Find All types of Authentic Islamic Posts in English, Roman Urdu, Urdu and Hindi related to Quran, Namaz, Hadeeth, Ramzan, Haz, Zakat, Tauhid, Iman, Shirk, Islah-U-Nisa, Daily Hadith, Hayat-E-Sahaba and Islamic quotes.

Khilafat Hazrat Abu Bakr R.A | Islamic History Part 14.

Khilafat Hazrat Abu Bakr Siddique Razi Allahu Anahu.

Tarikh-E-Islam: Daur-E-Khilafat Siddique. Part-14/40.
Khilafat-E-Siddique: Hazrat Abu Bakr Razi Allahu Anahu.
This Islamic post has been published with the full consent of the original author, who has expressly permitted its sharing to spread beneficial knowledge.
Khilafat-E-Siddique, Islamic caliph era, Islamic history, Hayat-E-Sahaba,
Khilafat-E-Siddique: Caliph Era.
تاریخ اسلام۔ عہدِ خلافتِ صدیقیؓ، قسط: (14)
 خلافتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ:

عالم اسلام کی تاریخ کا آغاز حقیقتاً اس وقت سے ہوتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل وطن کے مسلسل مظالم سے نہایت درجہ پریشان ہو کر مکہ کی سرزمین سے ہجرت کر نے اور مدینہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، اس عظیم الشان واقعے کو اسلامی تاریخ کا مبداء اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ ترقی اسلام کی بنیاد اسی وقت سے پڑی، اللہ کی تائید و نصر ت نہایت شاندار طور پر ظاہر ہوئی اور کفار مکہ کو جو مسلسل تیرہ سال تک اسلام کی سخت مخالفت کرنے اور اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل پر متفق ہو چکے تھے۔ ایک بار پھر زبردست ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا، اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ واحد شخص تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کاشرف حاصل ہوا، اس واقعے کے دس برس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لا سکے توآپ نے اپنی جگہ جس شخص کو امامت کے لیے منتخب کیا وہ حضرت ابوبکر ؓہی تھے، یہ عظیم الشان شرف ایساتھا جو حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی نہ حاصل ہو سکا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت جیسے نازک موقع پر حضرت ابوبکر ؓ کو اپنا ساتھی کیوں چنا اور مرض الموت میں اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم کیوں دیا؟ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ہی سب سے پہلے آپ کی رسالت پر ایمان لائے تھے اور دین حق کی خاطر جان، مال اور عزت کی قربانی دینے میں بھی ان کا قدم دوسرے تمام مسلمانوں سے آگے رہا، وہ قبول اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے طویل عرصے میں برابر آپ کی اعانت، دین اسلام کی اشاعت اور کفار کے مظالم سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے میں ہمہ تن مشغول رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کو انہوں نے اپنے ہر کام پر مقدم رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی جان تک کی مطلق پرواہ نہ کی تھی اور ہر جنگ میں آپ کے دو ش بدوش کفار سے مقابلہ و مقاتلہ کیا تھا، نہایت پختہ ایمان کے علاوہ ان کے اخلاق حسنہ بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اسی حسن خلق کی بدولت وہ بے حد ہر دل عزیز تھے اور ہر مسلمان ان سے محبت کرتا تھا۔

حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ کے دینی مرتبے اور ان سے لوگوں کی حد درجہ عقیدت ہی کا نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ کی جانشینی کا سوال مسلمانوں کے سامنے آیا تو ان کی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور سب نے ان کو بالاتفاق پہلا خلیفہ تسلیم کر لیا، اپنے مختصر عہد خلافت میں اسلام کی سربلندی کے لیے انہوں نے جو اولوالعزمانہ کوششیں کیں ان کی نظیر عالم اسلام کی تاریخ میں نہیں ملتی، حضرت ابوبکرؓ ہی کے مبارک زمانے میں اسلامی سلطنت کا آغاز ہوا جس نے پھیلتے پھیلتے دنیا کے کثیر حصے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا، اس عظیم الشان مملکت کے کنارے ایشیا میں ہندوستان اور چین تک، افریقہ میں مصر اور تونس و مراکش تک اور یورپ میں اندلس و فرانس تک پھیل گئے تھے۔ یہ سلطنت تھی کہ جس نے انسانی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن کا اثر رہتی دنیا تک رواں دوا ں رہے گا۔

ایک طرف یہ مرد حق غریبوں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ہر لحظہ بے چین نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا درد مند انسان دنیا کے پردے پر کوئی نہ ہو گا، دوسری طرف اعلائےکلمۃ الحق اور اسلام کی سربلندی کی خاطر وہ بڑے سے بڑا خطرہ قبول کر لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسے اس کے عزم و ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتیں، عزم و استقلال کا یہ عظیم پیکر تردد اور ہچکچاہٹ کے نام سے بھی نا آشنا تھا، اس عظیم الشان انسان کو لوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اجاگر کرنے اور ان سے ان کی استعداد کے مطابق کام لینے کا بہترین ملکہ حاصل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں حضرت ابوبکرؓ نے ایک عاشق صادق کی طرح زندگی بسر کی، جب قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاؤں اور مظالم کا نشانہ بناتے تھے تو کفار کے مقابلے میں حضرت ابوبکرؓ ہی سینہ سپر ہوتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر جس شخص نے سب سے پہلے لبیک کہا وہ ابوبکرؓ ہی تھے، ابوبکرؓ ہی نے ہجرت کے نازک ترین موقع پر غار ثور سے یثرب تک پوری جاں نثاری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی، مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کی مکاریوں اور منافقین کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑا اور قریش مکہ اور یہود مدینہ کی پے در پے کوششوں کے نتیجے میں سارا عرب آپ کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوا تو ابوبکرؓ ہی نے آپ کے خاص الخاص مشیر کار کے فرائض انجا م دیے۔

اسلام کی سربلندی کے لیے جو موقف حضرت ابوبکرؓ نے اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کے ذیل میں جو بلند پایہ خدمات انہوں نے انجام دیں، وہ نہ صرف مجموعی طور پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک ابوبکرؓ کے نام کا ابد الاباد تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی رفعت شان کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں، کیونکہ اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر جو قربانیاں انہوں نے پیش کیں ان کا تعلق اصل میں دل سے ہے اور یہ علم خدا ہی کو ہو سکتا ہے کہ ابوبکرؓ کے دل میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے جو جذبات موجزن تھے وہ ظاہر کے مقابلے میں کتنے شدید تھے اور ان کا اندرونی اخلاص ظاہری اخلاص سے کتنا زیادہ تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جو واقعات پیش آئے ان سے ان کا حسن بصیرت اور دور رسی مزید آشکار ہو گئی، مرتدین عرب سے فراغت پانے کے بعد جب آپ نے ایران و روم پر توجہ مبذول کی تو سب سے بڑا ہتھیار جو انہوں نے ان دونوں سلطنتوں کے خلاف استعمال کیا وہ عدل کا تھا، جسے اسلام نے اصل الاصول کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، اس ہتھیار کا سامنا ایرانی سلطنت کر سکتی تھی نہ رومی مملکت، ایران اور روم کے باشندے شخصی اقتدار کی چکی میں پس رہے تھے، رعایا کے درمیان مختلف طبقات قائم تھے، نسلی امتیاز کی لعنت بری طرح مسلط تھی، حکمران طبقہ ملک میں بسنے والے دوسرے طبقوں کو اپنے سے کم تر بلکہ اچھوت سمجھتا تھا اور انہیں ہر لحاظ سے دبانا فرض خیال کرتا تھا، عین اس وقت اسلام نے عدل و انصاف اور مساوات کا علم بلند کیا۔

