find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Mard Hawas ka pujari hota hai magar yah aate kaha se hai?

Rapist kaise ban jata hai koi mard?
kya Rape karne wale aasman se utarate hai?
Mard Kutta hai, hawas ka pujari Wagiarah Wagiarah magar yah aate kaha se hai?
Kaise Mahaul aur Muashare me inki talim o tarbiyat hui, kaise Maa ke kokh se yah paida hua hai, Iski parwarish kaise hui hai? iska maji (past) kaisa raha hai?

ریپسٹ ____Rapist ___!!
مرد کتا ہے, مرد حرامی ہے, مرد ہوس کا پجاری ہے,‌ نہ پانچ سال کی عمر کو دیکھتا ہے, نہ پچاس سال کی تین بچوں کی ماں کو, نہ گلا گھونٹ کے سانس روکنے سے ڈرتا ہے, اور نہ سانس رکے ہوئے قبروں کے مُردوں کی عزت چھوڑتا ہے۔

کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ
کہاں سے آتے ہیں یہ ریپسٹ؟
کہیں تو ان کی تخلیق ہوتی ہوگی
آسمان سے تو نہیں گرتے
کوئی کوکھ کوئی گود ان کا مسکن تو بنتی ہوگی ؟
مرد کتا,مرد حرامی,مرد حوس کا پجاری, سب سچ, مگر سائنس اور نسل انسانی تو اس بات پہ قائل اور گواہ ہے کہ مردوں کی کوکھ سے بچے نہیں جنتے, بہرحال ریپسٹ ایک عورت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
اب سوال تو میرا بنتا ہے کہ کیوں ایسے بچے, کیوں ریپسٹ پیدا کرتی ہو, کیوں میری بیوی, بیٹی, بہن کو تم نے غیر محفوظ کردیا ۔
کیوں خود ہی ریپسٹ پیدا کرتی ہو اور خود ہی رونا روتی ہو ۔
خود ہی ظالم ہو اور خود ہی مظلوم بنی بیٹھی ہو ۔
خدا کے لیے ریپسٹ پیدا کرنا بند کر دو
برائی کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک مشہور کہاوت ہے کہ چور کو نہ مارو بلکہ چور کی ماں کو مارو ۔
تو جناب اگر ریپ کو معاشرے سے ختم کرنا ہے تو مل کر ریسپٹ کی ماؤں کو ڈھونڈو, کونسی مائیں ہیں جو ریپسٹ کو جنم دے رہی ہیں ایک دفعہ سارے ریپسٹ کا ڈیٹا نکالو, ان کی مائیں تلاش کرو, ان کا تجزیہ کرو, ان پہ تحقیق کرو, ان کا ماضی و حال کنگھالو, پتہ چلاؤ کہ ان میں ایسا کیا تھا کہ انہوں نے ایک ریپسٹ کو جنم دیا, پھر اس تحقیق کو عام کرو, اور بتاؤ اس معاشرے کو کہ کیا عزت آبرو کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے گھر ریپسٹ پیدا ہو رہے ہیں یا تعلیم کے نام پر چار چار بوائے فرینڈز رکھنے والیوں کے گھر

کیا پردہ قائم کر کے اپنے تئیں کوشش کر کے اپنے جسم و روح کو گندی نظروں سے بچا کر رکھنے والی لڑکیوں کی کوکھ کسی ریپسٹ کی پناہ گاہ بن رہی ہے یا محض مرد کی نیچی نظر پہ تکیہ کر کے, اپنے جسم کی ہر بناوٹ کو ظاہر کر, اپنے جسم میں اترنے والی ہر گندی نظر کو کھلا رستہ دینے والیوں کی کوکھ ،
کیا اللہ کے واضح حکم سے خوش اپنے باپ بھائی اور شوہر سے اپنے سارے معاشی لاڈ اٹھوانے والی, حلال رزق کی خاطر اپنے ماں باپ کا سہارا بننے والی , حدود قیود میں رہ کر متوازن معاشرے کی خاطر مقدس پیشوں میں فرائض انجام دینے والی لڑکی ریپسٹ کی ماں بن رہی ہے, یا اللہ کی حدود کو بلاوجہ توڑ کر اپنی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے والی, مردوں کی برابری کے جنون میں شوقیہ نوکری کرنے والی, شانہ بشانہ چلنے والے نعروں پہ جھومنے والی لڑکی کے گھر ریپسٹ پیدا ہو رہے ہیں
وضو کر کے دودھ پلانے والی, روتے بچے کو اللہ کے ناموں کی لوری دینی والی, قرآن پڑھتے ہوئے گود میں بچے کو سہلانے والی, مصلّے کے ساتھ بچے کو لٹا کے نماز پڑھنے والی, اللہ کے نام سے آٹا گوندھنے والی عورت کا بچہ ریپسٹ بنا یا بچے کو سینے سے لگائے اپنے یار سے شہوت انگیز باتیں کرنے والی, روتے بچے کو ٹی۔وی موبائل میں مصروف کرنے والی, قرآن پاک کی بجائے گانوں سے اپنی اور اپنے بچے کی روح کو غذا دینے والی عورت کا بچہ ریپسٹ بنا ؟
اپنے گود کو پہلی درسگاہ کا درجہ دینے والی, بچے کو برائیوں سے خود بھی روکنے والی اور اس کے باپ کو بھی آگاہ کرنے والی, سزا دینے کا حوصلہ رکھنے والی, اپنی عزت اور بہن کی عزت سے آگاہ کر کے دوسرون کی ماں بہن کہ عزت سکھانے والی, حلال حرام کو واضح کر کے ذہنوں میں بٹھانے والی عورتوں کے بچے ریپسٹ بنے یا اولاد کی خامیوں اور غلطیوں کو لاڈ کے آنچل میں چھپانے والی, "ابھی بچہ ہے" کی گردان گانے والی, سزا کو جسمانی تشدد سمجھنے والی, دوسروں کی بہن بیٹیوں سے آنکھ مچولی کو "جوانی کی نادانی" اور نیم مسکراہٹ میں دبا دینے والی, بھوک کو حرام حلال سے افضل سمجھنے اور سمجھانے والی عورتوں کے بچے ریپسٹ بنے ؟

