بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
العلماء ورثة الأنبياء!
العلماء ورثة الأنبياء کے تحت ہی یہ تحریر لکھ رہا ہوں ہمیں علماء کی عزت اور ان کا دفاع بہت محبوب ہے۔
حدیث رسول ﷺ ہے :
عن ابی دردا عن النبی ﷺ قال:
"مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَة"
(سنن الترمذی ، بتحقیق احمد شاکر 4/327 ، رقم الحدیث 1931 والحدیث صحیح باتفاق العلماء)
"صحابی رسول ﷺ ابودرداءؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا ،جو اسے عیب دار کرتی ہے ،اللہ قیامت کے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کردے گا"
اللہ رب العزت جب کسی کو دینی و دنیاوی اعتبارسے ترقی یا عمدہ رتبہ عطاء فرما دیتا ہے تو کچھ لوگ بلاوجہ ہی حسد اور بغض کا شکار ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے فضول اعتراضات اور پروپوگینڈے شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارا شیخین سے کوئ ذاتی تعلق نہیں نہ کبھی ملاقات کا موقع ملا بس پچھلے سال شیخ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ کی پروفائل کو مسلسل فالو کر رہا تھا ان کی حق کے لیے خدمات دیکھ کر ساتھ ساتھ دل سے دعا بھی نکلتی تھی کہ کسیے اخلاص بھرے جزبے سے کام کر رہے ہیں شیخ۔
اس اثناء میں شیخ سے سلام دعا ہوئ، مودودی صاحب کے بارے تبادلہ خیال ہوا الحمدللہ شیخ کا موقف جان کر بہت خوشی ہوئ کہ شیخ حق بات کرنے میں سکوت اختیار نہیں کرتے نہ ہی شرماتے ہیں۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے تک محقق شہیر علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفطہ اللہ کا نام سنا تھا اور ایک دو جگہ ان کی تحریر پڑھی تھی لیکن جب شیخ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ سے رابطہ ہوا تو تو انجینیئر مرزا جہلمی کزاب کے متعلق شیخین کے دروس کو تسلسل سے سننے کا موقع ملا اور دلی خوشی ہوئ اور جب بھی موقع ملے تو دعاوں میں بھی شیخین کو یاد رکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ایک بہت بڑا فتنہ شیخین کے ہاتھوں تھما دیا ہے۔
اس کی جزاء اللہ رب العزت ہی عطاء فرمائیں گے شیخین کو ۔
ان شاءاللہ۔
انتہائ افسوس کا مقام ہے کچھ لوگ شیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ جیسے حق گو، دو ٹوک موقف رکھنے والے عالم کواخلاقی حوالے سے متشدد ہونے کا طعنہ دیتے ہیں یقیناً وہ ماضی قریب اور آپسی حزبی رنجشوں کو بھول کر ہی ایسی بات کرتے ہیں یا تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ انسان تھے ہمیں بھی یزید رحمہ اللہ والے موقف پر اختلاف ہے مگر ہم نے کبھی اس کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی نہ ہی یہ اصول دین کا مسلہ ہے لیکن سچی بات تو یہی ہے کہ ہمیں شیخ کی تحریرات سے ان کے اندر منہجی غیرت اور مسلک اہل حدیث سے شدید محبت نظر آتی ہے ۔
ان کی بہت خدمات ہیں اگر کوئ اختلاف بھی ہے تو اسے نظر انداز کیا جائے نہ کہ فوتشدہ عالم کی ذات کے متلعق کوئ بات کی جائے لیکن کچھ لوگ عادت اور فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔
ایسے لوگ اب شیخین یعنی امن پوری حفظہ اللہ اور نور پوری حفظہ اللہ کے متعلق پروپاگینڈا کر رہے ہیں کہ جی وہ اخلاق کے ایسے ہیں ویسے ہیں ان کا علم یہ ہے وہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ حتی کے تعصب ،بغض اور کینہ کی وجہ سے شیخین کو تکفیری تک کہہ دیتے ہیں۔انتہائ افسوس۔