حضرت ابوبکرؓ نے ایران جانے اور روم جانے والی افواج کے سپہ سالاروں کو خاص طور پر ہدایات فرمائیں کہ وہ عدل و انصاف کا دامن کسی طرح ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور مفتوحہ علاقوں کے تمام لوگوں سے بلا امتیاز مذہب و ملت مساوی سلوک کریں، اس طرح جو لوگ ایک عرصے سے ظلم و ستم اور عدم مساوات کا شکار چلے آ رہے تھے وہ اسلام کے منصفانہ اصولوں کی جھلکیاں دیکھ کر اس کے گرویدہ ہو گئے اور ان سلطنتوں کو اپنی زبردست عسکری قوت اور عظیم الشان مسلح افواج کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں ہزیمت اٹھانا پڑی، ظاہر ہے کہ ظلم و تشدد اور نسلی امتیاز روا رکھنے والی سلطنت خواہ اس کی ظاہری طاقت کتنی ہی ٹھوس اور اس کی فوج کتنی ہی منظم ہو ایسی قوم کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھہر سکتی جو عدل و انصاف اور مساوات کی نہ صرف علم بردار ہو، بلکہ جس کی زندگی انہیں سانچوں میں ڈھلی ہو، یہ طرز زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کامل طور پر حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
======> جاری ہے ۔۔۔
Share:

Khilafat Hazrat Abu Bakr R.A | Islamic History Part 13.

Hazrat Abu Bakr Siddique Razi Allahu Anahu Ki Khilafat.

Khilafat-E-Siddique: Hazrat Abu Bakr Razi Allahu Anahu. Part-13/40.
This Islamic post has been published with the full consent of the original author, who has expressly permitted its sharing to spread beneficial knowledge.
Hayat-E-Sahaba, Islamic History, Muslim web, Islamic ruler, Caliph region, Siddique era,
Islamic History: Khilafat-E-Siddique.
 تاریخ اسلام۔ عہدِ خلافتِ صدیقیؓ، قسط: (13)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پر امن خلافت:

حضرت علیؓ اور بنی ہاشم کی بیعتِ خلافت کے متعلق خواہ مؤرخین میں کتنا ہی اختلاف ہو، لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اول روز ہی سے خلافت کا کاروبار بغیر کسی شور و شر اور فتنہ و فساد سے سنبھال لیا، اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی موجود ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ بنی ہاشم یا کسی فرد یا کسی اور شخص نے ابوبکرؓ کے خلا ف مسلح بغاوت یا جنگ کا اعلان کرنے کا سوچا ہو۔ چاہے ا س کا باعث لوگوں کے دلوں میں اس بلند ترین مرتبے کا احساس موجود ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ابوبکرؓ کو حاصل تھا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اگر میں بندوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ یا وہ شرفِ قربت ہو جو ہجرت کے موقع پر انہیں حاصل ہو یا ان کے وہ فضائل و محاسن ہوں جن کے باعث لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر و منزلت کا احساس پیدا ہو گیا تھا یا وہ مدد ہو جو وہ ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روا رکھتے تھے۔ یا یہ واقعہ ہو کہ آپ نے اپنی آخری علالت میں انہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا، بہرحال! ان کی بیعت کا سبب خواہ کوئی بھی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ان کے مقابلے میں کوئی شخص اٹھا اور نہ کوئی اور شخص جس نے ایک مرتبہ ان کی بیعت کر لی تھی۔

یہ امر اس بات کی محکم دلیل ہے کہ اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا جو تصور تھا وہ اس تصور سے بالکل مختلف تھا جو بعد میں بنی امیہ کے زمانے میں پیدا ہو گیا تھا، اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا تصور اس عربی تمدن کے عین مطابق رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں رائج تھا، لیکن جب اسلامی فتوحات نے وسعت اختیار کی تو عربوں کا اختلاط کثرت سے مفتوحہ قوموں کے ساتھ ہونے لگا تو اس اختلاط اور مملکت اسلامیہ کی وسعت کے نتیجے میں خلافت کے متعلق مسلمانوں کے تصور میں بھی فرق آ گیا۔

ابتدا میں مسلمانوں کا تصور خلافت خاص عربی نقطہ نگاہ سے تھا، سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کے لیے خلافت کی وصیت نہ فرمائی، اس امر کے پیش نظر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان تنازع اور عام بیعت کے بعد بنی ہاشم اور دوسرے تمام مہاجرین کے درمیان خلافت کے سلسلے میں پیدا چشمک پر غور کرتے ہیں تو بلاشبہ صریحاً عیاں ہو جاتاہے کہ خلیفہ اول کا انتخاب کرنے کے موقع پر اہل مدینہ نے اجتہاد سے کام لیا، کتاب و سنت میں انتخاب خلافت کے لیے کوئی سند نہ تھی، اس لیے مدینہ کے مسلمانوں نے جس شخص کو خلافت کی گراں بار ذمہ داری اٹھانے کا اہل سمجھا اسے خلافت سپرد کر دیا، اگر انتخاب خلیفہ کا معاملہ مدینہ سے باہر دوسرے قبائل عرب تک بھی محیط ہو جاتا تو حالات بالکل مختلف ہوتے اور اس صورت میں حضرت عمرؓ کے قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی بیعت اتفاقیہ اور ناگہانی نہ ہوتی۔

حضرت ابوبکرؓ کی خلافت  کے موقع پر جو طریقہ استعمال کیا گیا تھا وہ بعد کے دوخلیفوں (حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ) کے انتخاب کے وقت استعمال نہ کیا جا سکا، حضرت ابوبکرؓ نے اپنی وفات سے قبل حضرت عمرؓ کی خلافت کی وصیت فرما دی تھی اور حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت عثمانؓ کے لیے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی، جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافات رونما ہو کر بالآخر خلافت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو انتخاب کا طریقہ بالکل بدل گیا اور خلافت باپ کے بعد بیٹے اور بیٹے کے بعد پوتے کی طرف منتقل ہونے لگی۔

حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں جو نظام جاری کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اصل اور خود ان کے آپ سے گہرے تعلقات کے باعث تقریباً وہی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا تھا، لیکن جب حالات متغیر ہوئے اور اسلامی فتوحات میں وسعت پیدا ہوئی تو یہ نظام بھی آہستہ آہستہ مٹتا چلا گیا، یہاں تک کہ عہد عباسیہ کے زمانہ عروج اور ابوبکرؓ کے زمانے کے نظام ہائے حکومت میں زمین و آسمان کافرق تھا، یہی نہیں بلکہ ان کے بعد آنے والے تین خلفاء کے جاری کردہ نظاموں میں بھی بہت فرق ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کا عہد اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل منفرد ہے، ان کا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی سیاست اور حکومت کی دنیوی سیاست کا سنگم تھا، یہ درست ہے کہ دین مکمل ہو چکا تھا اور کسی شخص کو اس میں تغیر و تبدل اور اس کی تنسیخ کرنے کا حق حاصل نہ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد معاً عرب میں ارتداد کی وبا پھیل گئی اور بہت سے قبائل اسلام سے روگرداں ہو گئے اس صورت حال کی موجودگی میں  حضرت ابوبکر کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اس عظیم الشان خطرے کو دور کرنے کے لیے ایک مضبو ط پالیسی مرتب کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمسایہ مملکتوں کے سربراہوں کو اسلام کی دعوت پہنچانے کا ایک اہم فریضہ بھی شروع کیا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اسے بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا، انہوں نے یہ کام کس طرح انجام دیا؟ اور یہ اہم ذمہ داری کس طرح ادا کی؟ اس کی تفصیلی ذکر ہم آئندہ تحاریر میں کریں گے۔ ان شاء اللہ
=========> جاری ہے ۔۔۔
ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ.
Share:

Khilafat Hazrat Abu Bakr R.A | Islamic History Part 12.

Hazrat Ali Razi Allahu Anahu Ka Bait.

Khilafat Hazrat Abu Bakr R.A | Islamic History Part 12.
 This Islamic post has been published with the full consent of the original author, who has expressly permitted its sharing to spread beneficial knowledge.
Khilafat-E-Siddique, Hayat-E-Sahaba, Seerat-E-Sahaba, Islamic history, Muslim rulers, Khilafat, 1st khalifa of Islam,
Khilafat-E-Siddique. 
 تاریخ اسلام۔ عہدِ خلافتِ صدیقیؓ، قسط: (12)
 بیعت حضرت علی کرم اللہ وجہہ:

بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا جو خلافت کا پہلا خطبہ تھا، کچھ اصحاب بیعت سے انکار کرتے رہے، لیکن آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کر لی، سوائے حضرت علیؓ کے جنہیں اس مسئلے میں مشاورت میں شریک نا کیے جانے کی وجہ سے شکوہ تھا، ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے چالیس روز بعد بیعت کی تھی۔

اس واقعہ کو بھی سبائی راویوں نے متنازع بنانے کے لیے بیسوں روایات گھڑیں جو انہی کی پسند کا اختلاف دکھاتی ہیں اور اس کو ایک خاندانی جھگڑے کا مسئلہ بناتے ہوئے انہوں نے اصحاب رسول ﷺ پر نفاق اور اہل بیت سے بغض کی تہمتیں لگائیں، ان روایات کی سندوں میں وہی نامی گرامی راوی بھی موجود ہیں جن کی جنگ صفین کے متعلق متنازعہ روایتوں پر ہم پہلے تحقیق پیش کرچکے ہیں، سند کے لحاظ سے وہ روایات کمزور ہیں ہی، ان کا متن بھی اصحاب رسول اور اہل بیت کی شان/ عادات سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ان کے برعکس بعض ایسی روایتیں موجود ہیں جن میں اس امر سے صراحتاً انکار کیا گیا ہے کہ بنو ہاشم اور بعض مہاجرین بیعت سے علیحدہ رہے، ان روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کی خاص بیعت کے بعد عام بیعت کا وقت آیا تو مہاجرین اور انصار بالاجتماع آپ کی بیعت میں شریک تھے، چنانچہ طبری میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے سعید بن زید سے پوچھا:
’’کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھے:
انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
اس شخص نے پوچھا: حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کب کی گئی؟
انہوں نے جواب دیا: اسی روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی۔ صحابہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ وہ ایک بھی روز بغیر خلیفہ کے زندگی گزاریں‘‘۔
اس پر اس شخص نے پوچھا: ’’کیا کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ کی مخالفت بھی کی ہے؟
انہوں نے جواب دیا: ’’ نہیں سوائے مرتدین کے یا ان لوگوں کے جو حالت ارتداد کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔
پوچھا گیا: ’’ کیا مہاجرین میں سے بھی کسی نے بیعت کرنے سے انکار کیا ؟‘‘
جواب دیا: نہیں مہاجرین نے تو اس بات کا انتظار بھی نہ کیا کہ کوئی شخص انہیں آ کر بیعت کے لیے بلائے، بلکہ انہوں نے خود ہی آ کر ابوبکرؓ کی بیعت کر لی‘‘۔

*بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق درمیانی رائے:*

بعض روایات میں حضرت علیؓ کی بیعت کے بارے میں درمیانی رائے اختیار کی گئی ہے، ان روایات کا ملخص یہ ہے کہ بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ منبر پر جلوہ افروز ہوئے، آپ نے حاضرین پر نظر دوڑائی تو حضرت زبیر کو نہ پایا، آپ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا:
’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اور حواری! کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ (کیا بیعت نہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں)‘‘
انہوں نے کہا: ’’یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے سرزنش نہ کیجیے میں بیعت کرتا ہوں‘‘۔ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہوکربیعت کر لی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے پھر ایک نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی موجود نہں، آپ نے انہیں بھی بلایا اور کہا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اور آپ کے محبوب داماد! کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے بھی جواب دیا: یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں آپ کی بیعت کرتاہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر بیعت کر لی۔

بعض محققین کا خیال ہے کہ بیعت نہ کرنے کے متعلق روایات عباسی عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کی خاطر وضع کی گئیں، وہ کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات حضرت علیؓ کی بیعت نہ کرنے کے ثبوت میں ایک واقعہ پیش کرتے ہیں، اس واقعے کے درست ہونے میں تو کوئی شک نہیں، لیکن اس کا بیعت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں، وہ واقعہ یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت کے بعد حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عباسؓ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آئے اور آپ کی اس میراث کا مطالبہ کیا جسے ارض فدک اور خیبر کی جائیدادوں میں آپ کے حصے پر مشتمل تھی۔ ابوبکرؓ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے کہ:

" نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکنا صدقۃ "

ہم انبیاء کے گروہ ہیں، ہم کوئی میراث نہیں چھوڑتے، اپنے پیچھے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا، اس جائیداد کی آمدنی سے جس کا تم نے ذکر کیا ہے آپ کے اہل و عیال کا گزارہ چلتا تھا، اس لیے میں بھی اسے وہیں خرچ کروں گا جہاں آپ خرچ کرتے تھے‘‘۔ اس پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہو گئیں اور آخری وقت تک انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کلا م نہ کیا، میراث کے مطالبے پر حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہو جانا سمجھ میں نہیں آتا، جب ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے آگاہ کر دیاتھا تو ان کے لیے دو ہی راستے تھے، یا تو یہ کہو کہ اس حدیث کی صحت سے  
انکار کر دیتیں یا آپ کے ارشاد پر سرتسلیم خم کر دیتیں، کسی روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ انہوں نے ابوبکر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی صحت سے انکار کیا ہو۔ جب یہ بات نہیں تو فاطمہؓ جیسی پرہیز گار خاتون کس طرح آپ کے ارشاد سے منہ موڑ کر محض زمین کے چند قطعات کے لیے ابوبکرؓ سے ناراض ہو سکتی تھیں؟

یہ ہے وہ اصل روایت جس میں ابوبکرؓ سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضی اور حضرت علیؓ کی ناراضی اور ان سے بول چال ترک کر دینے کا بیان ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ ٹکڑا بھی ملا دیا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی وفات تک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کی، وفات کے بعد ابوبکرؓ تعزیت کے لیے حضرت علیؓ کے پاس گئے اور حضرت علی ؓ حضرت ابوبکرؓ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ’’اب ہمیں آپ کی بیعت کرنے میں کوئی روک نہیں، لیکن ہمارے خیال میں خلافت ہمارا ہی حق ہے آپ نے اس پر قابض ہو کر ہمارا حق چھینا ہے اور اس طرح ہم پر ظلم کیا ہے۔ ‘‘
حضرت ابوبکرؓ نے اس کے جواب میں کہا:
’’اس مال و جائیداد کے سلسلے میں جو میرے اور تمہارے درمیان وجہ نزاع بنی رہی، میں نے جو کارروائی کی وہ محض تمہاری بھلائی کے لیے تھی‘‘۔

مذکورہ محققین یہ کہتے ہی کہ روایت کا آخری حصہ درایۃً ناقابل قبول ہے۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ حضرت ابوبکرؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ اسی وقت کر سکتے تھے جب کہ مسلمان بالاتفاق بیعت کر کے حضرت ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیتے، خلافت سے پہلے اس قسم کا مطالبہ کرنے کے کوئی معنی نہ تھے، اگر حضرت علی ؓ اور بنو ہاشم نے ان سے بیعت ہی نہ کی تھی اور انہیں خلیفہ تسلیم ہی نہ کیا تھا تو ان سے میراث کا مطالبہ کرنا بے معنی تھا۔

یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ دعوی ٰ ہے کہ حضرت علیؓ نے بلا توقف حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی تھی اور ان میں سے اکثرکا خیال ہے کہ ان کی بیعت نہ کرنے کے متعلق جو روایات عباسیوں کے عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کے پیش نظر گھڑی گئیں، کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ روایات عباسیوں سے بھی پہلے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگوں کے دوران میں بنی ہاشم اور بنی امیہ کی چشمک کے باعث وضع کی گئیں۔

عراق اور فارس کی فتح کے بعد وہاں ایرانی النسل لوگوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس نے اپنے فائدے کی خاطر اس قسم کی روایات وضع کرنی شروع کیں، سلطنت اسلامیہ پر امویوں کے قبضے کی وجہ سے یہ لوگ کھلم کھلا ان روایات کی تشہیر تو نہ کر سکتے تھے، لیکن خفیہ طور پر ان کی اشاعت وسیع پیمانے پر کرتے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ کھلم کھلا اپنے عقائد کا اظہار کر سکیں، ابو مسلم خراسانی کے خروج نے یہ ان کی دیرینہ تمنا پوری کر دی، اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس طرح ان روایات کا سہارا لے کر بنو عباس نے سلطنت حاصل کی وہ تاریخ کا ایک خونین باب ہے۔
=====> جاری ہے ۔۔۔
Share:

Khilafat Hazrat Abu Bakr R.A | Islamic History Part 11.

Tarikh-E-Islam: Khilafat Siddique Part-11.

Khilafat-E-Siddique: Hazrat Abu Bakr Razi Allahu Anahu. Part-11/40
This Islamic post has been published with the full consent of the original author, who has expressly permitted its sharing to spread beneficial knowledge. 
Khilafat-E-Siddique, Islamic history, Muslim rulers, First Khalifa of Islam, Caliph Islam, Muslim web
Sahaba Story.
  تاریخ اسلام۔ عہدِ خلافتِ صدیقیؓ، قسط: (11)
سقیفہ بنی ساعدہ:
موجودہ زمانے میں اسلوب بیان کے بعض پہلوؤں کو ماہرین سیاست نو ایجاد سمجھتے ہیں، من جملہ دیگر اسالیب بیان کے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ مد مقابل سے اس طرح گفتگو کی جائے کہ اس کے جذبات کو ٹھیس بھی نہ لگے اور اسے قائل بھی کر لیا جائے، یہ طرز بالکل نو ایجاد سمجھا جاتاہے، لیکن حضرت ابوبکرؓ نے انصار سے جس طرز پر بات کی اور جس خوش اسلوبی سے معاملے کو سلجھایا، آج کل کے ماہرین سیاست کو اس کی ہوا تک نہیں لگی۔

جب یہ تینوں مہاجرین اطمینان سے بیٹھ گئے تو انصار کی پریشانی کچھ کم ہوئی اور انہوں نے مہر سکوت توڑ کر اسی قسم کی باتیں شروع کیں کہ خلافت صرف ان کا حق ہے اور یہ حق انہیں کو ملنا چاہیے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے بعض باتیں سوچ رکھی تھیں جنہیں اس مجلس میں بیان کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن جب میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:

’’ذرا ٹھہرو! مجھے بات کر لینے دو، اس کے بعد تم بھی اپنی باتیں بیان کر دینا‘‘۔

اصل میں ابوبکرؓ کو ڈر تھا کہ کہیں عمرؓ تیزی میں نہ آ جائیں، کیونکہ یہ موقع تیزی اور سختی کا نہ تھا، بلکہ نرمی اور بردباری برتنے کا تھا، حضرت عمرؓ، حضرت ابوبکرؓ کی بزرگی اور ان کی سبقت فی الاسلام کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹھ گئے اور ابوبکرؓ تقریر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ کے لائے ہوئے پیغام کا ذکر کیا پھر فرمایا:

’’عربوں کے لیے اپنے آباو اجداد کا دین ترک کردینا نہایت شاق تھا اور وہ ایسا کرنے کے لیے بالکل آمادہ نہ تھے، اس وقت اللہ نے آپ کی قوم میں مہاجرین اولین کو آپ کی تصدیق کرنے، آپ پر ایمان لانے، آپ کی دلجوئی کرنے اور اپنی قوم کے مظالم کو صبر سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، ہر شخص ان کامخالف تھا، ان پر ظلم و ستم توڑے جا رہے تھے، انہیں بدترین ایذائیں دی جاتی تھیں، لیکن وہ قلت تعداد اور کثرت اعداء کے باوجود مطلق خوفزدہ نہ ہوئے، وہ اس سرزمین میں اولین اشخاص ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور اس طرح اللہ کے حقیقی بندے بننے کی توفیق ملی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محب اور رشتہ دار ہیں، اس لیے خلافت کے وہی مستحق ہیں،
اور تم اے گروہ انصار! وہ لوگ ہو جن کی فضیلتِ دینی اور اسلام میں سبقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ نے تمہیں اپنے دین کا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مددگار بنایا ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت تمہاری طرف کی اور آپ کی اکثر ازواج اور بیشتر صحابہ تمہیں میں سے تھے، مہاجرین اولین کے بعد تمہارا ہی رتبہ ہے، اس لیے ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر۔ نہ تمہارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور نہ تمہیں شریک کیے بغیر کوئی کام انجام دیا جائے گا‘‘۔

حضرت ابوبکرؓ کے دلائل کی روشنی میں تمام لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہیے تھا، کیونکہ ان کی تمام باتیں مبنی برحق تھیں اور قرین انصاف تھیں، لیکن بعض لوگوں کو مہاجرین کی امارت سرے سے ناپسند تھی، ان کے دلائل سے کوئی اثر قبول نہ کیا، کیونکہ ان لوگوں کو خدشہ تھا کہ مہاجرین ان کا حق غصب کر لیں گے اور سلطنت پر قابض ہوکر من مانی کارروائیاں کریں گے، چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا:

’’ہم اللہ کے انصار اور اسلام کا لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین! ہم سے قلیل التعداد ہو، لیکن اب تم ہمارا حق غصب کرنا اور ہمیں سلطنت سے محروم کرنا چاہتے ہو، ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا‘‘۔

یہ سن کر بھی ابوبکر ؓ کے ماتھے پر بل نہ پڑے اور وہ بدستور اپنے دھیمے پن سے مجمع کو خطاب کرتے رہے، انہوں نے فرمایا:

’’ اے لوگو! ہم مہاجرین اولین اشخاص ہیں جو اسلام لائے، حسب و نسب اور عز و شرف کے لحاظ سے بھی ہم تمام عربوں سے بڑھ چڑھ کر ہیں، ان تمام باتوں کے علاوہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کا فخر بھی حاصل ہے، ہم تم سے پہلے ایمان لائے اور قرآن میں ہمارا ذکر تمہارے ذکر سے مقدم ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

''والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان''

ہم مہاجرین ہیں اور تم انصار۔ تم دین میں ہمارے بھائی، غنیمت میں ہمارے شریک اور دشمنوں کے مقابلے میں ہمارے مدد گار ہو، باقی تم نے اپنی فضیلت کا جو ذکر کیا ہے اس سے ہمیں انکارنہیں، تم واقعی اس کے اہل ہو اور روئے زمین پر سب سے زیادہ تعریف کے مستحق، لیکن عرب اس بات کو کبھی نہ ما نیں گے کہ سلطنت قریش کے سوا کسی اور قبیلے کے ہاتھ میں رہے، اس لیے امارت تم ہمارے سپردکر دو اور وزارت خود سنبھال لو‘‘۔ 

لیکن پھر بھی مخالفت برقرار رہی تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے، وہ اس سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے منع کرنے سے مجبوراً خاموش ہو رہے تھے لیکن ان سے ضبط نہیں ہو سکا اور انہوں نے کہا: ’’ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں، اللہ کی قسم! عرب تمہیں امیر بنانے پر ہرگز رضامند نہیں ہوں گے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے نہ تھے۔ ہاں اگر امارت ان لوگوں کے ہاتھ میں آئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اگر عربوں کے کسی طبقے نے ہماری امارت اور خلافت سے انکار کیا تو اس کے خلاف ہمارے ہاتھ میں دلائل ظاہرہ اور براہین قاطعہ ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور امارت کے بارے میں کون شخص ہم سے جھگڑا کر سکتا ہے جب ہم آپ کے جاں نثار اور اہل عشیرہ ہیں۔ اس معاملے میں ہم سے جھگڑا کرنے والا وہی ہو سکتا ہے جو باطل کا پیروکار گناہوں سے آلودہ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کے لیے تیار ہو‘‘۔

اس وقت حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ جو اب تک خاموش بیٹھے فریقین کی باتیں سن رہے تھے، اس معاملے میں دخل دیے بغیر نہ رہ سکے، وہ اٹھے اور اہل مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اے انصار! تم ہی تھے جنہوں نے اس دین کی نصرت اور حمایت کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور اب تمہیں سب سے پہلے اس کی تباہی کے درپے ہو رہے ہو‘‘۔

ابوعبیدہؓ کے اس فقرے کا قبیلہ خزرج کے ایک سردار بشیر بن سعد ابو النعمان بن بشیر پر بے حد اثر ہوا۔ وہ کھڑے ہوئے اور تقریر کی:

’’اللہ کی قسم! اگر ہمیں مشرکین سے جہاد اور دین میں سبقت اختیار کرنے کے معاملے میں مہاجرین پر فضیلت حاصل ہے لیکن ہم نے یہ سب کچھ محض اپنے رب کی رضا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے کیا تھا، اس لیے ہمیں زیبا نہیں کہ ہم ان باتوں کی وجہ سے فخر و مباہات کا اظہار کریں اور اپنی دینی خدمت کے بدلے دنیا کا مال و منال طلب کریں۔ اللہ ہی ہمیں اس کی جزا دے گا اور اس کی جزا ہمارے لیے کافی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش میں سے تھے اور آپ کی قوم ہی اس کی سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہم اس بارے میں ان سے جھگڑا کریں۔ اس لیے اے انصار! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین کی مخالفت نہ کرو اور ان سے مت جھگڑو‘‘۔

بشیر بن سعد کی یہ باتیں سن کر ابوبکرؓ نے انصار کی طرف نظر دوڑائی تاکہ یہ دیکھیں کہ انہوں نے کہاں تک ان کا اثر قبول کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اول آپس میں آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ ادھر بنی خزرج کے چہروں سے بھی مترشح ہوتا تھا کہ ان کے دلوں پر حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کی باتوں کا بہت اثر ہوا ہے۔

یہ دیکھ کر ابوبکرؓ کو یقین ہو گیا کہ معاملہ سدھر گیا ہے اور یہی لمحات فیصلہ کن ہیں، انہیں ضائع نہ کرنا چاہیے، وہ حضر ت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کرکھڑے ہوگئے اور فرمایا:

’’یہ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ بیٹھے ہیں، ان میں سے جس کی بیعت چاہو کر لو‘‘۔

اس وقت شور و شغب بہت بڑھ گیا، حضرت عمرؓ کی دینی فضیلت سے کسی شخص کو انکار نہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد علیہ اور ام المومنینؓ حضرت حفصہؓ کے والد تھے، لیکن ان کی سختی اور تیز مزاجی سے ہر کوئی ڈرتا تھا، اسی لیے ہر شخص ان کی بیعت سے پس و پیش کر رہا تھا، جہاں تک ابوعبیدہؓ کا تعلق تھا ان میں عمرؓ کی سی سختی نہ تھی، لیکن انہیں دینی لحاظ سے حضرت عمرؓ کا سامقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔

اگر چندے اور یہی حالت رہتی تو اختلاف انتہائی شدت اختیار کر لیتا، لیکن حضرت عمرؓ نے اسے بڑھنے نہ دیا اور بلند آوا ز سے کہا:

’’ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھائیے‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور حضرت عمرؓ نے فوراً آپ کی بیعت کر لی اور کہا:

’’ابوبکر! کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم نہ دیا تھا کہ آپ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں اس لیے آپ ہی خلیفۃ اللہ ہیں۔ ہم آپ کی بیعت اس لیے کرتے ہیں کہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب تھے‘‘۔

حضرت ابوعبیدہؓ بھی یہ کہتے ہوئے آپ کی بیعت کر لی:
’’آپ مہاجرین میں سب سے برتر ہیں۔ آپ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر حاضری میں آپ ہی نماز پڑھایا کرتے تھے، اس لیے آپ سے زیادہ کون شخص اس بات کا مستحق ہو سکتاہے کہ اسے خلافت کی اہم ذمہ داریاں سپرد کی جائیں‘‘۔

حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے بیعت کر لینے کے بعد بشیر بن سعد بھی جلدی سے آگے بڑھے اور بیعت کر لی، اس کے بعد قبیلہ اوس نے آپ کی بیعت کر لی۔ ادھر قبیلہ خزرج اپنے سردار بشیر بن سعد کی باتوں سے مطمئن ہو چکے تھے، وہ بھی آگے بڑھ کر بیعت کرنے لگے۔ سقیفہ کی بیعت میں حضرت علیؓ بن ابی طالب اور بعض کبار صحابہؓ شریک نہ ہوسکے،

کیونکہ انہیں واقعہ سقیفہ کی خبر نہ تھی اس لیے وہ بھی اس بیعت میں شریک نہ تھے۔ بیعت سقیفہ کے متعلق ایک روایت میں حضرت عمرؓ کی جانب قول منسوب ہےکہ یہ بیعت بغیر کسی ارادے سے محض اتفاقاً ہو گئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جو کچھ ہوا اس نے اسلام کو ایک ایسے ہولناک فتنے سے بچا لیا جس کا انجام اللہ جانے کیا الم ناک صورت اختیار کرتا۔ اور اس کے بعد وہ تسلی سے حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگئے۔

اس دن کے بعد پھر کبھی انصار کی طرف سے خلافت کی خواہش نہیں کی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہوئی، ان کی وفات کے بعد تخت خلافت پر حضرت عثمانؓ متمکن ہوئے، لیکن انصار نے خلافت کا دعویٰ نہ کیا، حضرت علیؓ کے عہد میں آپ کے اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلاف برپا ہوا، جس نے بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کر لی، اس اختلاف کے موقع پر بھی انصار کی طرف سے خلافت کے حصول کی کوئی کوشش نہ کی گئی، حالانکہ اگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو بخوبی اٹھا سکتے تھے۔ لیکن وہ ابوبکرؓ کے اس قول پر صدق دل سے ایمان لا چکے تھے کہ:

’’عرب سوا قریش کے کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے‘‘۔

بعد میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسب ذیل وصیت کے مطابق مہاجرین کے زیر سایہ اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت ختم ہونے پر مسلمان مسجد نبوی میں واپس آ گئے۔ اس وقت شام ہو چکی تھی، اگلے روز حضرت ابوبکرؓ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پربیٹھ گئے، چنانچہ اس کے بعد عام بیعت ہوئی جبکہ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت میں صرف خاص خاص لوگ شریک تھے۔
=====> جاری ہے ۔۔
ماخوذ از مستند تاریخ اسلام ویب سائیٹ.

Share:

Liberalism exposed: How modern freedom destroys morality?

Akhlakiyaat Ka Matam aur Liberalism Ka Yalgaar.

The Funeral of Morality and the Onslaught of Liberalism.
जब 'आज़ादी' का नारा शैतान की नई ज़बान बन जाए!
वो ख़ामोश तहरीरें जो इस्लाम को गुनहगार बना रही हैं!
इस्लाम में निकाह बनाम मॉडर्न “कंसेंट”: आज़ादी, ज़िम्मेदारी और नस्ल की हिफ़ाज़त.
अधूरी तारीख़ पढ़कर 'इस्लाम' को क़सूरवार ठहराने वाले कौन हैं?
आज़ादी के नारे जब इबादत की जगह ले लें, तब सबसे पहले शर्म का क़त्ल होता है।
औरत के हक़ की आड़ में जो लड़ाई चल रही है — वो दरअसल 'हया' के ख़िलाफ़ है!
Liberalism exposed! Discover how modern “freedom” destroys morality — Islam reveals the truth.
This article unmasks liberalism through the lens of Islamic thought. It argues that liberal ideology, with its emphasis on unrestricted freedom and individual consent, undermines divine guidance and erodes the moral fabric of society. By contrasting the eternal principles of Shariah with the shifting values of modern liberalism, the piece highlights how the pursuit of “absolute liberty” leads to spiritual emptiness, social chaos, and the weakening of family and community bonds. The discussion calls readers to recognize the dangers of liberalism and return to the timeless wisdom of Islam as the true safeguard of morality and justice.
Liberalism exposed, unrestricted freedom, moral fabric of society, leads to spiritual emptiness,
How modern “freedom” destroys morality.
स “आज़ादी” के नारे की  मिठि आवाज़ में वो ज़हर छुपा है जो इमान की जड़ों तक उतर जाता है।
जिस आज़ादी ने हर बंदिश को “क़ैद” कहा, उसी ने औरत से उसकी शर्म,हया और इमान छीन ली।
अख्लाकियात का मातम और “रज़ामंदी” का नया बुत.

जब आज़ादी के नारों के सहारे अधूरी तारीख़ पढ़कर इस्लाम पर हमला किया जाए

आज का “रोशन–ख़याल” दौर एक अजीब ज़हनी उलझन का शिकार है।
हमारे देसी लिबरल और फ़ेमिनिस्ट हल्कों में एक नया फ़िक्री फ़ैशन चल पड़ा है कि तारीख़ की किताबों से चंद आधे–अधूरे वाक़ियात उठा लो, उन पर “ह्यूमन राइट्स” की चमक चढ़ा दो, और फिर उन्हें इस्लाम के ख़िलाफ़ चार्जशीट बना कर पेश कर दो।

हाली दिनों में एक ऐसी ही तहरीर नज़र से गुज़री जिसमें यूनान, रोम और हिन्दू समाज़ के मिसालों को इस अन्दाज़ से इस्लाम के साथ गूँथने की कोशिश की गई कि मानो “शादी” कोई ख़ुदा का हुक्म नहीं, बल्कि मर्दाना ताक़त की साज़िश हो।
दावा यह किया गया कि:

अगर माजि में “लौंडी” से जिस्मानी ताल्लुक़ जायज़ था, तो आज की “आज़ाद औरत” के साथ निकाह के बग़ैर ताल्लुक़ (ज़िना) को गुनाह कैसे कहा जा सकता है?

यही वो जगह है जहाँ ज़रूरत पड़ती है कि इस पूरे माफ़हूम का बारीक तजज़िया किया जाए, ताकि मालूम हो सके कि यह “तारीख़ का तज़ाद” है या फ़िक्र की ख़लल।

1. तारीख़ का आधा सच और “ताक़त” का अफ़साना

तहरीर में लिखा गया कि यूनान में शादी एक मुआहदा थी और रोम में औरत- मर्द की मिल्कियत समझी जाती थी।
यह बात अपनी जगह दुरुस्त है, लेकिन मसला यह है कि यहीं से बात को तोड़कर इस्लाम पर हमला कर दिया जाता है।

यूनान, रोम और दीगर जाहीली मुशरिक समाज वही थे जिनके बरअक्स इस्लाम एक इंक़िलाब बनकर आया।
इस्लाम ने आकर औरत को “शौहर की मिल्कियत” होने के तसव्वुर से निकाला और निकाह को एक “इदारा” — यानी गहराई और ज़िम्मेदारी वाला सामाजिक मुआहदा क़रार दिया, जिसमें औरत की “रज़ामंदी” पहली शर्त रखी गई।

इस्लाम से पहले औरत ख़ुद विरासत में बँटती थी; इस्लाम ने उसे ख़ुद “वारिस” बनाया।
उसके नफ़्स, माल, इज़्ज़त और फ़ैसले की क़ानूनी हैसियत क़ायम की गई।

अब जो लोग यह कहते हैं कि:
“शादी को जबरन मुक़द्दस बनाया गया ताकि इस के बाहर हर रिश्ता गुनाह ठहरे”
तो यह दरअस्ल बचकानी और सतही दलील है।
शादी को मुक़द्दस इसलिए नहीं बनाया गया कि मर्द औरत पर क़ाबिज़ हो सके, बल्कि इसलिए कि “नसब” यानी इंसानी नस्ल, ख़ानदानी पहचान और बाप–औलाद के रिश्ते की हिफ़ाज़त हो सके।
जानवर भी जिस्मानी ताल्लुक़ रखते हैं, लेकिन “बाप” होने की कोई ज़िम्मेदारी नहीं उठाते।
इंसान को जानवर से अलग करने वाला अस्ल फ़र्क़ ही यह है कि वह अपने लुत्फ़ के नतीजे की ज़िम्मेदारी उठाए।
निकाह वही इदारा है जो मर्द से कहता है:
अगर तूने लुत्फ़ उठाया है, तो अब उस के नतीजे — बच्चे और औरत — की कफ़ालत और ज़िम्मेदारी भी तेरे ज़िम्मे है। यह “ताक़त” नहीं, “ज़िम्मेदारी” है।

2. लौंडी का मसला और फ़िक्री धोखा–धड़ी

अब आते हैं उस नाज़ुक हिस्से पर, जहाँ “लौंडी” और “ज़िना” का मुक़ाबला खड़ा कर दिया गया।

दावा यह किया गया: 
“अगर लौंडी से ताल्लुक़ जायज़ था तो गर्लफ़्रेंड से क्यूँ नहीं? यही तो दोग़लापन है!”

यहाँ सबसे बड़ी बदनीयती यह है कि लौंडी के पूरे कान्टेक्स्ट (Context) को ग़ायब कर दिया गया।

ग़ुलामी इस्लाम ने इजाद नहीं की थी।
जब क़ुरआन नाज़िल हुआ, उस वक़्त दुनिया का तक़रीबन तमाम मआशी नज़्म–ओ–नसक़ ग़ुलामी पर क़ायम था।
अगर एक दिन में यह कहा जाता कि “आज से सब ग़ुलाम आज़ाद”, तो लाखों लोग जो अपनी रोटी, छत और अम्न के लिए अपने आका पर मुनहसिर थे, एकदम से बेघर और बे–सहारा हो जाते।

इस्लाम ने इस निज़ाम को एक दिन में उखाड़ फेंकने के बजाए उसे सख़्त क़वायद के ज़ेर–ए–निगरानी रखा और दरवाज़े खोल दिए कि ग़ुलामों को आज़ाद करना सब से बड़ा सवाब और कई गुनाहों का कफ़्फ़ारा ठहरे।
यानी मन्ज़िल “इज़ालत–ए–ग़ुलामी” थी, मगर रास्ता तदरीजी और हिकमत पर मबनी था।

लौंडी कोई “पब्लिक प्रॉपर्टी” नहीं थी कि जो चाहे जब चाहे उस से ताल्लुक़ क़ायम कर ले।
शरीअत में लौंडी के साथ जिस्मानी ताल्लुक़ सिर्फ़ उसके मालिक के लिए मुजाज़ था, और उस पर भी कई शराई क़ैदें थीं। अगर वह उम्मीद से हो जाती, तो “उम्म–ए–वलद” कहलाती; उसे बेचा नहीं जा सकता था; उसका बच्चा ग़ुलाम नहीं, बल्कि आज़ाद और अपने बाप का वारिस समझा जाता।

इस के बरअक्स ज़िना क्या है?
एक “ला–वारिस रिश्ता” —

  • न बच्चे का नसब महफ़ूज़,
  • न औरत की कफ़ालत पर कोई क़ानूनी गिरफ़्त,
  • न मर्द पर किसी ज़िम्मेदारी का बोझ।

कुछ फ़ुक़हा की शाज़ और आज के दौर में ज़ारि फहाशि — जैसे लौंडी का मुश्तरक होना — को उठा कर पूरे दीन पर हमले करना इल्मी बहस नहीं, बल्कि फ़िक्री बेईमानी है।

जुमहूर फ़ुक़हा और क़ुरआन–ओ–सुन्नत की रूह यह है कि एक वक़्त में एक औरत के साथ ही ताल्लुक़ की इजाज़त हो, ताकि नसब में ख़ल्त–मल्त न हो और ज़िम्मेदारी मुतअय्यन रहे।

3. नसब की हिफ़ाज़त या मर्दाना बालादस्ती?

तहरीर में जगह–जगह यह बात दोहराई गई कि यह सब

“मर्दाना समाज़ के लिए औरत की जिस्मानियत पर काबू पाने का नज़्म है।”
यह फ़ेमिनिज़्म का एक मशहूर कवायेद है।
असल हक़ीक़त इस के उलट है: क़ानूनी “क़ाबू” औरत पर नहीं, मर्द की हवस पर है।

इक लम्हा ठहर कर सोचिए — अगर निकाह न हो:

  • मर्द के लिए पूरा फ़ायदा,

  • औरत के लिए पूरा ख़तरा,

  • बच्चा अगर आ जाए तो “मेरी मरज़ी नहीं थी” कह कर मुँह मोड़ लेना सब से आसान रास्ता।

निकाह वह ज़ंजीर है जो मर्द को भागने से रोकती है।

शरीअत ने ज़िना को हराम किया और निकाह/मिल्कियत–ए–यमीन को जायज़ इसलिए ठहराया कि ज़िम्मेदारी का दायरा वाज़ेह हो, नसब महफ़ूज़ रहे और कोई ताल्लुक़ बिला जवाबदेही बाक़ी न रहे।

लिबरल नज़्म जिस “आज़ादी” का शोर मचाता है, वह दरअसल मर्द को यह लाइसेंस देता है कि वह औरत को टिश्यू पेपर की तरह इस्तेमाल करे और जब दिल भर जाए, बिना किसी क़ानूनी जवाबदेही के चलता बने।
यह औरत की आज़ादी नहीं, मर्द की अय्याशी का परवाना है।

लिबरलिज़्म का नया फ़लसफ़ा: मर्द अगर चुप रहे तो “कमज़ोर”, बोले तो “ज़ालिम”!

आज का “आज़ाद‑ख़याल” तबक़ा बड़ा अजीब मिज़ाज रखता है।

यह वही जमाअत है जो हर रियाकारी को “एम्पावरमेंट” कहती है,
हर बेबाकी को “सेक्सिज़्म”,
और हर मर्द को “पितृसत्ता का एजेंट” ठहराने में एक पल नहीं लगाती।

इनके यहाँ औरत का हर तजुर्बा “ट्रॉमा” होता है,
और मर्द का हर लम्हा “क्राइम सीन”।
मज़ाल है कि कोई मर्द अपने दुख कुबूल करे —
फ़ौरन कहा जाएगा: “देखो, ये फिर औरत के दर्द पर मर्दानगी का रोना रो रहा है!

दरअसल लिबरलिज़्म की यह “विक्टिम‑इकॉनॉमी” आज की सबसे मुफ़ीद इंडस्ट्री बन चुकी है —
जहाँ औरत को “हमेशा पीड़िता” और मर्द को “हमेशा मुजरिम” साबित कर देना ही “जेंडर‑जस्टिस” बन गया है।
मज़े की बात यह कि वही तबक़ा, जो बरसों से “बराबरी” का परचम उठाए खड़ा है,
अब हर बहस में अपने “विक्टिम कार्ड” को नया मेडल बना कर पहनता है।

“क्या‑क्या नहीं दिया मर्दों ने इस दुनिया को — जंग, जुल्म, और अब ये शिकायतें भी!”
यहि है उनके असल कवायेद.
4. जदीद दौर और “रज़ामंदी” का बुत

आज के दौर में एक सवाल बार–बार उठाया जाता है:

“एक बालिग़, बातिनन–होशियार इंसान की मरज़ी आज भी इन सब ‘अख़लाक़ी चौकीदारों’ के लिए सबसे बड़ा जुर्म क्यूँ है?”

जवाब सादा और कड़वा है:

आप की “मरज़ी” हवा में नहीं होती, उसके नतीजे पूरा समाज भुगतता है।

जब “अपनी मर्ज़ी” से ज़िना होता है, तो:
  • पैदा होने वाले बच्चों की ज़िंदगी का बोझ कौन उठाएगा?

  • कितने अजन्मे बच्चे अबॉर्शन की नज़र होते हैं,

  • कितने सिंगल पेरेंटिंग के अजाब में पलते हैं,

  • कितने बे–नसब, बे–साया, बे–सहारा रह जाते हैं?

मग़रिब ने “कंसेंट” को ख़ुदा का दर्जा दे दिया —

अब नतीजा यह निकला कि:

  • ख़ानदानी निज़ाम बिखर चुका,

  • रिश्ते क़ानूनी क़रारनामों में सिमट गए,

  • नफ़्सियाती मरीज़ों की फ़ौज खड़ी हो गई,

  • बूढ़े माँ–बाप ओल्ड एज होम्स में तन्हा सड़ते रहे।

शरीअत कहती है कि जिस्मानी अमल महज़ लज़्ज़त नहीं, एक “तमद्दुन अमल” है  (civilizational act) ।

इस से अगली नस्ल वजूद में आती है, तहज़ीब की बुनियाद रखी जाती है।
इसे सिर्फ़ “दो बालिग़ों की मरज़ी” पर नहीं छोड़ा जा सकता; इसे एक मुकम्मल “ मुआशर्ति ज़िम्मेदारी” के फ्रेमवर्क — यानी निकाह — में क़ैद करना ज़रूरी है।

5. फ़िक्ह बनाम दीन: अस्ल निशाना कौन?

बहुत से मज़ामीन फ़ुक़हा के इज्तेहादात का हवाला दे कर शुरू होते हैं, लेकिन निशाना दरअस्ल क़ुरआन के हुक्मात पर होता है — ख़ास तौर पर हराम–ए–ज़िना पर।
वे कहते हैं, “हम फ़िक्ह पर सवाल उठा रहे हैं”, मगर नतीजा यह निकलता है कि:

“ज़िना को जायज़ कर दो, क्योंकि पुराने ज़माने में लौंडी भी तो जायज़ थी।”

यह उसूल ऐसा ही है जैसे कोई कहे:

“पहले लोग तलवारों से लड़ते थे, तो आज हमें एटम बम बेधड़क चलाने की खुली छूट होनी चाहिए।”

पहले ऊँट पर सफ़र होता था, अब बिना लाइसेंस हवाई जहाज़ उड़ाने दो!

इस्लाम का क़ायदा साफ़ और सख़्त है:
हर वो जिस्मानी ताल्लुक़ हराम है, जिसमें न क़ानूनी, न मुआशरती ज़िम्मेदारी ली गई हो।
चाहे वो आज की गर्लफ़्रेंड हो, live-in relationship हो या किसी दौर का बे–लगाम मुहब्बत का रिश्ता।

ये तहरीरें अस्ल में “अख़लाक़” का मातम नहीं कर रहीं, बल्कि इस बात का अफ़सोस कर रही हैं कि इंसान को अपनी “ख्वाहिशात” का पूरा ग़ुलाम बनने की इजाज़त क्यों नहीं दी जा रही।

इंसानी तारीख़ का जो “तज़ाद” बताया जा रहा है, वह दरअस्ल इंसानियत की “बक़ा का उसूल” है —
जो मिजाज़ लुत्फ़ को ज़िम्मेदारी, और हवस को क़ानून के दायरे में लाने का नाम है।

6. समाज ताक़त से नहीं, ज़ाब्तों से ज़िंदा रहता है

मुआशरा तलवार और ताक़त के जोर पर नहीं, बल्कि उसूलों और ज़ाब्तों के सहारे क़ायम रहता है।
अगर आज हम नफ़्सानी ख़्वाहिशों के दबाव में आकर “शादी” के तक़दुस को मिटा दें, हर रिश्ता जायज़ करार दे दें, और “रज़ामंदी” को अकेला मापदंड बना लें, तो हम उसी जंगल की तरफ़ वापस चले जाएँगे जहाँ सिर्फ़ ताक़तवर मर्द की मरज़ी चलती थी और औरत महज़ “गोश्त का टुकड़ा” थी।

इस्लाम ने औरत को “मिल्कियत” से निकाल कर “मु़ह्सऩा” बनाया — क़िले में महफ़ूज़ औरत, जिसके चारों तरफ़ निकाह की दीवारें उसकी इज़्ज़त की निगहबान बनती हैं।
आज का लिबरल तबक़ा उसे फिर से “पब्लिक प्रॉपर्टी” बनाना चाहता है;
फ़र्क़ बस इतना है कि इस बार ज़ंजीरें लोहे की नहीं, बल्कि “रज़ामंदी” और “आज़ादी” के ख़ूबसूरत नारों से बुनी जाएँगी।

ऐ मेरी बहनों,
इस “आज़ादी” के नारे की आवाज़ में वो ज़हर छुपा है जो इमान की जड़ों तक उतर जाता है।
जिस आज़ादी ने हर बंदिश को “क़ैद” कहा, उसी ने औरत से उसकी पाकिजगि, हया और वक़ार छीन ली।

आज बहुत सी क़लमें और स्क्रीने तुम्हें यह यक़ीन दिलाने में लगी हैं कि इस्लाम ने तुम्हें रोका, दबाया और “मर्दों का मज़हब” ठहराया।
लेकिन याद रखो —

इस्लाम वो दीन है जिसने औरत को “मोहब्बत की मिल्कियत” नहीं, “इज़्ज़त की अमानत” बनाया।
जिसने तुम्हारी हिफ़ाज़त के लिए पर्दे को सज़ा नहीं, “साया” बनाया।
जो तुम्हारे हक़ की बात मर्द से पहले ख़ुद अल्लाह ने क़ुरआन में की।
उन लोगों से होशियार रहो जो तुम्हें तुम्हारे ही मज़हब से नफ़रत करना सिखा रहे हैं,
जो निकाह को “ज़ंजीर”, और हया को “कमज़ोरी” कहकर अलफाजो से तुम्हारे दिलों को बदलना चाहते हैं।
यह लड़ाई औरत और मर्द की नहीं — यह लड़ाई फ़िक्र और फ़ितरत की है। अख़लाक़ और हवस,
ज़िम्मेदारी और बेफ़िक्री कीशरीअत और नफ़्सानियत के बीच की जंग है।

ऐ मुसलमान नौजवानो!
इस नफ़्सानी तहज़ीब के झूठे नारों में गुम मत हो जाओ।
हर नारा जो “आज़ादी” का दावा करे, दरअस्ल तुम्हारी “ग़ुलामी” की नई शक्ल भी हो सकता है।
ये फ़िक्री हमला चुपचाप तुम्हारे दिलों और घरों में दाख़िल हो रहा है—
तुम्हारे निकाह, तुम्हारी शर्म, तुम्हारी हया को “पुरानी चीज़ें” बनाकर मिटाने की साजिश की जा रही है।

किसी ने मर्द को दुश्मन और औरत को हथियार बना लिया है।
हमारा फ़र्ज़ है कि क़ुरआन की रोशनी, हया की पनाह, और इल्म की समझ से अपने ईमान, अपनी औलाद, और अपने समाज की हिफ़ाज़त करें।

   ऐ अल्लाह!
हमें उस फ़िक्री धुंध से बचा ले जो “आज़ादी” के नाम पर हमारी हया को छीनती है।
हमें वो फ़हम अता कर जो हक़ और धोखे में फ़र्क़ कर सके,हमारे दिलों को शरीअत पर क़ायम रख, हमारी बहनों को वह फ़हम अता कर जो हक़ और फ़रेब में फ़र्क़ कर सके। हया को उनका ज़ेवर बना, जो नफ़्स के धोखों में बहक रही हैं, उन्हें अपने नूर से राह दिखा। 
हमारी ज़ुबानों को हक़ के लिए बुलंद कर, और हमारे समाज को तोफ़ीक़ दे कि वो “बराबरी” और “इंसाफ़” का असल मायना फिर से क़ुरआन से सीखे।
   आमीन।

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

POPULAR POSTS