find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Le Palak bacche ke bare me Kya Hukm hai? Aulad nahi hone ki wazah se yatim Khane se bacche lekar Uski Parwarish kar sakte hai?

Le Palak Bacche ke bare me Sharai Ahkamat kya hai?

Kya Aulad na hone ki Surat me Yatim khane se ya Rishtedar se Baccha God lekar usko Moonh Bola Beta/Beti banana aur Uski Parwarish karna jayez hai?
Kya wah Baccha Hamari Khawateen ka Mehram Ban jayega aur Hamari Jayedad ka bhi warish Hoga? Tafseel se rahnumai Farmaye.
"Mera Jism meri marji" Ke naare se ab tak kya Hasil hua?
Muslim Ladkiyo ko BLT se kaise Mahfuz rakhe?
Dusri shadi ki istaa"at rakhte hue bhi Shadi nahi karne dena.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -388"
سوال_  لے پالک بچے کے بارے شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا اولاد نا ہونے کی صورت میں کسی رشتہ دار یا یتیم خانے سے بچہ گود لے کر اسکو منہ بولا بیٹا بنانا اور اسکی پرورش کرنا جائز ہے؟ نیز کیا وہ بچہ ہماری خواتین کا محرم بن جائے گا اور  ہماری جائیداد کا بھی وارث ہو گا؟  تفصیل سے رہنمائی کریں؟

Published Date: 12-09-2024

جواب..!
الحمدللہ۔۔۔!

 *لے پالک کہتے ہیں کسی دوسرے کے بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانے کو، جیسے کہ اکثر لوگ اولاد نا ہونے کی صورت میں یا احسان کرتے ہوئے اپنے کسی رشتے دار یا کسی یتیم بچے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں،اسکی پرورش کرتے ہیں،حتی کہ اپنی حقیقی اولاد کی طرح اسکو بھی اپنا نام دیتے ہیں، اسکی پڑھائی لکھائی اور شناختی کارڈ وغیرہ تمام جگہوں پر اسکو اپنی ولدیت/شناخت دیتے ہیں، اور وہ بچہ اپنے حقیقی باپ کی بجائے ان پرورش کرنے والوں کی طرف منسوب ہو جاتا ہے، اور اس گھر کی خواتین سے گھل مل جاتا ہے اور بظاہر انکا محرم بن جاتا ہے.

بچوں کومنہ بولا بیٹا بنانے کی شرعی حیثیت۔۔؟

بچوں کو منہ بولا بیٹا بنانے کی دو قسمیں ہیں :
ممنوع اور غیر ممنوع!

*پہلی قسم : ممنوع :-
وہ یہ کہ کسی دوسرے کے بچے کو اپنا بیٹا بیٹے کے احکام دیے جائيں اور ایسا کرنا جائز نہیں،

جیسا کہ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں..!
ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَ‌جُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزو‌ٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِر‌ونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ٥﴾....

اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وه سیدھی راه سجھاتا ہے ،لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
(سورہ الاحزاب آئیت ـ4٫5)

یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔
((کیا ظہار سے بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی؟ پھر اس کا کفارہ.؟ دیکھیے سلسلہ نمبر 257))

اس لئے اس کی اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔

حدیث ملاحظہ فرمائیں!

صحیح بخاری
کتاب: تفاسیر کا بیان
باب: باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان (آزاد شدہ غلاموں کو) ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو“۔
حدیث نمبر: 4782

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَالِمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ:‏‏‏‏ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5.

ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله‏)
کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوحذیفہ رض کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا۔ نبیﷺ نے حضرت ابوحذیفہ رض کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو (کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی) اور تمہارے شوہر کو جو اس منہ بولے بیٹے کے گھر رہنے سے پریشانی ہے وہ بھی ختم ہو جائیگی ۔۔۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

(صحیح مسلم ، کتاب الرضاع باب رضاعۃ الکبیر
(ابوداود ، کتاب النکاح ، باب فیمن حرم بہـ2061)

(رضاعت کبیر کے حوالے سے مکمل تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر - 148)

دوسری قسم : مباح اور جائز :
وہ یہ ہے کہ بچے پر احسان کرتے ہوئے اس کی کفالت کی جائے اور دینی اور اصلاحی تربیت کی جائے اوراس کی صحیح اور بہتر راہنمائی کرتے ہوئے اسے دین و دنیا میں نفع دینے والی اشیاء کی تعلیم دی جائے ۔

*یتیم کی کفالت اور منہ بولا بیٹا بنانے میں بہت فرق ہے جسے ہم ذيل کے کچھ نقاط میں بیان کرتے ہیں :*

*1 - منہ بولا بیٹا بنانا یہ ہے کہ :*
کوئي شخص کسی یتیم بچے کو حاصل کرکے اسے اپنے صلبی بیٹے جیسا بنا کراسے اپنی طرف منسوب کر لے یعنی اسے اس کی ولدیت کے ساتھ پکارا جانے لگے ، اور اس مرد کی محرمات عورتیں اس یتیم بچے کے لیے حلال نہ ہوں اور منہ بولے بیٹے کے والدکے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں اس کے بہن بھائي اور اس شخص کی بہنیں یتیم کی پھوپھیاں بن جائیں اور اسی طرح باقی رشتہ دار بھی ۔

دور جاھلیت میں ایسا کیا جاتا تھا ، حتی کہ یہ نام بعض صحابہ کرام کے ناموں سے بھی چمٹے رہے مثلا مقدار بن اسود حالانکہ ان کے والد کانام عمرو تھا لیکن انہيں منہ بولا بیٹا بنانے کی بنا پر مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا ۔

اور ابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے اسے ایک مشہور قصہ میں حرام قرار دیا کہ زيدبن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکارا جاتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے حرام کردیا اور حکم دیا کہ انہيں ان کے آباء کے نام سے پکارا جائے ۔

*2 - اب یقینا اللہ تعالی نے منہ بولابیٹا بنانا حرام کردیا ہے اس لیے کہ اس میں نسب کی ضياع ہے حالانکہ ہمیں تو حکم ہے کہ ہم نسب ناموں کی حفاظت کریں ۔

صحیح بخاری
کتاب: فرائض کی تعلیم کا بیان
باب: اس شخص کا بیان جو غیر کو اپنا باپ بنائے
حدیث نمبر: 6766
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ. 
حدیث نمبر: 6767
فَذَكَرْتُهُ لِأَبِي بَكْرَةَ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَأَنَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ: سعد ؓ نے بیان کیا کہ  میں نے نبی کریم  ﷺ  سے سنا نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔  
پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر ؓ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ  اس حدیث کو نبی کریم  ﷺ  سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔

دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں!

صحیح بخاری
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
حدیث نمبر: 3508
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحُسَيْنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيّ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ترجمہ:

ابوذر ؓ نے بیان کیا  کہ  انہوں نے نبی کریم  ﷺ  سے سنا، آپ  ﷺ  فرما رہے تھے   جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی  (نسبی)  تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،

*حدیث میں کفر کا معنی یہ ہے کہ اس نے کفریہ کام کیا ہے نہ کہ وہ دین سے ہی خارج ہوگيا ۔*
اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کے حرام کردہ چيز کو حلال کرنا ہے ۔
اور اس لیے بھی کہ مثلا یتیم جسے منہ بولا بیٹا بنایا جائے اس پر منہ بولا بیٹا بنانے والے نے اپنی بیٹیاں حرام کردی ہیں حالانکہ وہ اس کے لیے مباح اور جائز تھیں جسے اللہ تعالی نے حرام نہيں ،
اور اسی طرح جس نے منہ بولا بیٹا بنایا ہے اس نے اپنے بعد اس کے لیے وراثت حلال کرلی ، اس میں بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کو مباح کرنا ہے ، اس لیے کہ وراثت تو صلبی اولاد کا حق ہے اور اس نے غیرصلبی کو بھی اس میں شریک کرلیا ہے ۔

اور یہ بھی ہے کہ اس سے منہ بولا بیٹا بنانے والے کی اولاد اور منہ بولے بیٹے کے مابین حسد و بغض پیدا ہوگا ۔
اس لیے کہ ان کے بعض حقوق کی حق تلفی ہوگی اور وہ یتیم اور منہ بولا بیٹا بغیر کسی حق کے کچھ حقوق حاصل کرلے گا ، حالانکہ صلبی بیٹوں کویہ علم ہے کہ ان کے ساتھ وہ اس کا مستحق نہيں تھا ۔

لیکن یتیم کی کفالت یہ ہے کہ کوئي شخص کسی یتیم بچے کواپنےگھر یاکسی دوسری جگہ میں ہی اپنی طرف منسوب کیے بغیر ہی اس کی کفالت کرے اوراس کی پرورش اورنان نفقہ کی ذمہ داری برداشت کرے ، اوراس میں نہ تو وہ کسی حرام کردہ کو حلال اور نہ کی حلال کو حرام کرے جیسا کہ منہ بولا بیٹا بنانے میں ہوتا ہے ۔
بلکہ کفالت کرنے والے کواللہ تعالی کے بعد کریم اوراحسان انعام کرنے والے کی صفت سے متصف ہوگا ، اس لیے یتیم کی کفالت کرنے والے کو منہ بولابیٹا بنانے والے پرقیاس نہيں کیا جائے گا اس لیے کہ اس میں فرق پایا جاتا ہے ، اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچے کی کفالت کرنے پر ابھارا ہے ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
 اور آپ سے یتیموں کےبارے میں بھی سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجۓ کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائي ہیں اللہ تعالی بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے ، اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہيں مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ تعالی غلبہ والا اورحکمت والا ہے
(سورہ البقرۃ- 220 )

اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ مرافقت کا سبب بتایا ہے کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ رہے گا ۔
سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ کیا )
(صحیح بخاری حديث نمبرـ5304 )

لیکن یہاں پر ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جب بھی یہ یتیم بچے بالغ ہوجائيں تو انہيں کفالت کرنے والے شخص کی عورتوں اور بیٹیوں سے علیحدہ کرنا واجب ہوجائیگا ، یہ نہ ہو کہ وہ ایک جانب تو اصلاح کرے اور دوسری طرف غلطی اور فساد کا مرتکب ہوتا رہے ۔

اور اسی طرح یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ بعض اوقات کفالت میں یتیم بچی بھی ہو سکتی ہے اور ہوسکتا ہے وہ خوبصورت بھی ہو اور بلوغت سے قبل اسے اشتہاء بھی ہو اس لیے کفالت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھے کہ کہيں وہ یتیموں کے ساتھ کہيں حرام کام کا ارتکاب نہ کرنے لگيں ، بعض اوقات یہ ہوسکتا ہے اورپھر یہ فساد کا ایسا سبب ہوگا جس کی اصلاح کرنا ممکن نہيں ہوگی ۔
پھر ہم آخر میں اپنے بھائيوں کو یتیموں کی کفالت کرنے پر ابھارتے اوراس کا شوق دلاتے ہیں کہ اس میں بہت زيادہ اجروثواب ہے اور یہ ایک اخلاقی فريضہ ہے جوآج کل بہت ہی نادر لوگوں میں ملتا ہے صرف وہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے خیر اور بھلائي کی محبت اور یتیموں اور مسکینوں کی اصلاح اور ان پر مہربانی و نرمی کا برتاؤ کرنا ھبہ کیا ہے،

(مآخذ الاسلام سوال وجواب/اردو فتویٰ )
ـــــــ&ـــــــــــــــــ

*اس تفصیل کے بعد ہم سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa کا فتویٰ یہاں درج کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں!*

سوال - ایک شخص کی اولاد نہیں اور اس نے لاوارث بچوں کے ادارے سے ایک بچہ حاصل کرکے اس کی پرورش کی اوراسے تعلیم دلائي اوراس کے ساتھ حسن سلوک کیا ، اس کوشش اوراپنی جانب سے مہربانی کرتے ہوئے اس نے سرکاری اوراق میں بچہ اپنے نام سے اندراج کروایا ، اب اس کا حکم کیا ہوگا ؟

جواب کا متن!
الحمد للہ 

شرعا جائز نہيں کہ کسی لاوارث بچے کو لے پالک بنانے والا اپنے نسب میں شامل کرے اور اس بچے کو اس کے بیٹے اور اسے اس کے والد کا نام دیا جائے اور اس کے قبیلے کی طرف منسوب کیا جائے ، جیسا کہ سوال میں وارد ہے ، اس لیے کہ اس میں دروغ بیانی اور دھوکہ اور نسب ناموں کا اختلاط پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عزتوں کو بھی خطرہ ہے ۔
اور اس میں وراثت کی تقسیم میں بھی تغییر پایا جاتا ہے کہ بعض مستحقین کو محروم اور غیر مستحق کو مستحق قرار دیا جاتا ہے اور اسی طرح حرام کو حلال اور حلال چيز کو حرام کرنا پایا جاتا ہے ، مثلا نکاح اور خلوت وغیرہ اور اسی طرح دوسری حرمتوں کو توڑا جاتا اور حدود اللہ سے تجاوز کیا جاتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے بچے کی والدکے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت کرنا حرام قراردیتے ہوئے فرمایا :
{ اورتمہارے لے پالک لڑکوں کوتمہارے حقیقی بیٹے نہيں بنایا ہے ، یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے ، اوروہ سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔
منہ بولے بیٹوں کوان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک مکمل انصاف تویہی ہے ، وہ تمہارے دینی بھائي اور دوست ہیں تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئي گناہ نہيں ، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 4-5 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ علم رکھتے ہوئے کسی اورکی طرف نسبت کی تو اس پر جنت حرام ہے ) اسے بخاری اورمسلم اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ کسی اورکی نسبت کا دعوی کیا یا اپنے اولیاء کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب ہوا اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالی کی لعنت ہے ) ۔
لھذا فتوی لینے والے کا مذکورہ نام کے بارہ میں اجتھاد غلط ہے اور اس پر جمے رہنا جائز نہيں بلکہ اسے اس کی حرمت میں وارد شدہ نصوص کی بنا پر بدلنا اور صحیح کرنا ضروری ہے ، ان نصوص اور دلائل کو اوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔
لیکن لاوارث بچے پر مہربانی اور اس کی حسن تربیت اور اس پراحسان کرنا ایک نیکی اور اچھا کام ہے ، اور شریعت اسلامیہ نے ایسا کرنے کی ترغیب بھی دلائي ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
واللہ اعلم  .

(ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ : دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 12 - 13 )

*یعنی اگر بھول چوک میں کسی نے لے پالک بچے کو اپنا نام دے دیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسکے اصل والد کا نام اسکی ولدیت میں لکھوائے اور اگر کسی کو اصل والد کا نام ،نسب نہیں پتہ تو ایسے بچے کی ولدیت میں نام عبداللہ لکھوا دیا کریں ،کیونکہ عبداللہ کا معنی اللہ کا بندہ۔۔ اور جتنے لوگ سب اللہ کے بندے ۔۔اس میں حرج نہیں ہو گا ان شاءاللہ ،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
________________&______________

سوال_خاوند اگر اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دے تو کیا اس طرح کہنے سے بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟ نیز اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ مکمل تفصیل بیان کریں..!
(جواب کیلئے دیکھیں نمبر -257)

سوال_رضاعت کب ثابت ہوتی ہے ؟ کیا بڑی عمر کا شخص کسی کا رضاعی بیٹا بن سکتا ہے؟ یا شوہر بیوی کا دودھ پی لے تو کیا وہ اسکا بیٹا بن جائے گا؟ اور انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟ تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ148، 147

ـــــــــــــــ&ــــــــــــــــــــــــ

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Dusri Shadi ke Masail. Dusri, Tisri aur Chauthi Shadi karne ki Haisiyat rakhte hue bhi Shadi nahi karna.

Dusri Shadi ke Masail aur Muashera.

Kya Dusri shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi agar Biwi razi na ho to Shauhar Dusri Shadi kar sakta hai?

Nikah se jude masayel janne ke liye click kare. 

Aaj jyada Umar hone ke bawjood bhi Padhi likhi ladkiyo ki Shadi kyo nahi ho rahi hai? 

Kya Hame Dusri Shadi ko Aam nahi kar dena chahiye? 

Mard ke Liye 4 Shadiya kyu jaruri hai? 

Dusri Shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi Biwi Shadi karne nahi deti. 

 


بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه

➖ دوسری شادی کے مسائل ➖

شادی انبیائے کرام کی سنت ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ(الرعد: 38)

ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ،ہر مقررہ وعدہ کی ایک لکھت ہے ۔
جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انِّكاحُ من سنَّتي ، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي ، وتزوَّجوا ، فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأممَ ، ومن كانَ ذا طَولٍ فلينكَح ، ومن لم يجِد فعلَيهِ بالصِّيامِ ، فإنَّ الصَّومَ لَهُ وجاءٌ(صحيح ابن ماجه:1508)

ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔

جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا ،جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے ،اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ گئے اور گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ ہے مگر بعض دنیاوی مقاصد کی برآوری کے لئے شادی میں ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنے والے یا اختلاط کی جگہوں پہ رہنے سہنے والے اس قسم کے بہت سے لوگ ناجائز طریقے سے شہوت رانیاں کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پہ اپنے ماتحت کی شادی کرا دے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہوسکے جوکہ نکاح کے ایک اہم مقاصد میں سے ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
يا معشرَ الشبابِ ! من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ . فإنه أغضُّ للبصرِ ، وأحصنُ للفرجِ . ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ(صحيح مسلم:1400)

ترجمہ : اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ،یہ خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔

اگر مرد نے ایک خاتون سے شادی کرلی تو اس نے سنت پر عمل کرلیا ، رہا مسئلہ دوسری شادی کا تو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے ۔ قرآن میں اللہ نے پہلے دو شادی کا ہی ذکر کیا ہے پھر تین، پھر چار، ان میں انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کو اختیار کرنے کا حکم ملا۔

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3)

ترجمہ: اور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین ، چار چار سے ،لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔

تعدد ازدواج کی حکمت :
۔ • ─┅━━━━━━━┅┄ •
پہلے دھیان میں یہ رہے کہ شادی کی حکمت مسلمانوں کی تعداد بڑھانا جس پر نبی ﷺ بروز قیامت فخر کریں گے ، اسی طرح شرمگاہ کی حفاظت بھی شادی کے مقصد میں سے ہے ۔
٭ایک سے زائد شادی حکم الہی ہے اور اللہ کا کوئی حکم کسی مصلحت کے بغیر نہیں خواہ ہماری محدود عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے۔

٭ قدرتی طور پر دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر مردوں کے کام کاج ،مسائل ،جھگڑا لڑائی ،قتل و فساد کے سبب مرد ہی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اگر ہر آدمی ایک شادی پر اکتفا کرے تو بقیہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ آج جہیز کی لعنت کا ایک سبب لڑکیوں کی کثرت ہے ، اگر لڑکیاں کم ہوتیں تو لڑکے پیسہ دے دے کر شادی کرتے۔ لڑکیوں کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ لوگ متعدد شادیاں کرے ، آج لوگوں نے شادی چھوڑ کر زنا کا راستہ تلاش کیا تو اللہ نے ان میں ایڈز کی بیماری پھیلا دی۔
٭ خواتین پہ بعض مخصوص مراحل آتے ہیں اس وقت مرد اپنی بیوی سے دور رہتا ہے اس صورت میں کثرت جماع والا شخص یا تو دوسری شادی کرے گا یا زنا کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر بیوی ہی سے ناجائز طریقے سے فائد ہ اٹھائے گا ، ان تمام صورتوں میں دوسری شادی جائزو اولی ہے ۔

٭ بعض مردوں میں قدرتی طور پر شہوت زیادہ ہوتی ہے ایسے حضرات کے لئے بھی جائز راستہ دوسری شادی ہی ہے ورنہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔

٭بعض لوگوں کو ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی رہتی ہے ، مایوسی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے مگر دوسری شادی سے بہت سارے لوگ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔
٭ بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ عورت (کسی بیماری کے سبب یا عیب کے سبب یا رشتہ طے کرتے کرتے کافی وقت گزرگیا اور آج ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے خصوصا جو لڑکی کالی یا معذور یا غریب ہو)سے شادی کرنا لوگ معیوب سمجھتے ہیں ، اگر ان سے کوئی شادی کرلے تو ایسے مرد کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں سے شادی کرنا جہاں ان کے ساتھ احسان وسلوک ہوتا ہے وہیں شادی کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
٭ تعدد ازدواج سے پر فتن دور میں شرمگاہوں کی حفاظت پر قوی مدد ملتی ہے ۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لازم ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅
ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو اپنی پہلی بیوی کو راضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اور ایک اخلاقی فریضہ اور اس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اور اس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔
اور اسے اچھی اور بہتر ملاقات اور ملنے میں مسکراتے چہرے اور اچھی بات کہہ کر اور اگر کچھ مال میسر ہو اور اس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ
( 3 / 204 ) ۔
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).

مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ۔ جبکہ پہلی بیوی دیندار ، فاضلہ اور
حقوق نبھانے والی وفا شعار ہے ، لیکن دوسری شادی کی بات پر طلاق مانگتی ہے
  ─┅━━━━━━━━━━━━━━

عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).
چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بے وقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.
اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).

ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.
ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.
خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.

بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.

بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.

کیا خاوند کے لیے چھپ کر شادی کرنا جائز ہوگا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
خاوند پر واجب نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كو بتائے كہ وہ اور شادى كريگا، ليكن اگر شادى كر لے تو پھر اسے بتانا واجب ہے؛ كيونكہ بيويوں كو شادى كے بارہ ميں نہ بتانے سے وہ سوء ظن اختيار كر كے سمجھيں گى كہ اس كے كسى سے غلط تعلقات ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بيويوں كو تقسيم ميں عدل كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انہيں علم ہو كہ ان كے علاوہ اور بھى بيوى ہے، اور نئى بيوى كو بھى پہلى بيويوں جيسا ہى حق حاصل ہے.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ نكاح كے مقاصد اور حكمت اور احكام كو بھول جائے، اور اپنى شہوت كے پيچھے پڑ كر يہاں اور وہاں شہوت پورى كرتا پھرے، اور پھر مصيبت تو يہ ہے كہ وہ اپنے اس عمل كو اسلام كى طرف منسوب كرتا پھرے!!

پہلى بيوى کا واپس آنے كیليے دوسرى بيوى كوطلاق دينےكى شرط
─┅━━━━━━━━━━━━━━┅┄
پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).

اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.

اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا،

ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى ہیں جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!

عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجر وثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.

دوسری شادی کب واجب یا حرام ہو جاتی ہے ؟
• ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄

بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا،
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
 اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو 
كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے ۔ النساء ( 3 )
لیکن اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.

کیا ایک دن میں مرد دو نکاح کر سکتا ہے ؟
❖ •─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
انسان ایک دن میں دو خواتین سے نکاح کر سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ )تم دو، دو، تین، تین ، یا چار ، چار جتنی تمہیں اچھی لگیں خواتین سے شادی کرو۔ النساء : 3
دو خواتین سے یکبار نکاح کرنا یا مختلف اوقات میں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اہل علم دونوں خواتین کی رخصتی ایک ہی دن ؛ اچھی نہیں سمجھتے؛ کیونکہ ان میں سے ایک کا حق مارا جائے گا۔
امام یحی بن ابو الخیر عمرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی رات میں دو بیویوں کو خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، کیونکہ دونوں کا حق اکٹھا ادا کرنا ممکن ہی نہیں، اس لئے اگر ایک کے ساتھ رات گزارے گا تو دوسری اجنبیت محسوس کریگی۔
اور اگر دونوں اسکے پاس آجائیں تو جس کیساتھ نکاح پہلے ہوا تو پہلے اسی کا حق ہوگا، پھر بعد میں دوسری کا، کیونکہ پہلے والی سبقت لے چکی ہے، اور اگر دونوں کیساتھ برابر عقد ہوا تو قرعہ اندازی کریگا، کیونکہ دونوں میں سے کسی کو کسی لحاظ سے بھی فوقیت حاصل نہیں ہے"انتہی
ماخوذ از کتاب:" البيان" از: عمرانی (9/520)

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے دو خواتین سے شادی کی تو دونوں کو ایک ہی رات میں خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، چاہے دونوں کنواری ہوں یا بیوہ، یا ایک کنواری اور یک بیوہ؛ کیونکہ خاوند دونوں کا حق پورا نہیں کرسکتا، اور جسکی باری بعد میں آئے گی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اجنبیت محسوس کرے گی، [لیکن پھر بھی]جو بیوی سب سے پہلے داخل ہوئی اسکا حق پہلے بنتا ہے، اسکا حق ادا کرنے کے بعد دوسری کے پاس جائے گا اور اسکا حق ادا کریگا؛ کیونکہ دوسری کا حق بھی اس پر واجب ہے، خاوند نے اس کے حق کی ادائیگی اس لئے نہیں کی کہ درمیان میں [پہلی بیوی کی وجہ سے]رکاوٹ تھی ، جسکی وجہ سے تاخیر ہوئی چنانچہ جب رکاوٹ زائل ہوگئی تو واجب ادا کرنا ضروری ہوگیا، اس کے بعد دنوں کی تقسیم شروع ہوجائے گی، اور جسکی باری ہوگی اسی کے حقوق ادا کریگا، اگر دونوں ہی بیویاں برابر داخل ہوئیں تو دونوں میں سے ایک کو قرعہ کے ذریعے ترجیح دیگا، اس لئے کہ دونوں ہی سبب استحقاق میں برابر ہوگئیں ہیں، اور قرعہ ایسی حالت میں باعث ترجیح ہوتا ہے"
ماخوذ از: " كشاف القناع " (5/208) ، اور دیکھیں: " المغنی- از ابن قدامہ " (7/242)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ

طلاق کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
طلاق کی نیت سے شادی متعین وقت کے لئے شادی ہے، اور مؤقتا شادی کرنا غلط و باطل ہے، کیونکہ یہ متعہ ہے، اور متعہ بالاجماع حرام ہے، اور صحیح شادی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیشگی اور رشتے کو برقرار رکھنے کی نیت سے شادی کی جائے، اب اگر بیوی صالح اور مناسب نہ ہو تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے، الله تعالى نے فرمايا: "فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ" [پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھـ چھوڑ دینا ہے]۔

لوگ ویزا لینے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں کہ انسان امریکی عورت کے ساتھـ شادی کرلے، چنانچہ اکثر لوگ کسی عورت کے ساتھـ شکلی طور پر کسی عورت کو نکاح کرنے پر راضی کرلیتے ہیں، اور اس نکاح نامہ کے عوض اس عورت کو مال دیتے ہیں، اور ہمبستری کے بغیر شہریت کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، یہ شادی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے، نیز غیر اسلامی ملک کی شہریت لینا جائز نہیں ہے، اور غیر اسلامی ممالک کی شہریت کے بارے میں ہم نے ایک فتوی جاری کیا ہے، اور اس کی عبارت یہ ہے: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کی شہریت لے جس کی حکومت کافر ہو؛ کیونکہ یہ ان کے ساتھـ دوستی اور جس باطل پر وہ قائم ہیں اس پر رضامندی کے اظہار کا ذریعہ ہے"۔

لہٰذا وقتی شادی متعہ ہے، اور یہ نکاح قرآن و حدیث اور اہل سنت و جماعت کے اجماع کی رُو سے باطل ہے،
➖چنانچہ صحيحين میں علی بن ابی طالب رضي الله عنه سے روایت ہے:
" بے شک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خیبر کے زمانے
میں نکاحِ متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا ہے "
صحيح بخاری،الحيل (6961) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،الصيد والذبائح (4334) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/79) ، موطأ مالك،النكاح (1151) ، سنن دارمی،النكاح (2197). بے

➖اور ايک روايت ميں ہے:
" خیبر کے دن آپ نے عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا "
صحيح بخاری،المغازي (4216) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،النكاح (3366) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/142) ، موطأ مالك،الصيد (1080) ، سنن دارمی،الأضاحي (1990).

➖ اور صحیح مسلم میں نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرسکتے ہو، اور اب یقیناً اللہ تعالی نے متعہ کو قیامت كے دن تک حرام کردیا ہے، تو کسی کے پاس اس قسم کی کوئی چيز(عورت) ہے، تو وہ اس کو چھوڑدے، اور جو کچھـ اس کو دے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے۔
صحيح مسلم،النكاح (1406) ، سنن نسائی،النكاح (3368) ، سنن أبو داود،النكاح (2072) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1962) ، مسند أحمد بن حنبل (3/405) ، سنن دارمی،النكاح (2195).

یاد رکھیے وقتی شادی میں ازدواجی تعلقات زنا شمار ہوتے ہیں، اور جو اس کے باطل ہونے کے علم کے باوجود اس پر عمل کرے، تو اس پر زنا کے احکام لاگو ہوں گے، اور شرعی نکاح یہ ہے کہ انسان کسی عورت کے ساتھـ ہمیشہ کے لئے بیوی بنانے کی نیت سے شادی کرے، اور اگر وہ صالح بیوی نہ رہی، تو اسے طلاق دے سکتا ہے، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩﴾البقرة
ﭘﮭﺮ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﻨﺎ ﯾﺎ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( فتاوٰی/21140/12087/

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Aam ul Feel kya hai, Aam ul Feel aur Abraha se kya Murad hai?

Aam-Ul-Feel se kya Murad hai?
Abraha Kaun tha, Kya tha Iska zikr Quran me Kis liye aaya hai?
تفسیر القرآن الکریم
مفسر: مولانا عبد السلام بھٹوی

سورۃ نمبر 105 الفيل
آیت نمبر 1

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِيۡلِؕ ۞

ترجمہ:
کیا تونے نہیں دیکھا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کس طرح کیا۔

تفسیر:
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ پر اپنا احسان ذکر فرمایا ہے کہ اس نے کس معجزانہ طریقے سے بیت اللہ کی حفاظت فرمائی اور اس کو گرانے کے لیے آنے والوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس بادشاہ کو برباد نہ کرتا تو اہلِ مکہ جس امن و چین اور آزادی کے ساتھ بیٹھے ہیں یہ امن و چین انھیں کہاں نصیب ہوتا؟ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس واقعہ کے پچاس یا پچپن روز بعد پیدا ہوئے۔

(آیت 1) ➊ {اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ … : ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘} کا لفظی معنی ہے ’’کیا تونے نہیں دیکھا؟‘‘ مگر مجاہد رحمہ اللہ ( جو ابن عباس ؓ کے شاگرد ہیں) نے اس کا معنی کیا ہے : {’’أَلَمْ تَعْلَمْ‘‘} ’’کیا تجھے معلوم نہیں؟‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب سورۃ الفیل، قبل ح : ۴۹۶۴ ] جب قرآن اترا اس وقت یہ واقعہ اتنا معروف تھا گویا لوگوں کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔ بعض لوگوں نے اس لفظ سے یہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور یہ کہ آپ عالم الغیب تھے۔ درحقیقت یہ کہنا کلام عرب اور اسلوب قرآن سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : « اَوَ لَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْن» [ یٰس : ۷۷] ’’ اور کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑالو ہے۔‘‘ اب کیا کسی انسان نے اپنے آپ کو نطفہ سے پیدا ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ {’’أَلَمْ تَعْلَمْ‘‘} (کیا تو نے نہیں جانا) کے بجائے {’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘} (کیا تو نے نہیں دیکھا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اتنا یقینی واقعہ ہے کہ سمجھو تم نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔

➋ ’’ہاتھی والوں‘‘ سے مراد یمن کا ایک نصرانی حاکم ابرہہ اور اس کا لشکرہے۔ ابرہہ نے ایک عظیم الشان گرجا بنا کر یہ چاہا کہ لوگ کعبہ کی طرح اس کی زیارت کے لیے آیا کریں۔ جب وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا تو وہ ایک بہت بڑا لشکر جس کے ساتھ ہاتھی بھی تھے، اپنے ہمراہ لے کر بیت اللہ کو ڈھانے کی نیت سے مکہ پہنچا۔ جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان اس وادی میں پہنچا جس کا نام بعد میں وادی محسر پڑا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے گروہ در گروہ پرندے نمودار ہوئے، جن کے پنجوں اور چونچوں میں کنکر تھے، انھوں نے اس لشکر پر وہ کنکریاں پھینکیں جن سے ابرہہ اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا۔ یہ سیرت اور تاریخ میں مذکور واقعے کا خلاصہ ہے۔

(دیکھیے سیرت ابن ہشام اور تفسیر ابن کثیر )
صحیح اسانید کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بھی اس واقعے کا مختصر ذکر موجود ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : [ إِنَّ اللّٰهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيْلَ ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُوْلَهُ وَالْمُؤْمِنِيْنَ ، فَإِنَّهَا لاَ تَحِلُّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِيْ، وَ إِنَّهَا أُحِلَّتْ لِيْ سَاعَةً مِّنْ نَهَارٍ ، وَ إِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِيْ ] [ بخاري، اللقطۃ، باب کیف تعرّف لقطۃ أھل مکۃ ؟ :

۲۴۳۴ ] ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرما دیا، تو یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا ہے۔ اب میرے بعد کسی کے لیے (اس میں لڑنا) حلال نہیں ہوگا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ میں اترا جاتا تھا تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی، لوگوں نے ( اسے اٹھانے کے لیے) کہا : [ حَلْ حَلْ ] لیکن وہ بیٹھی رہی۔ لوگوں نے کہا : ’’قصواء اَڑ گئی، قصواء اَڑ گئی۔‘‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا : [ مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ، وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ ، وَلٰكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيْلِ ] [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد : ۲۷۳۱، ۲۷۳۲] ’’قصواء اَڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے، اسے تو ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔‘‘ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھی والے جب مکہ پر حملے کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں روک دیا تھا۔

Share:

Mai Eid miladunnabi nahi manata lekin Ghar wale manate hai aur wah mujhe Bhi manane ko kahte hai mai kya karu?

Nabi se sabse jyada Mohabbat karne wala kaun hai Eid Miladunnabi manane wale ya nahi Manane wale?

Aashiq-E-Rasool ke liye jaruri kya hai Dj bajana raksh karna ya Nabi ke hukm ki tamil karna?
Sawal: Mai Eid Miladunnabi  ka Jashn nahi manata, lekin ghar ke dusre log manate hai, unka mere bare me kahna hai ke "Mera Islam anokha Islam hai aur mai nabi Sallahu Alaihe wasallam se mohabbat nahi karta" Kya Is bare me mujhe koi Nasihat kar sakte hai?

 اے بارہ ربیع الاول کیسا دیا تو نے فراق کہ سرکار دو جہاں دنیا سے جا رہے ہیں ۔
غمگین ہیں کون و مکاں فلک بھی ہے اشک بار 

مگر ابلیس کے حواری خوشیاں منا رہے ہیں ۔

اپنے گھر میں عید میلاد منانے والے افراد کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ اُن کی طرف سے عید میلاد النبی کے جشن میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

  ألســـؤال
میں عید میلاد النبی کا جشن نہیں مناتا، لیکن گھر کے بقیہ تمام افراد جشن مناتے ہیں، اور انکا میرے بارےمیں کہنا ہے کہ: "میرا اسلام انوکھا اسلام ہے، اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا" کیا اس بارے میں مجھے کوئی نصیحت کرسکتے ہیں؟

الجـــــــواب
اول: محترم بھائی آپ نے لوگوں میں اس عام رائج شدہ  بدعت کو مسترد کر کے بہت اچھا  کام کیا ہے ۔

آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اور اسلامی تعلیمات  پر ڈٹ جانے کی وجہ سے   طعن زنی پر کان بھی نہ دھریں؛ کیونکہ جتنے بھی رسول  اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیے گئے  سب کا انکی اقوام نے مذاق اڑایا ، انہیں نا سمجھ اور بے و قوف(معاذاللہ) بھی کہا اور دین کے بارے میں طعنے بھی دیئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ) ترجمہ: اسی طرح ان سے پہلے جتنے بھی رسول آئے، سب کے بارے میں انہوں نے کہا: "یہ تو جادو گر یا پاگل ہیں"[الذاريات: 52] اس لئے آپ کو بھی اگر اس قسم کی باتیں سننی پڑتی ہیں تو  انبیائے کرام آپ کے لئے بہترین نمونہ ہیں، آپ ان  تکالیف پر صبر کریں، اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھیں۔

⬅️دوم:  آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ: جب تک آپ کو ان میں سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا اور حق کی چاہت رکھنے والا نظر نہ آئے  آپ ان سے بحث اور مناظرہ   سے باز رہیں،  اس کی بجائے آپ ان میں سے اس قسم کے چند لوگوں کو چُن کر عید میلاد  النبی کی حقیقت، اس کا حکم اور اس کی ممانعت پر موجود دلائل انہیں بتلائیں، انہیں یہ بھی واضح کریں کہ  اتباعِ نبوی کی فضیلت کیا ہے، اور بدعات ایجاد کرنے کا نقصان کیا ہے،اس طرح  اگر آپکو کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا ملتا ہے تو آپ اسے درج ذیل  انداز سے بات چیت کر سکتے ہیں ، امید ہے آپکے لئے مفید ہوگی:

⬅️1- سب سے پہلے ہم  وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی بات ختم کی تھی کہ انہوں نے کہا : "تمہارا اسلام انوکھا اسلام ہے!" تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ:  سب سے پہلے دین اور اسلام کس نے قبول کیا؟ عید میلاد النبی منانے والوں نے یا جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی؟

اسکا جواب ہر عقل مند یہی دے گا کہ جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی وہی  پہلے دیندار اور مسلمان تھے، چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ، تابعین، تبع تابعین، اور انکے بعد سے لیکر مصر میں عہد عبیدی  تک  کسی نے عید میلاد کا جشن نہیں منایا، بلکہ انکے بعد ہی یہ جشن منایا گیا، تو کس کا اسلام انوکھا ہوا؟!

⬅️2- ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ زیادہ محبت کرنے والے کون ہیں؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا انکے بعد کے آنے والے لوگ؟
یہاں پر بھی عقلمند اور منصف شخص کا جواب یہی ہوگا کہ صحابہ کرام زیادہ محبت کرتے تھے، تو کیا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی میلاد کا جشن منایا ؟!(نہیں منایا ) تو  کیا میلاد منانےوالے   نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے  صحابہ کی نسبت زیادہ محبت  کر تے ہیں؟

⬅️3- ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کا مطلب کیا ہے؟
تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کی جائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

⬅️قاضی عیاض رحمہ اللہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ترجمہ: کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [آل عمران : 31] اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمہ: جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔[الحشر : 9] اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔ " الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

⬅️4- اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کا دن ثابت ہے۔
⬅️اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول
2- آٹھ ربیع الاول
3- 10 ربیع الاول
4- 12 ربیع الاول
5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

⬅️  اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی۔

⬅️اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ   سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔ ہماری ویب سائٹ پر  اس بدعت  کی تردید میں متعدد جوابات موجود ہیں چنانچہ آپ : (10070)، (13810)، اور (70317) کا مطالعہ کریں۔ ساتھ میں اس بدعت کے رد میں شیخ صالح الفوزان کی کتاب   " حكم الاحتفال بالمولد النبوي " درج ذیل لنک سے حاصل کریں۔

⬅️سوم: محترم سائل بھائی! آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کیلئے ڈٹ جائیں، مخالفین کی تعداد  زیادہ دیکھ کر آپ گھبرانا مت، ہم آپ کو مزید علم حاصل کرنے ، اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی نصیحت کرتے ہیں، اور اس قسم کے اعمال کو بنیاد بنا کر آپ  اپنے اہل خانہ سے قطع تعلقی مت کریں، کیونکہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو انہیں اس کام کو جائز بتلاتے ہیں، بلکہ اسے مستحب [!]قرار  دیتے ہیں، چنانچہ آپ انہیں اس کام  سےروکتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کریں، کوشش کریں کہ میٹھے بول، عمدہ کردار، حسن اخلاق  سےپیش آئیں، روز مرہ کے امور ہوں یا عبادت سے متعلق انہیں اپنے اندر اتباع نبوی کے اثرات باور کروائیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ واللہ اعلم

ماخذ : السلام سوال جواب

اللهـم إنّ نسـألك الإخـلاص في نشرنا وفي  عملنا وفي سعينا  مـحتسباً للاجـر والثــواب خالصاً لوجهك الكريم. 
          *يــارب

Share:

Eid miladunnabi (12 Rabiawwal) Kin wajaho se Biddat hai? Jashn-E-Eid Miladunnabi manana Sunnat ha Biddat?

Eid miladun-nabi manane ke Biddat hone ki Daleelein.

12 Rabi awwal kin Wajaho se Biddat hai?

جشنِ عید میلاد النبی ﷺ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ممنوع اور مردود ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ رسول ﷺ کی سنت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے خلفاء کی اور جو چیز ایسی ہے وہ ممنوع بدعات میں سے ہے کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "

"تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4607﴾

★جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کا ایجاد شیعہ فاطمہ (فاطمیوں)نےقرونِ مفضلہ کے بعد دین اسلام کو بگاڑنے کے لیے کیا ہے(عجیب بات یہ ہے کہ شیعۂ فاطمہ کی ایجاد کی ہوئی چیز کو سنیوں نے اپنا لیا ہے) ۔ اور جس نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا کام کیا جسے اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ نبی ﷺ کے بعد خلفاء راشدین نے کیا ، تو اس نے نبی ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے ان کے دین کو کھل کر نہیں بیان کیا، نیز اس نے اللہ تعالی کے اس قول کو جھٹلایا:

  "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ"
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا"
﴿سورۃ المائدۃ:3﴾

کیونکہ دین میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین میں سے ہے اور رسول ﷺ نے اسے بیان نہیں کیا.

2۔ نبیﷺ کی پیدائش کے دن محفلیں لگانے میں نصاریٰ کی مشابہت ہے کیونکہ وہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے یوم پیدائش کی یاد میں محفلیں لگاتے ہیں اور نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا سخت حرام ہے، حدیث میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار تو وہ انہیں میں سے ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4031﴾

اور فرمایا:
     "خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ"
"مشرکین کی مخالفت کرو"

﴿صحیح بخاری:5892﴾

اور خاص طور سے ان چیزوں میں جو ان کے دین کے شعائر میں سے ہیں۔

3۔ جشنِ میلاد النبی ﷺ بدعت اور تشبہ بالنصاری  تو ہے ہی اور دونوں ہی حرام ہیں (بدعت، نصاریٰ کی مشابہت)، مزید یہ کہ یہ نبی ﷺ کی تعریف و تعظیم میں غلو اور مبالغہ کا ایک وسیلہ ہے یہاں تک کہ یہ اللہ کو چھوڑ کر نبی ﷺ سے  دعا مانگنے اور مدد طلب کرنے کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ آج ان میں سے اکثر لوگ جو نبی کریم ﷺ کی پیدائش کا دن مناتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر رسول ﷺ سے دعا کرتے ہیں اور ان کی تعریف میں شرکیہ قصیدے  و نعت گاتے ہیں جیسے قصیدۂ بردہ۔
اور نبی ﷺ نے اپنی تعریف میں غلو (حد سے بڑھانا) سے روکا ہے۔

چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:

" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ "

”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“

﴿صحیح بخاری:3445﴾

یعنی تم لوگ میری تعریف و تعظیم میں غلو نہ کرو جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کی تعظیم میں غلو کیا یہاں تک کہ اللہ کو چھوڑ کران کی عبادت کرنے لگے۔

اور نبی ﷺ نے ہمیں غلو سے اس ڈر سے روکا ہے کہ ہمیں بھی وہ لاحق نہ ہو جائے ہم سے پہلے غلو کرنے والوں کو لاحق ہوئی۔
چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ؛ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ "

”لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا“

﴿سنن ابن ماجہ:3029﴾

4۔ بدعتِ میلاد النبی ﷺ کو زندہ کرنا دوسری بدعات کا دروازہ کھولتا ہے اور سنتوں سے غافل کرتا ہے، اسی لئے آپ بدعتیوں کو پائیں گے کہ وہ بدعات کو زندہ کرنے چست رہتے ہیں اور سنت کو زندہ کرنے میں سست پڑ جاتے ہیں اور سنت، اہل سنت سے نفرت و دشمنی رکھتے ہیں یہاں تک کہ ان کا پورا دین یہی ہو گیا ہے کہ وہ بدعات کو انجام دیتے ہیں اور ایامِ پیدائش منانے میں لگے رہتے ہیں، اور یہ لوگ کئی فرقوں میں منقسم ہو گئے ہر فرقہ اپنے اپنے ائمہ کے ایامِ پیدائش مناتا ہے۔ جیسے بدوی، ابن عربی، دسوقی، شاذلی وغیرہ کے ایامِ پیدائش۔ اس طرح سے وہ ایک کے یومِ پیدائش سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کے یومِ پیدائش میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مُردوں کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کر ان سے دعا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھنے لگتے ہیں کہ یہ نفع و نقصان پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ دین اسلام سے الگ ہوگئےاور دین جاہلیت کی طرف لوٹ گئے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ"

"اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں"

﴿سورۃیونس:18﴾

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى"
"ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگراس لیے کہ یہ ہمیںاللہ سے قریب کر دیں"

﴿سورۃ الزمر:3﴾

﴿ الخطب المنبرية في المناسبات العصرية للشيخ صالح الفوزان حفظه الله، الجزء الثالث، ص١٢٨-٢٩-٣٠﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو سنت کو مضبوطی سے تھامنے  اور بدعات و خرافات سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین

:مقصود الخيري

Share:

Shadi se Pahle Ladke aur Ladki Jina (Sex) kar lene par Agar Ladki Pregnant ho jaye to Kya Ladka Ladki Nikah Kar sakta hai?

Koi ladka Shadi hone wali Mangetar ke Sath Sex kar le aur Hamal (Pregnant) se ho to uska kya Solution hai?

Kya Shadi se Pahle Ladki Ladka sex krne ke bad Hamila hone par Dono Nikah kar sakte hai?
Nikah ke Bad Is bacche ke bare me kya hukm hai?
Kya wah Baccha jo Nikah se Pahle ka hai wah Najayez hoga?


السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
    ۔─━══★◐★══━─
کوئی لڑکا اپنی منگیتر کے ساتھ سیکس کر لے اور حمل ٹھہر جائے تو کیا حل ہے اس کا؟؟؟
نکاح کر لے؟؟؟
نکاح کے بعد یہ بچہ کیا ہوگا؟؟؟
اس بات کا تفصیلی جواب دیں.

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
سب سے پہلے ہم اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بھائی کو ایمان چھن جانے کے درد سے آشنا فرمائے ۔ اس متاع کے چھن جانے سے مغموم فرمائے جسے اس نے زنا کرتے وقت کھو دیا تھا اور اس سے درگزر فرمائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چور بھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اور لوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جسے لوٹنے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 )

کیا اس بھائی نے اللہ تعالیٰ کے جزاء و سزا کو بھلا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مکمل قدرتِ کاملہ کے ساتھ کائینات کی ہر ذی روح کے عمل سے باخبر ہے۔ بندہ رزق اسی سے پاتا ہے ، بیمار ہو جائے تو کوئی ذات نہیں اسکے سوا جو شِفاء عطا کرے ، اسکے بجز کوئی بھوک نہیں مٹا سکتا ، کوئی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔ سب سے بڑھ کر اس رب نے اسلام کی نعمت سے نوازا جو بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ پھر ان عظیم نعمتوں کے بدلے میں ہم اس عزت والے رب کی نافرمانی کے کام کریں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم اس رب کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہاں اہنی جانوں پر ہمارا یہ ظلم ہمیں خسارے میں ڈال دے گا ۔

حدیث معراج کےنام سے حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مذکور ہے کہ

( پھر ہم آگے چلے تو ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور و غوغا اور آوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تو اندر مرد و عورتیں سب ننگے تھے ، اور ان کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اور جب وہ شعلے آتے وہ لوگ شور و غوغا اور آہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟
انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تو یہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :
ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو سب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اور وہ مرد اور عورتیں جو تنور میں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد و عورتیں تھیں )
صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 )

اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کے اندر اپنا خوف پیدا فرمائے کہ زنا جیسے قبیح گناہوں سے وہ دور رہے اور اپنی محبت پیدا فرمائے کہ اعمالِ صالح پر اسے اپنے رب کی طرف سے انعامات پر مکمل بھروسہ ہو ۔

            زانی کا زانیہ سے نکاح
۔•┈┈┈┈┈••••┈┈┈┈┈•

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامن مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہوخواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو۔توان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہو سکتی ہے ۔
اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اور اگر مسلمان بھی ہ وپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اور نہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مرد کو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتا ، اور زانیہ عورت بھی زانی یا پھر مشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اور اس گناہ کو ترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اور اس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کو دوبارہ نہيں کريں۔

 زانی کی اس زانیہ سے شادی کا حکم جس سے اس نے زنا کیا ہو' ان کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگی؟ کیا شادی کر لینے سے حد معاف ہو جائے گی؟
۔•┈┈••┈┈┈•••┈┈┈•

زانی کے زانیہ سے شادی کفارہ شمار نہیں ہوگی کیونکہ زنا کا کفارہ دو ہی باتیں ہیں تو اس پر حد قائم کی جائے' جبکہ بات حاکم وقت کے پاس پہنچ گئی ہو یا وہ اس جرم (زنا) سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اپنے عمل کی اصلاح کرے اور فتنہ و فحاشی کے مقامات سے دور رہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ ۚ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور

''بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے''۔

ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں' جو کچھ ہوا' اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں' جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

«الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)

''بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے''۔
''عاہر'' کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ / جلد 3/ صفحہ404

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔

احکام و مسائل​ / نکاح کے مسائل
جلد1/صفحہ 304​

اس ثیبہ عورت سے نکاح کرنے کے متعلق حکم جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو اور حمل آٹھ ماہ کا ہو، کیا اس صورت میں نکاح باطل یا فاسد یا صحیح ہو گا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی آدمی زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح باطل ہے اور اس حالت میں اس کے لئے اس عورت سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة
’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے  نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق
’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا يحل لأمرىء بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)

’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن ایمان پر رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘

نیز حسب ذیل ارشاد نبویﷺ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا تبؤطا حامل حتى تضع )) ( سنن أبي داؤد)
’’حاملہ عورت سے وضع حمل تک مباشرت نہ کی جائے۔‘‘

اس حدیث کو ابو دائودؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہ قول ہے کہ اس حالت میں عقد صحیح ہے ہاں البتہ مذکورہ احادیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ نے وضع حمل تک مباشرت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ نے مباشرت کو بھی جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
((وللعاهر الحجر ))
( صحيح البخاري )
’’زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘

اس بچے کو اس عورت سے شادی کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عورت تو حمل کے بعد اس کا بچھونا بنی ہے۔ اس تفصیل سے مذکورہ علماء میں اختلاف کا سبب واضح ہو گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ بات کہی ہے جو اس کے اس امام نے کہی جس کی اس نے تقلید کی ہے لیکن ان میں سے صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح باطل ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور ممانعت پر ولالت کرنے والی احادیث کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
فتاویٰ اسلامیہ/جلد 3/صفحہ171

