مجھے طلاق چاہیے
ساگر تیمی
یہ تیسرا خط تھا ، جمیل بہت پریشان تھے ، انہیں معلوم تھا کہ طلاق کتنی بڑی نحوست بن جاتی ہے لیکن رابعہ کا تین مہینوں میں یہ تیسرا خط تھا اور اب جمیل کو یہ لگنے لگا تھا کہ شاید اب اسی میں بھلائی ہے کہ طلاق ہو جائے ۔ خط بھی کیا تھا ، جیسے درد کا سلگتا ہوا شعلہ تھا ، آہوں کی لپٹیں تھیں اور کسک کا اٹھتا ہوا دھواں ۔ جمیل کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں ۔
" قابل احترام مامو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ آپ اچھے ہوں گے ۔
مامو جان ! میں آپ کو بالکل پریشان کرنا نہیں چاہتی لیکن کیا کروں میں بہت مجبور ہوں ، زندگی کا یہ سفر اب کٹے نہیں کٹتا ۔ میں بہت چاہتی ہوں کہ آپ کی نصیحت پر عمل کروں اور طلاق لینے کا ارادہ بالکل چھوڑ دوں لیکن ایسا ہو نہیں پاتا ۔ میں سارے اسباب آپ سےبیان بھی نہيں کرسکتی لیکن یہ ضرور ہے کہ زندگی میرے لیے کسی بڑے بھاری پتھر سے کم نہیں جس کے نیچے میں دب کر رہ گئی ہوں ، اگر یہ پتھر نہ ہٹا تو میرا دم گھٹ جائے گا ۔ میں مر جاؤں گی ۔ "
محفل میں خاندان اور رشتے کے سارے لوگ جمع تھے ۔ آخری بار پھر جمیل نے رابعہ سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے لیکن اس نے پھر وہی جواب دیا تھا کہ اگر طلاق لینے سے بہتر موت ہے تو پھر مجھے موت ہی عزیز ہے اور یوں شاہد کو بزرگوں کے حکم کے آگے بادل نخواستہ لب ہلانے پڑے تھے ۔ طلاق ۔۔۔۔ طلاق ۔۔۔۔ طلاق
جمیل جہاندیدہ آدمی تھے ، سمجھ رہے تھے کہ اس کاانجام کیا ہونے والا ہے ۔ ادھر شاہد کی زبان سے طلاق کے الفاظ نکل رہے تھے ، ادھر رابعہ جیسے اطمینان کی سانس لے رہی تھی اور ادھر جمیل کی آنکھیں حسرت و تاسف سے بھیگی جارہی تھیں ۔
دنیا کا کاروبار بھی عجیب ہے ۔ کوئی حادثہ ہو یہ کاروبار رکتا نہیں ۔سب رفتہ رفتہ اپنی دنیا میں آباد ہوگئے ۔ شاہد کی آوارگی کے دن بھی اس ٹھیس کے بعد جیسے لد ہی گئے ۔ ایک قسم کی سمجھداری اور ذمہ داری شاہد کے اندر آ گئی ۔کتنے دن گزرے ہوں گے ؟ وہی کوئی چھ مہینے کہ شاہد ایک بار پھر دولہا بنا سہرے میں سجا تھا ، محلے کی ایک بن بیاہی خوب صورت لڑکی سے اس کی شادی ہورہی تھی لیکن اس شادی کے بارے میں لوگوں کے درمیان اس دلہن کی خوش قسمتی کا چرچا کم اور رابعہ کی بدقسمتی کا چرچا زيادہ ہورہا تھا ۔ دیکھتے دیکھتے شاہد کے گلشن میں پھول کھلتے گئے اور ترقی کی منزلیں ملتی گئیں ۔
رابعہ کو اب بھی کسی کا انتظار تھا ، وہ بھی تو خوش شکل ، سمجھدار ، تعلیم یافتہ اور سلیقہ مند لڑکی تھی ۔ اس کی خوش اطواری کے اس کے پورے خاندان اور رشتے میں چرچے تھے لیکن کسی نے اس سے شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا ۔ سماج بھی ایسا کہ بغیر شادی کے کسی جوان عورت کو رہنے کب دے ۔ غریب باپ کڑھتا رہتا اور آنسو بہا تا رہتا ۔جمیل نے اس بیچ بڑی کوشش کی لیکن کہیں کوئی ڈھنگ کا آدمی شادی کو تیار نہیں ہوا ۔
قدرت کی مرضی ،جمیل کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں باہر جانا پڑا ۔ کئی سال اسے باہر ہی رہنا پڑا ۔ لگ بھگ پانچ سالوں بعد جب وہ گھر آیا تو اسے رابعہ کی یاد آئی ۔ اس نے اپنی بیوی سے استفسار کیا تو بیوی نے بتلایا کہ اس کی شادی ہوگئی ہے اور وہ فلاں گاؤں میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے ۔ جمیل کو یک گونہ خوشی حاصل ہوئی اور دوسرے دن رابعہ سے ملنے اس کی سسرال پہنچ گيا لیکن یہ کیا ؟ اس کی نظررابعہ پر پڑی اور وہ بری طرح بجھ گیا ۔ خوش شکل ، سلیقہ مند ، چست و چالاک رابعہ کے چہرے پر سنجیدگی کے گہرے آثار تھے ، اس کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹوں کی جگہ زبردستی مسکرانے کی ادا کاری تھی اور پورا وجود جیسے کہ رہا تھا کہ وہ کسی بڑے بھاری پتھر کے نیچے دب کر رہ گئی ہے ۔ کچھ لمحوں بعد اس سے بھی بڑی عمر کا ایک نحیف آدمی نمودار ہوا اور اس سے سلام کرکے مخاطب ہوا : مامو جان ! کیسے ہیں آپ ؟ کب سے آپ سے ملنے کی تمنا تھی ۔۔۔۔
جمیل کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی اور وہ آسمان کی طرف دیکھتا رہ گيا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment