find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Amamat ki Mulajmat.

امامت کی ملازمت / عبداللہ بن زبیر

نماز میں کچھ دیری تھی
امام صاحب کا انتظار ہو رہا تھا ، جیسے ہی مسجد کی گھڑی نے ٹون بجائی ، مسجد کے داخلی گیٹ سے امام صاحب بھی تشریف لے آئے ، ان کے  قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی اور پھر نماز کی تلاوت میں بھی رعشہ محسوس ہوا ۔۔۔ بار بار کی کھانسی سے لگا کہ شاید ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  ۔۔ نماز کے بعد میں سلام کے لئے ان کی جانب بڑھا،

"السلام علیکم"
انہوں نے انتہائی محبت ہمیشہ کی طرح سلام میں پہل کی ، جیسے ہی میں نے مصافحہ کیا ایک جھٹکا سا لگا ، ان کے ہاتھ انتہائی گرم تھے ، اور وہ شدید بخار کی کیفیت میں بھی اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے تھے ، میں ان کے کمرے تک ان کے ساتھ چلتا گیا، خیر و عافیت دریافت کی تو ہمیشہ کی طرح وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے بولے
" بس کچھ بخار ہے باقی تو سب ٹھیک ہے "

" پھر  مولانا آپ گھر کیوں نہیں چلے جاتے ؟؟ کچھ دن آرام کرلیتے  "

میرے مشورے کے جواب میں انتہائی روہانسی لہجے میں گویا ہوئے 

"نہیں بھائی اجازت نہیں ملتی ، مسجد کی کمیٹی نے کہا ہے کہ متبادل دے دو تو چلے جا ؤ وگرنہ گزارہ کرو "

مجھے بے پناہ دکھ محسوس ہوا ۔۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں مساجد کے جس امام سے بھی آپ مل لیں قریب قریب ایک ہی صورت حال کا شکار نظر آئے گا۔۔

جس مغربی معاشرے کو ہم گالیاں دیتے نہیں تھکتے ، جن کی بدبودار تہذیب ہمارے لئے باعث عار ہے وہی لوگ اپنے مذہبی پیشوا کو جس انداز سے نوازتے ہیں ہم دیکھ کر حیران رہ جائیں گے

عیسائی کمیونٹی اپنے "پادری " کو ماہانہ 27 سوڈالر ( دو لاکھ 70 ہزار روپے) تنخواہ دیتے ہیں ، یہودی اپنے "ربی" کو ماہانہ تقریبا 12 ہزار ڈالرز ( 12لاکھ روپےماہانہ) سے نوازتے ہیں ، ہندو اپنے پنڈت کو ماہانہ ایک لاکھ روپے دیتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کا یہ رویہ صرف اپنے مذہب کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اقلیت کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ روا رکھتے ہیں ، ایک محدود اندازے کے مطابق امریکہ میں مسجد کے امام کو ماہانہ 25 سو ڈالر ( دو لاکھ پچاس ہزار روپے ) تنخواہ ملتی ہے ، جبکہ میڈیکل ، رہائش اور دیگر یوٹیلٹی بلز اس کے علاوہ ہیں ۔۔

اب ذرا اپنے ملک کی تنخواہوں کا گراف دیکھ لیجئے اور پھر اندازہ لگائیے ہم کہاں کھڑے ہیں ؟؟
بحیثیت قوم ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ " مولوی " وہ مخلوق ہے جس کی ضروریات کا تعلق " توکل " کے ساتھ ہے ۔۔ بس اللہ کی ذات پہ بھروسہ کرتےہوئے اسے اپنی " روکھی سوکھی " کا بندوبست " غیب کے خزانوں " سے ہی وابستہ رکھنا ہے  ۔۔
اور اس پہ مستزاد " مفت خوری " کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے۔۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مسجد کی امامت ایک ایسی ملازمت ہے جس میں چھٹی کا تصور تک نہیں ہے ، انسان 24 گھنٹے پابند رہتا ہے ، بعض کمیٹی ممبران نے ٹیوشن پڑھانے پہ بھی پابندی لگا رکھی ہوتی ہے ، لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا بھی امام کے لئے شجرممنوعہ ہے۔۔

گذشتہ کئی دنوں سے مساجد کے آئمہ کے لئے " مشاہرہ " کا موضوع زیر بحث رہا ہے ، مانا کہ گورنمنٹ کی تنخواہوں کی عوض میں " خدمات " کا مطالبہ بھی ہوتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمارے " منجھے دماغ" غریب ائمہ کو " سید احمد شہید " اور " " امام ابن تیمیہ" کی جگہ پہ بٹھانا چاہتے ہیں ، ارے اللہ کے بندو اسے رزق تو پورا کمانے دو ۔۔ اس کے بچے دودھ کے کلبلا رہے ہیں ، دوکان دار انہیں ادھار نہیں دے رہا ، سکولوں میں فیسز کی ادائیگی کی فرصت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچے مدارس کی خوراک پہ پل رہے ہیں ، ان کی بائیکس میں ایندھن نہیں ، ان کے گھر کا چولہا کمیٹی ممبران کا محتاج ہے ، گرمی سردی ایک ہی سوٹ پہ گزارہ کر رہے ہیں ، شادی بیاہ کے لئے انہیں قرض لینا پڑتا ہے ، دن بھر کے تھکے ہارے رات بھر سوچتے گزارتے ہیں ، تراویح پہ پیسے مل جائیں تو آپ کی طرف سے " بدعت " کا ٹھپہ لگتا ہے ، مجبوری کی وجہ سے کمیٹی کے کسی ممبر کو راضی کرنے کے لئے نماز جنازہ کے بعد دعا مانگ لیں تو اپنے عقیدہ سے منحرف گردانے جاتے ہیں ۔۔
اے عالی دماغو ! ذرا انہیں دم تو لینے دو
اگر ان سے توقعات وابستہ رکھنی ہیں تو ان کے لئے کچھ سوچو بھی ۔۔
ان " سمجھ داروں " کی سمجھ پہ افسوس ہوتا ہے جو مسجد کی امامت کے عوض ملنے والی تنخواہ میں " یہودیوں کے ایجنڈے " ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔

اگر آپ کے پاس خوردبینی آنکھیں ہیں ، عالی دماغ ہیں تو آپ بھی " ایجنڈے " بنائیں ، کبھی کوئی " ایجنڈا " بنا کر عیسائیوں کے چرچ میں " پادری " بھرتی کرلیں ، کیا ہمیں کسی نے روک رکھا ہے ؟؟ لیکن نہیں ہم اپنے لئے ناقابل عمل عوامل کو سیدھا " یہودی ایجنڈے " سے جوڑ کر کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیتے ہیں کہ شاید ہمیں بلی نے نہیں دیکھا۔۔

افسوس آج تک ان " بالائی سیاست " کرنے والوں نے مسجدوں کے " فقرا و درویش " آئمہ کے بارے میں کوئی لائحہ عمل وضع نہیں کیا ، نہ ان کی یونین بن سکی ، نہ ان کی کوئی تنظیم معرض وجود میں آسکی اور نہ کبھی کسی نے ان کی طرف دھیان دیا ،  بس یہ " بیچارے امام " صرف استعمال ہوتے رہے ، کبھی انہیں " نوٹ " کے لئے استعمال کیا گیا اور کبھی " ووٹ " کے لئے ۔۔

" جہادیوں " کو چندہ کی ضرورت پڑی تو مساجد کی یہی " امام " استعمال ہوئے ، تنظیموں کے اجلاس میں یہی " میزبان " بنتا رہا لیکن اس " " بیچارے " کی معیشت کبھی بھی زیر بحث نہیں آئی ،  مساجد کے آئمہ ، خادمین ، مؤذنین ہوں یا مدارس کے اساتذہ  یہ وہ طبقہ ہے جس کو معاشرے کا عضو معطل سمجھا جاتا ہے ، ڈیفینس ، گلبرگ جیسے علاقوں میں بھی سولہ سالہ تعلیم کے حامل علماء کو 24 گھنٹوں کی " مزدوری " تیس ہزار تک دی جاتی ہے ۔۔

کسی زمانے میں ایک " مرد مومن " نے انتہائی سوچ و بچار کے بعد علماء کی کثیر جماعت کو سکولوں اور کالجوں میں بھرتی کیا ، اس وقت مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی کا دور تھا ، انہوں نے اس عمل کو خوش آئند قرار دیا اور علماء کی کثیر جماعت برسر روزگار ہوگئی اور کسی نے بھی اس عمل کو " یہودی ایجنڈا " نہیں کہااور نہ ہی اسے
" حق کی آواز " کو خریدنے کا حربہ قرار دیا گیا، آج ہزاروں علماء سکولوں اور کالجوں میں تعینات ہیں ۔۔

اگر سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے " باوا آدم " مل بیٹھ کر اس نہج پہ سوچ بچار کرلیں تو شاید " یہودیت " کے پالیسی ساز اداروں میں کھلبلی مچ جائے لیکن فرصت ہو تب نا۔۔۔

میں بذات خود ایسے متعدد آئمہ سے واقف ہوں جن کی ماہانہ سیلری 25 سو ہے ، ایسے کئی مدرسین بھی نظر میں ہیں جن کی تنخواہوں کا گراف 35 سو روپے ہے ، ایسے مہتممین سے بھی واقف ہوں جو خود تو 30 لاکھ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں مگر ان کے مدرسین گذشتہ اٹھارہ ماہ سے تنخواہوں کو ترس رہے ہیں ، مساجد کے ایسے کئی خادمین بھی نظر میں ہیں جن کو " بھاری بھر کم " کمیٹی ممبران " حرام خوری " کا طعنہ دیتے رہتے ہیں جبکہ ان کی تنخواہ " پندرہ سو " ہوتی ہے۔۔

مساجد کو آباد کرنے والے ان " بندگان خدا " کو "یہودی ایجنڈے " سے بچانا ہے تو خدا کے لئے ان کی " معیشت " کا سوچئے ،

" سچ " کی آواز کو دبانے کی چالوں پہ واقعی فکر دامن گیر ہے تو ان آئمہ کے بارے میں کوئی لائحہ عمل وضع کیجئے وگرنہ یہ قافلہ ہاتھ سے جاتا نظر آرہا ہے ، ابھی صرف خیبر پختونخواہ کی حد تک معاملہ ہے پھر دیگر صوبوں میں بھی دھیرے دھیرے یہی کچھ ہونے والا ہے ، وگرنہ مجھ جیسے " ملا " کو مسجد کی امامت کے عوض میں پچاس ہزار ملنے لگ جائیں تو میں نے تنظیموں سے وابستگی کا اچار ڈالنا ہے ۔۔  میں تو صرف گورنمنٹ کے راگ ہی الاپ سکوں گا۔۔ کیونکہ میں اپنی " معیشت " سے مجبور ہوں گا۔۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ مذہبی اور سیاسی قوتیں ساتھ مل کر ذرا اماموں کے بارے میں سوچ بچار کرلیں وگرنہ تمہارے مدارس کی ساری کھیپ آرمی میں خطیب ، سکول میں ماسٹر ، کالج میں لیکچرر اور مسجد میں امام لگنے جارہی ہے ، ایسا نہ ہو پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں ۔۔
#زبیریات
محمد عامر

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS