ilm Hmare Liye kitni Ahmiyat Rakhti Hai?
ILm se Hme Kya Kya Fayde Hai?
Ilm Jaisi Nemat Hmare Liye Kitni Mufid Hai?
قصہ تخلیق آدم علیہ السلام سے ماخوذ علم سے متعلق چند فوائد:
علم سب سے عظیم نعمت ہے، انسان علم سے بےنیاز نہیں ہو سکتا، اس کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علم کی ضروت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمانے کے بعد سب سے پہلے علم سے نوازا۔
علم انمول رتن ہے اور اس سے انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کو اللہ کے فضل کے بعد علم ہی سے فرشتوں پر شرف وفضیلت کا مقام حاصل ہوا جب اللہ تعالی نے چیزوں کا نام پوچھا تو فرشتے نہیں بتا پائے اور آدم علیہ السلام سے نے بتا دیا۔
#علم ہی انسانیت کا معمار اور اس کی صلاح وفلاح اور امن وامان کا ضامن ہے۔ کیونکہ جب فرشتوں نے پوچھا کہ انسان تو قتل وغارت گری اور فتنہ وفسا برپا کرےگا تو اس کو بنانے اور زمین پر بسانے کی کیا حکمت ہے؟ تو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم سے نواز کر گویا اپنی حکمت بھی ظاہر کر دی اور مسئلے کا حل بھی بتا دیا۔
#طالب علموں کو چاہئے کہ علماء سے علم حاصل کریں، محض ذاتی مطالعے پر کلی اعتماد نہ کریں، اہل علم کی رہنمائی سے نصوص کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، منہج سلامت رہتا ہے اور فکر ونظر میں کجی یا انحراف پیدا نہیں ہوتا۔ فرشتوں نے تخلیق انسانی کی حکمت کے بارے میں اللہ سے استفسار کیا اور آدم علیہ السلام کو بھی چیزوں کے نام اللہ ہی سے معلوم ہوئے، گویا علم اخذ کرنے میں دونوں میں سے کسی نے اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کیا۔
#علم غیب صرف اللہ کا خاصہ ہے، اللہ کے سوا کوئی اور غیب نہیں جانتا خواہ وہ نبی یا فرشتہ ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر فرشتوں کو غیب کا علم ہوتا تو تخلیق انسانی کی حکمت کے بارے میں اللہ سے استفسار ہی نہیں کرتے، اور اللہ ان سے یہ نہیں کہتا کہ "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے" اور جب اللہ نے ان سے پوچھا کہ "ان چیزوں کے نام بتائو" تو وہ بتا دیتے اور یہ نہیں کہتے کہ "ہم نہیں جانتے، ہم تو بس اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں بتا رکھا ہے، علم وحکمت والا تو بےشک تو ہی ہے" اور پھر آخر میں اللہ نے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ "صرف میں ہی آسمانوں اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تمہارا ظاہر وباطن بھی صرف میں جانتا ہوں۔" اور آدم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کے نام تب معلوم ہوئے جب اللہ نے بتایا۔
#کمال علم بھی ہر کمال کی طرح صرف اللہ سبحانہ تعالی کے لئے ہے اور انسان ہی نہیں فرشتے کو بھی بہت ہی کم اور محدود علم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ نے بھی فرشتوں سے کمال علم کی نفی کی اور خود فرشتوں نے بھی اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا، لہذا انسان کو بھی چاہئے اپنے علم کے تئیں کسی طرح کی خوش گمانی اور کبر وتعلی کا اظہار نہ کرے۔
#علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہئے اور بلا علم کسی بھی معاملے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئے خاص طور سے دینی وشرعی معاملات میں جو کہ خالص اہل علم کا میدان ہے جہاں غیر اہل علم کو دخل دینے کی شریعت نے قطعا اجازت نہیں دی ہے، عالم دین کی بھی یہی شان ہوتی ہے کہ جس مسئلے میں اسے علم نہیں ہوتا اس میں وہ توقف اختیار کر لیتا ہے اور کہ دیتا ہے کہ میں نہیں جانتا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہاں فرشتوں کو دیکھئے کہ انہوں نے مقصد تخلیق انسانی کے بارے میں علم نہیں تھا تو اللہ سے استفسار کیا اور چیزوں کے نام بتانے کے معاملے میں بھی لا علمی کا اظہار کیا اور کہ دیا کہ اے اللہ ہم نہیں جانتے تو ہی جانتا ہے۔
#علم حاصل کرنے کے بعد خود اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دینا واجب ہے۔ جب آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام معلوم ہو گئے تو اللہ نے حکم دیا کہ فرشتوں کو ان کے نام بتا دو اور انہوں نے بتا دیا۔
#نوٹ: تخلیق آدم علیہ السلام کا قصہ جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورہ بقرہ 30-33)
(افتخار عالم مدنی)
علم سب سے عظیم نعمت ہے، انسان علم سے بےنیاز نہیں ہو سکتا، اس کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علم کی ضروت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمانے کے بعد سب سے پہلے علم سے نوازا۔
علم انمول رتن ہے اور اس سے انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کو اللہ کے فضل کے بعد علم ہی سے فرشتوں پر شرف وفضیلت کا مقام حاصل ہوا جب اللہ تعالی نے چیزوں کا نام پوچھا تو فرشتے نہیں بتا پائے اور آدم علیہ السلام سے نے بتا دیا۔
#علم ہی انسانیت کا معمار اور اس کی صلاح وفلاح اور امن وامان کا ضامن ہے۔ کیونکہ جب فرشتوں نے پوچھا کہ انسان تو قتل وغارت گری اور فتنہ وفسا برپا کرےگا تو اس کو بنانے اور زمین پر بسانے کی کیا حکمت ہے؟ تو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو علم سے نواز کر گویا اپنی حکمت بھی ظاہر کر دی اور مسئلے کا حل بھی بتا دیا۔
#طالب علموں کو چاہئے کہ علماء سے علم حاصل کریں، محض ذاتی مطالعے پر کلی اعتماد نہ کریں، اہل علم کی رہنمائی سے نصوص کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، منہج سلامت رہتا ہے اور فکر ونظر میں کجی یا انحراف پیدا نہیں ہوتا۔ فرشتوں نے تخلیق انسانی کی حکمت کے بارے میں اللہ سے استفسار کیا اور آدم علیہ السلام کو بھی چیزوں کے نام اللہ ہی سے معلوم ہوئے، گویا علم اخذ کرنے میں دونوں میں سے کسی نے اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کیا۔
#علم غیب صرف اللہ کا خاصہ ہے، اللہ کے سوا کوئی اور غیب نہیں جانتا خواہ وہ نبی یا فرشتہ ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر فرشتوں کو غیب کا علم ہوتا تو تخلیق انسانی کی حکمت کے بارے میں اللہ سے استفسار ہی نہیں کرتے، اور اللہ ان سے یہ نہیں کہتا کہ "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے" اور جب اللہ نے ان سے پوچھا کہ "ان چیزوں کے نام بتائو" تو وہ بتا دیتے اور یہ نہیں کہتے کہ "ہم نہیں جانتے، ہم تو بس اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں بتا رکھا ہے، علم وحکمت والا تو بےشک تو ہی ہے" اور پھر آخر میں اللہ نے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ "صرف میں ہی آسمانوں اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تمہارا ظاہر وباطن بھی صرف میں جانتا ہوں۔" اور آدم علیہ السلام کو بھی ان چیزوں کے نام تب معلوم ہوئے جب اللہ نے بتایا۔
#کمال علم بھی ہر کمال کی طرح صرف اللہ سبحانہ تعالی کے لئے ہے اور انسان ہی نہیں فرشتے کو بھی بہت ہی کم اور محدود علم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ نے بھی فرشتوں سے کمال علم کی نفی کی اور خود فرشتوں نے بھی اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا، لہذا انسان کو بھی چاہئے اپنے علم کے تئیں کسی طرح کی خوش گمانی اور کبر وتعلی کا اظہار نہ کرے۔
#علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہئے اور بلا علم کسی بھی معاملے میں رائے زنی نہیں کرنی چاہئے خاص طور سے دینی وشرعی معاملات میں جو کہ خالص اہل علم کا میدان ہے جہاں غیر اہل علم کو دخل دینے کی شریعت نے قطعا اجازت نہیں دی ہے، عالم دین کی بھی یہی شان ہوتی ہے کہ جس مسئلے میں اسے علم نہیں ہوتا اس میں وہ توقف اختیار کر لیتا ہے اور کہ دیتا ہے کہ میں نہیں جانتا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہاں فرشتوں کو دیکھئے کہ انہوں نے مقصد تخلیق انسانی کے بارے میں علم نہیں تھا تو اللہ سے استفسار کیا اور چیزوں کے نام بتانے کے معاملے میں بھی لا علمی کا اظہار کیا اور کہ دیا کہ اے اللہ ہم نہیں جانتے تو ہی جانتا ہے۔
#علم حاصل کرنے کے بعد خود اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دینا واجب ہے۔ جب آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام معلوم ہو گئے تو اللہ نے حکم دیا کہ فرشتوں کو ان کے نام بتا دو اور انہوں نے بتا دیا۔
#نوٹ: تخلیق آدم علیہ السلام کا قصہ جاننے کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورہ بقرہ 30-33)
(افتخار عالم مدنی)
No comments:
Post a Comment