*کیا عورتوں کو جہاد کے اجر سے محروم کیا گیا ہے ؟*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر : مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف (مسرہ)
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی فطرت میں کمزوری اور بناوٹ وساخت میں مردوں سے الگ رکھا ہے ۔ اللہ نے دین میں سب کی رعایت کی ہے اور ایک حکمت کے تحت سب کے لئے مناسب احکامات وتعلیمات دئے ہیں ۔ بسا اوقات ہمیں اللہ کی حکمت کا اندازہ نہیں ہوتا مگر حکمت وبصیرت سے اللہ کا کوئی فیصلہ خالی نہیں ہے ۔ عورتوں پر جہاد فرض نہ ہونے میں بھی اللہ کی بے شمار حکمتیں ہیں جنہیں سب سے بہتر ان کا خالق ومالک اور حکمت ودانائی والا ہی جانتا ہے ۔ یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے جو بظاہر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف مردوں کے لئے ہے مگر ایسی بات نہیں ہے ، جہاد تو مردوں پر فرض ہے مگر اس جیسا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثواب مردوں کے ساتھ عورتوں کے لئے بھی رکھا گیا ہے ۔ اس بات پر نبی ﷺ کا یہ فرمان واضح طور پر دلالت کرتا ہے جو ابوداؤد وغیرہ میں ہے ۔ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
ترجمہ: اللہ کی راہ میں قتل کے علاوہ بھی شہادت کے سات اسباب ہیں ۔
یہ بات نبی ﷺ نے ان عورتوں سے کہی جنہوں نے شہادت کو صرف اللہ کی راہ میں قتل ہوجانا سمجھا تھا اور ایک صحابی جن کا سامان جہاد تیار تھا مگر وہ جہاد میں جانے سے پہلے وفات پاگئے ان پر یہ عورتیں رو رہی تھیں ۔ گویا جسمانی جہاد کے علاوہ شہادت کے جو مقامات واجر ہیں ان میں عورتیں بھی شامل ہیں بجز اس کے جو مردوں کے ساتھ ہے ۔ اگر عورتوں کو اسلام نے شہادت کے اجر سے محروم کیا ہوتا تو کوئی خاتون شہیدہ نہیں کہلاتی مگر ہم کتب حدیث میں بے شمار خواتین کو شہیدہ پاتے ہیں جو اس بات کو مزید تقویت پہنچاتی ہے کہ عورتوں کے لئے شہادت کا درجہ موجود ہے ۔
اس مضمون میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی کہ اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے اورا ن کے لئے بھی جہاد کا ثواب دوسرے کئی اعمال میں رکھا ہے جنہیں مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جائے گا۔
*(1) درجہ شہادت کی دعا :* گوکہ عورتوں کے لئے جسمانی جہاد نہیں ہے مگر شہادت کا مقام پانے کے لئے مردوں کی طرح عورتیں بھی اس کے لئے دعا کر سکتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ(صحيح مسلم:1908)
ترجمہ: جو شخص سچے دل سے اللہ کی شہادت مانگے، اللہ اسے شہداء کے مراتب تک پہنچا دیتا ہے، چاہے وہ اپنے بستر ہی پر کیوں نہ فوت ہو۔
*(2)جہاد کے علاوہ سات چیزوں میں شہادت :* جہاد میں قتل کئے جانے کو شہادت تو کہتے ہی ہیں اس کے علاوہ سات اسباب ہیں جن سے آدمی کو شہادت کا درجہ ملتا ہے ۔ ان ساتوں میں عورت بھی شامل ہے بلکہ ساتواں سبب بطور خاص عورت سے متعلق ہے کہ جو کوئی عورت حالت حمل میں یا بچہ ہوتے وقت یا حالت نفاس میں وفات پاجائے وہ شہادت کا مقام پاتی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الشَّهادةُ سبعٌ سوى القتلِ في سبيلِ اللَّهِ المطعونُ شهيدٌ والغرِقُ شهيدٌ وصاحبُ ذاتِ الجنبِ شهيدٌ والمبطونُ شهيدٌ وصاحبُ الحريقِ شهيدٌ والَّذي يموتُ تحتَ الهدمِ شهيدٌ والمرأةُ تموتُ بِجُمعٍ شهيدةٌ(صحيح أبي داود:3111)
ترجمہ: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں (1) مطعون شہید ہے(2) اور ڈوبنے والا شہید ہے(3)ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور (4)اورپیٹ کی بیماری سے مرنے والا ، اور(5) جل کر مرنے والا شہید ہے، اور (6)ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے ، اور (7)اور وہ عورت جو ولادت کی تکلیف ( درد زہ ) میں وفات پا جائے شہید ہے ۔
حمل والیوں سے متعلق یہ الفاظ بھی وارد ہیں ۔
والنُّفساءُ شهيدةٌ(صحيح الجامع:4441)
ترجمہ: حالت نفاس میں وفات پانے والی شہیدہ ہے ۔
مسند احمد، مجمع الزوائد، معجم طبرانی وغیرہ میں نفساء کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں ۔
والنُّفساءُ يجرُّها ولدُها بسُرُرِها إلى الجنةِ(صحيح الجامع:4439)
ترجمہ: ولادت کے بعد نفاس کی حالت میں مرنے والی کو اُسکی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مرگئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ لے جاتی ہے۔
*(3) والدین کی خدمت کرنا :* ماں باپ کی خدمت کرنے سے جہاد کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إني أشتهي الجهاد ولا أقدر عليه، قال: هل بقي من والديك أحد؟ قال: أمي، قال: قابل الله في برها، فإن فعلت فأنت حاج ومعتمر ومجاهد.
ترجمہ : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہامیں جہاد کی خواہش رکھتاہوں مگراس کی طاقت نہیں ۔ تو آپ نے پوچھاکہ تمہارے والدین میں سے کوئی باحیات ہیں ؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میری ماں تو آپ نے بتایاکہ کاؤ ان کی خدمت کرو،تم حاجی ، معتمراورمجاہد کہلاؤگے ۔
٭بوصیری نے کہا کہ ابویعلی اور طبرانی نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیاہے۔(اتحاف الخیرہ:5/474) عراقی نے تخریج الاحیاء میں حسن اور منذری نے الترغیب والترہیب میں جید کہاہے۔
اسی طرح صحیحین میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فاستأذنهُ في الجهاد، فقال : أحَيٌّ والِداكَ قال : نعم، قال : فَفِيهِما فَجاهِدْ.(صحيح البخاري:3004، صحيح مسلم:2549)
ترجمہ: ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی۔ آپ نےفرمایا:کیا تمھارے ماں باپ زندہ ہیں؟اس نے عرض کیا: جی ہاں(زندہ ہیں)۔ آپ نے فرمایا:ان کی خدمت کرنے میں خوب محنت کر(یہی تیرا جہاد ہے)۔
*(4) بیوہ اور مسکین کی خدمت کرنا :* جو مرد یا عورت بیوہ یا مسکین کی خدمت کرے اس کے لئے جہاد کے برابر ثواب ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
السَّاعي على الأرملةِ والمسكينِ ، كالمُجاهدِ في سبيلِ اللَّهِ ، أو القائمِ الليلَ والصائمِ النهارِ( صحيح البخاري:5353)
ترجمہ: جو شخص بیوگان اور مساکین کا خدمت گار ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔
*(4) اول وقت پر نماز پڑھنا :* نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر اجر وثواب کا باعث ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا :
أيُّ الأعمالِ أحبُّ إلى اللهِ ؟ قالَ الصَّلاةُ على وقتِها قلتُ : ثمَّ أيٌّ ؟ قالَ ثمَّ برُّ الوالدينِ قلتُ : ثمَّ أيٌّ ؟ قالَ ثمَّ الجهادُ في سبيلِ اللهِ ( صحيح مسلم:85)
ترجمہ: اے اللہ کے نبی !کون سا عمل جنت سے زیادہ قریب (کردیتا) ہے ؟ فرمایا: ’نمازیں اپنے اپنے اوقات پر پڑھنا ۔میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! اور کیا ؟ فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! اور کیا ؟ فرمایا :اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔
*(5) عشرہ ذی الحجہ کے اعمال :* ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں اعمال صالحہ انجام دینا جہاد میں شریک ہونے سے بڑھ کا ثواب کا باعث ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما العملُ في أيامِ العشْرِ أفضلَ من العملِ في هذه . قالوا : ولا الجهادُ ؟ قال : ولا الجهادُ، إلا رجلٌ خرجَ يخاطِرُ بنفسِه ومالِه، فلم يرجِعْ بشيءٍ( صحيح البخاري : 969)
ترجمہ: ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح بہت پسند ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی زیادہ یہ دن پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:ہاں! یہ دن جہاد فی سبیل اﷲ سے بھی بہتر ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے مال اور جان کو لے کر نکلے اور کسی چیز کو واپس لے کر نہ آئے ۔
*(6) عورتوں کا جہاد حج ہے اور وہ سب سے بہتر ہے :* اس موضوع سے متعلق چند احادیث دیکھیں ۔
*پہلی حدیث :* ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جِهادُكُنَّ الحجُّ(صحيح البخاري:2875)
ترجمہ: تمہارا جہاد حج ہے۔
*دوسری حدیث :* سأله نساؤه عن الجهادِ، فقال : نعم الجهادُ الحجُّ .(صحيح البخاري:2876)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ازواج مطہرات نے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج بہت ہی عمدہ جہاد ہے۔
*تیسری حدیث :* عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ أَفَلَا نُجَاهِدُ قَالَ لَا لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ(صحيح البخاري:1536)
