🌷یادگار سلف صالحین 🌷
تحریر : صفی الر حمٰن ابن
مسلم فیضی
نقش کیا سنہرے ہیں اپنے ان بزرگوں کے
حیف صد مگر ہم نے نقش ہی مٹا ڈالا
خاک وہ جو نازاں تھی ان کے پا تلے آکر
کیا غضب ہے ہم نے وہ خاک ہی اڑا ڈالا
تاریخ اھل حدیث کا ایک ایک ورق جس قدر روشن اور تابناک ہے اس کی مثال بس آسمان کے تاروں ہی سے دی جاسکتی ہے ، 26اور 27 جنوری کو جبیل دعوہ سینٹر ،سعودی عرب میں تاریخ اھل حدیث پر دروہ علمیہ کرایا گیا ،جس میں ھند و پاک کے علوم قرآن و سنت کا شوق رکھنے والے طلباء حاضر ہوئے ۔ استاذ فضیلة الشیخ ظفر الحسن مدنی حفظہ الله/مقیم حال شارجہ ، جو اس دور غربت میں سلف کی یادگار ہیں ، تاریخ اھل حدیث کے شاہکار ہیں ، امة مسلمہ کے غمخوار ہیں خوبیاں تو بیشمار ہیں مگر اس مرد مجاہد کی زبان سے مجاھدین اھل حدیث ، قرآن و سنت کے پاسبانوں کے کارنامے سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے جسے میں اس تحریر میں قلمبند کرنا چاہتاہوں ۔
26جنوری کو فجر کے بعد دورۂ علمیہ شروع ہوا ، شاید پورا ہندوستان یوم جمہوریہ منانے میں مشغول رہا ہوگا ، مجاہدین آزادی کی داستانیں سنائی جارہی ہوں گی ، مگر جو داستان ہم یہاں سن رہے تھے شاید کہیں نہیں بیان کی گئی ہوگی ، دہلی میں وہابیوں کا سرخیل جنہیں کچھ اپنے بیگا نے انگریزوں کا ایجنٹ کہتے ہیں ، انگریز کے زمانے میں ایک مسجد کی زمین کو لیکر ھندو مسلمانوں میں جھگڑا ہوا کیس انگریز کی عدالت میں پہونچا جج نے صلح کی رائے پیش کی اور کہا تم لوگ کسی ایک کو ثالثی بنالو جس پر تمہارا اتفاق ہو ، مسلمانوں سے کہا کہ نام پیش کرو ،انہوں نے کہاہماری نظر میں کوئی آدمی نہیں ، ھندؤں کی طرف نگاہ اٹھائی تمہاری نگاہ میں کوئی ہے جس کے کو ماننے پر راضی ہو ؟ ہندؤں نے نام لیا وھابی میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا ، جج نے مسلمان کی طرف دیکھا کہ تم لوگ راضی ہو ، مسلمانوں نے قدر تذبذب قبول کرلیا پہونچے بلانے کیلئے اور سارا ماجرا بتلایا میاں صاحب نے کہا ! میں نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے قسم کھائی ہے جیتے جی انگریز کا منہ نہیں دیکھوں گا ، انگریز کے پاس جاکر بتلایا گیا، انگریز جج کیا کرتا بیچارا ، اس کے پاس کوئی سبیل نہ دکھائی دی آخر کار اس نے کہا اچھاجاؤ ان سے کہو ٹھیک ہے میرا چہرہ مت دیکھنا الٹے پاؤں عدالت میں تشریف لاؤ ، میاں صاحب تیار ہو ئے الٹے پاؤں عدالت پہونچے جج نے مقدمہ پیش کیا ، اھل حدیثوں کے اس سرخیل نے عدل و انصاف سے پر اسلامی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کا بٹہ نہیں لگا یا ، اور کہا! یہ زمین اصل میں ھندؤں کی ہے مسلمانوں کا اس پہ کوئی حق نہیں چہ جائیکہ اس پہ مسجد تعمیر کی جائے ،اتنا سننا تھا کہ ھندو پکار اٹھے کہ عدل انصاف کے ایسے انسانی صفت فرشتے بھی دنیا میں موجود ہیں؟ ، اور تمام ھندؤں نے بیک زبان ہوکر جج سے کہا اب اس جھگڑے کو یہیں ختم کیجئے ہم اب اسی زمین پر یہ مسجد اپنے ہاتھوں سے تعمیر کریں گے--
No comments:
Post a Comment