Shadi ki Pahli Subah Khawind Aur Biwi ka.
آج انکی شادی کے بعد ایک ساتھ پہلی صبح تھی ۔۔۔
وہ پچھلے پندرہ منٹ سے اسے مسلسل اٹھا رہا تھا پر وہ پوری طرح نیند میں غرق تکیے میں منہ دئیے سو رہی تھی ۔۔۔
ازل اٹھ جاؤ نماز کا وقت گزر جائے گا ۔۔۔ وہ اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولا تھا اور وہ کسمسائی تھی سونے دیں ۔۔۔
وہ مسکرا اٹھا تھا اسکی اس ادا پے ۔۔۔
جھک کر اسکی پیشانی پے اپنی محبت کی پہلی نشانی ثبت کی تھی
اچھا میں جارہا ہوں مسجد ۔۔ وہ اٹھا تو جان نکلی تھی اسکی ۔۔
کب آئیں گے ۔۔ نیند فورا بھاگی تھی
بیس منٹ تک آتا ہوں ۔۔۔ وہ کف بٹن بند کرتے کمرے کے دروازے پے رکا تھا ۔۔اسے نظر بھر کر دیکھا تھا جو الجھے بال لئے چہرے پے اظطراب لئے بیٹھی بلکل جھلی لگ رہی تھی ۔۔۔
وہ جاچکا تو وہ دوپٹہ سنبھالے اٹھی تھی ۔۔۔
اتنی کوفت تو اسے کبھی نہی ہوئی تھی اٹھنے میں وہ نماز وقت پے پڑھنے کی عادی تھی اور آج آنکھیں ہی نہی کھل رہی تھی ۔۔۔ کیا سوچ رہے ہوں گے احمد میرے بارے میں ۔۔۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی
یہی سب سوچتے وہ وضو کر چکی تھی ۔۔۔
وہ جائے نماز پر کهڑی ہونے لگی تو اس کو احمد کا خیال آنے لگا.اس نے وہ خیال جهٹک دیا.وہ پھر سے نیت باندھنے والی تھی کہ احمد نے آواز دی ازل رکیں.ازل کے کان کهڑے ہوگئے فورا احمد کی آواز پر مڑ کر احمد کو دیکھا.
"احمد آپ مسجد نماز پڑھنے نہیں گئے؟"
ازل نے سوال کیا.
"نہیں میں نہیں گیا ازل نماز پڑھنے مسجد."
احمد نے جواب دیا
"مگر کیوں؟آپ کو نماز پڑھنی چاہیے نماز سے الغرضی نہیں کرنی چاہیے.آپ کو مسجد جانا چاہیے وہاں جا کر نماز پڑھنی چاہیے."
ازل نے خفگی دکهائی.ازل یوں احمد کو سمجھا رہی تھی اور احمد خاموشی سے کهڑا ازل کی باتیں سن رہا تھا.باکل ویسے ہی جیسے وہ پہلے سنتا تھا. پھر ازل نے جب سمجھا لیا تو احمد نے کہا:
"ازل میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھانا چاپتا تھا.اکٹهے مل کر اللہ کی عبادت کرنا چاہتا تها میں اس لیے نہیں گیا.تم میری امامت میں نماز پڑھو گی آج.میں تو صرف یہی چاہتا تھا."
"احمد سوری!"
ازل نے احمد سے معزرت والے لہجے میں بات کی.
"سوری مت کرو سنتیں پڑھو."
احمد جے جوابا کہا
"اوکے احمد"
اب ازل اور احمد سنتیں ادا کر رہے تھے.وہ سنتیں اکٹھے ادا کر رہے تھے جو سارے جہان سے بہتر ہیں.
سلام پھیرا اور ایک دوسری کی طرف دیکھا.
"ازل چلو اب تم میری امامت میں نماز پڑھو گی."
احمد نے مسکراتے ہوئے دیکھتے ہوئے کہا.
"احمد جی ضرور"
ازل بھی ہونٹ پر تبسم لیے مسکرا رہی تھی.
اب احمد نے فرض ادا کرنے شروع کیے اور ازل نے بھی اس کی امامت میں ادا کیے.احمد نے سورت واضحی اور سورت الم نشرح کی تلاوت کی.پهر جب فرض بھی ادا کر لیے تو سلام پھیرا.
احمد نے اونچی ساری سبحان اللہ الحمداللہ اللہ اکبر استغفراللہ کہا.
ازل نے بھی الفاظ دہرائے.
احمد کا چہرہ ایک بار پھر کھل اٹھا.
احمد نے ازل کی جانب اپنا منہ کیا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے.اب وہ اس کی انگلی پر درود شریف کی تسبیح کرنا شروع کی.بڑی بڑی انگلیوں پر احمد کا لمس ازل محسوس کر رہی تھی اور اتنا خوبصورت محسوس کر رہی تھی.
وہ احمد کو دیکھ رہی تھی اور احمد ازل کی انگلیوں پر تسبیح پڑھ رہا تھا. ایک سکون و اطمینان کے ساتھ ساتھ دوسرا سکون و اطمینان بھی ان کے سینے میں اتر آیا تھا کہ اب دونوں کو کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتا.
تسبیح کے بعد دونوں نے دعا کے لیے ہاته اٹھائے اور دعا مانگی.پهر جب دعا مانگ لی تو دعا سے فارغ ہو کر احمد نے ازل سے پوچھا کہ کیا مانگا ازل نے کہا جو آپ نے مانگا.پهر ازل نے احمد سے پوچھا کہ کیا مانگا تو احمد نے کہا ازل وہی جو تم نے مانگا.
پھر احمد نے پوچھا
"ازل رات پرسکون نیند آگئی تھی"
"جی احمد بہت پرسکون تھی.اس لیے آپ اٹھاتے رہے تو الغرضی کی."
ازل نے جوابا کہا
"میں جانتا ہوں"
احمد نے مسکراتے ہوئے کہا.
اب ازل نے احمد سے خواہش ظاہر کی اور وہ بهی فجر کے وقت بالکل فجر جیسی خواہش
"احمد آپ مجھے سورت رحمن کی تلاوت کر کے سنا دیں."
"ازل میری آواز نہیں پیاری ہے."
"احمد پلیز نا میں کچھ نہیں جانتی"
ازل نے ضد کی اور احمد مان گیا.
وہیں جائےنماز پر بیٹھے ازل نے اپنا سر احمد کی گود میں رکھ لیا اور احمد نے ازل کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کیں.
احمد نے بسماللە پڑھی اور شروع کی تلاوت.ازل نے غور سے سننا شروع کیا.
"الرحمن"
احمد اور ازل کی دهڑکن بے قابو ہوئی.پهر آہستہ آہستہ احمد کی تلاوت کے دوران دونوں کے چہرے پر خوشی کے اثرات نمایاں تھے.آنکهیں نم ہونا شروع ہو گئی تهیں.احمد کی انگلیاں اب بھی زلفوں میں اٹکی تھی.
جب احمد نے کہا
"فبای الا ربکما تکذبن"
ایک وجد کی کیفیت دونوں پر طاری ہوئی اور دونوں کے آنسو گال کی جانب بہ نکلے. احمد کے اشک گال سے بہتے بہتے ازل کے چہرے پر گرتے .یوں جب بھی یہ آیت بڑھی جاتی اشک ضرور بہتا اور چہرے پر گرتا.مکمل سورت پڑھ لی گئی اور جدھر ریت زیادہ تھی وہاں چہرہ زیادہ بھیگا ہوا تھا.ازل کی آنکهیں بند تهیں اور احمد اس کے ہاتھوں کی انگلیاں پھیر رہا تھا.
️
No comments:
Post a Comment