waise Log Jo Bat bat pe Apno Ke sath kiye hue Ehsan ka Ehsas Dilate rahte.
Jo log Ehsan Karte Hai Use kisi tarah Se Apne Ehsan ka Izhar nahi karna Chahiye, aur Ager karte hai ya Kabhi Aapne kiya hai to Tauba kare aur us Bande se Maafi talab kare Jisse Aapne Apne kiye Hue Ehsan ka use Ehsas Dilaya warna Allah ke yaha Neki Karne ke bawjood Aap Jalil-o-ruswa Honge.
Ehsan Karke Ehsan Jatlana Ek Kabeera Gunah Hai.
اسلام میں احسان جتلانے کی سزا
احسان کرنا بڑی نیکی ہے مگر احسان کرکے کسی پر احسان جتلانا گندی صفت ہے ۔ ایسے لوگوں کو عربی میں منان اور اردو میں احسان جتلانے والا کہتے ہیں ۔
منَّان : سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کو کچھ دینے کے بعد احسان جتلاتا ہے۔ امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے احسان جتلانے کی تعریف یوں کی ہے:
ذکر النعمة علی معنی التعدید لها والتقریع بها، مثل ان یقول: قد احسنت إلیك(تفسیر قرطبی:3؍308)
''کسی کو جتلانے اور دھمکانے کے لیے اس پر کیے ہوئے احسان کا تذکرہ کرنا۔مثلاً یہ کہنا کہ میں نے (تیرے ساتھ فلاں نیکی کی ہے) تجھ پر فلاں احسان کیا ہے ،وغیرہ۔''
بعض لوگوں نے 'احسان'کی تعریف یوں بھی کی ہے:
التحدث بما اعطٰی حتی یبلغ ذلك المُعطٰی فیؤذیه
''کسی کو دی گئی چیز کا تذکرہ اسطرح کرنا کہ اس کو جب یہ بات پہنچے تو اس کیلئے تکلیف دہ ہو۔''
اور احسان جتلانا گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔
گناہ کبیرہ کی تعریف : ہر وہ گناہ جس کو قرآن و حدیث یا اجماعِ امت نے کبیرہ گناہ قرار دیا ہو، جس گناہ کو عظیم قرار دیتے ہوئے اس پر سخت سزا کا حکم سنایا گیا ہویا اس پر کوئی حد مقرر کی گئی ہو یا گناہ کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہو یا جنت کے حرام ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔
کبیرہ گناہ بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے: فرمانِ الٰہی ہے:
’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں کو (ویسے ہی) معاف کردیں گے اور تم کو باعزت مقام(جنت) میں داخل کریں گے۔(النساء:31)
مزید فرمایا: ’’اچھے کام کرنے والوں کو اچھی جزا دی جائے گی۔ وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے دور رہتے اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے (فطری) لغزشوں کے، بے شک آپ کا رب بڑی مغفرت والا ہے۔ ‘‘ (النجم:31)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:۔ ’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ ، دوسرے جمعہ اور رمضان دوسرے رمضان تک (یہ تمام اعمال) صغیرہ گناہوں کو مٹاتے رہتے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیاجائے۔‘‘ (مسلم: ح 344)
محمد رسول اللہ ﷺنے فرمایا:۔ ’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، مگر جب وہ اس گناہ کو چھوڑدے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف کردیاجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے، حتیٰ کہ اس کا دل مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘(ترمذی: ح 2357)
بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ احسان کرنے کے بعد احسان جتلاتے ہیں ، بعض سماجی ادارے جو خیراتی کام کرتے ہیں وہ غریبوں کو طعنہ دیتے ہیں ، اسی طرح بعض اہل ثروت فقراء و مساکین پر احسان کرکے جابجا انہیں بے عزت کرتے ہیں اور احسان کا بدلہ تلاش کرتے ہیں اور احسان جتلاکر گھڑی گھڑی
بےعزت کرتے ہیں ۔ جو آدمی اس رویے کو اختیار کیے رکھے گا،وہ صدقات اورخیرات کی تمام نیکیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی احسان کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن احسان جتانے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِين -- (البقرة:264)
"اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔(ترجمہ مولانا جوناگڑھی)
مقصود یہ کہ جو کام تم اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے کر رہے ہو اس پر احسان جتانا کیسا ؟
احسان جتلانے والے کے بارے میں حدیث مصطفی ﷺ میں بھیانک سزا سنائی گئی ہے ۔
عن ابی ذر رضی اللّٰه عنه، عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم، قال: ثلاثة، لا يکلمهم اللّٰه يوم القيامة، ولاينظر اليهم، ولايزکيهم، ولهم عذاب عظيم. المنان لايعطی شيأا الا منه، [والمنفق سلعته بعد العصر بالحلف الفاجر١ ] والمسبل ازاره [لا يريد الاالخيلاء٢ ].(مسلم،کتاب الايمان)
ترجمہ: ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں،جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے،نہ ان پر نظرکرم فرمائیں گے، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ایک، احسان جتانے والا کہ جب بھی کسی کو کچھ دے، احسان جتائے۔ دوسرا، عصر کے وقت جب بازار ختم ہو رہا ہو،جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔ اور تیسرا، اپنے تہمد کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، جس سے اس کا مقصد سوائے تکبر و نخوت کے کچھ نہ ہو۔
لہذا جو لوگ احسان کرتے ہیں انہیں کسی طرح اپنے احسان کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، اور اگر کسی سے احسان جتلادیا ہے تو اپنے گناہ سے توبہ کرے اور اس بندے سے معافی طلب کرے ورنہ اللہ کے یہاں نیکی کرنے کے باوجود ذلیل و رسوا ہوگا ۔
اللہ تعالی ہمیں احسان و سلوک کرنے کی توفیق دے اور احسان جتلانے سے بہر طور بچائے ۔ آمین.
No comments:
Post a Comment