Le Palak Bacche ke bare me Sharai Ahkamat kya hai?
Kya Aulad na hone ki Surat me Yatim khane se ya Rishtedar se Baccha God lekar usko Moonh Bola Beta/Beti banana aur Uski Parwarish karna jayez hai?Kya wah Baccha Hamari Khawateen ka Mehram Ban jayega aur Hamari Jayedad ka bhi warish Hoga? Tafseel se rahnumai Farmaye.
"Mera Jism meri marji" Ke naare se ab tak kya Hasil hua?
Muslim Ladkiyo ko BLT se kaise Mahfuz rakhe?
Dusri shadi ki istaa"at rakhte hue bhi Shadi nahi karne dena.
"سلسلہ سوال و جواب نمبر -388"
سوال_ لے پالک بچے کے بارے شرعی احکامات کیا ہیں؟ کیا اولاد نا ہونے کی صورت میں کسی رشتہ دار یا یتیم خانے سے بچہ گود لے کر اسکو منہ بولا بیٹا بنانا اور اسکی پرورش کرنا جائز ہے؟ نیز کیا وہ بچہ ہماری خواتین کا محرم بن جائے گا اور ہماری جائیداد کا بھی وارث ہو گا؟ تفصیل سے رہنمائی کریں؟
Published Date: 12-09-2024
جواب..!
الحمدللہ۔۔۔!
*لے پالک کہتے ہیں کسی دوسرے کے بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانے کو، جیسے کہ اکثر لوگ اولاد نا ہونے کی صورت میں یا احسان کرتے ہوئے اپنے کسی رشتے دار یا کسی یتیم بچے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں،اسکی پرورش کرتے ہیں،حتی کہ اپنی حقیقی اولاد کی طرح اسکو بھی اپنا نام دیتے ہیں، اسکی پڑھائی لکھائی اور شناختی کارڈ وغیرہ تمام جگہوں پر اسکو اپنی ولدیت/شناخت دیتے ہیں، اور وہ بچہ اپنے حقیقی باپ کی بجائے ان پرورش کرنے والوں کی طرف منسوب ہو جاتا ہے، اور اس گھر کی خواتین سے گھل مل جاتا ہے اور بظاہر انکا محرم بن جاتا ہے.
بچوں کومنہ بولا بیٹا بنانے کی شرعی حیثیت۔۔؟
بچوں کو منہ بولا بیٹا بنانے کی دو قسمیں ہیں :
ممنوع اور غیر ممنوع!
*پہلی قسم : ممنوع :-
وہ یہ کہ کسی دوسرے کے بچے کو اپنا بیٹا بیٹے کے احکام دیے جائيں اور ایسا کرنا جائز نہیں،
جیسا کہ قرآن میں اللہ پاک فرماتے ہیں..!
ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزوٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِرونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذٰلِكُم قَولُكُم بِأَفوٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَوٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ٥﴾....
اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ تعالٰی حق بات فرماتا ہے اور وه سیدھی راه سجھاتا ہے ،لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ ۔ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ، البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
(سورہ الاحزاب آئیت ـ4٫5)
یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔
((کیا ظہار سے بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی؟ پھر اس کا کفارہ.؟ دیکھیے سلسلہ نمبر 257))
اس لئے اس کی اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔
اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔
حدیث ملاحظہ فرمائیں!
صحیح بخاری
کتاب: تفاسیر کا بیان
باب: باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان (آزاد شدہ غلاموں کو) ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کیا کرو“۔
حدیث نمبر: 4782
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5.
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله)
کہ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوحذیفہ رض کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا۔ نبیﷺ نے حضرت ابوحذیفہ رض کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو (کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی) اور تمہارے شوہر کو جو اس منہ بولے بیٹے کے گھر رہنے سے پریشانی ہے وہ بھی ختم ہو جائیگی ۔۔۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
(صحیح مسلم ، کتاب الرضاع باب رضاعۃ الکبیر
(ابوداود ، کتاب النکاح ، باب فیمن حرم بہـ2061)
(رضاعت کبیر کے حوالے سے مکمل تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر - 148)
دوسری قسم : مباح اور جائز :
وہ یہ ہے کہ بچے پر احسان کرتے ہوئے اس کی کفالت کی جائے اور دینی اور اصلاحی تربیت کی جائے اوراس کی صحیح اور بہتر راہنمائی کرتے ہوئے اسے دین و دنیا میں نفع دینے والی اشیاء کی تعلیم دی جائے ۔
*یتیم کی کفالت اور منہ بولا بیٹا بنانے میں بہت فرق ہے جسے ہم ذيل کے کچھ نقاط میں بیان کرتے ہیں :*
*1 - منہ بولا بیٹا بنانا یہ ہے کہ :*
کوئي شخص کسی یتیم بچے کو حاصل کرکے اسے اپنے صلبی بیٹے جیسا بنا کراسے اپنی طرف منسوب کر لے یعنی اسے اس کی ولدیت کے ساتھ پکارا جانے لگے ، اور اس مرد کی محرمات عورتیں اس یتیم بچے کے لیے حلال نہ ہوں اور منہ بولے بیٹے کے والدکے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں اس کے بہن بھائي اور اس شخص کی بہنیں یتیم کی پھوپھیاں بن جائیں اور اسی طرح باقی رشتہ دار بھی ۔
دور جاھلیت میں ایسا کیا جاتا تھا ، حتی کہ یہ نام بعض صحابہ کرام کے ناموں سے بھی چمٹے رہے مثلا مقدار بن اسود حالانکہ ان کے والد کانام عمرو تھا لیکن انہيں منہ بولا بیٹا بنانے کی بنا پر مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا ۔
اور ابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے اسے ایک مشہور قصہ میں حرام قرار دیا کہ زيدبن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکارا جاتا تھا تو اللہ تعالی نے اسے حرام کردیا اور حکم دیا کہ انہيں ان کے آباء کے نام سے پکارا جائے ۔
*2 - اب یقینا اللہ تعالی نے منہ بولابیٹا بنانا حرام کردیا ہے اس لیے کہ اس میں نسب کی ضياع ہے حالانکہ ہمیں تو حکم ہے کہ ہم نسب ناموں کی حفاظت کریں ۔
صحیح بخاری
کتاب: فرائض کی تعلیم کا بیان
باب: اس شخص کا بیان جو غیر کو اپنا باپ بنائے
حدیث نمبر: 6766
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.
حدیث نمبر: 6767
فَذَكَرْتُهُ لِأَبِي بَكْرَةَ فَقَالَ: وَأَنَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: سعد ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے باپ کے سوا کسی اور کے بیٹے ہونے کا دعویٰ کیا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔
پھر میں نے اس کا تذکرہ ابوبکر ؓ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس حدیث کو نبی کریم ﷺ سے میرے دونوں کانوں نے بھی سنا ہے اور میرے دل نے اس کو محفوظ رکھا ہے۔
دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں!
