Biwi Par khawind ke kaun kaun se Huqooq hai?
بیوی پر خاوند کے حقوق
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق تو بیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ) ۔
جصاص رحمہ اللہ کا کہنا ہے :
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں ، اورخاوند کو بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی کے خاوند پر نہیں ۔
اورابن العربی کا کہنا ہے :
یہ اس کی نص ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور نکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔
اور ان حقوق میں سے کچھ یہ ہیں :
ا – اطاعت کا وجوب :
اللہ تعالی نے مرد کو عورت پر حاکم مقرر کیا ہے جو اس کا خیال رکھے گا اور اس کی راہنمائی اور اسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے نوازا ہے ، اور اس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیںالنساء ( 34 ) ۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں یعنی وہ ان پر حاکم اور امیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اور اس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اور اس کے مال کی محافظ ہوگی ۔
مقاتل ، سدی ، اورضحاک رحمہم اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 492 ) ۔
ب – خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا :
خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اور وہ جماع کی اہل بھی ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے ۔
وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اور عورت اگر مطالبہ کرے تو اسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کےلیے اپنے آپ کو تیار کر لے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اور یہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے ۔
اور جب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے اور وہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہو تو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی انکار کردے تو خاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔
ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا :
خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔
سلیمان بن عمر و بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا :
( عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور میری نصیحت قبول کرو ، وہ تو تمہارے پاس قیدی اور اسیر ہيں ، تم ان سے کسی چيز کے مالک نہيں لیکن اگر وہ کوئي فحش کام اور نافرمانی وغیرہ کریں تو تم انہيں بستروں سے الگ کردو ، اور انہیں مار کی سزا دو لیکن شدید اور سخت نہ مارو ، اگر تو وہ تمہاری اطاعت کرلیں توتم ان پر کوئي راہ تلاش نہ کرو ، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اور تمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو ، اور نہ ہی اسے اجازت دے جسے تم نا پسند کرتے ہو ، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور انہیں کھانا پینا اور رہائش بھی اچھے طریقے سے دو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1163 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اور ان کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا :
خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔
شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اور خاوند کو اس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔
ھـ - تادیب : خاوند کو چاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اور احسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو اطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اور ہلکی سی مارکی سزا دے کر ادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔
علماء احناف نے چار مواقع پر عورت کو مار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :
1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اور بیوی اسے ترک کردے
2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہو اور خاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے تو بیوی انکار کر دے ۔
3- نماز نہ پڑھے ۔
4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔
تادیب کے جواز پر دلائل :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں ڈر اور خدشہ ہو انہيں نصیحت کرو ، اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اور انہیں مار کی سزا دو النساء ( 34 ) ۔
اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنےاہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں التحریم ( 6 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : آپ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ، اوراللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کرنے سے روکیں ، اور ان پر اللہ تعالی کے احکام نافذ کریں ، انہیں ان کا حکم دیں ، اور اس پر عمل کرنے کے لیے ان کا تعاون کریں ، اورجب انہیں اللہ تعالی کی کوئی معصیت و نافرمانی کرتے ہوئے دیکھیں تو انہیں اس سے روکیں اور اس پر انہیں ڈانٹیں ۔
ضحاک اورمقاتل رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسی طرح کہا ہے :
مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں ، گھر والوں اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اللہ تعالی کے فرائض کی تعلیم دے اور جس سے اللہ تعالی منع کیا ہے وہ انہیں سکھائے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 392 ) ۔
و – بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا :
اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپر بیان ہوچکا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:
بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اور احسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اور یہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، تو ایک دیھاتی عورت کی خدمت شہر میں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اور اسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزور اور ناتواں عورت کی طرح نہیں ہو سکتی.
دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔
ز - عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا :
جب عقد نکاح مکمل اور صحیح شروط کے ساتھ پورا اور صحیح ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کر دے اور اسے استمتاع ونفع اٹھانے دے ، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے ، جو کہ استمتاع اور نفع کی صورت میں ہے ، اور اسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔
ح – بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت :
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ البقرۃ ( 228 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت ، اور اچھے اور احسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پر اسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے ۔
اور یہ بھی کہا گيا ہے :
ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اور ضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے ۔ یہ امام طبری کا قول ہے ۔
اور ابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پر بھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کريں اور ڈريں ۔
اور معنی قریب قریب سب ایک ہی ہے ، اورمندرجہ بالا آیت سب حقوق زوجیت کوعام ہے ۔
دیکھیں تفسیر القرطبی ( 3 / 123- 124 )
No comments:
Post a Comment