Big bang Thyori aur Shariyat-E-Islamiya
نظریہ بگ بینگ اور اسلام
بگ بینگ، کائنات کی پیدائش کے بارے میں پیش کیا جانے والا ایک سائنسی نظریہ ہے جس کے معنی ایک بڑے یا عظیم دھماکے کے ہیں،اس کے مطابق آج کے دور سے تقریبا 14 ارب سال پہلے،جب کائنات کا سارا مادہ ایک نکتے میں بند تھا ،ایک عظیم الشان دھماکہ ہوا تھا،جس سے یہ مادہ پھیلنا شروع ہوا اور مختلف کہکشائیں، ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبلنے کائنات کے پھیلاؤ کا نظریہ پیش کیا:کائنات عدم سے معرض وجود میں آنے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی ہے۔اس نظریے کو مقبولیت حاصل ہوئی اور سائنس دانوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہور ہی ہیں۔قرآن ہمیں واضح طور کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں بتاتا ہے۔
والسَّمَاءَبَنَیْنٰھابایدٍوانَّالَمُوْسِعُوْن۔
ترجمہ:ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقینا ہم وسعت دینے والے ہیں۔(ذاریات47)
اللہ تعالی ہی اس کائنات کو اپنی قدرت سے بنانے والے ہیں،کائنات کی تخلیق کا نظریہ ،اللہ نے قرآن میں اس وقت پیش کیا جب نہ کوئی نظریہ موجود تھا اور نہ دوربین، جس سے آسمانوں میں دیکھا جاسکتا لیکن
قرآن میں سب واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کی دنیا میں ہونے والے سب تصرفات اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور وہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
اؑولَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰواتِ والارْضَ بِقٰدِرٍعَلی ان یَخْلُقَ مِثٗلَھُمْ بَلٰی وھُو الخَلّٰقُ العَلِیم انَّما امْرُہٗ اذَا ارَادَ شَیئاً انْ یقُول لہ کُنْ فَیَکُون۔(یسین 82) ترجمہ:اور جس نے زمین آسمان پیدا کیے ہیں کیا وہ قادر نہیں ہے کہ ان جیسے آدمیوں کو دوبارہ پیدا کر دے ضرور قادر ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا تو معمول یہ ہے لہ اس چیز کو کہ دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہوجاتی ہے۔
مندرجہ بالا آیتیں ثابت کرتی ہیں کہ کائنات ازل سے نہیں تھی ،بلکہ اس کو اللہ رب العزت نے اپنے کن سے تخلیق کیا ،اگر ضد وعناد کو ایک طرف رکھ کر انصاف سے دیکھا جائے تو بگ بینگ کا نظریہ ،ملحدین اور منکرین خدا کی تایید نہیں تردید کر رہا ہے ؛ کائنات عدم سے وجود میں آئی نہیں لائی گئی ہے اس کے پیچھے اللہ کی قدرت کا دخل ہے ،جس نے تخلیق کے ارادے سے اپنے کن کے ذریعےاس کو وجود بخشا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
مسلمہ اصول ہے کہ ہر حرکت کے پیچھےاس کا کوئی محرک ہوتا ہے جو اس کو اصول و ضوابط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کو آگے بڑھاتا ہےاور اگر اس کے ساتھ کوئی محرک نہ ہو تو نامکمل ،بے ترتیب رہ جاتا ہے؛تو انسان جب اس عالم کو دیکھتا ہے تو اس میں ایک غیر معمول ینظم اور اصول نظرآتا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئ یخالق ہے جو اپنے علم سے اس میں کام کررہا ہے؛ لہذا ہم یہ ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق کے وقت اتنا عظیم دھماکہ اور اس کے بعد پےدرپے تبدیلیاں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی یا یہ سب بغیر کسی خالق کے خود وجود میں نہیں آسکتا جیسا کہ منکرین خدا کا گمان ہے بلکہ ان سب کے پیچھے ایک ذات عالی ہے جو عظیم طاقت اور قدرت کا مالک ہے جس نے اس جہاں کو بنایا اور منظم طریقے سے اس کو چلارہا ہے۔لقولہ تعالی :اوَلؒم یَرالَّذَیْنَ کَفَرُوْاانَّ السَّمٰوٰتِ کانَتْ رَتْقاً فَفَتَقْنٰھُمَاو جَعَلْنا مِن
المَاءِکُلَّ شَیْءٍحیٍّ افلا یومِنُون۔(انبیا30)
ترجمہ:کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ زمین اور آسمان پہلے بند تھے اور ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت) سے کھول دیا اور ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے۔رتق اور فتق کے معنی میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں ہم ہیاح دو قول نقل کرتے ہیں۔
1۔عن علیٍّ، عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قولہ”اولم یر الذین کفرواان السموات والارض کانتا رتقا”یقوک :کانتا ملتصقتین،فرفع السماءووضع الارض۔(جامع البیان عن تاویل آی القرآن ابن جریر الطبری)
اس تفسیر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے اللہ نے ان کو وجود بخشا۔
2۔رتق اور فتق ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔رتق کے معنی دو چیزوں کا آپس میں مل کر جڑ جانا ،فتق کے معنی ان جڑی ہوئی چیزوں کا الگ الگ جدا کرنا ہے۔(تفسیر تیسیر القرآن)
یعنی زمین وآسمان ابتدا میں سب ملے ہوئے تھے پہر اللہ نے ان دونوں لو کھول کر جدا کر دیا ،جیسا کہ سائنس کا کہنا ہے کہ ابتدا میں دنیا ایک مادے میں مرتکز تھی جو دھماکے کے بعد پھیل گئی۔بگ بینگ نظریے اور اس آیت مذکورہ میں مطابقت واضح ہے کہ دنیا ازل میں عدم تھی پھر اس کو وجود میں لایا گیا اور وجود میں لانے والی ذات اللہ سبحانہ و تعالی کی ہے ،ایک دن ایسا آئے گا جب وہ اس دنیا کو دوبارہ اس کی ابتدا میں لے جائے گا،اس کو ماہرین فلکیات نے یوں پیش کیا ہے کہ “دنیا،ایک وقت آئے گا کہ بگ بینگ کے الٹ بگ کرنچ کے ذریعے پھیلنے سے سکڑنے کی طرف جائےگی اور جیسا دھماکہ دنیا کے ابتدا میں ہوا تھا ایک ایسا ہی دھماکہ دنیا کے اختتام میں ہوگا اور ہر زندہ چیز ختم ہوجائے گی ۔”
لقولہ تعالی:یَومَ نَطْوِی السَّمَآءَکَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدانا اوَّلَ خَلْقٍنُعِیْدُوَعْداً عَلَیْناانَّاکُنَّا فٰعِلِین۔(انبیا104
عن ابن عباس قال:یطوی اللہ السموات السبع بما فیھا من الخلیقۃوالارضین السبع بما فیھا من الخلیقۃ یطوی ذلک کلہ بیمینہ یکونذلک کلہ فی یدہ بمنزلۃخردلۃ۔(اخرجہ ابن ابی حاتم)
No comments:
Post a Comment