مجھے پتہ ہے کہ یہ تحقیق کبھی نہیں ہو گی, کیونکہ ریپسٹ ایک مرد ہوتا ہے, اور مرد تو کتا,حرامی اور ہوس کا پجاری ہوتا ہے, اور عورت بے قصور
تو جناب...۔
اگر واقعی ریپ کو معاشرے سے ختم کرنا ہے تو یہ کام صرف لڑکیاں ہی کر سکتی ہیں, کیونکہ مرد جتنا بھی کتا, حرامی, ہوس کا پجاری اور طاقتور ہو, اس کی اندر ایک خامی ہے, وہ ریپسٹ بچہ اپنی کوکھ سے پیدا نہیں کر سکتا, اسے اس کام کے لیے بہر حال لڑکی کی ضرورت درکار ہے۔

آپ اپنی کوکھ کی حفاظت کا عزم کریں
عزت آبرو سے تعلیم مکمل کرنے کا تہیہ کریں۔
پردے کے ذریعے گندی نظروں کا اثر کم کریں۔
باپ بھائی اور شوہر سے لاڈ اٹھوائیں, مجبوری ہو یا انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہو تو حدود و قیود کا بےحد خیال رکھیں۔
پھر جب نیک ہمسفر سے اللہ آپ کو اولاد نرینہ سے نوازے تو اسے اے بی سی کے ساتھ ساتھ اپنے علم و عمل سے عزتوں کی اہمیت اور ان کا پاس رکھنا سکھائیں
یقین جانیں کوئی ریپسٹ نہیں بنے گا اور نہ کوئی ریپ ہوگا۔ ان شاء اللہ

Share:

Aaj Ke Modern Maa baap apne bacho ko kaise tarbiyat de rahe hai?

Aaj ki nasal jab Waldain banegi to apne bacho ki parwarish kaise karenge?
Aaj ke Modern Maa baap apne bacho ki parwarish kaise kar rahe hai?

👩‍🎤 آج کی مارڈن ماں __!!!!!

آج کی ماں سالن روٹی میں نہیں بلکہ ٹک ٹوک، رانجھا رانجھا کر دی، کہیں دیپ جلے اور میرے پاس تم ہو ٹی وی سیریل میں کھو چکی ہے وہ یوٹیوب کی دیوانی ہو چکی ہے
آج کی ماں بھی اس دور کی طرح جدید ہے
بچی نے شسرٹس پہنی ہیں تو کوئی بات نہیں، tights پہنی ہیں تو کوئی بات نہیں، شرٹ چھوٹی ہے تو کوئی بات نہیں، ٹک ٹوک پر بیٹھی ہے تو کوئی بات نہیں، گھنٹوں موبائل پر لگی ہے تو کوئی بات نہیں، الگ کمرے میں بیٹھی ہے تو کوئی بات نہیں، فیس بک پر تصویر اپلوڈ کر رہی ہے تو کوئی بات نہیں، ٹک ٹوک پر ویڈیو بنا کر ڈال رہی ہے کوئی بات نہیں
بیٹا رات کو دیر سے گھر آتا ہے تو کوئی بات نہیں، بیٹا کزن کے ساتھ اٹیچ ہے تو کوئی بات نہیں، بیٹا گھنٹوں فون پر کسی سے باتیں کرتا ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ جدید دور ہے۔
یہ سب تو آج کل کا فیشن ہے تو اتنا تو چلتا ہی رہتا ہے
آج کی ماں اور آج کا باپ خود اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں تو کوئی بات نہیں
فیشن، سٹیٹس کو اور یہ ماڈرنیزم ہماری تربیت اور اخلاقیات کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں
پھر یہ سب تو ہونا ہی ہے اور ہوتا ہی رہے گا
ہم اخلاقی پستی اور تربیت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں، ہم حرام اور حلال کا فرق ختم کر چکے ہیں، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا کہتے کہتے "بہت کچھ" اور پھر "سب کچھ" ہو جاتا ہے.
پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، ناک رگڑتے ہیں اور اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں، ماتم کرتے ہیں اور اسی طرح غلطی پر غلطی کرتے کرتے زندگی تمام ہو جاتی ہے.
میں سوچتا ہوں کہ آج کی نسل جب والدین بنیں گے تو کیسے پرورش کریں گے اپنی اولاد کی جب خود ہی ہر قسم کی برائی میں ملوث ہوں گے تو اپنی اولاد کی تربیت کیسے کریں گے؟

Share:

Biwi ki Galatiyo ko najar andaj karke uski khubiyon ki tarif kare.

Shauhar ko apni Biwi ki bato ko gaur se sunana.
Aksar galatfehmiya isliye hoti hai ke Shauhar biwi ek dusre ki bato pe gaur nahi karte hai?
Biwi ki buraiyon ko najar andaj kare aur khubiyon ki tarif kare.
Shauhar ko chahiye ke wah Apni Sharik-E-Hayat ki bato ko gaur se sune.

بیوی کی برائیاں __!!!!!
اگر آپ اپنی بیوی کو کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو اسکی برایئاں ہر وقت بیان کرنے کی بجاۓ اسکی تعریف بھی کیا کریں۔ بیوی کی برایئوں کے بارے میں اسکو تنہائی میں سمجھایا کریں اور کہا کریں کہ ایک بات میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں، آپ ذرا میری بات توجہ سے سننا۔ اور میاں بیوی دونوں مل کر یہ اصول بنالیں کہ جب خاوند بول رہا ہو تو بیوی مکمل خاموشی سے سنے، جب بیوی بول رہی ہو تو خاوند خاموشی سے سنے۔ درمیان میں ایک دوسرے کی بات کاٹنا جاہلوں کا شیوہ ہے۔ یہ تو بیوقوفوں کی نشانی ہوتی ہے اور عام طور پر آج یہی ہو رہا ہے کہ خاوند نے بات شروع کی تو بیوی نے بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردی۔ خاوند پھر اپنی دلیل دیتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسرے کی سننے کی بجاۓ دونوں اپنی اپنی سنا رہے ہوتے ہیں۔ سن کوئی بھی نہیں رہا ہوتا اور یہی چیز گھروں کی بربادیوں کی وجہ بن جاتی ہے۔

کسی نے عجیب بات کہی کہ جب میری شادی ہوئی۔ شروع میں میں بولتا تھا اور میری بیوی سنتی تھی، پھر جب اولاد ہوگئی تو بیوی بولتی تھی اور میں سنتا تھا اور پھر جب ہم دونوں بوڑھے ہوگئے تو پھر ہم دونوں بولتے تھے اور محلے والے سنتے تھے۔
تو بات ایسی ہی بن جاتی ہے کہ کئی مرتبہ میاں بیوی دونوں بول رہے ہوتے ہیں اولادیں سن رہی ہوتی ہیں یا قریب کے پڑوسی سن رہے ہوتے ہیں۔ لہذا یہ غلطی ہرگز نہیں کرنی چاہیۓ۔ تحمل مزاجی سے دوسرے کی بات ناپسندیدہ سہی، سن ضرور لے، پھر اسکے بعد اپنی بات بتا دے تو آپ کی بات کو بھی سن لیا جاۓ گا۔

Share:

Parda karne ke fayde aur be pardagi ke nuksanat.

Wah Hijab hi kya jo Eid aur Shadiyon me utar jaye.

Parda karne ke fayde aur be pardagi ke nuksanat.
Malum nahi ham Fashion ke liye ji rahe hai ya Khud ke liye.

Meri Zindagi ka maqsad meri Deen ki sarfraji
isliye Mai Musalman isliye Mai Namaji.

اپنے اسلامی وقار کو قائم رکھیں، سادگی کو اپنائیں، سادگی ایمان کا حصہ ھے، 
فیشن سے عزت نہیں ملتی، اللہ عزت دیتا ھے، اپنی نیتوں کو ٹھیک کرلیں، ڈھیلے ڈھالے اور سادہ حجاب اور برقعے استعمال کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو پیش نظر رکھیں، اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے پردہ کریں، دین کے احکامات کا تمسخر نہ اڑائیں۔ اللہ سبحانہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

پردے کے فائدے__اور بے پردگی کے  نقصانات :

1. پردہ عورت کی عزت و آبرو کا محافظ ہے۔
2. پردہ دار خاتون کا نسب محفوظ ہے۔
3. پردہ سے شرمگاہ اور نظر کی حفاظت رہتی ہے۔
4. پردہ دلوں کی پاکیزگی اور طہارت کا ذریعہ ہے۔
5. پردہ نسوانی حسن کا محافظ ہے۔
6. پردہ عورت کی فطری حیا کا تقاضا ہے۔
7. پردہ چھوٹے بڑے کئی گناہوں سے رکاوٹ ہے۔
8. پردہ مسلمان عورت کا شعار ہے۔
9. باپردہ عورت اللہ کی حفاظت میں ہے۔
10. باپردہ عورت اپنے رب کے زیادہ قریب ہے۔
11. پردہ عورت کے لیے افضل ترین اعمال میں سے ہے۔
12. پردہ شیطان اور اس کے آلہ کاروں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔
13. پردہ تقوی کا لباس عزت کا تمغہ اور حیا کی دلیل ہے۔
14. پردہ عورت کو فاسقوں کی شرارت سے محفوظ رکھتا ہے۔
15. پردہ انسان نما بھیڑیوں کی تیز نظروں سے بچاتا ہے۔
16. پردہ عورت کے دل و دماغ کا محافظ ہے۔
17. پردہ زنا بد نظری اور ناجائز بات چیت سے روکتا ہے۔
18. پردہ ایسا شرعی حکم ہے جس میں دین و دنیا کا فائدہ ہے۔
19. پردہ معاشرتی امن کا ذریعہ ہے۔
20. پردہ دار خاتون کے لیے جنت کے تمام دروازے کھلے ہیں۔
21. پردہ عورت کے نیک ہونے کی دلیل ہے۔
22. پردہ دار عورت نیک عورت ستر اولیاء کی عبادت کے برابر اجر کی مستحق ہے۔
23 اکثر لوگ پردہ کرنے والی خواتین سے بہت ہی عزت اور احترام کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔
وہ حجاب ہی کیا جو عید اور شادیوں میں اُتر جائے؟

Hijab is the Beauty of every Muslim girls.

 بے پردگی کے نقصانات :

1. بے پردگی اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔
2. بے پردگی جاہلیت اور مغربی تہذیب کی تقلید ہے۔
3. بے پردہ عورت کا تہمت سے بچنا مشکل ہے۔
4. بے پردہ عورت کا نسب اور آبرو کی کوئی گارنٹی نہیں۔
5. عورت کا بے پردہ ہونا حیاء کی کمی کی دلیل ہے۔
6. بے پردہ عورت لوگوں کی بری نظروں کا نشانہ بنتی ہے۔
7. بد نظری کے یہ زہریلے تیر عورت کے جسم و روح کو چھلنی کر دیتے ہیں۔
8. بے پردہ عورت اللہ تعالیٰ کی غیرت کو للکار نے والی ہے۔
9. بے پردہ عورت اپنے عزت کی حفاظت نہیں کر پاتی۔
10. بے پردہ عورت شیطان کے جال کا بسہولت شکار ہوجاتی ہے۔
11. بے پردہ عورت باہر نکلتی ہے تو شیطانی حملہ کی زد میں آجاتی ہے۔
12. بے پردہ عورت ہر وقت اللہ کی ناراضگی میں ہے۔
13. بے پردہ عورت پورے معاشرہ اور ماحول کو خراب کرنے میں برابر کی شریک ہے۔
14. بے پردہ عورت قبر کے عذاب میں مبتلا رہے گی۔
15 پردہ نہیں کرنے والی خواتین پے اللہ اور اس کے فرشتے کی لعنت ہے۔
16 ہے پردہ عورت اللہ سے بغاوت کرتی ہے۔

She believed that this is freedom, but she didn't know that she has lost her security things.
A Silent messages for Modern females.

Share:

Namaj padhne ka tarika. نماز سیکھے اور دوسروں کو سکھائے

Namaj ke kaunsi dua kab padhe?

Namaj sikhe aur Dusro ko sikhaye.

