8 Rakaat Taraweeh Ya 20 Rakaat Taraweeh Dono Me Kaun Sahi Hai?
آٹھ رکعات نماز تراویح پر ناقابل تردید دلائل پڑھیے۔
الحمد لله و حده و الصلوة والسلام على من لانبي بعده أما بعد
ہمارے امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
دلیل نمبر ➊
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعواالناس العتمة إلى الفجر إحدي عشرة ركعة يسلم بين كل ركعتيں ويوتر بواحدة إلخ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔“ الخ [صحيح مسلم : 254/1 ح 736]
دلیل نمبر ➋
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
ایک اعتراض :
اس حدیث کا تعلق تہجد کے ساتھ ہے ؟
جواب : تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے : [فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفص
No comments:
Post a Comment