صحیح بخاری
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
حدیث نمبر: 3508
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ الْحُسَيْنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
ترجمہ:
ابوذر ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی (نسبی) تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،
*حدیث میں کفر کا معنی یہ ہے کہ اس نے کفریہ کام کیا ہے نہ کہ وہ دین سے ہی خارج ہوگيا ۔*
اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کے حرام کردہ چيز کو حلال کرنا ہے ۔
اور اس لیے بھی کہ مثلا یتیم جسے منہ بولا بیٹا بنایا جائے اس پر منہ بولا بیٹا بنانے والے نے اپنی بیٹیاں حرام کردی ہیں حالانکہ وہ اس کے لیے مباح اور جائز تھیں جسے اللہ تعالی نے حرام نہيں ،
اور اسی طرح جس نے منہ بولا بیٹا بنایا ہے اس نے اپنے بعد اس کے لیے وراثت حلال کرلی ، اس میں بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کو مباح کرنا ہے ، اس لیے کہ وراثت تو صلبی اولاد کا حق ہے اور اس نے غیرصلبی کو بھی اس میں شریک کرلیا ہے ۔
اور یہ بھی ہے کہ اس سے منہ بولا بیٹا بنانے والے کی اولاد اور منہ بولے بیٹے کے مابین حسد و بغض پیدا ہوگا ۔
اس لیے کہ ان کے بعض حقوق کی حق تلفی ہوگی اور وہ یتیم اور منہ بولا بیٹا بغیر کسی حق کے کچھ حقوق حاصل کرلے گا ، حالانکہ صلبی بیٹوں کویہ علم ہے کہ ان کے ساتھ وہ اس کا مستحق نہيں تھا ۔
لیکن یتیم کی کفالت یہ ہے کہ کوئي شخص کسی یتیم بچے کواپنےگھر یاکسی دوسری جگہ میں ہی اپنی طرف منسوب کیے بغیر ہی اس کی کفالت کرے اوراس کی پرورش اورنان نفقہ کی ذمہ داری برداشت کرے ، اوراس میں نہ تو وہ کسی حرام کردہ کو حلال اور نہ کی حلال کو حرام کرے جیسا کہ منہ بولا بیٹا بنانے میں ہوتا ہے ۔
بلکہ کفالت کرنے والے کواللہ تعالی کے بعد کریم اوراحسان انعام کرنے والے کی صفت سے متصف ہوگا ، اس لیے یتیم کی کفالت کرنے والے کو منہ بولابیٹا بنانے والے پرقیاس نہيں کیا جائے گا اس لیے کہ اس میں فرق پایا جاتا ہے ، اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچے کی کفالت کرنے پر ابھارا ہے ۔
اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اور آپ سے یتیموں کےبارے میں بھی سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجۓ کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائي ہیں اللہ تعالی بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے ، اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہيں مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ تعالی غلبہ والا اورحکمت والا ہے
(سورہ البقرۃ- 220 )
اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ مرافقت کا سبب بتایا ہے کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ رہے گا ۔
سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ کیا )
(صحیح بخاری حديث نمبرـ5304 )
لیکن یہاں پر ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جب بھی یہ یتیم بچے بالغ ہوجائيں تو انہيں کفالت کرنے والے شخص کی عورتوں اور بیٹیوں سے علیحدہ کرنا واجب ہوجائیگا ، یہ نہ ہو کہ وہ ایک جانب تو اصلاح کرے اور دوسری طرف غلطی اور فساد کا مرتکب ہوتا رہے ۔
اور اسی طرح یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ بعض اوقات کفالت میں یتیم بچی بھی ہو سکتی ہے اور ہوسکتا ہے وہ خوبصورت بھی ہو اور بلوغت سے قبل اسے اشتہاء بھی ہو اس لیے کفالت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھے کہ کہيں وہ یتیموں کے ساتھ کہيں حرام کام کا ارتکاب نہ کرنے لگيں ، بعض اوقات یہ ہوسکتا ہے اورپھر یہ فساد کا ایسا سبب ہوگا جس کی اصلاح کرنا ممکن نہيں ہوگی ۔
پھر ہم آخر میں اپنے بھائيوں کو یتیموں کی کفالت کرنے پر ابھارتے اوراس کا شوق دلاتے ہیں کہ اس میں بہت زيادہ اجروثواب ہے اور یہ ایک اخلاقی فريضہ ہے جوآج کل بہت ہی نادر لوگوں میں ملتا ہے صرف وہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے خیر اور بھلائي کی محبت اور یتیموں اور مسکینوں کی اصلاح اور ان پر مہربانی و نرمی کا برتاؤ کرنا ھبہ کیا ہے،
(مآخذ الاسلام سوال وجواب/اردو فتویٰ )
ـــــــ&ـــــــــــــــــ
*اس تفصیل کے بعد ہم سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa کا فتویٰ یہاں درج کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں!*
سوال - ایک شخص کی اولاد نہیں اور اس نے لاوارث بچوں کے ادارے سے ایک بچہ حاصل کرکے اس کی پرورش کی اوراسے تعلیم دلائي اوراس کے ساتھ حسن سلوک کیا ، اس کوشش اوراپنی جانب سے مہربانی کرتے ہوئے اس نے سرکاری اوراق میں بچہ اپنے نام سے اندراج کروایا ، اب اس کا حکم کیا ہوگا ؟
جواب کا متن!
الحمد للہ
شرعا جائز نہيں کہ کسی لاوارث بچے کو لے پالک بنانے والا اپنے نسب میں شامل کرے اور اس بچے کو اس کے بیٹے اور اسے اس کے والد کا نام دیا جائے اور اس کے قبیلے کی طرف منسوب کیا جائے ، جیسا کہ سوال میں وارد ہے ، اس لیے کہ اس میں دروغ بیانی اور دھوکہ اور نسب ناموں کا اختلاط پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عزتوں کو بھی خطرہ ہے ۔
اور اس میں وراثت کی تقسیم میں بھی تغییر پایا جاتا ہے کہ بعض مستحقین کو محروم اور غیر مستحق کو مستحق قرار دیا جاتا ہے اور اسی طرح حرام کو حلال اور حلال چيز کو حرام کرنا پایا جاتا ہے ، مثلا نکاح اور خلوت وغیرہ اور اسی طرح دوسری حرمتوں کو توڑا جاتا اور حدود اللہ سے تجاوز کیا جاتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے بچے کی والدکے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت کرنا حرام قراردیتے ہوئے فرمایا :
{ اورتمہارے لے پالک لڑکوں کوتمہارے حقیقی بیٹے نہيں بنایا ہے ، یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے ، اوروہ سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔
منہ بولے بیٹوں کوان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک مکمل انصاف تویہی ہے ، وہ تمہارے دینی بھائي اور دوست ہیں تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئي گناہ نہيں ، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 4-5 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ علم رکھتے ہوئے کسی اورکی طرف نسبت کی تو اس پر جنت حرام ہے ) اسے بخاری اورمسلم اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ کسی اورکی نسبت کا دعوی کیا یا اپنے اولیاء کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب ہوا اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالی کی لعنت ہے ) ۔
لھذا فتوی لینے والے کا مذکورہ نام کے بارہ میں اجتھاد غلط ہے اور اس پر جمے رہنا جائز نہيں بلکہ اسے اس کی حرمت میں وارد شدہ نصوص کی بنا پر بدلنا اور صحیح کرنا ضروری ہے ، ان نصوص اور دلائل کو اوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔
لیکن لاوارث بچے پر مہربانی اور اس کی حسن تربیت اور اس پراحسان کرنا ایک نیکی اور اچھا کام ہے ، اور شریعت اسلامیہ نے ایسا کرنے کی ترغیب بھی دلائي ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
واللہ اعلم .
(ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ : دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 12 - 13 )
*یعنی اگر بھول چوک میں کسی نے لے پالک بچے کو اپنا نام دے دیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسکے اصل والد کا نام اسکی ولدیت میں لکھوائے اور اگر کسی کو اصل والد کا نام ،نسب نہیں پتہ تو ایسے بچے کی ولدیت میں نام عبداللہ لکھوا دیا کریں ،کیونکہ عبداللہ کا معنی اللہ کا بندہ۔۔ اور جتنے لوگ سب اللہ کے بندے ۔۔اس میں حرج نہیں ہو گا ان شاءاللہ ،*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
________________&______________
سوال_خاوند اگر اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ دے تو کیا اس طرح کہنے سے بیوی اس پر حرام ہوجائے گی؟ نیز اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ مکمل تفصیل بیان کریں..!
(جواب کیلئے دیکھیں نمبر -257)
سوال_رضاعت کب ثابت ہوتی ہے ؟ کیا بڑی عمر کا شخص کسی کا رضاعی بیٹا بن سکتا ہے؟ یا شوہر بیوی کا دودھ پی لے تو کیا وہ اسکا بیٹا بن جائے گا؟ اور انکا نکاح ٹوٹ جائے گا؟ تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ148، 147
ـــــــــــــــ&ــــــــــــــــــــــــ
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/