آئیں نماز سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں.
دعاگو:عابد محمود
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
*ثناء*
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصلاة، باب ما يقول عند افتتاح الصلاة، 1 : 283، رقم : 243)
*اے ﷲ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں*

*تعوذ*
أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.
*میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں*

*تسمیہ*
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.
*ﷲ کے نام سے جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے*

*سورۃ الفاتحہ*
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO
(الفاتحة، 1 : 1. 7)
*تمام خوبیاں تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےo روزِ جزا کا مالک ہےo ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایاo ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کاo*

*سورۃ الاخلاص*
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO
(الاخلاص، 112 : 1۔ 4)
*آپ فرما دیجئے : وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo*

*رکوع*
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب ماجاء فی التسبيح فی الرکوع والسجود، 1 : 300، رقم : 261)
*پاک ہے میرا پروردگار عظمت والا*

*قومہ*
سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهُ.
*ﷲ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی*

رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب إثبات التکبير فی کل خفض ورفع فی الصلاة، 1 : 293، 294، رقم : 392)
*اے ہمارے رب ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں*

*سجدہ*
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب مقدار الرکوع و السجود، 1 : 337، رقم : 886)
*پاک ہے میرا پروردگار جو بلند ترہے*

*جلسہ*
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان درج ذیل دعا مانگتے :
اَللَّهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب الدعا بين السجدتين، 1 : 322، رقم : 850)
*اے ﷲ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت پر قائم رکھ اور مجھے روزی عطا فرما*

*تشہد*
التَّحِيَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ. أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الدعوات، باب فی فضل لَا حَول ولا قوة إلَّا بِاﷲِ، 5 : 542، رقم : 3587)
*تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اﷲ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور اﷲ کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں*

*درودِ اِبراہیمی*
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے :
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب النسلان فی المشی، 3 : 1233، رقم : 3190)
*اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے*
*اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے*

*دعائے ماثورہ*
درود شریف کے بعد یہ دعا پڑھیں :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَءَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُo
(ابراهيم، 14 : 40، 41)
*اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا

ائے تو ہم سب کو نمازی بنا دے۔ (امین)

Share:

Kya Quran ko Mobile se delete karna Qayamat ki nishani hai?

Kya Quran ko, ya quran ke kisi surah, aayat ko mobile se delete karna Qayamat ki nishani hai?

Bismillahirrahmanirrahim
*Kya Qur'an ko "Phone" me se Delete karna Qayamat ki Nishani hai?*
-----------------------------------------------
❌ *Nahi aisa kahi bhi nahi kaha gya hai.*
👉 *Allah Aalimo ko "Maut" de kr ilm ko utha lega na ki hamare delete krne pe.*
-------------------------------------------
👉Rasoollallahu ﷺ ne farmaya Allah ilm ko is tarah se nahi utha lega ki isko bando se cheen lega Balki wo *Aalimo ko maut dekar Ilm ko utha lega* phir jab koi Aalim baqi nahi rahega to log jahilon ko sardar bana lenge Unse sawalat kiye jayenge aur wo baghair Ilm ke jawab denge is liye khud bhi gumraah honge aur logo ko bhi gumraah karenge.
📚 *[Sahih Bukhari:100].
( *हर बात दलील के साथ*)

Share:

Buri najar lagne pe dam karne ke liye kaun si dua padhe?

Buri najar lagne pe Kaise dua kare?
Bismillahirrahmanirrahim

*Buri Nazar lag jaye to usko dam karne ki dua or tariqa sahi hadees ki roshni me.
-------------------------------------------
👉 *buri nazar Ka ilaj sabse bda ye hai ki Insaan jitna Allah ke qareeb hoga aur uska zikr  kre or hamesha  Quran  ki tilawat Karega to usko buri nazar aur doosre aafat aur Shaitan aur Insaan se hone wali  taklif door rahegi.*

👉 *kuch dua jo Quran or sahi hadees se sabit hai wo.*👇👇
-------------------------------------------
   *أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ*
(main Allah aur mukammal Qayamat ke sath pana chahta hun uske shukra se jo usne paida kiya)

📚[sahih Muslim # 6878, 6880]

👉Abbas razi Allahu anhu bayan karte Hain ki Nabi Kareem ﷺ  Hassan aur Hussain ko dum karne ke liye ye dua karte aur ye kehte the ki tumhara baap uske sath Ismail dum karte or ye pdhte👇👇

👈 *أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ.*
👉Auzubika bikalimatillahittamati  min kulli Shaitan wa hamara wa min kul aine la mati.

(Mai Allah tala ki mukammal kalemat Ke saath hoon Shaitan aur azharili cheez Jo Ke mar de aur Ho  Hasad dene aur takleef Dene wali aankh(buri nazar) se panah chahta hoon.
📚[Bukhari hadees# 3371]

👉Abu Saeed bayan karte Hain ke jibreel alaihis Salam Nabi ﷺ  Ke paas aaye aur kehne lagi k Muhammad ﷺ  aapko kuch takleef mehsoos kar kar rahe Hain to unho ne farmaya ji haan to jibraeel ne kaha
👇👇
👈 *بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ*
👉bismillahi arraqika min kulli sha in uazzika min shak kul nafs au eena hasidillahi yashfikq bismillahi irqika.

*meaning:-*👇👇
(mai  allah ke naam se tujhe har cheez se dum karta hoon jo ki takleef Dene wali hai aur hum uske sar se yaha har buri aankhon se matlab Bhari aankhon se Allah apko Shifa day mai allah ke naam se aapko dum Karta hoon.)
📚[ Sahih Muslim hadees# 5700]

Share:

Maa Baap na mobile ke khilaf they aur na hai?

Ammi aap log kya janane gaye is mobile me hai kya?
Pahle apne gharwalo ko jo waqt diya karte they wah ab Mobile ko diya karte hai.
hamare maa baap aaj daur ke mutabik jahil hai to ham bhi 20 saal ke bad jahil ho jayenge.

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے*

*اماں

*اماں تمھیں نہیں معلوم یہ موباٸل کتنا قیمتی ہے۔*

تمہارے دور میں تو لوگ خط لکھتے تھے جو مہینے بعد ملتا تھا ۔ یہ ہمارا زمانہ ہے اس لیے میرے حال پر مہربانی کرو مجھے آٸیندہ اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔

بیٹے کی یہ بات سن کر اماں نے خاموشی اختیار کی اور کہا *ادھر آ میرا بیٹا میرے پاس بیٹھ جا  ۔*
اچھا بیٹا تم نے ٹھیک کہا واقعی تمہاری اماں کو اس بجلی بھری ڈبی کے بارے میں نہیں پتہ یہ کیا ہے اور وہ جو تم بیگ میں بڑا سا بجلی کا ٹی وی لے کر جاتا ہے اس کا بھی نہیں پتہ ۔ یہ عجیب چیزیں ہیں ۔
لیکن ایک سوال پوچھوں میرا بیٹا کیا تمہیں اپنی ان پڑھ اماں کے ہاتھ کا بنا ساگ اور مکھن کھانا  پسند ہے ؟

جی جی اماں بہت پسند ہے ۔

*اچھا وہ جو پچھلی سردیوں میں تیری ان پڑھ اماں نے تیرے لیے سویٹر بنایا تھا وہ پسند آیا ؟*

ہاں ہاں اماں لیکن تو یہ کیوں پوچھ رہی ہے ۔

اور بیٹا ایسے ہی ذرا دیکھ لوں ہم ان پڑھ لوگوں کے کوٸی کام چنگے بھی ہیں کہ نہیں ۔
اچھا بیٹا یہ بتا تو نے کبھی چرخہ چلایا ہے وہ سامنے جو مشین ہے جس سے دھگا بنتا ہے،

۔نہیں اماں ۔

اچھا جب تو باہر جاتا ہے تو لوگوں نے کبھی کہا کہ تیرے کپڑے صحیح دھلے نہیں یا تیری اماں کو کپڑے دھونے نہیں آتے ۔

نہیں اماں لوگ بھلا ایسا کیوں کہیں گے تو تو بہت اچھے کپڑے دھوتی ہے ۔

اچھا مطلب کہ تیرے بچپن سے لے کر اب تک تجھے اپنی ان پڑھ اماں کی وجہ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ۔

ہاں اماں یہ بات تو ہے

لیکن بیٹا مجھے ہر لمحہ تیری وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی لیکن میں نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی وقت کے ساتھ ساتھ میرا بیٹا سیکھ جاۓ گا ۔
پتہ ہے بچپن میں جب تو لڑ کر آتا تھا  تو لوگوں کے سامنے ۔
جب تیرے کلاس میں نمبر تھوڑے آتے تو بھی خاندان میں ۔
جب تو کپڑے گندے کرتا تو بھی ۔
پھر جب تو بڑا ہوا تو تو اونچا بولنے لگا اپنی اماں کو بہرا بنا دیا تو بھی
اور
آج جب تو نوکری کرتا ہے تو بھی ۔ کہتا ہے اماں تو ان پڑھ ہے ۔
دوستوں میں بیٹھ کر تو اور تیرا دوست اپنے ماں باپ کو جاہل کہتے ہیں۔
بیٹا تجھے وہ کام نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں اور مجھے وہ کام نہیں آتے جو تم کرتے ہو ۔
ہر زمانے کی اپنی ساٸنس اور اپنا علم ہے ۔ علم تو وہ کافی ہے جس سے پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور تیری اماں کے پاس ساگ پکانے کا مکھن بنانے کا سلاٸی کڑھاٸی کا علم تھا تیری اماں کے پاس کپڑے اچھے دھونے کا علم ہے، جس دن میں مر گٸی اس دن تجھے سمجھ آۓ گی اماں کی ساٸنس کیا تھی ۔

لیکن بیٹا علی اگر کوٸی علم تمہیں دوسروں کو جاہل کہنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کوٸی علم تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھاتا ہے تو وہ علم نوری نہیں ابلیسی ہوا۔

بیٹا زندگی میں تیری وجہ سے اگر کسی کو شرمندہ ہونا پڑے تو یاد رکھ ایسے علم سے تیری اماں کے چولہے کی سوا بہتر ہے۔

علی کو تو اماں کی ساٸنس بہت دیر بعد سمجھ آٸی جب اماں گزر گٸی ۔ روز روٹی کپڑا اور پیار ہر وقت کون دیتا؟
اب باہر جانے سے پہلے دعاٸیں دینے والا کوٸی نہیں تھا اب گھر داخل ہوتے ہی پورا دن علی پر کیا بیتا اس کیمسٹری کو پڑھنے والا کوٸی نہیں تھا

کہاں سے لاۓ سر چومنے والی اماں۔ 

آج ہمارے اردگرد کتنے ہی لوگ ہیں جو ماں باپ کو ان پڑھ سمجھتے ہیں کٸی طلبا تو بحث و مباحثہ میں جاہل کا لفظ تک استعمال کر دیتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھیں اماں نے درست کہا تھا ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں انہیں پچھلے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نہ ہی کرنا چاہیے۔

آپ کے اور میرے ماں باپ نے اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق زندگی گزاری اور ہمیں پڑھایا لکھایا ہمیں اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق جینا اور اپنی اولاد کو سکھانا ہے ۔

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے ۔اماں کو اس کلموۓ کے زیادہ استعمال کے خلاف ہے جس نے اس سے اس کا علی چھین لیا۔*
اب وہ بڑا ہو گیا ۔پہلے اماں کو سکول سے آکر سکول کی ساری باتیں سناتا تھا اب اس کے پاس آفس کے بعد وقت ہی نہیں ۔ساری دنیا کو گروپ بنا کر تحریری پیغام بھیجتا ہے لیکن اماں سے بات نہیں کرتا ۔

اماں تو آج بھی اس کو تیار کرتی ہے اپنی ڈیوٹی کرتی ہے لیکن وہ جو اماں کا وقت تھا وہ یہ موباٸل کھا گیا اماں کے حقوق موباٸل نے کھا لیے ۔اس لیے اماں غصہ ہوتی ہے

کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے سوچئے گا۔ لمحہ فکریہ ہے۔

ماں ہماری جنت ہے اور جنت ناراض ہو گٸی تو زندگی بے سکون ہو جاۓ گی ۔
یاد رکھیے گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔
گھر میں بیٹھی بوڑھی اماں میرے کچھ بولے بنا میرا دل پڑھ لیتی ہے۔

اپنے ماں باپ کو وقت دیجیے ورنہ آپ کی اولاد کے دور میں تو ٹیکنالوجی اس سے بھی فاسٹ ہو گی پھر آج کی تمہاری لکھی کہانی تم پر دہراٸی جاۓ گی شکوہ نہ کرنا۔

کاش کہ  یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں
خواہش صرف اتنی ہے کہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پَڑ جائے۔

ہزار خواہشیں ایسی ہے کے ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔

Share:

Seerat-un-nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. (Part 21)

Dusri qaum ka hal kaisa tha?
Seerat-un-nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam.

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 21
دوسری قوم (یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے) کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی.. کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کررہے تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے.. اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے..

اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّمقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے.. ان میں سرِفہرست عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا..

یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے.. یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوگیا.. اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے لہٰذا وہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا..

اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا.. اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا.. اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا.. یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنا لیتے تھے..

تیسری قوم یہود تھی.. جیسا کہ گزرچکا ہے یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے.. یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی.. یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے.. حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک 'بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت' تھا.. ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے.. جیسے چاہیں کھائیں.. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے..

قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ O
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں..'' (۳: ۷۵)

یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں.. ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی.. لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ.. انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے..

یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی.. غلّے ، کھجور ، شراب اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی.. یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے.. اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے.. وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے.. اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے.. ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے..

یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے.. ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا.. اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی.. کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشا دیکھتے.. البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہرا نفع کماتے رہتے.. ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے

یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے..

بنو قینقاع _____ یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی..
بنو نضیر اور بنو قریظہ _____ یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ان دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی..

ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے..

فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو جو اُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی ، سکون ملتا.. پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی.. بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی.. تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابند بناتی تھی.. اِس کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماً وہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے.. لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلاعوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا..

جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا.. اسی لیے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی.. اگرچہ وہ اس کے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے..

اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے.. ان کا ارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا..

"میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی.. میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھاتے.. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے.. بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے , لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے.. میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے..

کیا یہ وہی ہے..؟
انہوں نے کہا.. ہاں ! اللہ کی قسم..
چچا نے کہا.. آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں..؟
والد نے کہا.. ہاں..
چچانے کہا.. تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں..؟
والد نے کہا.. عداوت ! اللہ کی قسم ! جب تک زندہ رہوں گا.."

( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)

اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے.. موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے.. آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے.. اگر انہیں اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے.. لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا..

وہ آئے اور ادھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ "عبداللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں..؟"

انہوں نے کہا.. ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں.. ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں..'' ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو..؟''

یہود نے دو تین بار کہا.. "اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے.."

اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور فرمایا.. "أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)"

اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے..  ''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے.." اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں..

ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. ''اے جماعتِ یہود ! اللہ سے ڈرو.. اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! تم لوگ جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق لے کر تشریف لائے ہیں.."

لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو..

( صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱)

بیرون ِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے ، دہشت مچانے ، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے.. طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے.. منظم اور وسیع پروپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے.. پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں ، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کرلیا اور مسلمانوں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے.. بلکہ جس کو پایا , قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں..

پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں.. بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکا اور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں.. جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی..

درحقیقت مکے اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے.. مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں.. جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں.. اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے..

یہ تھے وہ قضایا اور مسائل جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یا سختی ودرشتی ___ جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا.. یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ آگئی

ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 28 ستمبر 622ء کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہوگئے تھے.. اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی..

اس زمین کے مالک دو یتیم بچے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے.. اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں.. کچھ ویرانہ بھی تھا.. کھجور اور غَرْقَد کے چند درخت بھی تھے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی قبریں ہٹوا دیں ، ویرانہ ختم کرا دیا اور کھجوروں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگا دیا..

اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا.. دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے.. دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں.. چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوا دیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنا دیے گئے.. زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھا دی گئیں.. تین دروازے لگائے گئے.. قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی.. چوڑائی بھی اتنی یا اس سے کچھ کم تھی.. بنیاد تقریباً تین ہاتھ گہری تھی..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی.. یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے.. ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے..

صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰
زاد المعاد ۲/۵۶

مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے.. نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں.. علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے..

ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعداد کا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال..

پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی.. یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روزانہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا.. یہ روزانہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغامبر ہیں.. یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا..

اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا.. تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے..

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرماکر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا , اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ ِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے.. امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں..

"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا.. کل نوے آدمی تھے ، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار.. بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابتداروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے.. وراثت کا یہ حکم جنگ ِ بدر تک قائم رہا.. پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ ''نسبتی قرابتدار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں(یعنی وراثت میں)" توانصار ومہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا.. کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے.. یوں بھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت ، وطنی اخوت اور رشتہ وقرابتداری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا.."

(زاد المعاد , 2/56)

اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں , نسل ، رنگ اور وطن کے امتیاز ات مٹ جائیں , موالات اور براءت کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہ ہو..
اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور موانست اور خیر وبھلائی کرنے کے جذبات مخلوط تھے اسی لیے اس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا..

چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرادیا.. اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا.. ''انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں.. آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں) اور میری دو بیویاں ہیں.. آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو , مجھے بتادیں.. میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں..''

حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے.. آپ لوگوں کا بازار کہا ں ہے..؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتلادیا.. (جہاں تجارتی کاموں میں لگ کر کچھ ہی مدت میں وہ خود ہی دولت مند ہوگئے اور پھر گھر بھی بسا لیا)

(صحیح بخاری , 1/553)

اسی طرح حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا.. "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "نہیں.." انصار نے کہا.. "تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے.." انہوں نے کہا.. "ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی.."

(صحیح بخاری, باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل , 1/213)

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور کس قدر محبت ، خلوص ، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم ونوازش کی کتنی قدر کرتے تھے.. چنانچہ انہوں نے اس کا کوئی غلط فائد ہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرسکتے تھے.. اور حق یہ ہے کہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت ، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا..

جارھے.....

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS