find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Mai koi kitabi keera thori hoo. (Afsana)

            Mai koi KItabi Keera Thori hoo    

ثناءاللہ صادق تیمی 

شام کا وقت عام طور سے سہانا ہی ہوتا ہے ۔ ہم نے اپنی نصف بہتر سے گزارش کی کہ ہمیں چائے کی طلب ہورہی ہے اور انہوں نے ہماری طرف  اس طرح دیکھا جیسے ہم نے چائے کی طلب کا کہ کران کے بھائی کی شان میں پھر سے کوئی گستاخی کردی ہو ، حالانکہ یہ معلوم بات ہے کہ ان کے بھائی ہمارے برادر نسبتی تو ہوتے ہی ہیں !!
لیکن اس سے قبل کہ ہمارے پاس سلیمانی آتی ، ہمارے بے نام خاں آگئے ۔ ہم نے شریک حیات کی آنکھوں کی قوت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک ہی سلیمانی کودو پیالوں میں بانٹنا مناسب سمجھا اور خان صاحب مجھے دیر تک معنی خيز انداز میں دیکھتے رہے یہاں تک کہ ان کی چائے ختم ہوگئی ۔ میں پہلے سے ہی کلیم الدین احمد کی آپ بیتی" اپنی تلاش میں "  پڑھ رہا تھا سو اس میں پھر سے مشغول ہوگیا ۔ بے نام خاں نے مجھے پریشان کرنا چاہا تو میں نے پڑھائی میں مشغول ہونے کی بات کہی اور وہ شروع ہوگئے ۔
یار مولانا ! یہ جو پڑھائی پڑھائی کی جھوٹ موٹ کو  رٹ لگاتے ہو مجھے سب معلوم ہے کہ یہ سب بس دکھاوا ہے ۔ پڑھنے والے آنے والوں سے یہ نہیں کہتے کہ وہ پڑھنے میں مشغول ہیں ، ان کا حلیہ بتا دیتا ہےکہ یہ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں ، تمہیں دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ تم پڑھنے لکھنے والے آدمی ہو سکتے ہو ، اب بے مطلب کا ڈھونگ کرکے کیا حاصل ۔ ہمارےبعض اساتذہ تھے وہ بجا طور پر فخریہ بیان کرتے تھے کہ وہ پڑھانے کےلیے کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہوتا تھا " بھلا اس چھوٹی سی کتاب کے پڑھانے کے لیے مجھے مطالعے کی ضرورت ہوگی "  اور ہم طلبہ ایسے اساتذہ کی صلاحیت کا لوہا مانتے تھے ۔  اپنے کمروں میں ان کی صلاحیتوں کا چرچا کرتے تھے ۔ ہم جب مدرسے سے یونیورسٹی پہنچے تو وہاں بھی ہمارے چند بڑے پروفیسران ایسے ہی تھے جو اس لیے بڑے سمجھے جاتے تھے کہ انہیں پڑھانے کے لیے مطالعہ کی ضرورت نہیں پڑتی  تھی  اور تم ہو کہ جھوٹ موٹ مطالعہ مطالعہ کیے ہوئے ہو ۔ ہمارے زیادہ تر بڑے نقاد وہ ہیں جو بغیرپڑھے کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں ۔ پہلے تبصرہ لکھا جاتا ہے اور پھر کتاب پہنچا دی جاتی ہے ۔مولانا صاحب ! کتابی کیڑا بننے سے ویسے بھی کیا ملنے جارہا ہے ۔  نکمے لوگ کتاب پڑھتے ہیں ورنہ جن کے پاس کام ہے وہ کام میں مصروف رہتے ہیں ۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں انہیں صرف  ان کے مصنف پڑھتے ہیں اور کوئی نہیں پڑھتا ۔ نصابی کتابیں پڑھنے کی مجبوری ہوتی ہے کہ امتحان میں پاس ہونا ہوتا ہے وہاں بھی لوگ ما شاءاللہ راستے نکال لیتے ہیں جہاں سے پڑھے بغیر پاس ہونے کا مرحلہ طے ہو جاتا ہے ۔  جتنے رسائل و جرائد چھپ کر شائع ہوتے ہیں سب کے خریدار اور قاری وہی ہوتے ہیں جن کی ان رسالوں میں کوئی تحریر چھپی ہوتی ہے ۔ایک مرتبہ ایک ادبی رسالے میں میری ایک تحریر چھپی ، بک اسٹال پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک صاحب میری تحریر پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ، میں اندر ہی اندر بہت خوش ہور ہا تھا ،میں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے فلاں رسالہ چاہیے ۔دکاندار نے مجھے رسالہ دیا میں ادھرادھر سے رسالہ دیکھنے لگا ، پانچ منٹ بعد  وہ صاحب میرے پاس آئے اور کہا : یہ تحریر شاید آپ ہی کی ہے ، تصویر آپ سے ملتی جلتی ہے ، اچھا لکھا ہے آپ نے ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں اور خوش ہوا کہ چلو کوئی تو ایسا ہے جو تحریریں پڑھتا ہے لیکن معا بعد یہ خوش فہمی ہرن ہوگئی ۔ انہوں نے ایک دوسرا صفحہ پلٹا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا : یہ خاکسار کی تحریر ہے ۔ میں نے دیکھا اور ہوں کہا اور پھر سے رسالے کو ادھر ادھر سےدیکھنے لگا ۔ کچھ دیر تو انہوں نے انتظار کیا اور پھر ایک دم سے بھڑک گئے : خاصے بدتمیز آدمی ہیں آپ ۔ ارے بھئی تحریر کےحوالے سے کچھ تو کہنا چاہیے تھا ، یہ کیا کہ ہوں کہ کر رہ گئے ۔ لگتا ہے کہ ادبی ذوق سے کوڑے ہیں ، کیسے اس طرح کے رسالوں میں چھپ جاتے ہیں ، مروت نام کی بھی کوئی چيز نہیں ۔ میں نے کہا : حضور ! ابھی تو میں نے آپ کی تحریر پڑھی ہی نہیں تو کچھ کیسے بولتا ۔ پڑھوں گا تو اپنی رائے سے ضرور نوازوں گا ، اڈیٹر کو خط لکھوں گا ۔ اس پر انہوں نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور یہ کہ کر چلتے بنے : اور جیسے میں نے آپ کی تحریر پڑھ کر کہا تھا کہ آپ اچھا لکھتے ہیں !!!
ہمارے ایک دوست تھے ، عربی زبان و ادب سے ایم اے کررہے تھے ، انہوں نے طہ حسین کے اسلوب تحریر کی خصوصیات پر ایک تحریر یاد کرلی تھی ، اسی تحریر کو نام کے پھیر بدل سے وہ عقاد ، احمدامین ، منفلوطی ، شوقی ضیف ، بارودی اور شکری سب کے لیے استعمال کرتے تھے اور ہمیشہ اچھا نمبر پاتے تھے ، وہ ہمیں یاد کرتے دیکھتے تو ہنستے تھے اور کہا کرتے تھے : تمہیں فارمولہ نہیں آتا ، پڑھائی کرنے سے آدمی بڑا نہیں بنتا ، ٹرک اپنانے سے بنتا ہے !!
اب تم اگر اس لیے پڑھ رہے ہو کہ کہیں سے کچھ کاپی پیسٹ کرنا ہے تو اچھی بات ہے ، اس دور کے حساب سے مصنف بننے کا یہ کارگر اور بہتر طریقہ ہے ورنہ اگر اس لیے پڑھ رہے ہو کہ صلاحیت بڑھے گی تو یہ کار زياں فضول ہے ۔ یہ دور سائنس و ٹکنالوجی کا ہے ، ہنر کا دور ہے ، علم کا نہیں ، انجینیئرنگ اور میڈیکل کیجیے تو مانگ بڑھے گی اور یوں کتابیں پڑھیے گا تو نکموں کی تعداد بڑھے گی اور کچھ ہوگا نہیں ۔ میں نے آج تک کسی اچھے کامیاب آدمی کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔تم کسی بھی مصنف کی  ایک کتاب پڑھ لو اور اس کے بعد اس کی ساری کتابیں اسی ایک کتاب کے ارد گرد گھومتی نظر آئے گی ، کیوں کہ مصنف کو پتہ ہے کہ لوگ پڑھیں گے کب کہ انہیں پتہ چلے گا ، کتابیں مختلف ناموں سے مارکیٹ میں لاتے جاؤ اور کئی کئی کتابوں کے مصنف کہلاتے جاؤ ۔ معاوضہ دینے والے ادبی جریدوں میں لکھنے والے بہت سے سمجھدار لوگ وہ ہیں جو اپنے ایک مضمون کی سرخی بدل کر کم از کم دس رسالوں میں مختلف اوقات میں ایک ہی مضمون کو چھپواتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں ، کوئی پکڑ نہیں پاتا کہ پڑھتا کون ہے کہ پکڑے  ؟
اور ہاں مصنف مؤلف بننے کا ہی شوق ہے تو بھی بڑے آدمی بنو ، پیسے کماؤ پھر دیکھو دس پڑھے لکھے آگے اور دس پیچھے ہوں گے اور یوں دیکھتے دیکھتے مختلف اور متنوع کتابوں کے مصنف بن جاؤگے ۔  پھر کچھ پیسے خرچ کرکے سیمینار کرالینا ، بڑے بڑے پروفیسران تھوڑے بہت پیسوں پر کیا کیا لقب دینے کو تیار ہو جائیں گے اور یوں ادبی و علمی دنیا میں تمہاری دھوم مچ جائے گی ۔ اس لیے میری مانو او ریہ پڑھنے کا بے مطلب مشغلہ چھوڑو اور میرے نسخے آزماتے جاؤ اور شہرت و عزت کی سیڑھی عبور کرتے جاؤ ۔
  میں اپنے  دوست کو دیکھ رہا تھا ، ان کی باتیں سن رہا تھا اور مجھے ان کے الفاظ کے پیچھے چھپے درد کی ٹیس محسوس ہوتی جارہی تھی ۔
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS