Hajj o Umra Ke Liye Aurat Ka Chehre Chhipana kis tarah Jayez hai?
حج عمرہ اور عورت کے چہرے کا پردہ
دوبرس قبل میں حج پرگئي تومیں نے نقاب کیے رکھا ، پھرمجھے علم ہوا کہ دوران حج چہرہ ڈھانپنا جائز نہيں ، لیکن جب میں نے نقاب کیا تومجھے باوثوق ذرائع سے کہا گيا تھا کہ چہرہ ڈھانپنا جائز ہے؟
الجواب بعون الوهاب:
الحمد لله
1 - عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا اور اسے چھپانا اخلاق حسنہ میں شامل ہوتا ہے اللہ تعالی پردہ کرنے والیوں پربہت زيادہ رحم کرے ، میری دینی بہن شائد آپ کا سوال صرف دین کی حرص کی بنا پرہی ہے – اللہ تعالی آپ کی حرص اور زيادہ فرمائے – لیکن سب سے بڑی حرص یہ ہے کہ ہم ان دینی احکامات کی پابندی کریں جوعورت کو نماز ، اورحج میں نقاب اتارنے کا کہتے ہیں ۔
اورخاص کر نماز میں توکسی بھی حالت میں چہرہ ڈھانپنا حلال نہيں صرف اس صورت میں کہ اگر کوئي غیر محرم مرد موجود ہو تو ، اور حج میں عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے چہرہ کو چادر سے چھپائے لیکن اس کے لیے نقاب پہننا جائز نہيں نقاب جسے برقع کہا جاتا ہے ( یعنی چہرے کے ساتھ چمٹ والے نقاب جو دونوں طرف سے باندھا جاتا ہے ) عورت کےلیے احرام کی حالت میں اسے باندھنا جائز نہيں ۔
لیکن اس کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ اپنے چہرہ کو اپنی اوڑھنی کے ذریعہ یعنی سر سے کپڑا نیچے ڈال کر چہرہ چھپائے ( یعنی جب غیر محرم مرد سامنے آئيں تو اسے چہرہ چھپانا ہوگا ) لیکن اگر نقاب کے علاوہ اورکچھ ملنا مشکل ہو اور اس کے سامنے غیر محرم مرد آجائيں تو اس حالت میں وہ نقاب کے ذریعہ ہی اپنا چہرہ چھپا لے وگرنہ نہيں ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص کھڑے ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں آپ ہمیں کیا پہننے کا حکم دیتے ہيں ؟
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم نہ توقمیص پہنو اورنہ ہی سلوار اور پاجامے ، اور نہ ہی پگڑی باندھو اورنہ ٹوپی پہنو ، لیکن اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر پہن لے ، اور تم زعفران اور ورس لگی ہوئي کوئي چيز نہ پہنو ، اور احرام والی عورت نقاب نہ کرے اور نہ ہی دستانے پہنے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1468 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1177 ) ۔
2 - اور اجنبی اور غیر محرم مردوں کے ڈر سے نقاب کے علاوہ کوئي کپڑا وغیرہ لٹکا کر چہرہ چھپانے کے جواز کے بارہ میں کئی ایک صحابیات سے ثابت ہے کہ وہ ایسا کیا کرتی تھیں :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں تو ہم احرام کی حالت میں تھیں ، جب ہم سے کوئي قافلہ ملتا تو ہم اپنے چہرے پر کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں ۔ سنن ابود اود حدیث نمبر ( 1833 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2935 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وارد نہيں کہ آپ نے احرام والی عورت پر چہرہ ڈھانپنا حرام کیا ہو ، بلکہ آپ نے اس پر صرف نقاب کرنا حرام کیا ہے کیونکہ چہرے کا لباس ہے ، اورنقاب اورچہرہ ڈھانپنے میں فرق ہے ، لھذا اس بنا پر اگر احرام والی عورت سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تو ہم کہيں گے :
اس میں کوئي حرج نہيں لیکن افضل یہ ہے کہ جب اس کے ارد گرد غیرمحرم مرد نہ ہوں تووہ چہرہ ننگا رکھے ، اس کے لیے ان غیر محرم مردوں سے چہرا چھپانا واجب ہے ۔ دیکھیں : الشرح الممتع ( 7 / 153 ) ۔
3 - جو کچھ آپ کے ساتھ حج میں گزرا اور جو صورت آپ نے ذکر کی ہے اس کی نسبت ہم یہ کہیں گے کہ جہالت کی بنا پر آپ کے معذور ہونے کی وجہ سے آپ کے ذمہ کچھ لازم نہيں آتا ، اور احرام کی حالت میں جتنی بھی محظورات جہالت یا بھول کرکی جائيں اس پر کوئي گناہ نہيں ہوتا اور نہ ہی فدیہ لازم آتا ہے
یعلی بن امیۃ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جعرانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا اوراس کی داڑھی اورسر پرزرد رنگ کی خوشبو لگي ہوئي اوراس پرایک جبہ تھا وہ کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میں عمرے کا احرام باندھا ہے اوراس حالت میں ہوں جسے آپ دیکھ رہے ہيں :
تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :
اپنے اوپرسے جبہ اتار دو اوریہ زرد رنگ ( کی خوشبو) دھو ڈالو ، اورجو کچھ تم اپنے حج میں کرنےوالے تھے وہی اپنے عمرہ میں کرو ۔ دیکھیں : صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1697 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1180 ) ۔
اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اورنسیان وبھول کی طرح ہی جہالت اوراکراہ یعنی جبر بھی ہے : یعنی اگرکسی انسان نے احرام کی حالت میں بھول کرکپڑے پہن لیے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا ، لیکن صرف اتنا ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے تووہ فورا کپڑے اتارے اوراوپرنیچے دوچادریں پہن لے ۔
اوراسی طرح خوشبوبھی ہے کہ اگراس نے بھول کراحرام کی حالت میں خوشبواستعمال کرلی تواس پرکچھ بھی لازم نہيں آتا ،لیکن یہ ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اسے دھونے میں جلدی کرے ۔
دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین ( 7 / 222 ) ۔
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment