Hindusta ki Aazadi me Musalmano ka kirdar.
Indian Constitution ( संविधान ) banane me Musalmano ne ahem kirdar ada kiya tha.आज जब मुल्क की असल पहचान मिटाकर इसे हिंदू राष्ट्र बनाने की कोशिशें जोड़ो पर है ऐसे वक्त में मुसलमानों को यह जानने जरूरी है के इस मुल्क की आजादी में मुसलमानों ने भी अपनी जानो की कुरबानिया दी और जब जरूरत पड़ा यहां की मिट्टी को मुसलमानों ने अपने खून से सींचा है।
मौलाना हसरत मोहानी और दीगर उलेमाओ ने हिंदुस्तान की आजादी और आइन ( संविधान ) तैयार करने में अपना अहम किरदार अदा किया।
अगर मुलाना हसरत मोहानी नही होते तो शायद मुसलमानों को वह हक़ कभी हासिल नहीं होता जो आज इस मुल्क के सभी अकलियतो (minorities) को वह दर्जा हासिल है।
यहां 35 मुसलमान आलिमों का नाम है जिन्होंने हिंदुस्तान की तहरीक ए आजादी और दस्तूर साजी में अहम किरदार अदा किया मगर उन लोगो का आज कही नाम वा निशां नही है बल्कि मुसलमानों का एक बहुत बड़ा तबका ही उनलोगो को भुला दिया।
#भारतीय सविधान #गणतंत्र दिवस
#26 जनवरी #हिंदुस्तान की आजादी
ہندوستان کی دستور سازی میں مسلمانوں کا حصہ!
مفتی محمد صادق حسین قاسمی_
All India Muslim Personal law Board
---------------------------------------------
یومِ جمہوریہ جو ہمارے ملک کا ایک تاریخی اور یادگار دن ہے، یہ اس لئے منایا جاتا ہے کہ اسی تاریخ کو ہمارے ملک کا قانون نافذ ہوا، اور ہمار ملک ایک جمہوری ملک قرار پایا۔
جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں اور مختلف قبیلہ و خاندان والوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہنے اور جینے کا حق ملا۔
ہمارا ملک 15اگست 1947کو آزاد ہوا۔ آزادی کے پندرہ دن بعد 29 اگست1947کو طے کیا گیا کہ آزاد ہندوستان کا اپنا آئین بنایاجائے ،جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ان کی خوش حال اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی، اس مقصد کے لئے دستورساز اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ،جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔
اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی مسلسل محنت کے بعد ملک کا آئین تیار کیا ، جسے ملک کی پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کر دیا، اس آئین کی رو سے ہمارا ملک جمہوریہ ہند کہلایا۔( آزادی سے جمہوریت تک:۱۰۹)
دستور سازی کے لئے محنت و کوشش کرنے والوں میں مسلمان اور علماء کرام بھی شامل تھے ، جس طرح ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لئے مسلمانوں کا اور علماء کا اہم کردار رہا ہے ،اسی طرح اس ملک کو امن و محبت کا گہوارہ بنانے اور جمہوری اقدار پر تعمیر کرنے میں اہم کوششیں رہی ہیں۔ اگر دستورسازی کے موقع پر علماء کرام نے دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا اور ملک کو جمہوری انداز میں تشکیل پانے پر زور نہ دیا ہوتا تو اس ملک کا امن و سکون غارت ہوجاتا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر برادران وطن کو بھی مذہبی تنگ نظری و تعصب پسندی کا نشانہ بننا پڑتا، اور حقوق و اختیار سے محروم ہو کر مجبور و لاچار کی طرح رہنا پڑتا ، لیکن ان لوگوں کی قربانیوں اور ملت کے تئیں ان کی بے لوث فکرمندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے.
جہاں ہر مذہب والا اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ اور جہاں ہونے والے ظلم کے خلاف ،نا انصافیوں کے خلا ف، آئینی اختیارات کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا حق حاصل ہے ، اس ملک کی تعمیر و ترقی ، اس کی سالمیت ، امن و محبت ، تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے تگ ودو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ تحریکِ آزادی کے مجاہدین میں مسلمانوں کے ناموں کو نکال دیا گیا اور گنے چنے چند نام رہ گئے ہیں اور کتابوں ،نصابوں اور تعلیم گاہوں سے لے کر جلسوں ، اجتماعوں اور قومی تقریبوں تک مسلمانوں کے تذکروں کو حذف کر دیا گیا ،اسی طرح دستور سازی میں مسلمانوں نے کس طرح اپنے علم ، صلاحیت ، فکر اور محنت کو لگایا ہے اس کو بھی تاریخ کے صفحات سے بالکل الگ کر دیا گیا۔ بلکہ ہم مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں یہ بالکل بھی نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے بھی دستور سازی میں حصہ لیا اور اس کے لئے کوششیں کیں۔
مسلم ممبران دستور سازی کی تلاش کے دوران ایک نہایت تحقیقی مواد دستیاب ہوا ،جسے محترم رمیض احمد تقی نے غیر معمولی تحقیق سے جمع کیا اور تقریبا ۳۵ مسلم ممبران کے نام شمار کروائیں ، جسے جاننا چاہیے ۔
چناںچہ ہم یہاں ان کی اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں، وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:میں نے اپنی تلاش و تتبع کے بعد اس مختصر مقالے میں 35 مسلم ارکانِ قانون ساز مجلس کے اسمائے گرامی کو ذکر کرنے کا التزام کیا ہے:
(1) مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888۔ 22 فروری 1958) ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم
(2) عبدالقادر محمد شیخ
(3) ابوالقاسم خان (5 اپریل 1905۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ مشہور تھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار اور سیاستدان تھے۔
(4) عبدالحمید
(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور کے سرپرست اور زمینداربھی تھے۔
(6) سید عبدالرؤف
(7) چوہدری عابد حسین
(8) شیخ محمد عبداللہ (دسمبر 1905۔8 ستمبر 1982)
(9) سید امجد علی (1907۔ 5 مارچ 1997)
(10) آصف علی (11مئی 1888۔ 1 اپریل1953) آپ پیشے سے ایک وکیل تھے، آپ پہلی بار ہندوستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اور کئی سال تک اڑیسہ (اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔
(11) بشیر حسین زیدی (1898۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپ B.H. زیدی سے زیادہ معروف تھے۔
(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاستداں تھے۔
(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاستداں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد مسلم خاتون۔
(14) حیدر حسین
(15) مولانا حسرت موہانی(معروف شاعر، مجاہدِ آزادی، اردوے معلی کے بانی مدیر)
(16)حسین امام
(17) جسیم الدین احمد
(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم
(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899۔14 نومبر 1977)
(20) کے اے محمد
(21) لطیف الرحمن
(22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے، کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاں آپ کو’’قائدِ ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن، جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر آزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔
(24) محمد اسماعیل خان
(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن(سیوہاروی)
(26) محمد طاہر
(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اور صوب جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔
(28) مرزا محمد افضل بیگ
(29) مولانا محمد سعید مسعودی
(30)نذیر الدین احمد
(31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف مجاہدِآزادی، کانگریسی لیڈر اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر مواصلات)
(32) راغب احسن
(33) سید جعفر امام
(34) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔
(35)تجمل حسین۔ ( ازمضمون:قانون ساز مجلس اور مسلم ممبران)
یہ ان عظیم لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے قانون سازی میں ترجمانی کی اور بعض تو وہ ہیں جنہوں نے بھرپور انداز میں ملک کو جمہوری بنانے اور مسلمانوں کے حقوق و تحفظات کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔
مولانا حسرت موہانی ؒ جو اس کے ایک اہم رکن تھے اور جنہوں نے دستور سازی میں قابل قدر جدوجہد کی ہے اور بڑھ چڑھ کر مناسب و مفید دفعات کے لئے آخر وقت تک لگے رہے۔
مولانا حسرت موہانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں کی نسبت تھے ،کے تحفظ کے لئے بھی موثر انداز میں اظہار کیا۔
چناںچہ انہوں نے دستورسازی کے موقع پر تمام مذاہب کے پرسنل لا اور بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کے سلسلہ میں کہا تھا کہ’’میں یہ بتا دینا چا ہاہوں گا کہ کوئی سیاسی پارٹی یا فرقہ پرست پارٹی کو کسی بھی گروپ کے پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ یہ خصوصا مسلمانوں کی نسبت کہتا ہوں کہ ان کے پرسنل لا کے تین بنیادی اصول ہیں جو مذہب زبان اور کلچر ہیں ۔جن کو انسانوں نے نہیں بنایا ہے ۔ان کا پرسنل لا طلاق ،شادی ،اور وراثت کا قانون قرآن حکیم سے لیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اس میں درج ہے ،اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کر سکتے ہیں تو میں کہوں گا اس کا انجام بے حد نقصان دہ ہوگا۔ میں اس ایوان میں آواز لگا کر کہہ رہا ہوں کہ وہ مصیبت میں پھنس جائے گا، مسلمان کسی صورت میں اپنے پرسنل لا میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اگر کسی کو ایسا کہنے کی ہمت ہو تو اعلان کرے۔۔۔۔درمیان میں کچھ ارکان نے تقریر کے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی ،جس پر مولانا حسرت موہانی نے علی الاعلان اظہار کیا کہ:ان کو قائل رہنا چاہیے کہ میں اس ایوان کے فلور پر اعلان کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کبھی بھی اپنے پرسنل لا میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ،اور ان کو مسلمانوں کے عزائم کی آہنی دیوار کا روزانہ مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘
( حسرت موہانی اور انقلابِ آزادی:۵۲۱)
مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ جو قانون ساز مجلس کے رکن تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی تھے ، مجاہدِ ملت نے بھی دستور سازی میں بڑی قابلِ قدر کوششیں کی ہیں ۔
چناںچہ قاضی محمد عدیل عباسی ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ: ’’سب سے بڑا احسان جو انہوں نے ملتِ اسلامیہ پر کیا وہ دستور ہند کا موجود ہ ڈھانچہ ہے۔اس وقت مولانا دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اقلیتوں کو جو حقوق دئیے گئے ہیں ،ان کی ترتیب و تدوین میں مولانا حفظ الرحمن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آج یہی دستور کی دفعات ہیں، جو مسلمانوں کو ہندوستان میں سربلند رکھتی ہیں اور اگر ان میں حقوق حاصل کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے یعنی وہ احساس کمتری سے نکل آویں تو ان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔‘‘
( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۹۱)
جناب محمد سلیمان صابر صاحب لکھتے ہیں کہ :’’آئین ساز اسمبلی کی ممبری کو عام لوگ ایک بڑا اعزاز کہہ سکتے ہیں۔لیکن حضرت مولانا نے کسی اعزاز کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے آئین یا قانون ساز اسمبلی کی ممبری قبول کی کہ وہ شروع ہی سے ایک قومی رکن رہے تھے۔ برطانوی دور میں ملک کو آزاد کرانے کا اہم مقصد سامنے تھا اور حصول آزادی کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ ملک کو ایسا جمہوری آئین دیا جائے جو بلاتخصیص مذہب کسی باشندے کو کسی دوسرے پر فوقیت یا برتری حاصل نہ ہو۔بلکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ یہ حضرت مولانا جیسے وسیع النظر ممبروں ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کو ایک سیکولر آئین دیا گیا۔
( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :۱۱۷)
یہ دو حضرات کی فکر و کوشش کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت اور ان کی خدمات تو روشن ہیں۔
ان مشہور شخصیات کے علاوہ دیگر حضرات کے کارناموں کو اجاگر کرنے اور تاریخ کے صفحات سے ان کی خدمات کو کھنگال کر قوم و ملت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو جمہوری بنانے میں مسلمانوں کا اہم رول رہا ہے اور مسلمان صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ تمام بھارتیوں کے لئے یہ کوشش کرتے آئے ہیں۔آج یومِ جمہوریہ کے یاد گار موقع پر ان تمام محسنوں کے ناموں کو اور ان کے کردار کو فراموش کر دیا گیا اور تمام اپنے اور پرائے لاعلمی اور نا واقفیت کے ساتھ یہ تاریخی دن گزار دیتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ملک کی سالمیت ،گنگا جمنی تہذیب کی بقا ،آپسی خلوص و محبت، امن وامان کے تحفظ کے لئے جمہوری انداز میں تعمیر کرنے کے لئے فکر و صلاحیت لگانے والوں کو بھی یاد کیا جائے اور باضابطہ ان کے تذکرے کئے جائیں اور بتایا جائے کہ کس طرح کی پیہم کوششوں کے نتیجہ میں یہ ملک جمہوری قرار پایا ورنہ یہاں کی دیگر اقلیتوں کو غلامانہ زندگی بسرکرنا پڑتا۔ کیوں کہ اگر آج ہم نے اس سلسلہ میں غفلت کی اور لاپرواہی کاثبوت دیا تو پھر آنے والے دور میں تو کوئی بھی اس سلسلہ میں دلچسپی لینے والا نہیں ہوگا۔
آج اس ملک کی جمہوریت اور سالمیت خطرہ میں ہے اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور خاص رنگ میں رنگنے کی پھر کوششیں زوروں پر ہیں ایسے پُرخطر حالات میں تمام امن پسند ،جمہوریت کے پاسبانوں کو اس ملک کی جمہوری بقاکے لئے ایک نئی جدوجہد کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا یہ پیارا ملک نفرت کی آگ میں جھلس جائے گا اور فرقہ پرستی کی لہر تباہ و برباد کردے گی ۔
ہمار ا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
*بور سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
Musalman na hote to Aazadi nahi milti shayed
ReplyDeleteAaj naye naye deshbakht paida ho gaye hai, Modern Chatukar sab
ReplyDeletePahle England ki gulaam kiya ab fir America ki, Gulam they Gulam hai. Fark kya padta hai. Europe ke gulam
ReplyDeleteBilkul gaddari kiya hai. Dogla
ReplyDelete