Musalmano Se Tax lena ki Sharai Haisiyat kya hai?
ٹیکس ، اسلام ، اور مسلمان
مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت
’’اچھے شہری کے اوصاف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ٹیکس پورا پورا ادا کرتا ہے…!کیا آپ پورا پوراٹیکس ادا کرتے ہیں…؟کیا آپ ٹیکس چوری نہیں کرتے…؟ٹیکس چوری کرنا ایک خیانت ہے…!‘‘
یہ وہ جملے ہیں جو کہ معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اکثر اہل علم اور دانشور حضرات بھی اپنی گفتگوؤں،بیانات اور دروس میں بلا جھجک استعمال کرتے ہیں اور عوام الناس کی دیانت داری کو بھی ٹیکس کی ادائیگی سے ہی جانچتے ہیں۔اسی طرح بعض حضرات یہ کہتے ہیں عہد نبویﷺمیں چونکہ ملی و قومی ضروریات محدود تھیں اور آج کے جدیدد دور میں قومی و حکومتی اخراجات بڑھ گئے ہیں لہذا ایک اسلامی حکومت عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق زکوۃ وصول کرنے کے علاوہ نئے نئے ٹیکس بھی لگاسکتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر اسلامی ہو تو اس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ لوگوں کے اموال ظاہرہ میں سے مختلف اشیاء مثلاًاموال تجارت،زراعت،جانوروں اورمعدنیات وغیرہ پر شریعت کی مقررکردہ شرح کے مطابق وصول کرے اور یہ زکوۃ بیت المال میں جمع کی جائے اور اس کو عوام الناس کی فلاح و بہبود پر خر چ کیا جائے ،باقی اموال باطنہ میں زکوۃ کا معاملہ عوام الناس پر چھوڑدیا گیا کہ وہ خود اس کی زکوۃ ادا کریں۔
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ٹیکس آمدنی پر وصول کئے جاتے ہیں جس میں اس بات کی کوئی تمیزنہیں رکھی جاتی کہ ٹیکس اداکرنے والے کی آمدنی اس کی ضروریات کو پورا کرپارہی ہیں یا نہیں یا کہیں وہ خود مستحق زکوۃ تو نہیں۔لہذا موجودہ صورتحال میں یکطرفہ تماشہ یہ ہے کہ مختلف حکومتیں ملکی وقومی ضروریات کو پورا کرنے کے نام پر(زکوۃکی وصولی کے علاوہ)مختلف ٹیکس مختلف طریقوں کے ذریعے عوام الناس سے وصول کرنے پر مصر ہیں جن میں بلاواسطہ یا براہ راست(Direct)ٹیکس بھی ہیں مثلاًانکم ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس اور دولت ٹیکس وغیرہ ،اور بالواسطہ(Indirect)ٹیکس بھی شامل ہیں مثلاًسیلز ٹیکس ،ایکسائز ٹیکس جوکہ وصول تو کئے جاتے ہیں صنعت کار اور تاجروں سے لیکن ظاہر ہے ان کا اصل بوجھ عام آدمی پرہی پڑتا ہے اور فی زمانہ یہ دوسرے قسم کے ٹیکس ہی حکومت کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔لہٰذا حقیقت حال یہ ہے کہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کے نام پر جو ٹیکس لئے جاتے ہیں انہیں ٹیکسوں کی وجہ سے عوام الناس کا عرصہ ٔ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور معاشرہ معاشی طور پر تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہاہے ۔زندگی کے انفرادی واجتماعی معاملات میں کسی بھی قسم کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے فقہائے امت کے ہاں جو اصول متفقہ طورمعین ہے ،وہ یہ کہ ہر مسئلہ میں یہ دیکھا جائے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سلف و صالحین نے اس کا ’’شرعی حکم‘‘کیا بیان کیا ہے؟لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ’’ٹیکس‘‘کے بارے میں بھی یہ واضح کیا جائے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟ٹیکس کی تعریف
عربی زبان میں ٹیکس کو ’’مکس ‘‘ کہا جاتا ہے اور ٹیکس وصول کرنے والے کو ماکس یا عشار کہاجاتا ہے ۔امام نووی رحمہ اللہ ٹیکس کی تعریف میں فرماتے ہیں:
((قَالَ أَھْل اللُّغَة:الْمُمَاکَسَة:ھِیَ الْمُکَالَمَة فِی النَّقْص مِنْ الثَّمَن،وَأَصْلھَا النَّقْص،وَمِنْہُ مَکْس الظَّالِم ،وَھُوَ مَا یَنْتَقِصہُ وَیَأْخُذہُ مِنْ أَمْوَال النَّاس ))
’’اہل لغت نے فرمایا کہ مماکسہ ،یہ بات چیت کرنا ہے مال کم کرنے کے لئے اور اسی سے ظالمانہ ٹیکس مراد جو لوگوں سے ان کا مال کم کرے اور ان سے لے لے‘‘۔(شرح النووی علی صحیح مسلم،ج:۵ص:۴۷۱)
((وَفِی شَرْح السُّنَّة:أَرَادَ بِصَاحِبِ الْمَکْس الَّذِی یَأْخُذ مِنْ التُّجَّار إِذَا مَرُّوا مَکْسًا بِاسْمِ الْعُشْر))
’’ٹیکس لینے والے سے مراد وہ شخص ہے جو چنگی سے گزرنے والے تاجروں سے ’’عشر‘‘کے نام پر ٹیکس وصول کرے‘‘۔(عون المعبود،ج:۶ص:۴۱۲)
صاحب نیل الاوطارفرماتے ہیں:
’’(صَاحِبُ مَکْسٍ )بِفَتْحِ الْمِیمِ وَسُکُونِ الْکَافِ بَعْدَھَا مُھْمَلَةٌ :ھُوَ مَنْ یَتَوَلَّی الضَّرَائِبَ الَّتِی تُؤْخَذُ مِنْ النَّاسِ بِغَیْرِ حَقٍّ۔قَالَ فِی الْقَامُوسِ:مَکَسَ فِی الْبَیْعِ یَمْکِسُ إذَا جَبَی مَالًا وَالْمَکْسُ:النَّقْصُ وَالظُّلْمُ ،وَدَرَاھِمُ کَانَتْ تُؤْخَذُ مِنْ بَائِعِی السِّلَعِ فِی الأ َسْوَاقِ فِی الْجَاھِلِیَّةِ أَوْ دِرْھَمٌ کَانَ یَأْخُذُہُ الْمُصَدِّقُ بَعْدَ فَرَاغِہِ مِنْ الصَّدَقَةِ انْتَہَی ٹیکس (میم کے فتح اور کاف کے سکون کے ساتھ)یہ ہے کہ متولی بنے اس دسویں حصے کا جو لیتا ہے لوگوں سے ناحق۔قاموس میں فرماتے ہیں کہ تجارت میں مکس یہ ہے کہ ٹیکس لگائے ان پر جب مال وصول کرے، اورٹیکس دراصل کمی کرنا اورظلم کرنا ہے، اورٹیکس دراصل وہ دراہم ہیں جو لیئے جاتے تھے بیچنے والے کے سامان سے بازاروںمیں زمانہ ٔجاہلیت میں ،یا وہ درہم ہے جس کو صدقہ لینے والاجو پورا صدقہ لینے سے فارغ ہونے کے بعد وصول کرتا تھا‘‘۔ (نیل الأوطار،ج:۱۱ص۲۵۱)
’’(والعشار)بالتشدید أی المکاس ویقال العاشر والعشور المکوس وھذا وعید شدید یفید أن المکس من أکبر الکبائر وأفجر الفجور ووجہ استثنائھما أن الزانیة سعت فی إفساد الإنسان واختلاط المیاہ والمکاس قد قھر الخلق بأخذ ما لیس علیھم جبرا ‘‘
’’اور’’عشار‘‘تشدید کے ساتھ یعنی مکاس اور اس کو عاشور اور عشور المکوس بھی کہا جاتا ہے،اور یہ شدید وعید فائدہ دیتی ہے کہ(مسلمانوں سے) ٹیکس لینا اکبر الکبائراور بدترین گناہوں میں سے ہے اور ان دونوں (یعنی زانیہ اور عشار)کے استثناء کی وجہ یہ ہے کہ زانیہ انسان کو خراب کرنے اورنسب کے اختلاط کی کوشش کرتی ہے اور مکاس (ٹیکس لینے والا)تحقیق مخلوق پر ان کے مال میں جبراً ظلم کرتا ہے وہ چیز(یعنی ٹیکس) لگاکر جو ان پرعائد نہیں ہے‘‘۔ (فیض القدیر،ج:۲ص۳۸۱)ٹیکس مسلمانوں پر نہیں صرف کافروں پر ہے
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَھُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ))
’’دسواں حصہ(مال تجارت کا ٹیکس)صرف یہود ونصاری پرہے مسلمانوں پر نہیں‘‘۔
(سنن ابی داود،ج:۸،ص:۲۶۷رقم:۲۶۴۹۔سنن الترمذی ،ج:۳،ص:۳۰،رقم:۵۷۴۔مسند احمد،ج:۳۲،ص:۵۹،رقم:۱۵۳۳۲۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۳،ص:۸۷۔السنن الکبریٰ البیہقی،ج:۹،ص:۱۹۹)
((قال رسول اللّٰہﷺ ثم لیس علی المسلمین عشور،انما العشور علی أھل الذمة))
’’رسول اللہ ﷺنے فرمایا مسلمانوں پر ٹیکس نہیں ہے ،ٹیکس صرف ذمیوں پر ہے‘‘۔(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۳۱)
((عَنْ عَطَاء ٍ یَعْنِی ابْنَ السَّائِبِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ خَالِہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَعْشِرُ قَوْمِی قَالَ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَھُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَ عَلَی أَھْلِ الْإِسْلَامِ عُشُورٌ))
’’بکر بن وائل کے ایک صاحب اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی قوم سے ٹیکس وصول کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹیکس تو یہود ونصاری پر ہوتا ہے مسلمانوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد ،ج:۸،ص:۲۸۸،رقم:۲۶۵۰۔مسند احمد،ج:۳۲،ص:۵۹،رقم:۱۵۳۳۲)((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاھِیمَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ عَنْ عَطَاء ِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَیْرٍ الثَّقَفِیِّ عَنْ جَدِّہِ رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِی الْإِسْلَامَ وَعَلَّمَنِی کَیْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِی مِمَّنْ أَسْلَمَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ مَا عَلَّمْتَنِی قَدْ حَفِظْتُہُ إِلَّا الصَّدَقَةَ أَفَأُعَشِّرُھُمْ قَالَ لَا إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی النَّصَارَی وَالْیَھُودِ))
’’حضرت حرب بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دادا سے سنا وہ کہتے تھے کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔پس آپ نے مجھے اسلام کی تعلیم دی اور یہ بھی بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو مسلمان ہوجائیں کس حساب سے صدقہ وصول کیا کروں۔(کچھ عرصے بعد دوبارہ)میں لوٹ کر آپﷺکے پاس گیا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ!آپ نے جوکچھ مجھے سکھایا تھا وہ مجھے یاد ہے ۔بس صدقہ کے متعلق یا د نہ رہا۔کیا میں ان سے (مال تجارت میں سے )دسواں حصہ وصول کروں ؟آپ نے فرمایا نہیں !(مال تجارت میں سے)دسواں حصہ تو صرف یہود ونصاری پر ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد ،ج:۸،ص:۲۸۹،رقم:۲۶۵۱)((و حَدَّثَنِی عَنْ مَالِک عَنْ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہُ قَالَ کُنْتُ غُلَامًا عَامِلًا مَعَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَلَی سُوقِ الْمَدِینَةِ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَکُنَّا نَأْخُذُ مِنْ النَّبَطِ الْعُشْرَ))
’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ میں عامل تھا عبد اللہ بن عتیبہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازار میں ہم لیتے تھے نبط کے کفار سے (اُن کے مال سے)دسواں حصہ‘‘۔(موطا امام مالک ،ج:۲،ص:۳۱۹،رقم الحدیث:۵۴۸)ٹیکس لینے والا جنت میں نہیں جائے گا
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَکْسٍ یَعْنِی الْعَشَّارَ))
’’حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ صاحب مکس (یعنی ٹیکس وصول کرنے والا)جنت میں داخل نہیں ہوگا یعنی دسواں حصہ لینے والا ‘‘۔
(السنن الدارمی،ج:۱ص:۲۸۴رقم الحدیث:۱۶۶۶۔السنن البیھقی الکبریٰ ،ج:۷ص:۱۶رقم الحدیث:۱۲۹۵۴۔سنن ابی داؤد،ج:۳ص:۱۳۲رقم الحدیث:۲۹۳۷۔مسند احمد،ج:۴ص:۱۴۳۔مسند ابی یعلی،ج:۳ص:۲۹۳رقم الحدیث:۱۷۵۶۔المعجم الکبیر،ج:۱۷ص:۳۱۷رقم الحدیث:۸۷۸۔ الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۱۹رقم الحدیث:۱۱۷۲)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ صَاحِبَ الْمَکْسِ فِی النَّارِ))
’’صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے والا )جہنم میں ہوگا ‘‘۔(المعجم الکبیر،ج:۵ص:۲۹رقم الحدیث:۴۴۹۳۔مسند احمد،ج:۴ص:۱۰۹۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸)
((عن عبداللّٰہ بن عمرقال الشرط کلاب الناروقال عبد اللّٰہ ابن عمروصاحب المکس یعنی العشار یلقی فی النار))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ سپاہی آگ کاکتا ہے اورحضرت عبد اللہ ابن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ٹیکس وصول کرنے والا یعنی (لوگوں کے مال تجارت سے )دسواں حصہ لینے والادوزخ میں ڈالا جائے گا‘‘۔(الورع لابن حنبل،ج:۱ص:۹۳)ٹیکس وصول کرنے والاحوضِ کوثر کے جام سے محروم
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(( مَنْ اعْتَذَرَ إِلَی أَخِیہِ بِمَعْذِرَةٍ فَلَمْ یَقْبَلْھَا کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ خَطِیئَةِ صَاحِبِ مَکْسٍ))
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی سے کسی غلطی پر معافی مانگی مگر اس نے اس کو قبول نہیں کیا تواس پر صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے والے )کے مثل گنا ہ ہوگا‘‘۔ٍ
(سنن ابن ماجة،ج:۲ص۱۲۲۵رقم الحدیث:۳۷۱۸۔المعجم الأوسط،ج:۸ص:۲۸۳رقم الحدیث:۸۶۴۴۔مصباح الزجاجة،ج:۴ص:۱۱۳۔الأحاد والمثانی،ج:۵ص:۱۷۵رقم الحدیث:۲۷۰۹۔المعجم الکبیر،ج:۲ص:۲۷۵ رقم الحدیث:۲۱۵۶)
دوسری احادیث میں یہ بات صراحت سے وارد ہوئی ہے کہ ایساشخص جوکہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے غلطی قبول کرنے اور معافی مانگنے پر بھی معاف نہ کرے وہ روز محشر میرے حوض کوثر پر نہ آئے۔ٹیکس کا گناہ کسی صورت زنا سے کم نہیں
اسی طرح احادیث صحیحہ میں قبیلہ غامدیہ کی ایک شادی شدہ عورت کا زناء ہوجانے کے بعد توبہ کرنے کا ایمان افروز واقعہ موجود ہے ۔چناچہ جب اس عورت نے اپنے آپ کو سزاکے لئے رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺنے فرمایا جب بچہ کی پیدائش ہوجائے تو آجانا،جب بچہ پیدا ہوا تو وہ پھر چلی آئی توآپﷺنے پھر یہ کہہ لوٹادیا جب یہ بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوجائے تو آجانا چناچہ جب وہ بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوا تو پھر وہ دوبارہ اس حال میں لوٹ آئی کہ اس کا بچہ روٹی کھارہا تھا ۔اس کے بعد آپ ﷺنے اس کو سنگسار کرنے کا حکم جاری کیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔اس دوران حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر اس کے خون کے چھینٹے آگئے جس پران کے منہ سے اس عورت کے بارے میں کچھ نامناسب الفاظ نکال آئے تو آپﷺنے فرمایا:
((یَا خَالِدُ بْنَ الْوَلِیدِ لَا تَسُبَّھَا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَھَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ فَأَمَرَ بِھَا فَصَلَّی عَلَیْھَا وَدُفِنَتْ))اے خالدابن ولید!اس عورت کو برا بھلا مت کہو،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگر اس کی توبہ ٹیکس وصول کرنے والے پر ڈالی جائے تو اس کو بھی بخش دیا جائے۔پھر اس کے بارے میں حکم دیا گیاپس اس کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور اس کو دفن کردیا گیا ‘‘۔
(مسند أبی عوانة،ج:۴ص:۱۳۷رقم الحدیث:۶۲۹۶۔سنن الدارمی،ج:۲ص:۲۳۴۔مجمع الزوائد،ج:۶ص:۲۵۲۔سنن البیھقی الکبریٰ،ج:۴ص:۱۸رقم الحدیث:۶۶۲۱۔سنن ابی داود،ج:۴ص:۱۵۲رقم الحدیث:۴۴۴۲۔مسند احمد،ج:۵ص:۳۴۸)
ٹیکس لینے والے کی دعاء قبول نہیں
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((تفتح أبواب السماء نصف اللیل فینادی مناد،ھل من داع فیستجاب لہ،ھل من سائل فیعطی،ھل من مکروب فیفرج عنہ،فلایبقی مسل یدعو بدعوة الاستجاب اللّٰہ عزوجل الازانیة تسعی بفرجھاأوعشارا))
’’جب نصف رات کو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،پس ایک منادی دینے والاندا ء دیتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دعا قبول کی جائے ،ہے کوئی سائل جس کو عطاکیا جائے ،ہے کوئی پریشان حال پس اس کے لئے کشادگی کی جائے ،پس نہیں باقی رہتا کوئی مسلمان دعامانگنے والامگر اللہ تعالیٰ اس کی دعاقبول کرلیتا ہے مگر زانیہ جو کہ اپنی طرف بلائے یا عشار (ٹیکس وصول کرنے والا )‘‘۔(الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۲۰رقم الحدیث:۱۱۷۳)((قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ عَلَی کِلَابِ بْنِ أُمَیَّةَ وَھُوَ جَالِسٌ عَلَی مَجْلِسِ الْعَاشِرِ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ مَا یُجْلِسُکَ ھَاھُنَا قَالَ اسْتَعْمَلَنِی ھَذَا عَلَی ھَذَا الْمَکَانِ یَعْنِی زِیَادًا فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ أَلَا أُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلَی فَقَالَ عُثْمَانُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ کَانَ لِدَاوُدَ نَبِیِّ اللَّہِ عَلَیْہِ السَّلَام مِنْ اللَّیْلِ سَاعَةٌ یُوقِظُ فِیھَا أَھْلَہُ فَیَقُولُ یَا آلَ دَاوُدَ قُومُوا فَصَلُّوا فَإِنَّ ھَذِہِ سَاعَةٌ یَسْتَجِیبُ اللَّہُ فِیہَا الدُّعَاء َ إِلَّا لِسَاحِرٍ أَوْ عَشَّارٍ فَرَکِبَ کِلاَبُ بْنُ أُمَیَّةَ سَفِینَتَہُ فَأَتَی زَیِادًا فَاسْتَعْفَاہُ فَأَعْفَاہُ))
’’حسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن ابی عاص کلاب بن امیہ کے پاس سے گذرے وہ بصرہ میں ایک عشر وصول کرنے والے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت عثمان نے پوچھا کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ کلاب نے عرض کیا کہ زیاد نے مجھے اس جگہ کا ذمہ دار مقرر کردیا انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کلاب نے کہا کیوں نہیں فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت داؤدعلیہ السلام رات کے ایک مخصوص وقت میں اپنے اہل خانہ کو جگا کر فرماتے تھے اے آل داؤد اٹھو اور نماز پڑھوکہ اس وقت اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر یا عشر وصول کرنے والے کے یہ سن کرکلاب بن امیہ اپنی کشتی پر سوار ہوئے اور زیاد کے پاس پہنچ کر استعفی دے دیا اس نے ان کا استعفی قبول کرلیا‘‘۔(مسند احمد،ج:۳۳،ص:۱۴،رقم:۱۵۶۸۹)((حدثناابوالربیع ثناحمادبن زید عن علی بن زید عن الحسن قال ثم بعث زیاد کلاب بن امیةعلی الأبلة فمربہ عثمان بن أبی العاصؓ فقال یاأباھارون ما بقعدک ھاھنا،قال بعثنی ھذاعلی الأبلة،فقال علی المکس ثم قال ألا احدثک حدیثاسمعتہ من رسول اللّٰہﷺسمعت نبی اللّٰہﷺیقول ان النبی اللّٰہ داؤدکان یوقظ أھلہ ساعة من اللیل فیقول یا آل داؤدقوموافصلوافان ھذہ الساعة یستجیب اللّٰہ تعالیٰ فیھا الدعاء الا لساحرأوعشار،قال فرکب سفینتہ ثم جاء الی زیاد فدخل علیہ فقال ابعث علی عملک من شئت))
’’زیاد نے کلاب بن امیہ کو ابلہ کے مقام پر عامل (ٹیکس وصول کرنے والا )بناکر بھیجا توا ن کے پا س سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ گزرے تو انہوں نے فرمایا کہ اے ابوہارون!تمہیں کس چیز نے یہاں بٹھایا تو کلاب بن امیہ نے کہا مجھے اس نے (زیاد) ابلہ پر بھیجا ہے ۔حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ٹیکس وصول کرنے کے لئے؟پھر فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے رسول اللہﷺسے سنی ۔میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ’’ اللہ کے نبی حضرت داؤدعلیہ السلام اپنے گھروالوں کو رات کی ایک گھڑی میں جگاتے اور فرماتے کہ اے آل داؤد!کھڑے ہواور نماز پڑھواس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت دعاء کو قبول کرتا ہے سوائے جادوگر اور ٹیکس وصول کرنے والے کے ‘‘۔راوی کہتے ہیں کلاب بن امیہ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور زیاد کے پاس آئے اور زیاد سے کہا کہ تم اپنے (اس)کام پر جس کو چاہو بھیج دو (میں یہ کام نہیں کرسکتا)‘‘۔(الأحاد والمثانی،ج:۳ص:۱۹۷)جس بازار میں مسلمانوں سے ٹیکس لیا جاتا ہوتو وہ مسلمانوں کا بازار نہیں
((عَنْ أَبِی أُسَیْدٍأَنَّ أَبَا أُسَیْدٍ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَھَبَ إِلَی سُوقِ النَّبِیطِ فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ لَیْسَ ھَذَا لَکُمْ بِسُوقٍ ثُمَّ ذَھَبَ إِلَی سُوقٍ فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ لَیْسَ ھَذَا لَکُمْ بِسُوقٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی ھَذَا السُّوقِ فَطَافَ فِیہِ ثُمَّ قَالَ ھَذَا سُوقُکُمْ فَلَا یُنْتَقَصَنَّ وَلَا یُضْرَھَنَّ عَلَیْہِ خَرَاجٌ))
’’ابن ابی اسید حضرت ابواسید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوق النبیط (نامی بازار)میں گئے اور اس میں خریداری کا (حال)دیکھا تو فرمایا یہ بازار تمہارے لئے (موزوں نہیں)کیونکہ (یہاں دھوکہ بہت ہوتا ہے)پھر ایک اور بازار میں گئے اور وہاں بھی دیکھ بھال کی اور فرمایا یہ بازار بھی تمہارے لئے (موزوں)نہیں پھر اس بازار میں آئے اور چکر لگایا پھر فرمایا یہ ہے تمہارا بازار (یہاں خرید و فروخت کرو)یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول(ٹیکس)مقرر نہ کیا جائے گا ‘‘۔
(سنن ابن ماجة،ج:۶،ص۴۸۹،رقم:۲۲۲۴۔الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم،ج:۵ص:۳۲۸،رقم:۱۶۸۹)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ٹیکس لینے سے برأت کا اعلان
((عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ،قَالَ قُلْت لِابْنِ عُمَرَ ،أَکَانَ عُمَرُ یُعَشِّرُ الْمُسْلِمِینَ؟قَالَ :لَا ))
’’مسلم بن یسار سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہاحضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے کہاکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مسلمانوں سے عشر لیتے تھے،فرمایا(ایسا)نہیں‘‘ ۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۴۵۳)
((قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:اللَّھُمَّ إنَّ النَّاسَ یُحِلُّونِی ثَلَاثَ خِصَالٍ وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْھُنَّ:زَعَمُوا أَنِّی فَرَرْت مِنْ الطَّاعُونِ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ وَأَنِّی أَحْلَلْت لَھُمْ الطِّلَاءَ ،وَھُوَ الْخَمْرُ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ وَأَنِّی أَحْلَلْت لَھُمْ الْمَکْسَ
،وَھُوَ النَّجِسُ،وَأَنَا أَبْرَأُ إلَیْک مِنْ ذَلِکَ ))
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرماتے تھے کہ اے اللہ!لوگ تین خصلتیں اختیار کئے ہوئے ہیں اور میں تیری طرف ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں،لوگوں نے گمان کیا کہ میں طاعون سے بھاگا ہوں اور میں برأت کرتا ہوں تیرے سامنے اس بات سے اور اس بات سے بھی کہ ان کے لئے میں نے طلاء کو حلال کیا حالانکہ وہ شراب ہے اور میں تیرے سامنے اس بات سے بھی برأت کرتا ہو ں کہ میں نے ان کے لئے(مسلمانوں سے) ٹیکس(لینے) کو حلال کیا حالانکہ وہ نجس ہے ‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۵ص:۴۶۵)نبی کرم ﷺا ور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ٹیکس لینے والوں پر لعنت
((عن عَمْرِو بن دِینَارٍ،أَنَّہُ صَحِبَ ابْنَ عُمَرَ فِی السَّفَرِ فَکَانَ إِذَا طَلَعَ سُھَیْلٌ، قَالَ:لَعَنَ اللَّہُ سُھَیْلا،فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،یَقُول:کَانَ عَشَّارًا،ویَغْصِبُھُمْ أَمْوَالَھُمْ،فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِھَابًا،فَجَعَلَہُ حَیْثُ تَرَوْنَ))
’’عمر وبن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو جب سھیل(نامی ستارہ)نمودار ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے لعنت کی سھیل پر، پس میں نے سنا رسول اللہﷺسے وہ فرمارہے تھے کہ(یہ)وہ(شخص تھا جو) علانیہ لوگوں سے ٹیکس لیتا تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا اور ان کے مالوں کو غصب کرتا تھا پھر اللہ نے اس کو مسخ کردیا جھلساکراور اس کو معلق کردیا وہاں جہاں تم اس کو دیکھتے ہو‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱۱،ص:۲۶۸،رقم:۵۵۵۔المعجم الاوسط للطبرانی،ج:۱۵،ص:۳۹۶،رقم:۷۳۲۰۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸۔ الجامع الصغیرللسیوطی،ج:۱ص:۱۵۳)((عَنْ عَلِیِّ بن أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :لَعَنَ اللَّہُ سُہَیْلا ،ثَلاثَ مِرَارٍ،فَإِنَّہُ کَانَ یُعْشِرُ النَّاسَ فِی الأَ رْضِ فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِہَابًا))
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا کہ لعنت ہو اللہ کی سہیل پر تین دفعہ بے شک وہ لوگوں سے ٹیکس لینے والاتھا زمین پر پس اللہ نے اس کو مسخ کردیا‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱،ص:۸۹،رقم:۱۷۹۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸وفیہ جابر الجعفی وفیہ کثیر وقد وثقہ شعبةؒ وسفیان الثوریؒ،)
((عن ابی طفیل أن علیارضی اللّٰہ عنہ کان اذا رأی سھیلا سبہ وقال انہ کان عشاراظاھرا یبخس بین الناس بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’حضرت ابوطفیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سہیل(نامی ستارے)کی طرف دیکھا تو اس کو برا بھلا کہا اور فرمایا کہ وہ علانیہ دسواں حصہ لینے والا تھا ،کمی کرتا تھا لوگوں کے مال میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے مسخ کردیا اس کو جھلساکر‘‘۔
(کنز العمال،ج:۷ص:۱۴۹رقم:۱۸۴۵۷۔العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۶رقم:۶۸۹۱۰)((عن ابی طفیل قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لعن اللّٰہ سھیلا کان عشارایعشر فی الأرض بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ نے لعنت کی سہیل پر ،وہ ٹیکس لینے والا تھا دسواں حصہ لیتا تھا زمین میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جھلساکر مسخ کردیا‘‘۔
(العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۷رقم الحدیث:۶۹۱۲۱)اللہ کی ایک نعمت …ٹیکس فری معاشرہ
((عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ احْمَدُوا اللَّہَ الَّذِی رَفَعَ عَنْکُمْ الْعُشُورَ))
’’حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے رسو ل اللہ ﷺسے سنا کہ آپ فرمارہے تھے اے گروہ عرب!اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اس نے تم سے ٹیکس اٹھا دیئے‘‘۔
(مسند احمد،ج:۴ص:۷۷رقم:۱۵۶۶۔مسند ابی یعلی،ج:۲ص:۴۷۱،رقم:۹۲۸۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۷)ٹیکس لینے والے کے قتل کا حکم
((عَنْ مَالِکِ بْنِ عَتَاھِیَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِذَا لَقِیتُمْ عَاشِرًا فَاقْتُلُوہُ))
’’حضرت مالک بن عتاھیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اگر تم ٹیکس وصول کرنے والے کو دیکھو تو اسے قتل کر دو‘‘۔
(مسند احمد،ج:۳۷،ص:۵رقم :۱۷۳۶۵۔کنز العمال،ج:۶،ص:۸۳،رقم:۱۴۹۴۴)
((عن مالک بن عتاھیة ؓ قال سمعت النبی ﷺ یقول اذارأیتم عاشرا فاقتلوہ یعنی بذلک الصدقة علی غیر حقھا))
’’حضرت مالک بن عتاہیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ ﷺسے کہ جب تم دیکھو ٹیکس لینے والے کو تو اسے قتل کردو ،یعنی وہ شخص جو کہ صدقہ لینے والاہو لوگوں کے مال سے ناحق ‘‘۔
(مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۷)حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کا دورخلافت اور ٹیکس
حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے اور سلف میں سے بعض ان کے دور خلافت کو خلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں ۔جب انہوں نے خلافت کا بار اٹھایا تو ان سے پہلے اموی خلفاء نے مسلمانوں پر مختلف چیزوں پر ٹیکس لگا رکھے تھے۔آپ رحمہ اللہ نے فوراًتمام ٹیکس ختم کرنے کے احکامات جاری کردیئے ۔
(( ان عمر بن عبد العزیزکتب الی عامل المدینة أن یضع المکس فانہ لیس بالمکس البخس،قال اللّٰہ تعالی’’وَلَا تَبْخَسُوْا‘‘))
’’حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے مدینے کے عامل (گورنر)کو لکھا کہ (مسلمانوں پر سے )ٹیکس کو ختم کردواس لئے کہ ٹیکس دراصل گھٹاناہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے کہ ’’اور نہ گھٹاؤ (لوگوں کا مال )‘‘۔
(المدونة الکبری ج:۲ص:۲۷۹)
((عن محمد بن قیس قال لما ولی عمر بن عبد العزیزوضع المکس عن کل أرض ووضع الجزیة عن کل مسلم))
’’محمد بن قیس سے روایت ہے کہ فرمایا جب حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے ٹیکس ختم کردیئے ہر زمین پر اور جزیہ بھی ہر مسلمان پر سے ختم کردیا‘‘۔
(الطبقات الکبری ج:۵ص:۳۴۵)
((أن عمربن عبد العزیزؒ کتب الی عاملہ عبد اللّٰہ بن عون علی فلسطین ان أرکب الی البیت الذی یقال لہ المکس فأھدمہ ثم أحملہ الی البحر فأنسفہ فی الیم))
’’حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے اپنے عامل عبد اللہ بن عون کو لکھا جو فلسطین میں تھے کہ اُس گھر کے پاس جاؤ جس کو مکس(ٹیکس گھر)کہاجاتا ہے اور اس کو گرادوپھر اس کو سمندر میں بہادو‘‘۔
(حلیة الأولیاء ج:۵ص:۳۰۶)محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أَنَّ الْعُشْرَ الَّذِی کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَہُ عَنْ الْمُسْلِمِینَ،ھُوَ الْعَشْرُ الَّذِی کَانَ یُؤْخَذُ فِی الْجَاھِلِیَّةِ،وَھُوَ خِلَافُ الزَّکَاةِ،وَکَانُوا یُسَمُّونَہُ الْمَکْسَ‘‘
’’وہ عشر جس کو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے اٹھالیا تھایہ وہ عشر تھا جس کو جاہلیت میں لیا جاتا تھا اور وہ زکوۃ کے خلاف ہے اور انہوں نے اس کانام مکس رکھا تھا‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۴۵۳)
’’أَنَّ الْمَکْس مِنْ أَقْبَح الْمَعَاصِی وَالذُّنُوب الْمُوبِقَات ‘‘
’’بے شک مکس گناہوں میں بدترین گناہ اور ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح النووی علی صحیح مسلم،ج:۱۱ص:۲۰۳)
امام ابن الحجرالھیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ٹیکس لینے والا خواہ وہ ٹیکس وصول کرنے والا ہو، خواہ وہ اس کے ساتھ لکھنے والا ہو،خواہ وہ اس کا گواہ ہو یا خواہ وہ اس کا ناپ تول کرنے والا ہو یہ سب ظالموں کے بڑے کارندے اور مددگار ہیں۔ بلکہ وہ خود بھی ظالم ہیں کیونکہ جس چیز کا وہ حق نہیں رکھتے وہ چھین کر اسے دیتے ہیں جو اسکا مستحق نہیں‘‘۔
(اقتباس از فتویٰ ’’کسٹم میں کام کرنے کے بارے میں شرعی حکم‘‘منبر التوحید والجہاد)
((صاحب مکس وھو من یأخذ من التجار اذامرو مکسا أيضریبة باسم العشر وفیہ ان المکس أعظم الذنوب ))
’’صاحب مکس وہ ہے جو تاجروں سے لے ٹیکس عشر کے نام سے جب کہ تاجر اس کے پاس سے گذریں اور اسی سے معلوم ہو ا کہ مکس(ٹیکس لینا)بڑے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح سنن ابن ماجہ،ج:۱ص:۲۶۴)((حدثنا مالک بن دینارؒقال دخلت علی جار لی فی مرضہ وکان عشارا فقال کلمنی راحم المساکین(ﷺ)فی المنام وقال ان ارحم المساکین غضبان علیک قال انک لست منی ولست منک))
