’ شب برأت ‘‘ کی حقیقت Shab-E-Baraat ki Haqeeqat (Part 1)
قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآن و حدیث کی روشنی میں
پوسٹ نمبر :1
شعبان میں شب براءت منانے والوں میں شیعہ,سنی,(دیوبندی)، (بریلوی ) وغیرہ تقریبا سب ہی شامل ہیں اور اس رات کا سب سے زیادہ اہتمام ہوتا ہے۔ چناچہ بدعات کا ارتکاب بھی زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے اثبات و جواز کے لیے آیات قرآنی و احادیث میں تحریف کی جاتی ہے یعنی وہی کام کیا جاتا ہے جس پر یہودیوں کی پکڑ کی گئی ہے
یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہ
’’کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں‘‘ (سورۃ النساء:46)
یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہ
’’کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں‘‘ (سورۃ النساء:46)
یہ لوگ اپنی ایجاد کردہ شب براءت کے تقدس کی اہمیت کے ثبوت کے لیے سورۃ الدخان کی آیات جن کا صریحا اطلاق لیلة القدر پر ہوتا ہے ان کو من گھڑت روایات کی بنیاد پر شب براءت پر چسپاں کر دیتے ہیں پھر اس باطل موقف و نظریہ کی تائید و اشاعت کے لیے مضامین و کتابچہ چھاپے اور تقسیم کیے جاتے ہیں اور اخبارات و جرائد میں خصوصی کالم شائع کیے جاتے ہیں جن میں مختلف فضائل بتا کر لوگوں کو خلاف سنت کاموں پر اکسایا جاتا ہے۔
اس بارے میں بے سند و بے اصل روایتوں کی بنیاد پر شب براءت کا طومار باندھ دیا جاتا ہے حالانکہ اس رات کا تو صحیح احادیث میں کوئی تذکرہ ہی نہیں البتہ صوفیوں کی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے جو اس طرح کے اکاذیب و افترا سے بھری ہوئی ہے ۔ مولوی حضرات فرماتے ہیں کہ اس رات کو لیلة الردة' لیلةالبارکة' لیلة الرحمة اور لیلة العک' کہا جاتا ہے اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث میں تو ایسی کسی رات کا ذکر نہیں ہے جس کے یہ نام ہوں دراصل شب براءت ہی کو معرب کر کے یہ کار نامہ انجام دیا گیا ہے ورنہ عرب ممالک میں تو اس کا وجود نہ تھا۔
اس رات کا جنم بھومی مجوسیوں کا ملک فارس تھا اور انہوں نے بنو عباس کے دور میں اقتدار پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اپنے قدیم آتش پرستانہ عقائد و رسوم کو( islamic) کرنے یعنی اسلامی بنانے کی کوشش کی تھی اور اس رات آتش بازی کر کے انہوں نے اپنی دیرینہ خواہش بھی پوری کر لی آتش بازی ایسا شیطانی مزموم فعل ہے کہ تمام سلیم الفطرت افراد اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ ایرانی مجوسی جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ایک علیحدہ فرقہ بنا لیا ہے اس فعل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں یہ لوگ اس دن اپنے خود ساختہ امام کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں کراچی میں نیٹی جیٹی کے پل پر اس رات اس فرقہ کے لوگوں کا اژدھام ہوتا ہے وہ کاغذ کی پرچیوں پر اپنی عرضیاں لکھ کر آٹے میں لپیٹ کر سمندر میں ڈال دیتے ہیں جوان کے مزعومہ عقائد کے مطابق اُس,روپوش امام تک پہنچ جاتیں ہیں اور وہ گویا ان کی مرادوں کو پورا کر دیتے ہیں جو کہ دین کے نام پر توہم پرستی کی بدترین شکل ہے۔
مولوی حضرات اس رات میں جاگنے اور عبادت کرنے کو سنت قرار دیتے اور فرمان رسول ﷺ نقل کرتے ہیں کہ اس رات جس نے اللہ کی عبادت کی دربار الہی میں اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے خواہ وہ اپنی بلندی اور وسعتوں کے اعتبار سے پہاڑوں کے برابر کیوں نہ ہوں۔ غور فرمائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو نیکی کے حریص تھے ایسے قیمتی موقعہ کو کس طرح ضائع کر سکتے تھے لیکن کسی ایک صحیح روایت میں بھی یہ نہیں ملتا کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے اس رات شب بیداری کی ہو اور رات بھر عبادت کرتے رہے ہوں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے ’’ شب ‘‘ ( رات ) عربی کا لفظ نہیں بلکہ یہ فارسی کا لفظ ہے ۔ اسی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ شب برأت ‘‘ کا تعلق عربی یعنی اسلام سے نہیں، اگلی پوسٹس میں ہم ان شاء اللہ اس بارے میں بیان کردہ عقائد کا قرآن و حدیث سے موازنہ بیان کریں گے۔
( جاری ہے )
( جاری ہے )
No comments:
Post a Comment