صورت مسئولہ جس میں منگیتر نے زنا کیا جس سے اسکی منگیتر یعنی زانی عورت حاملہ ہے ۔ تواس کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ زانیہ عورت سے شادی نہيں ہوسکتی لیکن اگر وہ توبہ کرلے تو پھر شادی کرنی جائز ہے ، اور اگر مرد اس کی توبہ کے بعد اس سے شادی کرنا بھی چاہے تو پھر ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کرنا واجب ہے یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنے سے قبل یہ یقین کرلیا جائے کہ اسے حمل تو نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہو تو پھر اس سے وضع حمل سے قبل شادی جائز نہیں ۔ انتھی ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا فتوی ۔ دیکھیں کتاب : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ) ۔

اور شیخ صالح المنجد کے بقول اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کر سکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہوسکتی ہے ۔

اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مردکو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے :

{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
تو اس بنا پر اس عورت سے نکاح کرنا باطل ہے جو زنا سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اور اگر کسی نے اس سے شادی کی بھی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ فوری طور پر اس سے علیحدہ ہوجائے وگرنہ وہ بھی زانی شمار ہوگااوراس پر حد زنا قائم ہوگی ۔
پھر جب وہ اسے علیحدگی کرلے اوروہ عورت اپنا حمل بھی وضع کرلے اوررحم بری ہوجائے اورپھر وہ عورت سچی توبہ بھی کرلے توپھر وہ خود بھی توبہ کرلے تواس کا اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا ۔

رہا مسئلہ کہ ولدالزنا کس سے منسوب کیا جائے تو اس ضمن میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی شدہ ہوتو زانی کے بچے کووالد سے ملحق کرنے کے بارہ میں علماء کرام اس کے بارہ میں دو قول رکھتے ہیں کہ آیا بچے کی نسبت والد کی طرف ہوگی یا نہیں ؟

اس کا بیان کچھ اس طرح ہے :

اگرعورت شادی شدہ ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوجاۓ تواس بچے کی نسبت خاوند کی طرف ہی ہوگی اوراس سے بچے کی نفی نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کرے ۔

اوراگر کوئ شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اس عورت سے زنا کیا ہے اوریہ بچہ اس زنا سے ہے تواجماع کے اعتبارسے اس کی بات تسلیم نہیں ہوگی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔

اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟

جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔

حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔

اورشيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے

( علی بن عاصم نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت کیا ہے کہ ان کا قول ہے : میرے خیال میں اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زنی کرے اوراس سے وہ حاملہ ہو اوروہ اس حمل میں ہی اس سے شادی کرلے اوراس پر پردہ ڈالے رکھے اوروہ بچہ اسی کا ہوگا ) ۔ المغنی ( 9 / 122 ) ۔

اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ہمارے شیخ اوراستاد ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے یہ اختیار کیا ہے کہ اگر کسی مرد نے اپنے زنا کی بچے کی نسبت اپنی کرنے کا مطالبہ کیا اوروہ عورت اس کی بیوی نہ ہوتواس بچے کے الحاق اس کی طرف کر دیا جاۓ گا ۔ ا ھـ دیکھیں : الفروع ( 6 / 625 ) ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

( جمہور کے قول کے مطابق اگرعورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کے بچے کا الحاق زانی سے نہیں ہوگا ، اورحسن ، ابن سیرین رحمہم اللہ تعالی کا قول ہے جب وطی کرنے والے کوحد لگا دی جاۓ توبچہ اس سے ملحق ہوگا اوروارث بھی ہوگا ۔

اورابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جب اسے حد لگا دی جاۓ اوریا پھر وہ زنی کی جانے والی عورت کا مالک بن جاۓ توبچے کی نسبت اس کی طرف کردی جاۓ گی ، اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : اس کا الحاق کر دیا جاۓ گا ۔

اوراسی طرح عروہ ، اورسلیمان بن یسار رحمہم اللہ تعالی سے بھی یہی قول منقول ہے ) ۔

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اوراسی طرح اگر عورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کےبچے کی زانی کی طرف نسبت کرنے میں اہل علم کے دو قول ہيں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ خاوند کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ صاحب فراش یعنی جس کی بیوی ہے اس کا قرار دیا ہے نہ کہ زانی کا ، اوراگر عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو حدیث اسے بیان نہیں کرتی ۔

اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جاھلیت میں پیدا ہونے والے بچوں کوان کے باپوں کی طرف ہی منسبوب کیا تھا ، اوراس مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 3 / 178 ) ۔

جمہور علماء کرام نے زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے میں مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :

عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادا سےبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :

( بلاشبہ جو کسی ایسی لونڈی سے ہوجواس کی ملکیت نہیں اوریا پھر کسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کيا تواس کا الحاق اس سے نہیں کیا جاۓ گا اورنہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا ، اوراگر وہ جس کا دعوی کررہا ہے وہ صرف اس کا دعوی ہی ہے اوروہ ولد زنا ہی ہے چاہے وہ آزاد عورت سے ہو یا پھر لونڈی سے )۔

مسنداحمد حدیث نمبر ( 7002 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2746 )، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اور شیخ ارنا‎ؤوط رحمہ اللہ نے تحقیق المسند میں اسے حسن قرار دیا ہے ، اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی نے اس سے جمہور کے مذھب کی دلیل لی ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ولد زنا زانی سے ملحق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس کا وارث بنے گا چاہے زانی اس کا دعوی بھی کرتا رہے ۔

اوراس میں شک نہیں کہ بچے کوکسی بھی شخص کی طرف منسوب کرنا بہت ہی عظيم اوربڑا معاملہ ہے جس کے بارہ میں بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا وراثت ، عزیزو اقارب ، اور اس کے لیے محرم وغیرہ ۔

بہرحال اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے کا فتوی جمہور علماء کرام کے موافق ہے ۔

اوررہا مسئلہ شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی کے بارہ میں توہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کلام کی بنیاد دوسرے قول پر رکھی ہو جوکہ اوپربیان کیا جا چکا ہے ۔

لھذا جمہور علماء کرام کے قول کے مطابق زنی سے پیدا شدہ بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی زانی کی طرف منسوب نہيں کیا جاۓ گا اورنہ ہی یہ کہا جاۓ گا وہ بچہ زانی کا ہے بلکہ اس کی نسبت ماں کی طرف کی جاۓ گی اور وہ بچہ ماں کا محرم ہوگا اورباقی بچوں کی طرح وارث بھی ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

( وہ بچہ جو زنا سے پیدا ہوا ہووہ اپنی ماں کا بچہ ہوگا اورباپ کا نہيں ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی فرمان ہے :

( بچہ بیوی صاحب فراش ( بیوی والے کا ہے ) اور زانی کے لیے پتھر ہيں )

اورعاھر زانی ہے جس کا بچا نہیں ، حدیث کا معنی تو یہی ہے ، اوراگر وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کرلے کیونکہ بچہ توپہلے پانی سے پیدا ہوا ہے اس لیے وہ اس کا بیٹا نہیں ہوگا اورنہ وہ بچہ زانی کا وارث ہوگا اوراگروہ اس کا دعوی بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے پھر نہیں اس لیے کہ اس کا وہ شرعی طور پربچہ ہی نہیں ) انتھی ۔ یہ قول فتاوی اسلامیہ ( 3 / 370 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔

اورشیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی میں ہے کہ زانی کے پانی سے پیدا شدہ بچہ زانی کا شمار نہیں ہوگا ۔
دیکھیں فتاوی شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ ( 11 / 146 ) ۔

          زنا کے گناہ کی تلافی
۔*•┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈•*

لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے }
الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

اور توبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پر ضروری اور واجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اور اگر حمل ظاہر ہوجاۓ تو پھر آپ حدیث پر عمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ تو آپ نکاح کر سکتے ہیں ۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS