جاتا ہے وہ تو پکارنے والے کی پکار سے بے خبر ہیں۔
12) اللہ تعالی کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ اس پکار کے سبب قیامت کے دن ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے۔
13) غیر اللہ کو پکارنا درحقیقت اس کی عبادت ہے۔
14) جن کو پکارا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ان کی عبادت اور پکار کا انکار کریں گے۔
15) ان امور کی وجہ ہی سے انسان سب سے زیادہ گمراہ کہلاتا ہے۔
16) اس باب سے آیہ [qh]“أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ”[/qh]کی تفسیر بھی ہوتی ہے۔
17) حیران کن بات یہ ہے کہ بتوں کے پجاری بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پریشان و لاچار کی پکار کو صرف اللہ تعالی سنتا ہے اور وہی نجات دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات میں وہ بھی صرف اللہ تعالی کو پکارتے ہیں۔
18) نبی ﷺنے مکمل طور پر گلشن توحید کی حفاظت فرمائی اور امت کو اللہ تعالی کے ساتھ جو ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہئے اس کی تعلیم بھی آپ نے دی۔

نوٹ:-
(1) اگرچہ استغاثہ(فریادکرنا) دعا ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کو بالخصوص علیحدہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح دعا ایک طلب اور عرض ہوتی ہے اسی طرح فریاد کرنا بھی دراصل عرض کرنا ہی ہوتا ہے۔
استغاثہ کا معنی فریاد کرنا ہے۔ جو شخص شدید دکھ اور پریشانی میں اس قدر مبتلا ہو کہ اسے سخت نقصان پہنچنے یا اس کے ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس کی فریاد رسی کو غوث کہا جاتا ہے۔ لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی فریاد رسی کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے مدد کرتے ہوئے اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلایا جس میں وہ جکڑا ہوا تھا۔ چنانچہ جب مخلوق سے کسی ایسے کام کی فریاد کی جائے جو مخلوق کے بس میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ کے بس اور اس کی قدرت میں ہو تو یہ فریاد کرنا شرک اکبر ہوگا۔ ہاں اگر مخلوق کے بس میں ہو تو جائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے قصہ میں کہا ہے۔
[qh](فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [/qh](سورة القصص28: 15))
“جو شخص موسی (علیہ السلام)کی قوم سے تھا اس نے ان سے اپنے دشمن کے خلاف فریاد کی۔”
غیر اللہ کو بطور عبادت پکارنا شرک اکبر ہے۔
پکار کی دو قسمیں ہیں :
{1} بطور سوال پکارنا یعنی اللہ سے مانگنے اور طلب کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا کر اسے پکارنا۔ ہمارے ہاں عموما اسے دعا کہا جاتا ہے۔
{2} بطور عبادت پکارنا جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔
[qh](وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا [/qh](سورة الجن72: 18))
“اور بلاشبہ سب مسجدین اللہ کی ہیں تو تم اس کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔”
اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہے [qh]“الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ”[/qh]کہ “دعا(پکار)ہی عبادت ہے۔”
چنانچہ بطور عبادت پکارنا ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی آدمی نماز پڑھتا یا زکوۃ اداکرتا ہے کیونکہ عبادت کی کوئی بھی قسم ہو اسے “دعا”(پکارنا)کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ پکارنا بطور عبادت ہوتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی تو پھر قرآنی دلائل اور اہل علم کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل کو سمجھنے کے لیے مذکورہ بالا تفصیل اور تقسیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اصل خرافات اور شرک کی دعوت دینے والے لوگ مسئلہ دعا کے بارے میں وارد شدہ آیت [qh]“وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِيلَّهِ[/qh](سورة غافر40: 60)”کی غلط تاویل کرتے ہیں جبکہ درحقیقت بطور سوال پکارنے اور بطور عبادت پکارنے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ بطور سوال پکارنا عبادت کی ایک قسم ہے اور بطور عبادت پکارنے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ سے قبولیت کا سوال بھی کیا جائے۔
(2)[qh](وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ[/qh](سورة يونس10: 106))اور اللہ کو چھوڑ کر کسی کو مت پکارو۔
یہ ممانعت ہے اور اس میں بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح پکار نے کی نفی ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے یہی استدلال کیا ہے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو بطور سوال یا بطور عبادت پکارے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حکم کے اولین مخاطب امام المتقین و امام الموحدین محمد مصطفی ﷺہیں۔
[qh]“مِنْ دُونِ اللَّهِ”[/qh]میں دو مفہوم آتے ہیں۔ ایک تویہ کہ کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا کرنہ پکارو اور دوسرایہ کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کومت پکارو۔
[qh]“مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ”[/qh]جو تمیں کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان ، اس میں ذوی العقول ، مثلا فرشتے، انبیاء ورسل اور اولیاء اور غیر ذوی العقول، مثلا بت، درخت اور پتھر سجھی شامل ہیں۔
[qh]“فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ”[/qh]اگر آپ نے ایسا کیا یعنی اللہ کے ساتھ یا اللہ کو چھوڑ کر کسی کو پکارا جبکہ وہ تمیں کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان تو آپ اس پکارنے کی وجہ سے ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔
یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔
جب نبی کریم ﷺسے یہ بات کہی جارہی ہے حالانکہ ان کے ذریعے اللہ نے توحید کی تکمیل کی کہ غیر اللہ کو پکارنے کی وجہ سے آپ ظالم اور مشرک ٹھہریں گے تو پھر جو شخص معصوم عن الخطاء نہیں اس کے لیے یہ بہت بڑی تنبیہ ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے کی وجہ سے وہ بالاولی ظالم اور مشرک ٹھہرے گا۔اس کے بعد اللہ عزوجل نے دل سے شرک کی تمام جڑوں کو کاٹنے کے لیے فرمایا:
[qh](وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ)[/qh]
“اور اگر اللہ تعالی تمہیں کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کرسکتا۔”
اگر اللہ کی طرف سے آپ کو کوئی نقصان پہنچے تو اسے کون دور کرےگا؟ یقینا وہی جس نے مقدر میں لکھا اور فیصلہ کیا ہے۔ اس سے غیر اللہ کی طرف رخ کرنے کی قطعا نفی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس بات کی اجازت ہے کہ جو کام بشر کے بس میں ہو اس کے لیے اس کی طرف رخ کیا جاسکتا ہے۔ مثلا مدد طلب کرنا، پانی مانگنا وغیرہ۔ کیونکہ اسے اللہ نے مشکل حل کرنے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے جبکہ درحقیقت مشکل کشا تو صرف اللہ ہی ہے “بِضُرٍّ”کوئی نقصان ۔ اس میں نقصان کی تمام تر قسمیں شامل ہیں یعنی دینی نقصان ہو یا دنیوی، بدنی ہو یا مالی یا عیالی۔ ہر قسم کے نقصان کو دور کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔
(3) [qh](فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ)“[/qh]پس تم اللہ تعالی ہی سے رزق طلب کرو۔”
علمائے معانی نے لکھا ہے کہ بیان میں مؤخر کو مقدم کرنے سے تخصیص حاصل ہوتی ہے۔ لہذا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ “تم صرف اللہ ہی سے رزق طلب کرو۔” اس طلب کو اللہ ہی کے ساتھ خاص رکھو ، طلب رزق کے لیے غیر اللہ سے فریاد نہ کرو۔ رزق کا لفظ عام ہے۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ملے اور عطا ہو اسے رزق کہا جاتا ہے۔اس میں صحت، عافیت اور مال و دولت سب کچھ شامل ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے[qh] “وَاعْبُدُوهُ”[/qh](اور اس کی بندگی کرو)فرمایا تاکہ بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح کا پکارنا اس میں شامل ہوجائے۔
(4) اس آیت میں ان لوگوں کی گمراہی کی انتہا بیان کی گئی ہے جو اللہ تعالی کو چھوڑ کو مردوں کو پکارتے ہیں اس سے بتوں ، پتھروں یا درختوں کو پکارنا مراد نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا [qh]“ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ”[/qh]جو قیامت تک(اس کی پکار سن کر)اسے جواب نہیں دے سکتے اور یہ اشیاء تو قیامت کے بعد بھی سننے پر قادر نہیں جبکہ مردے قیامت کے بعد اٹھ کر سننے لگیں گے۔
نیز اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آیت میں [qh]“مَنْ ”[/qh]حرف موصول ہے۔ اس کا اطلاق ذوی العقول پر ہوتا ہے جو دوسروں سے بات کرسکتے ہوں اور ان سے بات کی جاسکتی ہو۔ وہ خود علم رکھتے ہوں اور ان سے علم حاصل کیا جاسکتاہو۔
(5) اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بے کس اور لاچار آدمی کی دعا جو کہ بطور سوال ہوتی ہے۔صرف اللہ عزوجل سنتا ہے اور پھر کبھی تو انسان کی فریاد پر تکلیف دور کرتا ہے اور کبھی بغیر فریاد کیے [qh]“ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ”[/qh]تو بھلا اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں جسے پکارا جائے یا جو چیز صرف اللہ کے اختیار میں ہو اس کی فریاد اس (غیر اللہ)سے کی جائے۔
(6) مجمع الزوائد:(10/ 159) بعض روایات میں صراحت ہے کہ یہ مشورہ دینے والے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس معاملہ میں نبیﷺسے مدد طلب کرنا جائز تھا۔ کیونکہ انہوں نے نبی ﷺکی زندگی میں آپ سے ایسی مدد طلب کی جس پر آپ کو زندگی میں قدرت حاصل تھی۔ چونکہ وہ منافق اہل ایمان کو ایذائیں دیا کرتا تھا آپ اس کو قتل کرنے ، قید کرنے یا اس کے بارے میں کسی تعزیر کا حکم سنا کر یا کوئی دوسرا حکم دے کر صحابہ کی مدد کرسکتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک ایسے معاملہ میں آپ کی طرف رجوع کیا جس پر آپ کو قدرت تھی۔ اس موقع پر بھی آپ نے تعلیم و ارشاد فرماتے ہوئے ادب سکھایا اور تنبیہ فرمائی کہ دیکھو میرے سامنے فریاد نہ کی جائے، فریاد اور پکار سب سے پہلے صرف اللہ تعالی سے کرنی چاہئے۔

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS