عَجَب حالت ہماری ہوگئ ہے
یہ دُنیا اب تمہاری ہوگئ ہے
سُخن میرا اُداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہوگئ ہے
بہت ہی خوش ہے دِل اپنے کِیے پر
زمانے بھر میں خواری ہوگئ ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
میری آواز بھاری ہوگئ ہے
دِل اب دُنیا پے لعنت کر کہ اِسکی
بہت خدمت گُزاری ہوگئ ہے
یقین مغرور ہے اب اور گُمان بھی
بڑی بے روز گاری ہوگئ ہے
وہ اِک بادِ شُمالی رنگ جو تھی
شمیم اُسکی سواری ہوگئ ہے
میرے پاس آکے خنجر پھونک دے توُ
بہت نیزہ گُزاری ہو گئ ہے
No comments:
Post a Comment