HM Musalamano ko kyu Itni Zillat O Ruswai ka Samna Karna Par Raha Hai
ہم مسلمان قوم کو کیوں اتنی زلت اور رسوائے کا سامنا ہے.
میں نے بھی اس بارے میں سوچھا تو یہ بات میرے زہن میں آئی کہ ہماری نوجوان نسل کو شہوت پرستی.. عریانی.. فحاشی پر لگا دیا ہے....... آگے ایک تحریر آرہی ہے اسے غور سے پڑھیں...اس کے بعد آپ کو کیا کرنا ہے یہ ضرور sochiye...
میں نے بھی اس بارے میں سوچھا تو یہ بات میرے زہن میں آئی کہ ہماری نوجوان نسل کو شہوت پرستی.. عریانی.. فحاشی پر لگا دیا ہے....... آگے ایک تحریر آرہی ہے اسے غور سے پڑھیں...اس کے بعد آپ کو کیا کرنا ہے یہ ضرور sochiye...
ایک وقت تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں آدمی ان واقعات کو سنے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔
ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦِ ﺧﻄﺎﺏ ﻓﺎﺭﻭﻕِ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﻮﺳﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮨﺮ ﺻﻮﺑﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﻣﻞ ( ﮔﻮﺭﻧﺮ ) ﺳﮯﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺭﻭﺩﺍﺩ ﻣﻨﮕﻮﺍﺗﮯﺗﮭﮯ۔ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﻝ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺸﺖ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کا سنہری قول۔۔!!!
"اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو، اُس قوم کے جوانوں میں بے حیائی پھیلا دو۔۔!!"
سلطان کا یہ عظیم قول تاریخ کے آئینے میں۔۔!!
نوٹ! معزز ممبران۔۔! اِس تحریر کا آخری پہرہ لازمی پڑھیں اور سوچیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریاں کیا تھیں، اور ہم کیا کر رہے ہیں۔۔!!!
یہ تاریخ کا وہ منظر ہے، جب جولائی 1187ء کو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قبضہ کرنے آئی تھی، ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بُری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا۔ اور اب سلطان، حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا۔
سلطان صلح الدین ایوبی نے یہ فیصلہ اِس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا اور اُن کیلئے نہایت قابل تعظیم جگہ تھی، سلطان اُسے تہہ تیغ کر کے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا، دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان، عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں گے، چانچہ اُس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کر دیا اور 8 جولائی 1187ء کو عکرہ، ایوبی افواج کے قبضے میں تھا۔
اِس معرکے میں صلیبی انٹیلجنس کا سربراہ "برمن" بھی گرفتار ہوا، جسے فرار ہوتے وقت ایک کمانڈر نے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت برمن نے اُس کمانڈر کو خوبصورت لڑکیوں، اور بہت سے سونے کی رشوت بھی پیش کی تھی، تاکہ وہ اُسے جانے دے، مگر کمانڈر نے اُسے رد کر دیا۔
برمن کو جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے دشمن ہونے کے باجود گرفتار کرنے والے کمانڈر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان ایوبی سے کہا،۔۔۔!!
"سلطانِ معظم! اگر آپ کے تمام کمانڈر اِسی کردار کے مالک ہیں جیسا کہ یہ کمانڈر جو مجھے گرفتار کر کے یہاں لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی۔۔!"
برمن نے کہا۔۔۔"میری نظر ہمیشہ انسانی فطرت کی کمزریوں پر رہتی ہے، میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا، میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کر دی جاتی ہیں تو شکست اُس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے، میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیے ہیں، اُن میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں۔ حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے۔
سلطانِ معظم! آپ کی جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے، آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہو، مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے، ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بو دیا ہے، وہ ضائع نہیں ہوگا۔ آپ چونکہ ایمان والے ہیں، اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا، لیکن ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت، لذت اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے۔ آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو مزید تیز کرتے رہیں گے۔
سلطانِ معظم! یہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں، یہ میری اور آپ کی، یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں ہے، یہ تو کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے، جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے، ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، بلکہ ہم گھر بیٹھے معصوم اور بھولے بھالے مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے۔ ہم مسلماانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ہماری لڑکیاں، ہماری دولت، ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے۔
سلطانِ معظم! وہ وقت نہ آپ دیکھیں گے اور نہ ہی میں دیکھ سکوں گا، بلکہ ہماری روحیں دیکھیں گی۔۔!"
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ
82: (اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں
سلطان ایوبی، جرمن نژاد برمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا، برمن نے مزید کہا۔۔!
"سلطانِ معظم! آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدانِ جنگ بنایا۔۔؟، صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اِس خطے کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں، اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے، ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آج آپ بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑا لیں گے، لیکن جب آپ دنیا سے اُٹھ جائیں گے، مسجدِ اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی۔ میں جو پیشین گوئی کر رہا ہوں، یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑے غور سے دیکھ کے کر رہا ہوں۔ ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے اور فلسطین کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت اور شہوت پرستی کا بیج بونا شروع کر دیا ہے۔ اِن میں اب کوئی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔۔!!"
ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺍﺑﻦِ ﺧﻄﺎﺏ ﻓﺎﺭﻭﻕِ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﻮﺳﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮨﺮ ﺻﻮﺑﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﻣﻞ ( ﮔﻮﺭﻧﺮ ) ﺳﮯﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺭﻭﺩﺍﺩ ﻣﻨﮕﻮﺍﺗﮯﺗﮭﮯ۔ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﻝ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺸﺖ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کا سنہری قول۔۔!!!
"اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو، اُس قوم کے جوانوں میں بے حیائی پھیلا دو۔۔!!"
سلطان کا یہ عظیم قول تاریخ کے آئینے میں۔۔!!
نوٹ! معزز ممبران۔۔! اِس تحریر کا آخری پہرہ لازمی پڑھیں اور سوچیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریاں کیا تھیں، اور ہم کیا کر رہے ہیں۔۔!!!
یہ تاریخ کا وہ منظر ہے، جب جولائی 1187ء کو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر قبضہ کرنے آئی تھی، ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بُری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا۔ اور اب سلطان، حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا۔
سلطان صلح الدین ایوبی نے یہ فیصلہ اِس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا اور اُن کیلئے نہایت قابل تعظیم جگہ تھی، سلطان اُسے تہہ تیغ کر کے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا، دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان، عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں گے، چانچہ اُس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کر دیا اور 8 جولائی 1187ء کو عکرہ، ایوبی افواج کے قبضے میں تھا۔
اِس معرکے میں صلیبی انٹیلجنس کا سربراہ "برمن" بھی گرفتار ہوا، جسے فرار ہوتے وقت ایک کمانڈر نے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت برمن نے اُس کمانڈر کو خوبصورت لڑکیوں، اور بہت سے سونے کی رشوت بھی پیش کی تھی، تاکہ وہ اُسے جانے دے، مگر کمانڈر نے اُسے رد کر دیا۔
برمن کو جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے دشمن ہونے کے باجود گرفتار کرنے والے کمانڈر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان ایوبی سے کہا،۔۔۔!!
"سلطانِ معظم! اگر آپ کے تمام کمانڈر اِسی کردار کے مالک ہیں جیسا کہ یہ کمانڈر جو مجھے گرفتار کر کے یہاں لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی۔۔!"
برمن نے کہا۔۔۔"میری نظر ہمیشہ انسانی فطرت کی کمزریوں پر رہتی ہے، میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا، میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کر دی جاتی ہیں تو شکست اُس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے، میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیے ہیں، اُن میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں۔ حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے۔
سلطانِ معظم! آپ کی جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے، آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہو، مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے، ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بو دیا ہے، وہ ضائع نہیں ہوگا۔ آپ چونکہ ایمان والے ہیں، اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا، لیکن ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت، لذت اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے۔ آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو مزید تیز کرتے رہیں گے۔
سلطانِ معظم! یہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں، یہ میری اور آپ کی، یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں ہے، یہ تو کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے، جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے، ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، بلکہ ہم گھر بیٹھے معصوم اور بھولے بھالے مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے۔ ہم مسلماانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ہماری لڑکیاں، ہماری دولت، ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے۔
سلطانِ معظم! وہ وقت نہ آپ دیکھیں گے اور نہ ہی میں دیکھ سکوں گا، بلکہ ہماری روحیں دیکھیں گی۔۔!"
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ
82: (اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں
سلطان ایوبی، جرمن نژاد برمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا، برمن نے مزید کہا۔۔!
"سلطانِ معظم! آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدانِ جنگ بنایا۔۔؟، صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اِس خطے کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں، اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے، ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آج آپ بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑا لیں گے، لیکن جب آپ دنیا سے اُٹھ جائیں گے، مسجدِ اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی۔ میں جو پیشین گوئی کر رہا ہوں، یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑے غور سے دیکھ کے کر رہا ہوں۔ ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے اور فلسطین کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت اور شہوت پرستی کا بیج بونا شروع کر دیا ہے۔ اِن میں اب کوئی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔۔!!"
No comments:
Post a Comment