چَل آ اِک ایسی نظم کہوں
جو لفظ کہوں وہ ہو جائے ،
بس اشک کہوں تو اِک آنسو
ترے گورے گال کو دھو جائے ،
مَیں آ لکھوں ، تُو آ جائے ،
میں بیٹھ لکھوں ، تُو آ بیٹھے ،
مرے شانے پر سر رکھے تو
مَیں نِیند کہوں، تُو سو جائے ۔
میں کاغذ پر تِرے ہونٹ لکھوں
تِرے ہونٹوں پر مُسکان آئے ،
میں دِل لکھوں ، تُو دِل تھامے ،
میں گُم لکھوں ، وہ کھو جائے ۔
تِرے ہاتھ بناؤں پینسِل سے
پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں
کُچھ اُلٹا سِیدھا فرض کروں
کُچھ سِیدھا اُلٹا ہو جائے ۔
میں آہ لِکھوں ، تُو ہائے کرے
بے چین لکھوں ، بے چین ہو تُو
پھر میں بے چین کا ب کاٹوں
تُجھے چین زرا سا ہو جائے ۔۔
ابھی ع لکھوں ، تُو سوچے مجھے
پھر ش لکھوں ، تِری نیند اُڑے
جب ق لکھوں ، تُجھے کُچھ کُچھ ہو
مَیں عِشق لِکھوں ، تُجھے ہو جائے ۔۔ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا!
No comments:
Post a Comment