Lahauri Aur Qadyani Jamat me Fark aur unka Aapas me ek Dusre ko Galiya dene ki wajah.
لاہوری اور قادیانی جماعت میں فرق ، اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں
سوال: لاہوری اور قادیانی مرزائیوں میں کیا فرق ہے؟ جب لاہوری مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ہی نہیں مانتے تو ان کی وجہ تکفیر کیا ہے؟ دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات کا جائزہ پیش کریں؟
جواب : مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والوں کے دو گروپ ہیں۔ ایک لاہوری دوسرا قادیانی۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور نورالدین کے زمانہ تک یہ ایک تھے۔ مارچ ۱۹۱۴ء میں نور الدین کے آنجہانی ہونے پر لاہوری گروپ کے چیف گرو محمد علی ایم اے اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ نورالدین کی جگہ محمد علی کو قادیانی جماعت کی زمامِ اقتدار سونپ دی جائے گی۔ مگر مرزا قادیانی کے خاندان کے افراد اور مریدوں نے نو عمر مرزا محمود کو مرزا قادیانی کی نام نہاد خلافت کی گدی پر بٹھادیا۔ محمد علی لاہوری اپنے حواریوں سمیت اپناسا منہ لے کر لاہور آگئے۔ تب سے مرزا قادیانی کی جماعت کے دو گروپ بن گئے۔ لاہوری و قادیانی۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ لڑائی صرف اور صرف اقتدار کی لڑائی تھی۔ عقائد کا اختلاف نہ تھا۔ اس لئے کہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی اور نورالدین کے زمانہ تک عقائد میں نہ صرف قادیانی گروپ کا ہمنوا تھا۔ بلکہ اب بھی یہ لاہوری گروپ مرزا قادیانی کو اس کے تمام دعاوی میں سچا سمجھتا ہے۔ امام، مامور من اﷲ، مجدد، مہدی، مسیح، ظلی و بروزی نبی وغیرہ۔ مرزا کے تمام کفریہ دعاوی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے عقائد کی ترویج اور توسیع اس کی کتب کی اشاعت کرتے ہیں۔ قادیانیوں نے لاہوریوں کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ اقتدار نہ ملنے کے باعث علیحدہ ہوئے ہیں۔ تو لاہوریوں نے اپنے دفاع کے لئے اقتدار کی لڑائی کو عقائد کے اختلاف کا چولا پہنادیا۔ لاہوریوں نے کہا کہ ہمیں قادیانیوں سے تین مسائل میں اختلاف ہے:
قادیانی گروپ مرزا کے نہ ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں۔ ہم ان کو کافر نہیں کہتے۔
قادیانی گروپ مرزا قادیانی کو قرآنی آیت :’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘ کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ ہم اس آیت کا مرزا قادیانی کو مصداق نہیں سمجھتے۔
قادیانی گروپ مرزا کو حقیقی نبی قرار دیتا ہے۔ ہم اسے حقیقی نبی قرار نہیں دیتے۔
اس پر ان کے درمیان مناظرے ہوئے۔ ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘ نامی کتاب میں دونوں کے تحریری مناظروں کی روئیداد شائع شدہ ہے۔ فریقین نے مرزا قادیانی کی کتب کے حوالہ جات دیئے ہیں۔ یہ خود مرزا قادیانی کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے کہ مرزا قادیانی کے دعاوی ایسے شیطان کی آنت کی طرح الجھے ہوئے ہیں کہ مرزا کے ماننے والے خود فیصلہ نہیں کرپائے کہ مرزا قادیانی کے کیا دعاوی تھے؟ لیکن یہ اقتدار کی رسہ کشی، اور نفس پرستی ہے۔ جب دو گروپ بن گئے ۔ ایک گروپ کا چیف مرزا محمود۔ دوسرے گروپ کا چیف محمد علی لاہوری قرار پائے۔ تو مرزا محمود نوجوان تھا۔ اقتدار اور پیسہ پاس تھا۔ اس نے وہ بے اعتدالیاں کیں کہ مرزا قادیانی کے بعض پکے مرید کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔ مرزا محمود کی جنسی بے راہ روی اور رنگینیاں اور سنگینیاں اس داستان نے قادیان سے لاہور تک کا سفر کیا۔ تو لاہوری گروپ نے تاریخ محمودیت، ربوہ کا پوپ، ربوہ کا مذہبی آمر، کمالات محمودیہ۔ ایسی دسیوں کتابیں لکھ کر مرزا محمود کی بدکرداریوں کو الم نشرح کیا۔ مرزا محمود نے جواب آں غزل کے طور پر لاہوریوں کو وہ بے نقط سنائیں کہ الامان والحفیظ۔ ذیل میں حوالے ملاحظہ ہوں:
’’فاروق ‘‘جناب خلیفہ قادیان کے ایک خاص مرید کا اخبار ہے۔ جناب خلیفہ صاحب! کئی مرتبہ اس کی خدمات کے پیش نظر اس کی توسیع اشاعت کی تحریک فرماچکے ہیں۔ سوقیانہ تحریریں شائع کرنے اور گالیاں دینے کے لحاظ سے اس اخبار کو قادیانی پریس میں بہت اونچا درجہ حاصل ہے۔
لاہوری جماعت اور اس کے اکابر کو گالیاں دینا اس اخبار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس کی ۲۸/ فروری ۱۹۳۵ء کی اشاعت میں ہمارے خلاف چند مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ان میں بے شمار گالیاں دی گئی ہیں۔ جن میں سے چند بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں:
(اخبار پیغام صلح لاہور مورخہ ۱۱/مارچ ۱۹۳۵ئ)
(۱)لاہوری اصحاب الفیل۔ (۲) اہل پیغام کی یہودیانہ قلابازیاں۔ (۳) ظلمت کے فرزند اور زہریلے سانپ۔ (۴) لاہوری اصحاب الاخدود۔ (۵) خباثت اور شرارت اور رزالت کا مظاہرہ۔ (۶) دشمنان سلسلہ کی بھڑکی ہوئی آگ میں یہ پیغامی لاہوری فریق عبادالدنیا وقودالنار بن گئے۔ (۷) نہایت ہی کمینہ سے کمینہ اور رذیل سے رذیل فطرت والا اور احمق سے احمق انسان۔(۸) اصحاب اخدود پیامی۔ (۹) دوغلے اور نیمے دروں نیمے بروں عقائد۔ (۱۰) بدلگام پیغامیو۔ (۱۱) حرکات دنیہ اور افعال شنیعہ۔ (۱۲) محسن کشانہ اورغدارانہ اور نمک حرامانہ حرکات۔ (۱۳) دورخے سانپ کی کھوپڑی کچلنے۔ (۱۴) تم نے اپنے فریب کارانہ پوسٹر میں… تک انگیخت اور اشتعال کا زور لگالیا۔ (۱۵)فوراً کپڑے پھاڑ کر بالکل عریانی پر کمرباندھ لی۔ (۱۶) ایسی کھجلی اٹھی تھی۔ (۱۷) رذیل اور احمقانہ فعل۔ (۱۸) کبوتر نما جانور۔ (۱۹) احمدیہ بلڈنگ (لاہوری جماعت کے مرکز) کے؟ کرمک۔ (۲۰)اے سترے بہترے بڈھے کھوسٹ۔ (۲۱) اے بدلگام تہذیب و متانت کے اجارہ دار پیامیو (فریق لاہور)۔ (۲۲) برخوردار پیامیو۔ (۲۳) جیسا منہ ویسی چپیڑ۔ (۲۴) کوئی آلو، ترکاری یا لہسن پیاز بیچنے بونے والا نہیں۔ (۲۵)جھوٹ بول کر اور دھوکے دے کر اور فریب کارانہ بھیگی بلی بن کر۔ (۲۶)لہسن پیاز اور گوبھی ترکاری کا بھائو معلوم ہوجاتا۔(۲۷)آخرت کی لعنت کا سیاہ داغ ماتھے پر لگے۔ (۲۸)اگر شرم ہو تو وہیں… چلو بھر پانی لے کر ڈبکی لگالو۔ (۲۹) یہ کسی قدر دجالیت اور خباثت اور کمینگی۔ (۳۰)علی بابا اور چالیس چور بھی اپنی مٹھی بھر جماعت لے کر بلوں میں سے نکل آئے ہیں۔(۳۱) بھلا کوئی ان پیامی ایروں غیروں سے اتنا تو پوچھے۔ (۳۲)سادہ لوح پیامی نادان دشمن۔ (۳۳)پیامیو عقل کے ناخن لو۔(۳۴) نامعقول ترین اور مجہول ترین تجویز۔ (۳۵) سادہ لوح اور احمق۔ (۳۶) اے سادہ لوح یا ابلہ فریب امیر پیغام۔ (۳۷)پیغام بلڈنگ کے اڑہائی ٹوٹرو۔(۳۸) احمق اور عقل و شرافت سے عاری اور خالی۔(۳۹) اہل پیغام (لاہوری فریق) نے جس عیاری اور مکاری اور فریب کاری سے اپنے دجل بھرے پوسٹروں میں۔ (۴۰)چاپلوسی اور پابوسی کا مظاہرہ۔ (۴۱) اہل پیغام کے دو تازہ گندے پوسٹر۔
(منقول از اخبار ’’فاروق‘‘ قادیان پیامی نمبر مورخہ ۲۸/ فروری ۱۹۳۵ئ)
لاہوری مرزائی بھی قادیانیوں کو گالیاں دینے میں کم نہ تھے۔ ملاحظہ ہو:
’’مولوی محمد علی صاحب (لاہوری) کا خطبہ جمعہ ۱۹/ اکتوبر ۱۹۴۵ء ہمارے سامنے ہے۔ یہ خطبہ بھی حسب معمول جماعت احمدیہ اور حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ تعالیٰ کے خلاف الزامات اور گالیوں سے پر ہے۔ جناب مولوی صاحب کی گالیوں کی شکایت کہاں تک کی جائے۔ ان کا جوش غیظ و غضب ٹھنڈا ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہم ان کی گالیاں سنتے سنتے تھک گئے ہیں۔ مگر وہ گالیاں دیتے دیتے نہیں تھکے۔ ہر خطبہ گزشتہ خطبہ سے زیادہ تلخ اور طعن آمیز ہوتا ہے۔ بدگوئی اور بدزبانی اب جناب مولوی صاحب کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ کوئی بات طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کی آمیزش کے سوا کرہی نہیں سکتے۔‘‘
(مضمون مندرجہ اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان ج۲۳، نمبر ۲۷۳، ص ۴ مورخہ ۲۲/نومبر ۱۹۴۵ء)
لیکن گالی گلوچ کی بوچھاڑ تو دونوں جماعتوں کی عادت ہے۔ کبھی ایک سبقت لے جاتی ہے کبھی دوسری۔ اس فن کی بنیاد خود مرزا قادیانی صاحب کی کتابوں میں رکھی گئی ہے۔ پس اتباع لازم ہے۔ مرزا محمود نے محمدعلی کی گالیوں کی شکایت کی۔ اب محمد علی کی مرزا محمود کے متعلق شکایت بھی ملاحظہ ہو:
’’خود جناب میاں محمود احمد صاحب نے مسجد میں جمعہ کے روز خطبہ کے اندر ہمیں دوزخ کی چلتی پھرتی آگ۔ دنیا کی بدترین قوم اور سنڈاس پر پڑے ہوئے چھلکے کہا۔ یہ الفاظ اس قدر تکلیف دہ ہیں کہ ان کو سن کر ہی سنڈاس کی بو محسوس ہونے لگتی ہے۔‘‘
(مولوی محمد علی صاحب قادیانی امیر جماعت لاہور کا خطبہ جمعہ مندرجہ اخبار ’’پیغام صلح‘‘ لاہور جلد۲۲، نمبر ۳۳، ص ۷ مورخہ ۳/جون۱۹۳۴ء)
مسلمانوں نے (لاہوری و قادیانی)دونوں کی اس باہمی چخ بخ کو ایک سکہ کے دورخ قرار دیا۔ ایک گرو کے دو چیلوں کی اخلاق باختگی کو مرزا قادیانی کی روحانی تربیت کا نتیجہ قرار دیا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سے کسی نے پوچھا کہ لاہوریوں و قادیانیوں میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فی البدیہہ فرمایاکہ برہردولعنت، خنزیر، خنزیر ہوتا ہے، چاہے گورے رنگ کا ہو یا کالے رنگ کا۔ کفر کفر ہے۔ چاہے لاہوری ہو یا قادیانی۔ لاہوریوں کا مرکز لاہور میں ہے۔ قادیانیوں کا مرکز پاکستان بننے کے بعد چناب نگر اور اب ان کا مرکز بہشتی مقبرہ سمیت لندن کو سدھار گیا ہے۔ تمام علمائے اسلام نے دونوں گروپوں کے کفر کا فتویٰ دیا۔ قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک سب نے دونوں کو کافرو غیر مسلم گردانا۔
محمد ابو بکر صدیق
ختم نبوت فورم
No comments:
Post a Comment