’’ہم سے مالک بن دیناررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے پڑوسی کے پاس اس کی بیماری کے زمانے میں گیا اور وہ ٹیکس لینے والا تھا ۔پس اس نے کہا کہ راحم المساکین (ﷺ)نے مجھ سے خواب میں کلام کیا اور فرمایا کہ ارحم المساکین (یعنی اللہ)تجھ پر غضبناک ہے اور فرمایا کہ بے شک تم نہ مجھ سے ہواور نہ میں تجھ سے‘‘۔
(کتاب الزھدلابن أبی عاصم،ج:۱ص:۳۲۶)
((قال الغزالی:مھما رأیت إنسانا یسء الظن بالناس طالبا للعیوب فاعلم أنہ خبیث فی الباطن وأن ذلک خبث یترشح منہ وإنما یری غیرہ من حیث ھو فإن المؤمن یطلب المعاذیر والمنافق یطلب العیوب والمؤمن سلیم الصدر فی حق الکافة،وفیہ إیذان بعظم جرم المکس فإنہ من الجرائم العظام))’امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے انسانوں کو دیکھا ہے لوگوں کے بارے میں بُرا گمان کرنے رکھنے والا اور عیوب کی تلاش میں رہتا ہے ۔پس جان لوکہ اس کے باطن میں خبث ہے اور یہ خبث ظاہر ہوتا ہے اس سے جب وہ اپنے علاوہ کو اس جگہ دیکھتاہے جس جگہ وہ خود ہے ۔پس مومن (اچھا گمان رکھنے کے)بہانے تلاش کرتا ہے اور منافق عیوب تلاش کرتاہے اور مومن سلیم الصدر ہوتا ہے اوراس میں اعلان ہے ٹیکس کے جرم کے عظیم ہونے کا پس بے شک وہ بڑے گناہوںمیں سے ہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۷۳)
((قال البغوی یریدبصاحب المکس الذی یأخذ من التجار اذا مروا علیہ مکسا باسم العشر،قال الحافظ أما الآن فانھم یأخذون مکسا باسم العشر ومکوسا أخر لیس لھااسم بل شیء یأخذونہ حراما وسحتا ویأکلونہ فی بطونھم نارا حجتھم فیہ داحضة ثم ربھم وعلیھم غضب ولھم عذاب شدید))امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صاحب مکس سے مراد وہے جو تاجروں سے لیتا ہے ٹیکس عشر کے نام سے ۔حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہرحال اس زمانے میں وہ ٹیکس عشر کے نام سے لیتے ہیں اوراس کے علاوہ دوسرے دوسرے ٹیکس بھی جس کا کوئی نام نہیں ہے ۔دراصل جو چیز وہ لیتے ہیں حرام اور ’’رشوت‘‘ہے اور اپنے پیٹوں میں آگ بھڑکاتے ہیں اور اس(ٹیکس لینے کے )معاملے میں ان کی دلیل باطل ہے پھر اِن پر ان کے رب کا غصہ ہے اور ان کے لئے شدید عذاب ہے‘‘۔
(الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۲۰،رقم ۱۱۷۲)
’’عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ،عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَخْوَالِہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَعَلَّمَہُ الْإِسْلَامَ،وَأَخْبَرَہُ بِمَا یَأْخُذُ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ الْإِسْلَامِ قَدْ عَلِمْتہ إلَّا الصَّدَقَةَ،أَفَأُعْشِرُ الْمُسْلِمِینَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّمَا یُعْشَرُ الْیَہُودِوَالنَّصَارَی)فَفِی ھَذَا الْحَدِیثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَأَمَرَہُ أَنْ لَا یُعَشِّرَ الْمُسْلِمِینَ،وَقَالَ لَہُ:إنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔فَدَلَّ ذَلِکَ أَنَّ الْعُشُورَ الْمَرْفُوعَةَ عَنْ الْمُسْلِمِینَ ، ھِیَ خِلَافُ الزَّکَاةِ ‘‘حرب بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں اپنے ماموں زاد بھائیوں میں سے کسی سے کہ رسول اللہﷺ نے ان کو عامل بنایا صدقہ پر اوران کو اسلام کی تعلیمات سکھائیں اور ان کو خبر دی کہ ان کو کیا لینا ہے ۔پس انہوں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ!تمام اسلام کی باتیں آپ نے ہمیں سکھلادیں سوائے صدقہ کے ۔کیا میں مسلمانوں سے عشر لوں؟پس کہا رسول اللہﷺنے ،عشر(تجارتی ٹیکس)صرف یہود ونصاریٰ سے لیا جاتا ہے ۔پس اس حدیث میں رسول اللہﷺنے صدقہ پر ترغیب دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے عشر (ٹیکس)نہ لیں اور ان سے فرمایا عشور صرف یہود ونصاریٰ پر ہے ۔پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عشور(تمام ٹیکس) مسلمانوں سے اٹھالیئے گئے اور یہ زکوۃ کے خلاف ہے‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۱۳)
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سورۃ الاعراف کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’{وَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صراط}طریق{تُوعِدُونَ}تخوّفون الناس بأخذ ثیابہم أو المکس منہم{وَتَصُدُّونَ}تصرفون{عَن سَبِیلِ اللّٰہ}دینہ(مَنْ ءَامَنَ بِہِ)بتوعدکم إیاہ بالقتل{وَتَبْغُونَہَا}تطلبون الطریق{عِوَجَاً}معوَّجة{واذکروا إِذْ کُنتُمْ قَلِیلاً فَکَثَّرَکُمْ وانظروا کَیْفَ کَانَ عاقبة المفسدین }قبلکم بتکذیبہم رسلہم :أی آخر أمرھم من الہلاک ۔‘‘
’’اور نہ بیٹھو ہر راستے پر یعنی ایساراستہ جس پر تم لوگوں کو ڈراؤاور ان کے کپڑے لے کر یا ان سے ٹیکس لے کر اور تم نہ روکواللہ کے راستے سے ،اس کے دین سے ،اور جو اس پر ایمان لے آیا تم اس کو قتل کرنے کی دھمکی دینے سے اور تم گمراہی کے راستے نہ ڈھونڈو اور یاد کروجب تم تھوڑے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا کیسا انجام ہوا تم سے پہلے جب انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی‘‘۔
(تفسیرالجلالین،ج:۳ص:۳۹)صاحب فیض القدیرامام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(((لا یدخل الجنة صاحب مکس)المراد بہ العشار وھو الذی یأخذ الضریبة من الناس قال البیہقی :المکس النقصان فإذا انتقص العامل من حق أھل الزکاة فہو صاحب مکس))
’’جنت میں ٹیکس لینے والا داخل نہیں ہوگا ،(حدیث میں )اس سے وہ دسواں حصہ لینے والا مراد ہے جولوگوں سے ٹیکس لیتا ہے ۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :مکس کے معنی نقصان کے ہیں۔جب عامل زکوٰۃ دینے والوں سے ان کا مال (ٹیکس لینے کی صورت میں )کم کردے تو وہ ٹیکس لینے والا ہے ‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۴۴۹)
’’ قال الطیبی:وفیہ أن المکس من أعظم الموبقات وعدہ الذھبی من الکبائر ثم قال :فیہ شبہة من قاطع الطریق وھو شر من اللص‘‘
’’علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو ارشاد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ٹیکس ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کوگناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے پھر فرمایا یہ (ٹیکس لینا)مشابہ ہے راستوںکوقطع کرنے والے ڈاکوؤں کی مانند اور چور سے زیادہ بدترہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۵۸۱)
امام ابوبکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَکَذَلِکَ حُکْمُ مَنْ یَأْخُذُ أَمْوَالَ النَّاسِ مِنْ الْمُتَسَلِّطِینَ الظَّلَمَةِ وَآخِذِی الضَّرَائِبِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ الْمُسْلِمِینَ قِتَالُہُمْ وَقَتْلُہُمْ إذَا کَانُوا مُمْتَنِعِینَ،وَھَؤُلَاء ِ أَعْظَمُ جُرْمًا مِنْ آکِلِی الرِّبَا لِانْتِہَاکِہِمْ حُرْمَةَ النَّہْیِ وَحُرْمَةَ الْمُسْلِمِینَ جَمِیعًا.وَآکِلُ الرِّبَا إنَّمَا انْتَہَکَ حُرْمَةَ اللَّہِ تَعَالَی فِی أَخْذِ الرِّبَا وَلَمْ یَنْتَہِکْ لِمَنْ یُعْطِیہِ ذَلِکَ حُرْمَة؛لِأَ نَّہُ أَعْطَاہُ بِطِیبَةِ نَفْسِہِ۔وَآخِذُو الضَّرَائِبِ فِی مَعْنَی قُطَّاعِ الطَّرِیقِ الْمُنْتَہِکِینَ لِحُرْمَةِ نَہْیِ اللَّہِ تَعَالَی وَحُرْمَةِ الْمُسْلِمِینَ؛إذْ کَانُوا یَأْخُذُونَہُ جَبْرًا وَقَہْرًا لَا عَلَی تَأْوِیلٍ وَلَا شُبْہَةٍ،فَجَائِزٌ لِمَنْ عَلِمَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ إصْرَارَ ھَؤُلَاء ِ عَلَی مَا ھُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَخْذِ أَمْوَالِ النَّاسِ عَلَی وَجْہِ الضَّرِیبَةِ أَنْ یَقْتُلَہُمْ کَیْفَ أَمْکَنَہُ قَتْلُہُمْ،وَکَذَلِکَ أَتْبَاعُہُمْ وَأَعْوَانُہُمْ الَّذِینَ بِہِمْ یَقُومُونَ عَلَی أَخْذِ الْأَمْوَالِ .‘‘
’’اسی طرح ان ظالموں کاحکم بھی یہی ہے جو لوگوں پر مسلط ہوکر ان کے مال ناحق چھینتے ہیں اور ان سے ناجائز محصولات(ٹیکس)بٹورتے ہیں ۔اگر یہ لوگ طائفہ ممتنعہ(طاقتورگروہ) کی صورت میں ہوں تو ان کے خلاف قتال کرنا اور انہیں قتل کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہوگا۔ یہ لوگ تو سودخوروں سے بھی بڑے مجرم ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حرمت پامال کرتے ہیں ،بلکہ مسلمانوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں کرتے۔اس کے برعکس سود خور حکم الٰہی کی حرمت تو یقینا پامال کرتا ہے ،لیکن سود دینے والے کی حرمت پامال نہیں کرتا،کیونہ وہ توا پنی رضا سے سود دیتا ہے ۔ناحق محصولات لینے والے ان ظالموں کا حکم تو اُن رہزنوں(قطاع الطریق)کا سا ہے جو اللہ کی حدود کو بھی روندتے ہیں اور مسلمانوں (کے اموال)کی حرمت بھی پامال کرتے ہیں ۔یہ بھی رہزنوں کی طرح کسی تاویل یا شبہے کے بغیر جبراً وقہراً(مسلمانوں کا)مال غصب کرے ہیں۔پس جو مسلمان بھی ایسے لوگوں کو جانتاہوجو محصولات کے نام پر مسلمانوں کا مال ناحق لوٹتے ہوں اور اس پر مصر بھی رہیں ،اس کے لئے جائز ہے کہ (ٹیکس دینے کے بجائے )کسی بھی ممکنہ طریقے سے ان ظالموں کو قتل کرڈالے ۔اسی طرح ہر مسلمان کے لئے ان کے پیروکاروں و مدد گاروں کو قتل کرنا بھی جائز ہوگا کہ جن کے بل پر یہ عام لوگوں سے ناحق مال چھیننے کی قابل ہوتے ہیں‘‘۔
(احکام القرآن للجصاص:ج۳،ص:۱۹۱)عصر حاضر میں وہ علماء سوء جن کے مقدر میں طواغیت کی چاپلوسی ہی کرنا رہ گیا ہے ،وہ ان طواغیت کی جانب سے مسلط کردہ ٹیکسوں کے ’’رفاہ عامہ ‘‘کے عنوان کے تحت یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ ان سے حاصل ہونی والی رقوم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونگی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے ان ٹیکسوں کی ادائیگی کو واجب قراردیتے ہیں بلکہ ان کی ادئیگی نہ کرنے والوں مطعون اور گناہ گار سمجھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment