*کیا عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے ؟*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مضمون نگار : مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ )
سوشل میڈیا پہ کئی دفعہ عورت کا مردوں کی امامت کرنے کی تصویر دیکھنے کو ملی مگر تصنع بھری دنیا میں اس قسم کی چیزوں پر اعتبار مشکل سے ہوتا ہے البتہ دو مواقع پر خبروں کے مطابق عورتوں کا مردوں کی امامت کا معاملہ سامنے آیا تھااور اس پرعالم اسلام کی جانب سے سخت نقد وتبصرہ بھی کیا گیا تھا۔ پہلا موقع جب افریقہ نژاد نومسلمہ ڈاکٹر امینہ ودود نے نیویارک میں سوسے زائد لوگوں کی امامت کرائی تھی جس میں مرد وعورت اور بچے شامل تھے ۔دوسرا موقع جب کنیڈا میں راہیل رازا نامی عورت نے آکسفورڈ سٹی کے ایک اسلامی مرکز میں نمازجمعہ پڑھائی تھی ، اس میں بھی عورت ومرد شامل تھے ۔ ابھی اخبارات کی سرخیوں میں ایک تیسرا موقع سامنے آیا ہے جب کسی مسلم خاتون نے مردوں کی امامت کرائی ہے ۔ خبروں کے مطابق قرآن وسنت سوسائٹی کی جنرل سیکریٹری 34 سالہ مسلم خاتون جمیتہ نے کیرلا کے مسلم اکثریتی ضلع میں عورت ومرد کی نماز جمعہ میں امامت کرائی ہے جس میں عورت ومرد کی تعداد اسی کے قریب تھی ۔
جمیتہ نے جس طرح اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور عورت کو کہیں بھی امامت کرنے سے نہیں روکا ہے ،کچھ ایسی ہی بات ڈاکٹرامینہ ودود نے بھی اپنے انٹرویو میں کہی تھی ۔ گویا کہ عورت کی امامت کرنے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عورت ومرد میں مساوات پایا جاتا ہے اور اسلام نے عورتوں کوامامت کرنے سے نہیں روکاہے ۔
اس مسئلہ کی وضاحت سے قبل یہ بات جان لی جائے کہ عورتوں کا فتنہ دنیا میں سب سے زیادہ بھیانک اور غیرمعمولی نوعیت کا ہے ۔جب کوئی فتنہ عورت جنم دے یا کوئی عورت کا فتنہ پھیلائے تو اس فتنے کے ذریعہ آنے والی تباہی کو روک پانا مشکل ترین امر ہوجا تا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما تَركتُ بَعدي فِتنَةً أضرَّ على الرجالِ منَ النساءِ(صحيح البخاري:5096)
ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہں چھوڑا۔
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے حقوق واختیارات کی رعایت کی ہے ،کہیں بھی انہیں اجر وثواب سے ، عمل ومحنت سے ، جودوسخا سے ، زہدوورع سے اور عبادت ومعاملہ سے نہیں روکا ہے مگر جس طرح اللہ نے عورت کی جسمانی ساخت اور بعض فطری اوصاف مردوں سے جداگانہ رکھے ہیں اسی طرح عبادات واحکام سے لیکر حقوق ومعاملات تک بعض مسائل میں فرق رکھا ہے جو ان کے شایان شان ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ نعرہ لگاتے ہیں اسلام دین مساوات ہے جبکہ اصل نعرہ ہونا چاہئے اسلام دین عدل ہے جیساکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔ عورت ومرد میں بعض چیزوں میں مساوات ہے اور بعض چیزوں میں اختلاف پایا جاتاہے اس لئے مکمل مساوات کا نعرہ نہیں لگایا جائے گا۔ اور جہاں تک روشن خیال مغرب زدہ لوگوں کا خیال ہے کہ عورت ومرد میں ہرقسم کی برابری ہو،عورت خودمختار ہو،عورت سربراہ ہو،عورت ہرمحکمہ ، تنظیم ، ادارہ اور جماعت میں موجود ہو، ہر کام میں مردوں کی طرح عورتوں کی نصف شمولیت ہو ۔ یہ ایک غیرفطری سوچ ہے دنیا میں شراب وکباب، رقص وسرود، اباحیت پسندی ،فحاشیت وعریانیت اور خواہشات کا ننگا ناج سب اسی سوچ کی دین ہے ۔
سربراہی صرف مردوں کا حق ہے لہذا کوئی عورت ملک وقوم کی سربراہ یا مردوں کا قائد ورہنما نہیں ہوسکتی ہے ۔ گواہی میں دو عورت ایک مرد کے قائم مقام ہے ، میراث میں مردوں کے آدھا ہے ، عورت مکمل پردہ اور مرد کے لئےصرف ناف سے گھٹنہ تک سترہے ۔مرد بیک وقت چار شادی کر سکتاہے مگر عورت ایک وقت میں صرف ایک مرد کی زوجیت میں رہے گی ۔ عورت کے لئے ریشم وسونا حلال ہے اور یہی چیز مردوں پر حرام ہے ۔ عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ، نہ ہی جماعت سے مسجدحاضر ہونا لازم ہے بلکہ اس کی افضل نماز گھر میں ہے ۔ ان سارے فرقوں کے ساتھ مردوزن میں عبادات ومعاملات کی بہت ساری چیزوں میں مساوات پایا جاتا ہے مثلا وضو، غسل، نماز ،روزہ، حج ،زکوۃ ۔ ان میں صرف بعض احکام میں فرق ہے اور اکثر چیزیں مماثل ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً(النساء:32)
ترجمہ: اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بُزرگی دی ہے ۔ مردوں کا اس میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا ، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو، یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔
یہاں ایک مسئلہ حل ہوگیا کہ عورت ومرد میں مکمل مساوات نہیں ہے ،یہی فطرت ہے جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور ساری دنیا مل کر بھی جتنی طاقت لگالے عورت ومرد میں مکمل یکسانیت پیدا نہیں کی جاسکتی ۔ حیض عورت کو ہی آئے گا مرد کو نہیں ، بچہ عورت ہی پیدا کرے گی مرد نہیں ،حمل عورت کا خاصہ ہے مرد کا نہیں اور ساخت کا جو فرق ہے اپنی جگہ مسلم ہے بڑے سے بڑا سائنس داں اس فرق کوختم نہیں کرسکتا۔مغربی ممالک میں مساوات کے علم برداروں نے کتنے مردوں کو داڑھی اگنے سے روک لیا یا کتنی عورتوں کے چہرے پر ڈارھی کے ابال اگائے ؟ کس کس چیز میں مساوات قائم کریں گے ؟ مر جائیں گے مگر فطرت کو بدل نہیں سکتے ۔اور جوسکون ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت سے ہے اسی سبب ہے کہ مرد مرد ہے اور عورت عورت۔ ہم جنس پرستی سوائے جنون وپاگل پن کے اور کچھ نہیں ۔
یہ بات نصوص سے ثابت ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کراسکتی ہےخواہ فرض ہو یا نفل مگر کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہیں کرسکتی حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی بھی امامت نہیں کرسکتی تو اجنبی عورت ،اجنبی مرد کی کہاں سے امامت کرسکتی ہے ؟۔
مردہی عورتوں کا سربراہ ہے اورجس طرح دنیاوی معاملات میں عورت مرد کا سربراہ نہیں ہوسکتی اسی طرح نماز میں بھی وہ امام وپیشوا نہیں بن سکتی ۔ مسجد میں عورتوں کی حاضری صرف مقتدی کی حیثیت سے ہوتی ہے اور عورتوں کے لئے الگ سے کوئی مسجد قائم نہیں ہوسکتی ہے ۔ مسجد میں حاضری کے مزید اصول یہ ہیں کہ جن سے فتنے کااندیشہ ہو وہ عورتوں کے لئے ممنوع ہے مثلا عطر لگاکر آنا، آواز نکالنا حتی کہ امام کی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لئے آواز نہیں نکالنا ہے بلکہ ایک ہاتھ دوسرے پر مارنا ہے۔عورتوں کا اول صف میں ہونا شر اورآخری صف میں ہونا خیرہے۔
عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ہے یہی حکم الہی اور فرمان نبوی ہے ، اس پرچودہ صدیوں سے مسلمانوں کا عمل رہا ہے جو لوگ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مساوات کا بہانہ بناکر عورتوں کے ذریعہ دین اسلام میں فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئےکہ عبادت توقیفی معاملہ ہے اس کے کرنے کی دلیل چاہئے نہ کہ نہ کرنے کی ۔اگر شریعت اسلامیہ نے عورت کو صریح لفظوں میں مردوں کی امامت کرانے سے منع نہیں کیا ہے تو کیا ہوا اسلام کی واضح تعلیمات سے روشن وعیاں ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ اس کے لئے صرف ایک حدیث کافی ہے ۔
التسبيحُ للرجالِ، والتصفيحُ للنساءِ (صحيح البخاري:1204)
ترجمہ: تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں نماز میں آواز نہیں نکال سکتی ، امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لئے جب عورت معمولی سی آواز نہیں نکال سکتی تو مکمل نماز کی امامت کیسے کرسکتی ہے ؟
مجھے حیرت ہے کہ امامت کا معاملہ خالص مسلمانوں کا ہے اور غیرمسلموں سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور سارے فقہی علماء بشمول ائمہ سلف وخلف سبھی کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ پھر کس قسم کے مسلمان عورتوں کے ذریعہ ایسا فتنہ پھیلاتے ہیں ؟ کیا ان کا کوئی مذہب نہیں یا یہ عورتیں خود ہی غیروں کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہورہی ہیں ؟ اللہ کی پناہ
امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المھذب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے عورتوں کا مردوں کی امامت پر ممانعت سے متعلق ضعیف حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ کسی عورت کے پیچھے بچے اور بالغ مرد کی نماز جائز نہیں ہے ،،، آگے لکھتے ہیں خواہ ممانعت عورت کی امامت مردوں کے لئے فرض نمازسے متعلق ہو یا تراویح سے متعلق ہو یا سارے نوافل سے ۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور سلف وخلف میں سے جمہور علماء کا ۔اور بیہقی نے مدینہ کے تابعین فقہائے سبعہ سے بیان کیا ہے اور وہ امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، سفیان ، امام احمد اور داؤد ہیں ۔ (المجموع شرح المهذب،كتاب الصلاة » فصل إمامة المرأة في الصلاة)
ام ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے قوم کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ ان کی امامت میں محلے کے مرد اور مؤذن بھی شامل ہواکرتے تھے ۔ یہ ٖغلط بیانی ہے ، ابوداؤد میں صراحت نہیں ہے مگر دارقطنی میں نساء کا لفظ وارد ہے کہ ام ورقہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس میں کوئی مرد شامل نہیں ہوتا تھا حتی کہ مؤذن بھی نہیں ۔ لہذا کسی مسلمان عورت کے لئے روا نہیں کہ وہ مردوں کی امامت کرائے ۔ کیرلا میں جو کچھ ہوا ہمیں اس پہ سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فتنہ مزید سر نہ اٹھا سکے۔
_______________________
No comments:
Post a Comment