786 Ko Musalman Itna Ahmiyat kyu dete hai?
Sawal: 786 ka kya matlab ya meaning hai?
Akser log isko ba barkat kahte hai yah kitna Sahi hai?
Kya yah number Jis paise ya saman pe hoga wah bahut hi ba barkat hoga?
Akser log isko Apne Gari pe likhwate hai, kuchh isi number ka gari Agency se nikalwate hai to isme kya koi Talismi Aser hai?
Quran-O-Sunnat ki Raushani me Daleel ke Sath jawab de.
سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1. مولانا صاحب میرا سوال یہ ہے کہ 786 کا کیا مطلب یا معنی ہیں کیا ہیں
2.اکثر لوگ اسکو با برکت کہتے ہیں
3.اور جس نوٹ یا پیسے پر 786 کا نمبر ہو,کیا وہ با برکت ہوگا
4.اکثر لوگ اسکو گھر اور گاڑی پر لکھواتے ہیں.
دلیل کے ساتھ جواب دے کیا یہ کرنا صحیح ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1. مولانا صاحب میرا سوال یہ ہے کہ 786 کا کیا مطلب یا معنی ہیں کیا ہیں
2.اکثر لوگ اسکو با برکت کہتے ہیں
3.اور جس نوٹ یا پیسے پر 786 کا نمبر ہو,کیا وہ با برکت ہوگا
4.اکثر لوگ اسکو گھر اور گاڑی پر لکھواتے ہیں.
دلیل کے ساتھ جواب دے کیا یہ کرنا صحیح ہے؟
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقولوا قَولًا سَديدًا ﴿٧٠﴾... سورةالاحزاب
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقولوا قَولًا سَديدًا ﴿٧٠﴾... سورةالاحزاب
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو"
اسلام ایک مکمل دین ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں زندگی گزارنے کے آداب بتائے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقدس فرامین کے ذریعے عملی نمونہ پیش کرکے ان کی مکمل وضاحت فرمادی۔
1۔ان اسلامی آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے ہر کام میں اللہ کا نام لے۔مسلمانوں کوہر اہم کام میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ اس میں برکت ہوتی ہے تحریر میں بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمان الرحیم سے شروع کیا جائے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو مکتوب مبارک تحریر فرمائے ان سب میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھی گئی ۔جیسا کہ احادیث مبارکہ کی کتابوں میں وہ خطوط مکمل طور پر درج کیے گئے ہیں۔
2۔کچھ لوگوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے 786 کا ہندسہ اختیار کرلیا ہے اور عوام میں بھی یہ عدد رائج ہوگیا ہے حالانکہ شریعت میں اعداد کو کبھی الفاظ کا بدل تسلیم نہی کیا گیا۔البتہ یہود میں یہ چیز پائی جاتی تھی اور وہ الفاظ کو اعداد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہود ونصاریٰ میں 7اور 14کے عدد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔اس لیے ان کی مذہبی کتابوں میں ساتویں سال کو خاص اہمیت حاصل ہے اور ان کے لیے خاص احکام موجود ہیں۔اس بناء پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب نامہ کو ابراہیم علیہ السلام سے لے کر مسیح علیہ السلام تک چودہ چودہ ناموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مسیحی علماء اس بات کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چودہ کا عدد سات کا دگنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظ داؤد ،جسے عبرانی زبان میں۔۔۔دود۔۔۔کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔اس کے اعداد 14 ہیں۔اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے روحانی وارث ہیں۔
3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب جمل یعنی حروف واعداد کے ہیرپھیر کے بانی اور اس پر ایمان رکھنے والے غیر مسلم اہل کتاب ہیں،مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں ہیں اور الگ الگ حرف کے طور پر پڑھے جاتے ہیں ان کے متعلق کتب تفسیر میں یہ روایات موجود ہیں کہ یہود نے جب یہ حروف سنے تو ان کا خیال تھا کہ اس سے مراد مدت ہے کہ اس نبی کی نبوت اتنا عرصہ رہے گی چنانچہ(الم) کو سن کر ایک یہودی عالم نے کہا کہ مسلمانوں کا نبی تو محض اکہتر سال تک باقی رہے گا۔جب اسے بتایاگیا کہ قرآن میں (المص) بھی ہے تو اس نے کہا یہ 161 سال ہوگئے۔پھر اسے بتایا گیا کہ قرآن مجید میں(الر) بھی ہے تو اس نے کہا یہ تو اور زیادہ ہوگئے۔پھر جب اس کے سامنے(المر) پیش کیا گیا تو وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا کیونکہ یہ 271 بنتے ہیں۔آکر کہنے لگا کہ مسئلہ الجھ گیا ہے۔ہمیں معلوم نہیں ان کا مقصد کیا ہے؟(جبکہ ان حروف کی حقیقت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور یہی موقف درست اور حقیقت پر مبنی ہے)۔
4۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف اور اعداد کو ایک دوسرے کا بدل قرار دینے کا تصور یہودیوں کی طرف سے آیا ہے۔لہذا مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں مسلمانوں کی روز مرہ زندگی میں بھی اعداد کو الفاظ کا بدل سمجھنے کا تصور موجود نہیں۔
اگر کسی کا نام انور ہے تو اس کو 257 صاحب کہہ کر نہیں بلایا جاتا، نہ قریشی صاحب 620 کہلانا پسند کریں گے ۔اگر مولانا صاحب کی بجائے 128 صاحب کہہ دیا جائے تو مولانا یقیناً ناراض ہو جائیں گے۔پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے؟
5۔اس کے علاوہ ایک عدد ضروری نہیں کہ ایک ہی عبارت کو ظاہر کرے بلکہ اس سے زیادہ عبارتوں کے مجموعی عدد کےبھی مساوی ہو سکتا ہے۔مثلاً یہی عدد 786 جسے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا بدل قراردیا جاتا ہے۔ہندوؤں کے معبود کرشن کے نام کا نعرہ(ہرے کرشنا) کے اعداد کا مجموعہ بھی ہے۔
6۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر اعداد الفاظ کابدل ہیں تو کیا ہم اپنے معاملات میں ان کا اس لحاظ سے استعمال قبول کرسکتے ہیں؟ایک شخص آپ سے کوئی واقعہ بیان کرتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہا ہے۔آپ اسے کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم کھاؤ وہ کہتا ہے"چھیاسٹھ کی دو سو،میں سچ کہہ رہا ہوں، کیا آپ تسلیم کرلیں گے کہ اس نے اللہ کی قسم کھائی ہے؟لہذا اس کی بات پر اعتبار کرلیا جائے۔اسی طرح نکاح کے موقعہ پر دولہا کہے،میں نے138 کیا تو یہ تسلیم کیا جائے گا کہ اس نے"قبول"کرلیا؟لہذا نکاح منعقد ہوگیا یا کوئی اپنی بیوی سے کہے،جا تجھے 140 ہے۔تو کیا اسے "طلاق" سمجھاجاسکتاہے۔یقیناً کوئی سمجھ دار اس منطق کو قبول نہیں کرسکتا۔
7۔پھر کیا وجہ ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے،اسے اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کے لیے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے لیے پسند کریں۔ایک مومن کے لیے اس کا تصور بھی ناقابل قبول ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ 786 اس لیے لکھتے ہیں تاکہ اللہ کے پاک نام کی بے حرمتی نہ ہو۔کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہوتو اسے ادب سے رکھنا چاہیے لیکن 786 لکھا ہوتو اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں۔
ان حضرات کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں 786 بسم اللہ کا بدل نہیں ہے۔اسی لیے اس کا ا حترام کرنا ضروری نہیں ورنہ اگر عدد بھی بسم اللہ ہے تو اس کا احترام بھی اسی طرح ضروری ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ 786 کا عدد بسم اللہ کا نعم البدل صرف تحریر میں سمجھا جاتا ہے۔زبان سے بولنے میں نہیں،ورنہ کھاتا کھاتے ہوئے بھی سات سوچھیاسی پڑھ کر کھانا شروع کردیا جائے اور تلاوت کرتے ہوئے بھی اس سہولت سے فائدہ اُٹھایا جائے اور اگر نماز کے لیے اذکار کے اعداد نکال لیے جائیں تو بڑی آسانی سے جھٹ پٹ نماز سے فراغت حاصل ہوسکتی ہے۔لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ وہ 786 کا عدد استعمال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا مبارک نام اور مکمل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھا کریں تاکہ وہ یہود ونصاریٰ کی نقل سے بچتے ہوئے اللہ کے نام کی برکتوں سے فیضیاب ہوسکیں۔(محمد اسماعیل محمدی،کراچی،مجلۃ الدعوۃ جون 1997ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment