*کون سی نماز کس نبی نے سب سے پہلے ادا کی؟*
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
*سوال: کیا یہ پوسٹ صحیح ہے؟*
فجر کی نماز حضرت آدم علیہ السلام نے صبح ہونے كے شکر میں پہلی بار ادا کی. کیونکہ آپ نے جنت میں کبھی رات نہیں دیکھی تھی.
ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام كی جان محفوظ رہنے کی خوشی میں پہلی بار ادا کی.
عصر کی نماز حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد پہلی بار ادا کی.
مغرب کی نماز حضرت داود علیہ السلام نے اپنی توبہ کے قبول ہونے کے بعد پہلی بار ادا کی. آپ نے نیت چار رکعت کی لیکن توبہ قبول ہونے پر تین رکعت پر سلام پھیر دیا.
عشاء کی نماز پہلی بار نبی اکرم ﷺ نے ادا فرمائی اسی لئے یہ آپ کی سب سے پسندیدہ نماز ہے. سبحان اللہ!
*جواب:* امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس طرح کی ایک روایت اپنی کتاب ”شرح معانی الآثار“ میں ذکر کی ہے اور غالب گمان ہے کہ اسی کو توڑ مروڑ کر اس پوسٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ *واضح رہے کہ یہ روایت نا ہی مرفوع ہے اور نا ہی موقوف۔*
امام طحاوی رحمہ اللہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ : إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا ، فَصَارَتِ الظُّهْرُ ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ ، فَقِيلَ لَهُ : كَمْ لَبِثْتَ ؟ فَقَالَ : يَوْمًا ، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ : أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ . وَقَدْ قِيلَ : غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا . وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
*ترجمہ:* بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب صبح کے وقت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز فجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن پھر انھوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔ اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نماز عشاء) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں۔
*(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)*
*اس روایت میں دو راوی ایسے ہیں جن کے متعلق کلمہ توثیق یا تجریح نہیں مل سکا.*
1) قاسم بن جعفر: بدر الدین عینی نے بھی اپنی کتاب ”مغانی الاخیار“ میں ان کے متعلق کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
*(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 3/461)*
2) بحر بن الحکم: اس کے متعلق بھی بدر الدین عینی نے کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
*(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 4/507)*
کچھ علماء نے اپنی کتب میں اس معنی کی ایک اور روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے ذکر کی ہے اور تقریبا سب نے رافعی رحمہ اللہ کی طرف اس کو منسوب کیا ہے کہ انھوں نے مسند شافعی کی شرح میں اس طرح کی روایت نقل کی ہے۔ چنانچہ رافعی رحمہ اللہ مسند شافعی کی شرح میں لکھتے ہیں:
فعن عائشة أنه - صلى الله عليه وسلم - سئل عن هذه الصلوات فقال: "هذه مواريث آبائي وإخواني: أما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله لي ولأمتي تمحيصا ودرجات، ونسب صلاة العصر إلى سليمان، والمغرب إلى يعقوب، وصلاة العشاء إلى يونس، وصلاة الفجر إلى آدم
*(شرح مسند شافی ط وزارة الاوقاف والشؤون الاسلاميہ: 1/253)*
رافعی رحمہ اللہ نے اس کو بلا سند نقل کیا ہے۔ البتہ انھوں نے اپنی ایک دوسری کتاب ”التدوين في اخبار قزوين“ میں اس روایت کو سند کے ساتھ مرفوعا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
قالت عائشة رضي الله عنها قلت يا رسول الله ما هذه الصلاة قالت عائشة رضي الله عنها فقال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: هذه مواريث آبائي وإخواني من الأنبياء". فأما صلاة الفجر فتاب الله تعالى على أبي آدم عند طلوع الشمس فصلى لله تعالى ركعتين شكرا فجعلها تعالى لي ولأمتي كفارات وحسنات وأما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات أما صلاة العصر فتاب الله تعالى على أخي سليمان حين صار ظل كل شيء مثله أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات وأما صلاة المغرب فبشر الله تعالى يعقوب حين سقط القرص وحل الإفطار ثم أتاه جبرئيل فبشره أنه حي مرزؤق فصلى لله تعالى ثلاث ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولامتي تمحيصا وكفارت ودراجات. أما صلاة العشاء الآخرة فأخرج الله يونس من بطن الحوت كالفرخ لا جناح له حيث اشتبكت النجوم وغابت الشفق فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارت ودرجات ثم قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: "أرأيتم لو أن نهرا على باب أحدكم فاغتسل فيه كل يوم خمس مرات هل يبقى عليه من الدرن شيء" قالوا لا يا رسول الله! قال: فهذه الصلوة يغسلكم من الذنوب غسلا۔
*(التدوين في اخبار قزوين ط دار الكتب العلميۃ: 3/379)*
*اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔*
*(لسان المیزان ط دار البشائر: 7/269)*
*تنبیہ:* اس لمبی روایت کے آخر میں جو ٹکڑا ہے وہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں موجود ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا ، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ . قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا.
*ترجمہ:* ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
*(صحیح بخاری: 528)*
واللہ اعلم بالصواب!
*کتبہ: عمر اثری عاشق علی اثری*
No comments:
Post a Comment