Jab Ek Padhi likhi Ladki ki Shadi ek Anpadh aur Jahil se ho gayi.
Shahjadi jo ke ek Heigh Educated ladki hai , Jiska Khawab tha ek khub padhe likhe aur Amir Zade ladke se Shadi karne ka lekin Uski Shadi Umar nam ke ek uneducated ladke se ho gayi.
Umar Ab meri Zindagi hai
Aur Mai Umar ki Shahjadi
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی.
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں
میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا
لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی۔
مجھے عمر سے بدبو آتی تھی
ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا
خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ
یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح۔
وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ، غصہ کرتی
عمر مجھے پیار سے سمجھاتا
کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا
میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے۔
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے ، نہ کرو ایسا
بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔
باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو۔
لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی۔
میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے۔
امی ابو نے عمر کو بلوا لیا۔
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے۔
عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا......
انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی کے ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں۔
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں۔
میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس
اس شرط پہ ہی جاوں گی میں عمر کے ساتھ۔
عمر خاموش ہو گیا
سر جھکائے بیٹھا تھا
چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو خرچہ 30 ہزار۔
کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس لی اور بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے۔
میں نے دل ہی دل میں گالی دینا شروع کر دی
" کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا "
میں عمر کے ساتھ چلی گئی۔
اب بجلی ، پانی ، گیس کا بل ، راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے۔
عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں۔
اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ اس نے بتایا۔
خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا لیکن مجھے اب بھی اس کے لیے میرے دل میں نفرت ہی تھی اور میں اسے بہت ہی بُرا انسان، کام چور اور دیہاتی جاہل سمجھتی تھی۔
ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو
میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر مجھے طلاق دے دے۔
عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی دے دوں گا پریشان نہ ہو۔
تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو
جو کہو گی کروں گا۔
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیادہ نمک، میں نے کئی بار خانے میں زہر بھی ڈالنے کی سوچی........ کیونکہ میں اس سے نفرت کرتی تھی اسلئے کے وہ تعلیم یافتہ اور دولت مند نہیں تھا۔
وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا۔
نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتنا تھک جاتا تھا۔
میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے ، وہ اتنی محبت کرتا تھا۔
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہی تھی شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں۔
جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو
میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا
میں بے جان ہو گئی
وہ عمر جسے میں بہت نفرت کرتی تھی
جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی
جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا بلکہ میں اس کے مر جانے کے لیے دعا کرتی تھی.... اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور میرے دل میں اس ان پڑھ کے لیے ذرا سی بھی ہمدردی نہیں تھی۔
جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا۔
جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی۔
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا۔
ٹانگیں کانپ رہی تھی
پرانے سے کپڑے پہنے
پسینے سے شرابور .....
پیر میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی .....
کاش میں مر کیوں نہ گئی تھی
وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا
اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کے چھت پہ لوڈ کر۔
عمر کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا
ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں
میرا عمر میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا۔
میں آنسو لیئے دیکھتی رہی
کام ختم ہوا
وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا
کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں
سارا دن وہاں درد سہنا اور رات کو میرے غصے کو خاموش سن کر رہ جانا۔
وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا۔
میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی۔
بہت روئی تھی بہت زیادہ
عمر کو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا
عمر گھر آیا
میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا
گھر آیا
مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا۔
پلاو دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا
ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں۔
کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
عمر کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں
میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں۔
عمر پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا
دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں
عمر نے کھانا کھایا
پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 30 ہزار
میں چیخ چیخ کر رونے لگی عمر کے پاوں چوم لیئے۔
عمر مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے
مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے
عمر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے۔
عمر نے میرا ہاتھ تھاما اور بولا
اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم
پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی؟ خدا جانے۔
بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اس لیے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا۔
میں عمر کے سینے سے لگ گئی آج مجھے
نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر , گاڑی
مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا عمر بن چکا تھا
ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی؟
بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں۔۔۔۔
کبھی اہنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا جسے میں نے عمر کا دیکھا تھا۔
خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لیئے خود کو قربان کر دیتا ہے۔
جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو۔
پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا۔
خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جو سکون عمر کی بانہوں میں آتا ہے۔
جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون
عمر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے۔
ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی
دیکھ تو سہی
آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی
عمر اب میری زندگی ہے
اور میں عمر کی شہزادی۔