Mangharat Riwayat Byan Karne walo ki Sza.
Kya Yah Hadees Sahi Hai ke Jis Shakhs Ki Salat (Namaj) Qaza Hui ho to O Ramzan Ke Aakhiri Jume Ke din Chaar Nafil Ek Salam Ke Sath Padhega to usne ager 700 saalo ki qaza Hogi To uska Bhi Kaffara Ho Jayega?
بسم الله الرحمن الرحيم
*سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ایک موضوع حدیث کی حقیقت*
*تحریر : مولانا محمد سمیع اللہ وانی حفظه الله تعالى*
اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں قران مجید سورہ حجرات ( آیت : 6) میں حکم دیا ہے:
*"ياَيُهَا الَّذِيْنَ آمنوا إنْ جَاءَكُمْ فَاسقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْا أن تصيبوا قوماً بجهالةٍ فتصبحوا على ما فَعَلْتُمْ ندمِيْنَ "*
ترجمہ : *"اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ! مبادا کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو پھر تم اپنے کئے پر پچھتاؤ گے "*
(سورة الحجرات: آیت :6 )
اس سے پتہ چلا کہ کسی بھی واقعے کو بغیر تحقیق یا تبصرے کے بیان کرنا یا اس پر عمل پیرا ہونا واضح طور سے ہمارے لئے دنیا اور آخرت کے نقصان اور پچھتاوے کا باعث ہے خاص طور سے تب جب اس واقعے کا بیان کرنے والا ہمارے نزدیک کوئی فاسق اور بدکردار انسان ہو ! چہ جائے کہ کوئی ایسا انسان ہو جس کو ہم جانتے ہی نہیں ہوں !!!
دورِ حاضر میں ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آله وسلم کی طرف ایسی احادیث منسوب کی جاتی ہیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور جن کو ہمیشہ بدخواہانِ اسلام اور دشمنانِ مسلمین نے فروغ دیا ہے اور ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے !
ان جیسے واضعینِ حدیث کے بارے میں خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
*" من كذب علي فليتبوأ مقعده من النار "*
ترجمہ: *"جس نے مجھ پر حدیث گھڑلی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے "*
(صحیح بخاری : حدیث نمبر:107 )
دوسری روایت میں ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی :
*"من يقل عليَّ ما لم اقل فليتبوأ مقعده من النار "*
ترجمہ: *"جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے "*
(صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 109 )
ثابت ہوا کہ حدیث بنانے والا یا کسی بھی بات اور قول کو بغیر کسی تحقیق و تبصرے کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے جس کا انجام جہنم کا عذاب ہے ۔۔۔ العياذ بالله.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سختی کے ساتھ ان من گھڑت احادیث اور ان کے گھڑنے والوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہیں جیسا کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں اس حدیث کو یوں روایت کیا ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
*( يكون في آخر الزمان دجالون كذابون ياتونكم من الأحاديث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤكم ، فاياكم و اياهم لا يضلونكم و لا يفتنونكم )*
ترجمہ: *" آخری زمانے میں ایسے دجال اور جھوٹے ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے باپ دادا نے ، تو ایسے معصیت کاروں سے دور رہنا تاکہ وہ نہ تو تمہیں گمراہ کریں اور نہ تمہیں فتنے میں ڈالیں !"*
(مقدمہ صحیح مسلم ، حدیث نمبر : 7 )
تو ثابت ہوا کہ گھڑی ہوئی جھوٹی احادیث امت میں گمراہی اور فتنے کا کے اسباب میں ایک بڑا سبب ہے اور عصر حاضر میں ہم جو نت نئی بدعات و خرافات کے کا جال دیکھتے ہیں اور جنہیں مسلمان سنت کی حیثیت سے اور عبادت کی نیت سے سرانجام دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہی موضوع اور من گھڑت احادیث ہیں جیسا کہ علماء محدثین اس بات سے بخوبی واقف ہیں!
آج کل سوشل میڈیا پر ایسی ہی ایک حدیث بہت زور و شور کے ساتھ شیئر کی جارہی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں :
*جس شخص کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور تعداد معلوم نہ ہو ، تو وہ رمضان کے آخری جمعہ کے دن چار نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھے ، ہر نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی سات بار اور سورہ کوثر پندرہ بار پڑھے ! اگر سات سو سال کی نمازیں بھی قضا ہوئی ہوں تو اس کے کفارے کےلئے یہ نماز کافی ہے*
*تجزیہ* : تو عرض یہ ہے کہ اس حدیث کا وجود ذخیرہ احادیث کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے اسے نہ اصحاب صحاح نے روایت کیا ہے اور نہ ہی اصحاب سنن نے ، حتی کہ کسی ضعیف سند سے بھی یہ حدیث کتبِ احادیث سے مفقود ہے ! ایسا لگتا ہے کہ یہ بنائی ہوئی حدیث آج کے دور ہی ایجاد ہے جسے کسی نے قضائے عمری کے طور پر کافی جاننے کے لئے بنایا ہے! اور اس من گھڑت حدیث کا متن بھی بہت نکارت لئے ہوئے ہیں جو دو امور سے واضح ہوجاتی ہے :
1۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سات سو سال کی نمازیں بھی قضا ہوئی ہوں تو یہ نماز اس کے لئے کافی ہے جب کہ شرعی طور سے حق بات یہ ہے کہ جس شخص سے جان بوجھ کر نماز فوت ہوجائے اس کی کوئی قضا نہیں ہوتی بلکہ اس پر توبہ و استغفار واجب ہے ۔
2۔ اس میں نماز میں قرات کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ واضح مسنون طریقہ کے برخلاف ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی سات بار اور سورہ کوثر پندرہ بار پڑھنا ۔۔۔
میری نظر میں اس موضوع حدیث کا ذکر نہ متقدم محدثین نے اپنی کتب میں کیا ہے اور نہ متاخرین نے !
والله أعلم بالصواب و هو الهادي الى سبيل الرشاد.
اللہ ہمیں قرآن اور صحیح احادیث اور خالص سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ آمین یا رب العالمین ۔
No comments:
Post a Comment