رہی ان کے اخلاق کی بات تو ہم کچھ شخصیات کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئے ہیں ایک شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ دفاع عقیدہ سلف کے مولف ان سے ملاقات بھی ہوئ تو بہت پیار سے ملے اور انتہائ محبت اور شفقت سے ہمارے سوالات کا جواب دیا نیز ان کو جب فون بھی کیا تو بات بات پر دعائیں اور پیار سے علمی نکات و جواب سمجھاتے رہے۔
۔اسی طرح فضیلتہ الشیخ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کو صرف ایک دفعہ فون کیا گو کہ نہ شیخ ہمیں جانتے ہیں نہ کبھی ملاقات ہوئ وہ ایک کتاب کا پوچھنا تھا تو شیخ نے اس قدر محبت سے بات کی اور اتنی دعائیں دی کہ واللہ میرا دل خوش ہو گیا کہ شیخ تو بات کم اور دعائیں اور پیار زیادہ دیتے ہیں۔اسی طرح ہمیں جہلم جامعہ اثریہ کا طالب علم ملا تو اس نے بھی بتایا کہ شیخ بہت پیار اور اخلاق والے انسان ہیں وہ طلبہ کو بسا اوقات ایسے مخاطب کرتے ہیں کہ ہمیں شرم آتی ہے کہ ہم ابھی اس قابل نہیں علمی اعتبار سے کہ شیخ ہمیں اتنی عزت سے مخاطب کرتے ہیں۔
اس بات کا گواہ Shumail Nawab بھی ہے وہ میرے ساتھ تھا۔
اس کے علاوہ مجھے شیخ امن پوری حفظہ اللہ کے ایک شاگرد ارسلان زبیری حفظہ اللہ سے ملاقات کا موقع ملا تو بھائ کا اخلاق اور شخصیت دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ماشاءاللہ شیخ امن پوری حفظہ اللہ کے oi شاگرد ہیں شیخ اپنے طلبہ کی تربیت کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔
اسی طرح محمد حماد بھائ ہیں اللہ جزائے خیر دے ایک پیار کرنے والے مخلص بھائ ہیں لیکن میری ان سے دو دفعہ ناراضگی ہوئ تو انھوں نے دونوں دفعہ خود سے پہل کی مجھ سے معافی مانگی اور صلح کی یہ ان کی اعلی ظرفی اور شیخین کی تربیت کا اثر نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟؟
البتہ مجھے زیادہ گفتگو کا موقع شیخ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ سے ملتا ہے ایک تو شیخ محترم وقت دیتے ہیں دوسرا بہت اچھے سے کوئ سوال ہو تو اس کا جواب سمجھاتے ہیں،شیخ حفظہ اللہ کی زبان پر محترم بھائ, پیارے بھائ کے الفاظ رہتے ہیں اور تسلی سے سمجھاتے ہیں اور وقت بھی دیتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کچھ پوچھا ہو تو انھوں نے دیر بعد جواب دیا ہو،اسے اخلاق حسنہ اور شیخ امن پوری حفظہ اللہ کی تربیت نہ کہوں تو کیا کہوں؟؟
ہمارے لیے تو سب علماء قابل محبت اور واجب الاحترام ہیں علماء حق کی عزت ہمیں اپنے بڑوں کی طرح عزیز ہے ہم علماء کے درمیان تفریق کے قائل نہیں۔
اس کے علاوہ بھی اور چند علماء سے گفتگو اور ملاقات کا موقع ملا تو سب کو انتہائ مہربان بزرگ اور انتہائ مشفق پایا جیسے شیخ القرآن و الحدیث ابو محمد امین اللہ پیشاوری حفظہ اللہ سے ملاقات کا موقع ملا تو ان کو انتہائ سادہ طبیعت تکلفات سے دور اور مشفق انسان پایا،ایسے ہی مفسر القرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئ تو شیخ محترم نے انتہائ شفقت کا مظاہرہ کیا ان کے چہرے پر ماشاءاللہ ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے ۔ایسے ہی ہمارے قابل احترام شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ جن میں شیخ العرب و العجم امام ابو محمد سید بدیع الدین شاہ الرشادی رحمہ اللہ کا عکس اور رنگ جھلکتا ہے ان سے بھی مصافحہ کا موقع ملا اور سلام دعا ہوئ تو انتہائ محبت و اخلاص پر مبنی پایا۔
میری شیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ سے بات چیت ہوئ تو شیخ نے بہت دعائیں دی اور کبھی کچھ پوچھنا ہو تو شیخ تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔۔۔ایک دفعہ کسی مسلے پر میں نے شیخ سے عرض کیا مجھے شیخ محترم آپ کی رائے سے اتفاق نہیں تو شیخ نے اتنے پیار بھرے لہجے میں کہا کوئ بات نہیں بھائ اختلاف رائے کا آپ کو حق حاصل ہے اور سچی بات ہے شیخ انور حفظہ اللہ تو پیر محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پوتے ہیں سو اس وجہ سے بھی ان سے بہت محبت ہے ہمیں۔
ایسے ہی اسلاف کی یاد تازہ کرنے والے حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ سے ملاقات کا موقعہ ملا تو شیخ کو ایک انتہائ سادہ طبیعت اور منکسر المزاج انسان پایا۔
اسی طرح جنوبی پنجاب کے علم دوست اور اسلاف سے گہری محبت رکھنے والی شخصیت ہمارے پیارے بھائ شیخ حمید اللہ خان عزیز حفظہ اللہ سے جب بھی گفتگو ہوتی ہے دل خوش ہو جاتا ہے ان کی آواز اور اخلاق سے ماشاءاللہ انتی دعائیں دیتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہیں کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اور آخر میں ہمارے پیارے محترم شیخ تنزیل صدیقی الحسینی حفظہ اللہ کا ذکر ہو جائے شیخ ماشاءاللہ ایک علمی و ادبی یعنی محدث الامام شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ کی آل اولاد میں سے ہیں اور ہمارے لیے بہت ہی قابل احترام شخصیت ہیں ،موصوف میری نظر میں مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے بعد جماعت اہل حدیث کے لیے ایک بہترین علمی ،ادبی اور جماعتی تاریخ کو محفوظ کرنے والی شخصیت ثابت ہوئے ہیں جب بھی ان سے گفتگو کا موقع ملتا ہے انتہائ تسلی بخش جواب دیتے ہیں اور عمدہ طریقے سے سمجھاتے ہیں۔
خیر بات ذرا طویل ہو گئ باقی علماء کرام کا ذکر خیر کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ ہمیں کوئ من پسند یا مخصوص علماء سے وابستہ نہ سمجھیں ہمارے لیے سب ہمارے بڑے ہیں اور ہمارے پیارے بزرگ ہیں۔
اللہ ہمارے علماء کو ،صحت،تندرستی،سلامتی ،عافیت اور ایمان والی لمبی زندگی دے ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
میری تحریر پڑھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ اپنی اولاد کو جیسے اپنے بڑوں کا ادب سکھاتے ہیں ویسے ہی علماء حق کے ساتھ محبت،ادب،ان کی قدر اور علماء سے وابستہ ہونے کی تربیت بھی دیں اور اصاغر سے خبردار کرتے رہیں یہ علماء حق ہی ہیں جو فتنوں میں ہمارے لیے اللہ رب العزت کی توفیق سے ڈھال بن جاتے ہیں اور ہم گمراہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔
طوالت کے ڈر سے کافی شخصیات کا ذکر خیر چھوڑ دیا ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ جو لوگ علماء کرام کے خلاف منفی پروپاگینڈا کر رہے ہیں انھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے،علماء کی غیبتیں نہ کریں ،جس مسلے میں اختلاف ہے اس کو چھوڑ دیں ان کے باقی علم سے فائدہ اٹھائیں۔
تصویر میں اپنا نام نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر محترم تقی الدین حفظہ اللہ بھائ نے کہا کہ اپنا نام لکھو تحریر کو مجہول نہ رکھو۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مالک المک ہمیں اس پرفتن دور میں علماء حق سے وابسطہ کر دے ،دین اسلام پر استقامت دے ،اصاغر کے فتنے سے محفوظ رکھے اور خاتمہ بلایمان نصیب فرمائے اسی مبارک منہج پر۔
آمین یا رب العالمین۔
علم شرعی اور علمائے اہل حدیث کا خادم ریحان احمد الاثری۔
No comments:
Post a Comment