ترجمہ: اُم المنومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد سب نیک اعمال سے بڑھ کر ہے تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟آپ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ (تمھارے لیے) عمدہ جہاد حج مبرورہے۔
*چوتھی حدیث :*عمرہ بھی اللہ کے راستے میں سے ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ الحجَّ والعمرةَ في سبيلِ اللهِ(صحيح الترغيب:1119)
ترجمہ: بے شک حج اور عمرہ اللہ کے راستے میں سے ہے ۔
*(7) افضل جہاد اپنے نفس سے جہاد ہے :* عورت ہو یا مرد اس کے لئے سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے جہاد کرے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : أفضلُ الجهادِ أن يُجاهدَ الرَّجلُ نَفسَه وهواهُ(صحيح الجامع:1099)
ترجمہ: سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنی نفسانی خواہش سے جہاد کرے ۔
*(8) ایک نماز سے دوسری نماز کا انتظار کرنا :* نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ألا أدلُكم على ما يمحو اللهُ بهِ الخطايا ويرفعُ بهِ الدرجاتِ ؟ قالوا : بلى . يا رسولَ اللهِ ! قال إسباغُ الوضوءِ على المكارهِ . وكثرةُ الخطا إلى المساجِدِ . وانتظارُ الصلاةِ بعدَ الصلاةِ . فذلكمْ الرباطُ .(صحيح مسلم:251)
ترجمہ: کیا میں تمہیں ایسی چیزیں نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتاہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !کیوں نہیں،آپ ضرور بتائیں،آپ نے فرمایا: ناگواری کے باوجودمکمل وضوکرنا اورمسجدوں کی طرف زیادہ چل کرجانا اورنمازکے بعد نماز کا انتظار کرنا،یہی سرحدکی حقیقی پاسبانی ہے ۔
*(9) جو اپنے مال ، عزت اور اہل کے لئے مارا جائے شہید ہے :* نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قاتل دون مالِه، فقُتل فهو شهيدٌ، ومن قاتل دونَ دمِه، فهو شهيدٌ، ومن قاتل دونَ أهلِه، فهو شهيدٌ(صحيح النسائي:4105)
ترجمہ:جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے اور جو اپنی جان بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ بھی شہید ہے او جو شخص اپنے گھر والوں کے دفاع میں مارا جائے، وہ بھی شہید ہے۔
دین اسلام کے لئے اپنی جان قربان کرنی والی پہلی شہیدہ خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔
*(10) فتنے کے زمانے میں دین حق پر قائم رہنے سے پچاس شہیدوں کا ثواب :* نبی ﷺکا فرمان ہے :
إِنَّ مِنْ ورائِكُم زمانُ صبرٍ ، لِلْمُتَمَسِّكِ فيه أجرُ خمسينَ شهيدًا منكم(صحيح الجامع:2234)
ترجمہ: تمہارے بعد والا زمانہ صبر آزما (پرفتن)ہو گا، اس وقت (حق کو/دین کو) تھامنے والے کو تمہارے پچاس شہیدوں کے اجر کے برابر ثواب ملے گا۔
*(11)نمازکے بعد تسبیح فاطمی پڑھنا:*حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا :
جاء الفقراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: ذهب أهل الدثور بالدرجات العُلى والنعيم المقيم، يصلون كما نصلي ويصومون كما نصوم، ولهم فَضْلٌ من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون، قال: ألا أحدثكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعدكم، وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه إلا من عمل مثله: تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثاً وثلاثين.(صحیح البخاری: 843)
ترجمہ : کچھ مسکین لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اوربولے کہ مال والے تو بلند مقام اورجنت لے گئے ۔ وہ ہماری ہی طرح نمازپڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ۔ اوران کے لئے مال کی وجہ سے فضیلت ہے ، مال سے حج کرتے ہیں، اورعمرہ کرتے ہیں، اورجہاد کرتے ہیں، اورصدقہ دیتے ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کی وجہ سے تم پہلے والوں کے درجہ پاسکو اورکوئی تمہیں تمہارے بعد نہ پاسکے اورتم اپنے بیچ سب سے اچھے بن جاؤ سوائے ان کے جو ایسا عمل کرے ۔ وہ یہ ہے کہ ہرنمازکے بعد تم تینتیس بار(33) سبحان اللہ تینتیس بار(33) الحمدللہ اورتینتیس بار(33) اللہ اکبرکہو۔
*(12) اللہ کا ذکر کرنا :* اوپر نماز کے بعد تسبیح پڑھنے کا ذکر ہے ، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عمومی ذکر سے بھی جہاد سے بڑھ کر ثواب ملتا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ألا أنبئكم بخير أعمالكم وأزكاها عند مليككم وأرفعها في درجاتكم وخير لكم من إنفاق الذهب والورق وخير لكم من أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم قالوا بلى قال ذكر الله تعالى (صحيح الترمذي:337)
ترجمہ: کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم ( میدان جنگ میں ) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی ( یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل )۔لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا:وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
اس بات کی طرف اللہ تعالی نے اپنے کلام میں بھی اشارہ کیا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (الاحزاب:34)
ترجمہ: اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالٰی لطف کرنے والا خبردار ہے ۔
*(13)سو بار اللہ اکبر، سوبار الحمد للہ اور سوبار سبحان اللہ کہنا:* أم هانی بنت أبي طالب رضي الله عنهما بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی عمل بتلائیے، میں بوڑھی اور ضعیف ہو گئی ہوں، میرا بدن بھاری ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كبِّري اللَّهَ مائةَ مرَّةٍ ، واحمَدي اللَّهَ مائةَ مرَّةٍ ، وسبِّحي اللَّهَ مائةَ مرَّةٍ خيرٌ من مائةِ فرَسٍ مُلجَمٍ مُسرَجٍ في سبيلِ اللَّهِ ، وخيرٌ من مائةِ بدَنةٍ ، وخيرٌ من مائةِ رقبةٍ(صحيح ابن ماجه:3810)
ترجمہ: سو بار«اللہ اکبر»، سو بار «الحمدللہ»، سو بار «سبحان اللہ»کہو، یہ ان سو گھوڑوں سے بہتر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں مع زین و لگام کے کس دیئے جائیں، اور سو جانور قربان کرنے، اور سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہیں ۔
مذکورہ بالا سطور میں چند فطری شہادت کے علاوہ کئی اعمال ایسے ہیں جن کی انجام دہی سے شہادت کا ثواب ملتا ہے جن میں سے کئی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، ساتھ ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عورتوں پر جسمانی جہاد فرض نہیں ہے البتہ اسلامی غزوات کو مدنظر رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ معمر عورتیں مجاہدوں کو پانی پلانے ، کھانا بنانے ، مرہم پٹی کرنے اور دیگر ضروریات پر تعاون کرنے کی غرض سے جنگوں میں شرکت کر سکتی ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مَعَهُ إِذَا غَزَا، فَيَسْقِينَ الْمَاءَ، وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى(صحيح مسلم:4787 )
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ کرتے تو ام سلیم اور انصار کی کچھ دوسری عورتوں کو ساتھ لے جا کر جنگ کرتے، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
اور اگر کوئی کافربغیر جنگ کے مسلم عورت پر حملہ کرے یا حملے کی ہجومی صورت حال ہو تو اپنی جان بچانے کے لئے عورت اپنا دفاع کرسکتی ہے اس مقاتلہ میں وفات پانے پر وہ شہید کہلائے گی ۔
یہاں ایک اہم نکتہ عورتوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگران پر جسمانی جہاد نہیں ہے تو مطمئن نہ جائیں ،آج کے پرفتن دور میں قدم قدم پر آزمائشوں سے جہاد کرنا ہے ۔ عورت خواہشات نفس سے ، زبان وقلم سے اور دعوت دین کے لئے حتی المقدور جہاد کرے گی۔ ان تمام برائیوں کے خلاف جہاد کرے گی جو اس کی عزت وآبرو کے لئے پرخطر ہو مثلا زنا سے ، اختلاط سے، رقص وسرود سے ، اباحیت وانارکی سے اورعریانیت وفحاشیت سے جہاد کرے گی ۔آج مردوں کے مقابلے میں زیادہ صبر آزما مرحلہ عورت کے لئے ہی ہے اس لئے انہیں اللہ کی اطاعت میں جہاد بالنفس کولازم پکڑ لینا چاہئے جو انہیں ہرفتنے اور ہر شر سے بچا سکے ۔
_____________________
No comments:
Post a Comment