Eid miladunnabi manane walo ke dalil ka jayeza.
12 rabiawwal manane ka hukm kya Islam deta hai?
Eid miladunnabi manane wale aur nahi manane wale (Ahlehadees) bhaiyon ke bich munazira.
|
Eid Milad Un Nabi Ki Haqeeqat |
پیغام حق آگے شیئر کریں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(( میلاد کی شرعی حیثیت ))
تمام مسلمان بھائیوں سے میری گزارش ہے کہ میری اس تحریر کو ایک بار ضرور پڑھیں، حق سمجھ آجاۓ گا۔ ان شاءاللہ۔
نوٹ : یہ خیالی مکالمہ صرف عوام کو بات سمجھانے کی غرض سے پیش کیا گیا ہے۔
میلادی بھائی : السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔
اھلحدیث : وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ۔
میلادی : بھائی کیا مسئلہ ہے؟
ربیع الاول کا مہینہ ہے پھر بھی آپ کے گھر ؛ گاڑی وغیرہ پر سبز نعلین والا پرچم نظر نہیں آرہا ؟ نہ ہی کوئی چراغاں ؟ نہ ہی کوئی جشن کا سماں ؟؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ محبت نہیں کرتے ؟؟؟
اھلحدیث : بھائی ہمیں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میلاد منانے سے روکتی ہے ۔
میلادی : وہ کیسے ؟؟
اھلحدیث : محترم کیا مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ سے چند سوال کرلوں۔
میلادی : جی ہاں بڑے شوق سے ۔
اھلحدیث : کیا میلاد نیکی ہے ؟؟
بریلوی : جی ہاں نیکی والا مبارک عمل ہے۔
اھلحدیث : کیا اس نیکی کا علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا ؟؟
بریلوی : جی ہاں ۔
اھلحدیث : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال بارہ ربیع الاول کو یہ دن کیوں نہیں منایا ؟؟
اس نیکی کو امت کے سامنے کیوں نہیں پیش فرمایا ؟؟؟
کیا آپ علیہ السلام نے اس نیکی کو امت سے چھپا دیا ؟؟ نعوذباللہ آپ نے تو گستاخی والے جملے بولے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نیکی کو جانتے تھے پھر بھی امت سے چھپا دیا ؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ؛ اللہ کے دین اور نیکی کے کام کو کیسے چھپا سکتے ہیں؟؟
حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( وما ھو علی الغیب بضنین )
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب ( نازل شدہ وحی الٰہی ) کے معاملات میں بخیل نہیں ۔ ( بلکہ سب کچھ بیان فرمادیا).
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّهُ ليس شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى الجنةِ إلّا قد أَمَرْتُكُمْ بهِ، وليس شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى النارِ إِلّا قد نَهَيْتُكُمْ عنهُ. رواه عبدالرزاق الصنعاني و ابن ابي شيبة وغيرهما و ذكره الالباني ورحمه الله تعالى في السلسلة الصحيحة وقال حسن علي علي اقل الاقوال . ح= 2866.
یعنی : ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب پہنچا دے ؛ میں نے یقینا اس کا حکم تمہیں دے دیا ہے اور ہر وہ چیز جو تمہیں آگ کے قریب پہنچا دے میں نے یقین اس سے تمہیں روک دیا ہے ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور جنت میں پہنچانے والی ہر ایک نیکی کو ذکر فرما دیا ہے تو آخر میلاد کا ذکر کیوں نہیں کیا؟؟؟
بالفرض اگر آپ کی بات کو تسلیم کیا جائے تو نتیجہ نکل رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میلاد کی مشروعیت جانتے تھے لیکن بیان نہیں کی تو آپ کی رسالت پر قدح و عیب لازم آتا ہے کیوں کہ قرآن مقدس کہہ رہا ہے (يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك فان لم تفعل فما بلغت رسالته )
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ پہنچا دیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ کے رب کی طرف سے؛ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے رسالت کو نہیں پہنچایا۔
معزز بھائی ! مذکورہ آیت نے فیصلہ کردیا جو یہ کہتاہے کہ فلاں کام بھی نیکی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان نہیں فرمایا گویا کہ اس شخص نے رسول اللہ سلم پر خیانت کا الزام لگا دیا جیسا کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے: من ابتدع في الاسلام بدعة يراها حسنه فقد زعم ان محمدا ( صلى الله عليه وسلم ) خان الرسالة لان الله يقول ( اليوم أكملت لكم دينكم ) فما لم يكن يومئذ دينا فلا يكون اليوم دينا .
الاعتصام ـ للشاطبى : ج 1 / ص 49 .
جس نے دین اسلام میں نیا کام ایجاد کیا اور اسے اچھا سمجھتا ہے گویا کہ اس نے سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کے اندر خیانت کی ہے (اور یہ حکم چھپا دیا ہے )حالانکہ اللہ رب العالمین فرما رہا ہے: آج میں نے تمہارا دین پورا کر دیا ہے ؛ بس جو چیز رسول اللہ سلم کے دور میں دین نہیں تھی وہ آج کبھی بھی دین نہیں بن سکتی۔
بریلوی میلادی لا جواب ہو کر بولتا ہے : یہ نیکی تو ہے لیکن شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکو نہیں جانتے تھے۔
اھلحدیث : میرے پیارے بھائی یہ تو آپ نے پھر اسلامی اصولوں کی مخالفت کر دی! جو نیکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کو معلوم نہیں تھی وہ نیکی کیسے ہو سکتی ہے؟؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر وہ نیکی بتا دی جو اللہ کے ہاں نیکی ہے اور جو انسان کو جنت تک پہنچا سکتی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إنَّهُ ليس شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى الجنةِ إلّا قد أَمَرْتُكُمْ بهِ.
رواه عبدالرزاق الصنعاني و ابن ابي شيبة وغيرهما و ذكره الالباني ورحمه الله تعالى في السلسلة الصحيحة وقال حسن علي علي اقل الاقوال . ح= 2866.
یعنی : ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب پہنچا دے ؛ میں نے یقینا اس کا حکم تمہیں دے دیا ہے .
امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے کسی شخص نے اجازت طلب کی کہ وہ مسجد نبوی سے احرام باندھے کیا اس کے لئے جائز ہے؟
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس شخص کو منع فرماتے ہیں اور کہتے ہیں یہ فتنہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ جگہ سے احرام باندھا تھا؛ وہ شخص کہنے لگا یہ فتنہ کیسے ہے ؟ میں تو چند میل پہلے احرام باندھ رہا ہوں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقعہ پر عظیم الشان جملے ارشاد فرمائے:
: وَأَيُّ فِتْنَةٍ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ تَرَى أَنَّكَ قَدْ سَبَقْتَ إِلَى فَضِيلَةٍ قَصَّرَ عَنْهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ إِنِّي سَمِعْتُ اللهَ يَقُولُ : (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (24 : 63)
نَقَلَہ الْعَلَّامَةُ الشَّاطِبِيُّ فِي الِاعْتِصَامِ (ص : 167 ج1 و198 ج2)
اس سے بڑا فتنہ کیا ہوسکتا ہے ؟؟؟ کہ آپ کا خیال ہو کہ میں وہ فضیلت والا کام کر رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ کرسکے !!! (حالانکہ مسجد نبوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے وہاں سے احرام نہیں باندھا )
اللہ رب العالمین تو فرما رہا ہے ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے یے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں کہ کہیں انھیں فتنہ نہ آ پہنچے یا انہیں درد ناک عذاب آ پہنچے۔
پیارے بھائی آپ غور کریں کیا 12 ربیع الاول کا دن رسول اللہ سلم کے یا صحابہ کے دور میں نہیں آتا تھا ؟ لیکن آپ نے میلاد کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟؟؟
اگر یہ نیکی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ ضرور کرتے ۔
لہذا محبت رسول ہمیں یہی کہتی ہے کہ میلاد نہ منائیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر پر قدح یا عیب لازم آتا ہے۔
میلادی : بھائی آپ نے تو میرے ایمان کو جھنجھوڑ دیا ہے اور میں تو آپ سے ہونے والی گفتگو سے نکلنے والے نتیجہ پر ہی غور فکر کر رہا ہوں، بھائی! کیا میں کچھ سوالات کر سکتا ہوں؟
اھلحدیث : جی بڑے شوق سے۔
میلادی : کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میلاد منانے سے منع کیا ہے؟
اھلحدیث : پیارے بھائی سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ عبادات اور نیکی کے کاموں کے حوالے سے یہ سوال ہی فضول ہے بلکہ جو شخص کوئی بھی عمل کرتا ہے اس کو اپنے عمل کے ثبوت کے لئے شریعت مطہرہ سے دلیل دینی پڑے گی ورنہ وہ عمل بدعت ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا =من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد. رواه مسلم ح=1718
جس نے کوئی بھی ایسا کام ( دین میں) کیا جس کے بارے میں ہم نے حکم نہیں دیا اس کا وہ کام مردود ہے۔
پیارے بھائی اگر یہی اصول آپ اپناتے جائینگے کہ منع دکھاؤ؟ تو پھر آپ راہ راست سے کوسوں دور نکل جائیں گے اور اسلام کا حلیہ مسخ وتبدیل ہو جائے گا وہ سوال جنم لینگے جن کا جواب آپ قیامت تک نہیں دے سکتے۔ مثلا:
کوئی شخص مغرب کی نماز چار رکعت پڑھے اور کہے منع دکھاؤ؟
کوئی شخص عصر ؛ ظہر اور عشاء کی پانچ یا تین رکعت پڑھے اور کہے منع دکھاؤ؟
کوئی ایک رکعت میں تین سجدے کرے اور کہے منع دکھاؤ؟
کوئی شخص کلمہ میں (علی ولی اللہ ) ملا دے اور کہے منع دکھا دو؟
کوئی شخص فرضی نماز کے سجدہ میں درود پڑھنےکو لازمی سمجھے اور پڑھے اور کہے منع دکھا دو؟
کوئی شخص حج شوال میں کرے اور کہے منع دکھاؤ؟
کوئی شخص کہے کہ حائضہ عورت؛ روزہ کے ساتھ نماز بھی قضا کرے گی پاک ہونے کے بعد ؛ کیونکہ نماز کے قضا کی منع نہیں اور روزہ سے اھم عبادت ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
آپ کے اصول کو اگر مانا جائے آئے تو اس طرح کے کئی ایک سوالات پیدا ہونگے جن کا آپ جواب نہیں دے سکتے۔
پیارے بھائی ایک اہم ترین اصول یاد رکھیں جس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہوں کوئی رکاوٹ نہ ہو لیکن پھر بھی نہ کیا ہو تو اس کام کو نہ کرنا بھی سنت ترکی ہے؛جیسے مذکورہ سوالات مثلا : آپ صلی علیہ وسلم مغرب کی چار رکعات پڑھ سکتے تھے لیکن آپ نے نہیں پڑھیں لہذا مغرب کی چار رکعات نہ پڑھنا اور تین پڑھنا سنت ترکی پر عمل ہے ۔
اس کی دوسری مثال شھداء کی شہادت کے دنوں کو ہر سال سوگ سے گذارنا اور ماتم وغیرہ کرنا۔
پیارے بھائی آپ غور کریں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں احد وغیرہ کے اندر صحابہ شہید نہیں ہوئے ؟؟ لیکن آپ نے ہر سال ان شھداء کی شہادت کے دنوں کو، کیا اس طرح گذارا تھا جس طرح آج کل ہمارے معاشرے میں محرم الحرام کے دنوں میں مناظر نظر آتے ہیں؟ قطعا نہیں ؛ حالانکہ آپ ہر سال سوگ اور ماتم وغیرہ کر سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کاموں کو نہ کرنا سنت ترکی ہے۔
اسی طرح پیارے بھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت میں آپ کی پیدائش کا دن تقریباً 22 بار آیا لیکن آپ نے اس دن کو عید یا خوشی کا دن سمجھتے ہوئے اس دن کو نہیں منایا لھذا اس دن کو نہ منانا بھی سنت ترکی ہے؛ یعنی اھلحدیث کی زندگیوں سے پیدائش رسول صلی علیہ وسلم کا دن ایسے گذرتا ہے جیسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے گذرتا تھا۔
میلادی : بھائی آپ نے میرے ذھن میں انقلابی لہر پیدا کردی ہے ؛ کیا سنت ترکی کی وضاحت احادیث شریفہ یا صحابہ اور سلف سے ملتی ہے؟؟
اھلحدیث : جی پیارے بھائی اس حوالے سے بے شمار دلائل موجود ہیں ہم کچھ احادیث اور صحابہ کے مثالوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
مثال نمبر :ایک۔
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: ""أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"".
تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے تم میں سے سب سے زیادہ ڈرنے والا میں ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ «فمن رغب عن سنتي فليس مني» میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ 5063 بخاری شریف۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ تینوں افراد نے وہ کام کرنا چاہا تھا جس سے منع نہیں تھی یا ان میں سے اگرچہ بعض کاموں کی منع تھی لیکن ان کو پتہ نہیں تھا انکی تو سوچ یہ تھی کہ زیادہ عبادت کریں اور اس طرح عبادتی زیادتی سے روکا نہیں گیا لھذا جائز ہے ہم کر سکتے ہیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں روک دیا اور حکم جاری فرمایا کہ شب روز میرے طریقے کے مطابق گذاریں۔
صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی بھی نظریہ تھا جس کام کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے نہیں کیا اور ترک کیا صحابہ اس کو نہیں کرتے تھے۔
مثال نمبر:دو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قال: جِئْتُ إِلَى شَيْبَةَ. ح وحَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قال: ""جَلَسْتُ مَعَ شَيْبَةَ عَلَى الْكُرْسِيِّ فِي الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: لَقَدْ جَلَسَ هَذَا الْمَجْلِسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ إِلَّا قَسَمْتُهُ، قُلْتُ: إِنَّ صَاحِبَيْكَ لَمْ يَفْعَلَا، قَالَ: هُمَا الْمَرْءَانِ أَقْتَدِي بِهِمَا"". راوه البخاري 1594.
ابو وائل کہتے ہیں میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے ( ایک مرتبہ ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں ( جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا ) بلکہ سب کو نکال کر ( مسلمانوں میں ) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں ( اسی لیے میں اسکو ہاتھ نہیں لگاتا ) ۔
اس روایت پر غور کریں کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں کیا پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں کیا؛ حالانکہ منع نہیں تھی۔
مثال نمبر:تین
أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: ""أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ"". رواہ البخاری ح: 321.
ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتی ہیں ( حیض سے ) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے ( یعنی جو نماز ایام حیض میں رہ گئی ہے وہ قضا کریں؟)۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز ( قضا) کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم ( ایام حیض میں رہنے والی ) نماز نہیں پڑھتی تھیں۔
اس روایت پر غور کریں جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے حائضہ کی رہی ہوئی نمازوں کی قضا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے دلیل یہ دی کہ ھم نہیں کرتے تھے یا ہمیں حکم نہیں دیا گیا لھذا ثابت ہوا جس عمل کا رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا اور آپ کے دور میں عمل نہیں کیا گیا وہ کبھی بھی دین نہیں ہوسکتا۔
مثال نمبر: چار۔
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ أُمِّ الْحَكَمِ يَخْطُبُ قَاعِدًا فَقَالَ انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْخَبِيثِ يَخْطُبُ قَاعِدًا وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا۔۔۔ رواہ مسلم ح:2001
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں آئے ، دیکھاکہ عبدالرحمان بن ام حکیم بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے ، انھوں نے فرمایا : اس خبیث کودیکھو ، بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : " اور جب وہ تجارت یا کوئی مشغلہ دیکھتے ہیں تو ادھر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کوکھڑا چھوڑ جاتے ہیں ۔ "
اس روایت پر غوروفکر کریں کسی حدیث میں بیٹھ کر خطبہ دینے سے منع نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی صحابی نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ قابل غور ہیں۔
مثال نمبر:پانچ۔
و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ قَالَ رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ فَقَالَ قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الْمُسَبِّحَةِ۔۔ رواہ مسلم 2016.
عبداللہ بن ادریس نے حصین سے اور انھوں نے حضرت عمارہ بن رویبہ ( ثقفی ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : انھوں نے بشر بن مروان ( بن حکم ، عامل مدینہ ) کو منبر پر ( تقریر کے دوران ) دونوں ہاتھ بلند کرتے دیکھا تو کہا : اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو بگاڑے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس سےزیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا ۔
اس روایت پر غوروفکر کریں خطبہ کے دوران دونوں ہاتھ بلند کرنے سے کہیں پر منع نہیں ہے لیکن پھر بھی صحابی نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ قابل توجہ ہیں۔
مثال نمبر:چھ۔
اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان افراد کے پاس آئے جو مسجد میں حلقوں کی شکل میں بیٹھے تھے اور ان کے ہاتھ میں پتھریاں تھیں ایک شخص ان کو کہہ رہاتھا تا ایک سو مرتبہ اللہ اکبر کہو ایک سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہو ۔
جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان افراد کو فرمایا: تم یہ کیا کر رہے ہو؟ان لوگوں نے کہا :
اے ابوعبداالرحمان ! ہمیں ان پتھریوں کے ذریعے اللہ اکبر ؛لا الہ الا اللہ؛ سبحان اللہ پڑھ کر شمار کر رہے ہیں۔
اس کے بعد ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ويحكم يا امة محمد صلى الله عليه وسلم ما اسرع هلكتكم هؤلاء صحابه نبيكم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وانيته لم تكسر والذي نفسي بيده انكم لعلي ملة هي اهدي من ملة محمد صلى الله عليه وسلم او مفتتحوا باب ضلالة.
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کے لوگو تمہارے لئے ھلاکت ھو تم کتنے ہی جلدی ہلاکت کے قریب پہنچ چکے ہو حالانکہ تمہارے بیچ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ایک صحابہ موجود ہیں اور یہ آپ علیہ السلام کے کپڑے ابھی پھٹے نہیں؛ آپ کے برتن موجود ہیں جو ابھی تک ٹوٹے نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔تم اپنے خیالات میں اس دین پر عمل کرنا چاہتے ہو جو ہدایت کی زیادہ قریب ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ دین سے ( یہ ناممکن ہے) تم لوگ تو گمراہی کے دروازے کھول رہے ہو۔
ان لوگوں نے کہا اے ابوعبدالرحمن ہمارا تو خیر کا ارادہ ہے۔ ( کیونکہ ہم ذکر کر رہے ہیں)
تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: كم من مريد للخير لن يصيبه.
کتنے افراد ایسے ہیں جو خیر (نیکی) تو چاہتے ہیں لیکن انہیں خیر نصیب نہیں ہوتا۔( سنت کی مخالفت کی وجہ سے)۔ روہ الدارمی بسند صحیح ح:209.
اس روایت پر غور و فکر کریں وہ افراد اللہ کا ذکر کر رہے تھے لیکن ان کا طریقہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ نہیں تھا عمل اگرچہ اچھا ہی تھا لیکن یہ طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ نہیں تھا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں بہت زیادہ ڈانٹا اور گمراہ افراد کی لسٹ میں شامل فرما دیا۔
پیارے بھائی ! اگر آپ کے پیش کردہ اصول کو تسلیم کریں تو یہاں پر بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین اسلام نے اس طرح حلقوں میں بیٹھ کر پتھروں پر ذکر کرنے سے روکا تو نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں گمراہ قرار دیا۔
پیارے بھائی سلف صالحین کا بھی یہی منھج تھا جس کام کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے نہیں کیا حالانکہ آپ کرسکتے تھے اس کو نہیں کرنا چاہیے، ہم چند اقوال ذکر کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ الاقتضاء (2/102-103)میں فرماتے ہیں:
فأما ما كان المقتضي لفعله موجودا لو كان مصلحة ، وهو مع هذا لم يشرعه ، فوضعه تغيير لدين الله ، وإنما دخل فيه من نسب إلى تغيير الدين ، من الملوك والعلماء والعباد .
یعنی : اگر کسی عمل کے کرنے کے تقاضے موجود ہوں اور اس میں مصلحت بھی ہو پھر بھی آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس عمل کو مشروع قرار نہیں دیا تو اس عمل کو ( شریعت اور نیکی ) سمجھ لینا اللہ کے دین میں تبدیلی ہے اور اس دروازے سے وہی افراد داخل ہوئے ہیں جن کی طرف کی دین کی تبدیلی ( بدعت) منسوب ہے ؛ بادشاہ ؛ ( برے) علماء اور وہ بہت زیادہ عبادت گذار ( جو شرعی حدود کا خیال نہیں کرتے )۔
یاد رکھیں! میلاد منانا بھی ان عمال کی لسٹ کے اندر داخل ہے جن کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے مشروع قرار نہیں دیا تھا۔
امام زركشي رحمۃ اللہ علیہ البحر المحيط (4/191) میں فرماتے ہیں: الْمُتَابَعَةَ كما تَكُونُ في الْأَفْعَالِ تَكُونُ في التُّرُوكِ.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت جس طرح ان افعال میں کرنا ضروری ہے جو آپ نے کیے ہیں اسی طرح ان افعال میں بھی جو آپ نے نہیں کیے۔
امام ابن خزيمة اپنی صحيح میں عنوان قائم کرتے ہیں(2/550): بَابُ تَرْكِ الصَّلاَةِ فِي المُصَلَّى قَبْلَ الْعِيدَيْنِ وَبَعْدَهَا اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ وَاسْتِنَانًا بِهِ.
باب اس حوالے سے کہ عید گاہ میں عیدین کے دنوں میں ( عید نماز سے) پہلے اور بعد میں نماز کو چھوڑ دینا ؛ ر سول اللہ سلم کی اتباع کرتے ہوئے اور ان کے طریقے چلتے ہوئے۔
حالانکہ احادیث میں میں عید نماز سے پہلے اور بعد میں میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں گیا۔
اس طرح کئی ایک سلف کے اقوال موجود ہیں۔
پیارے بھائی ! آپ کا پیش کردہ اصول دنیاوی کاموں کے اندر تو جاری ہو سکتا ہے مثلا :کوئی سائیکل یا کار وغیرہ کی سواری کرنے سے روکے تو اسے کہا جائے گا منع کی دلیل دکھاؤ ؟؟؟ کیونکہ دنیاوی معاملات کے حوالے سے یہ اصول ہے سب کچھ جائز اور مباح ہے علاوہ ان کاموں کے جن کے لئے شریعت مطہرہ نے ممانعت کردی ہے۔
لیکن دینی معاملات میں یہ اصول قطعا جاری نہیں ہوگا بلکہ دینی معاملات میں اصول یہ ہے کہ جو شخص کوئی کام بطور ثواب کرتا ہے اس کو دلیل دینی پڑتی ہے جو نہیں کرتا اس سے منع کی دلیل نہیں مانگی جاسکتی۔
پیارے بھائی! یاد رکھیں جو شخص وہ کام کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور اسے نیکی تصور کرتا ہے گویا کہ وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ میرا علم نیکیوں کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے اور یہ صریح گستاخی ہے تو ایسا شخص اپنے ذہن کے مطابق اس خودساختہ عمل کو نیکی تصور کرتا ہے لیکن اللہ کے ہاں وہ بدعت ہے۔
میلادی: محترم اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے آپ نے تھوڑے ہی وقت میں میرے ذھن کو صاف فرما دیا اور میرے ذھن سے بدعت کے زنگ کو اتار دیا ؛ لیکن میرے ذھن میں دیگر کچھ سوالات ہیں کیا میں پیش کر سکتا ہوں؟؟
اھلحدیث: جی ضرور کریں؟
میلادی: کیا میلاد بدعت حسنہ نہیں ہے ؟ میں نے اپنے علماء سے یہی سنا ہے ۔
اھلحدیث : پیارے بھائی دین میں کوئی بدعت حسنہ نہیں بلکہ ہر بدعت بری اور گمراہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے
إِيَّاكُمْ وَمُحْدَ ثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " رواہ أحمد ح:17144.
تم دین میں نئے کام ایجاد کرنے سے بچو بےشک دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
ایک روایت میں الفاظ ہیں :وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ".رواہ النسائی۔ح: 1578 ۔
اور سب سے برا کام دین میں نیا کام ہےاور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جھنم میں لے جائے گی۔ یہی مفہوم مسلم شریف میں بھی موجود ہے۔
لھذا یہ مولویوں کی خود ساختہ تقسیم ہے اسلام میں اسکا کوئی تصور یاد رکھیں دین میں؟ ہر نیا کام بدعت لھذا اس سے بچنا چاہیے۔
میلادی : بھائی چلیں آپ بتائیں اس میلاد کی ابتدا کب ہوئی ؟
اھلحدیث : پیارے بھائی اس مروّجہ جشنِ عید ِمیلاد ِالنبی کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ،اس کا آغازچوتھی صدی ہجری میں ہوا ، سب سے پہلے مصر میں نام نہاد فاطمی شیعوں نے یہ جشن منایا۔
(الخطط للمقریزی : ١/٤٩٠وغیرہ) اس حوالے کو شیخ امن پوری حفظہ اللہ نے اپنے مقالہ میں ذکر کیا ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذٰلِکَ صَاحِبُ أَرْبَلَ الْمَلِکُ الْمُظَفَّرُ أَبُو سَعِیدٍ کَوْکَبْرِيٌّ ۔۔۔
''سب سے پہلے جس نے اسے ایجاد کیا وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری تھا۔''
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ١/١٨٩ [٢٤]
كوكبري کی وفات 549 ھ بتائی جاتی ہے۔
خود بریلوی علماء بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں چنانچہ احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ .
میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔''(جاء الحق : ج1 ص236)
بھائی قابل غور بات یہ ہے کہ ، چار صدیوں تک جو مسلمان تھے؛ کیا وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے تھے ؟؟ بلکہ ہم سے کئی گنا زیادہ کرتے تھے ؛ اگر محبت رسول کا تقاضا میلاد منانا ہوتا تو ضرور صحابہ اور سلف اس عمل کا انعقاد کرتے.
پیارے بھائی آپ سے سوال ہے کیا رسول اللہ سے ہم کو زیادہ محبت ہے یا صحابہ کرام ابوبکر؛ عمر ؛عثمان؛ علی؛ طلحہ؛ زبیر؛ بلال؛ حسنین کریمین؛ عائشہ ؛ حفصہ رضوان علیہم اجمعین کو زیادہ ہے؟؟
میلادی: صحابہ کو ہم سے زیادہ محبت تھی ۔
اھلحدیث : جب انکو ہم سے زیادہ محبت تھی اور محبت رسول کا تقاضہ میلاد منانا ہوتا تو صحابہ کرام کبھی بھی اس عمل سے پیچھے نہیں رہتے۔
میلادی : پیارے بھائی آپ نے خوب فرمایا مجھے بات سمجھ آگئ لیکن ہمارے علماء قرآن کی کئی آیات کو ذکر کرتے ہیں جن آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو نعمت اور احسان کہا گیا ہے ان آیات سےمیلاد منانا ثابت نہیں ہوتا؟
اھل حدیث: پیارے بھائی ایک اصول یاد کرلیں شریعت مطہرہ میں کوئی بھی ایسی دلیل نہیں جس سے میلاد منانا جائز ہو رہا ہو اگر اس طرح دلیل ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سب سے پہلے اس دلیل پر عمل کرتے کیونکہ نیکیوں کے حریث اور شریعت کو سمجھنے والے ہم سے زیادہ وہ تھے۔
وہ آیات جن میں رسول صلی علیہ وسلم کی بعثت کا تذکرہ ہے ۔ان آیات پر آپ خود غور وفکر کریں پھر فیصلہ کریں کہ کیا ان سے ہر سال میلاد منانے کا جواز نکل رہا ہے؟
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ آل عمران:164 ﴾
بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ ان کے اندر ان میں سے ایک رسول بھیجا ، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سُناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سِکھاتا ہے ، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھُلی گُمراہی میں تھے ۔
پیارے بھائی اس آیت پر غور کریں اس آیت کے کس جملے سے ثابت ہو رہا ہے کہ ہر سال میلاد منانا چاہیے؟؟
اگر اس آیت سے میلاد کا ثبوت نکل رہا ہوتا تو جس ذات پر قرآن نازل ہوا وہ نہ سمجھ سکے اور آج کے دور کا مولوی سمجھ گیا؟؟ کیا اس مولوی کا علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ گیا؟؟ استغفر اللہ۔
اگر اس آیت سے میلاد ثابت ہوتا تو صحابہ کرتے ؛ کیا ہمارا مولوی صحابہ سے بھی بڑا عالم ہے؟؟ استغفر اللہ۔
پیارے بھائی اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تم پر ایک احسان ہے اور ایک محب رسول صلی علیہ وسلم ہر وقت اس احسان کو یاد رکھتے ہوئے صحابہ کی طرح رسول صلی علیہ وسلم کی اطاعت والی زندگی گذارتا ہے نہ کہ صرف ایک دن بدعات کا ارتکاب کر کے جشن مناتا ہے۔
میلادی : پیارے بھائی آپ کا میں مشکور رہوں گا، آپ نے اس بدعت کو میرے سامنے عیاں فرمایا اور میں سچی توبہ کرتا ہوں جب تک زںدہ اس بدعت کے قریب نہیں جاؤں گا۔ ان شاءاللہ آپ مجھے خاص دعائوں میں بھی یاد فرمانا اور میں اھلحدیث ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔
اھل حدیث: پیارے بھائی آپ کو بہت بہت مبارک ہو اللہ نے آپ کو حق سمجھنے کی توفیق فرمائی۔ الحمدللہ
نیا اھلحدیث: پیارے بھائی میرے ذھن دیگر کچھ شبہات ہیں اگرچہ میں خود ہی ان سے مطمئن نہیں لیکن پھر بھی آپ کے سامنے پیش کروں گا، تاکہ میرا ذھن تمام شیطانی وساوس سے پاک ہوجائے۔
نیا اھلحدیث: ہم نے بریلوی علماء سے سنا تھا کہ ابولھب نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ولادت کی خبر سنی اور اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا جس کے بدلہ اسے قبر میں مشروب مل رہا ہے۔
اھلحدیث: محترم اس ابولھب کی لونڈی والے واقعے کو امام بخاری نے حدیث نمبر:5101 کے تحت ذکر کیا ہے اور یاد رکھیں بخاری کے اندر ان مرفوع روایتوں کےلئے صحت کا حکم ہے جو اصل باب میں مذکور ہیں اور یہ ان روایات میں سے نہیں ہے؛ نیز اس واقعے کے الفاظ ہر سال میلاد ملانے پر قطعا دلالت نہیں کرتے ؛ چنانچہ اس واقعے کے الفاظ یہ ہیں۔
، قَالَ عُرْوَةُ وَثُوَيْبَةُ: مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ، كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ، قَالَ لَهُ: مَاذَا لَقِيتَ؟ قَالَ أَبُو لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ.
''عروہ بن زبیر تابعی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ، ابو لہب نے اس کو آزاد کر دیا ، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا،جب ابولہب مرا تو اس کے بعد اہل خانہ کو برے حال میں دکھایا گیا ، اس نے اس (ابو لہب )سے پوچھا ، تو نے کیا پایا ہے ؟ ابو لہب بولا کہ تمہارے بعد میں نے کوئی راحت نہیں پائی، علاوہ اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگوٹھے اور اگشت ِ شہادت کے درمیان گڑھے )سے( مشروب) پلایا جاتا ہوں۔''
اولا: یہ عروہ بن زبیر تابعی کا قول ہے ، جو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف و ناقابل استدلال ہے ، تعجب اس بات پر ہے کہ جو لوگ عقائد میں خبرِ واحد کو حجت نہیں مانتے ، وہ تابعی کے اس ''ضعیف '' قول کو جس کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں پھر بھی قابل عمل سمجھتے ہیں ۔
ثانیا :ایک کافر کے کسی اھل خانہ کے خواب کا شریعت مطہرہ میں کیا اعتبار ؟ شریعت میں صرف انبیاء کے خواب حجت اور دلیل ہیں باقی کسی کے نہیں۔
ثالثا: اس خواب سے یہ کب اور کہاں سے ثابت ہوا کہ ہر سال میلاد منایا جائے؟
رابعاً: یہ خواب قرآنی مفہوم کے خلاف ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تَبَّتْ یَدَا أَبِي لَہَبٍ وَّتَبَّ ٭ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہ، وَمَا کَسَبَ)(اللھب : ١، ٢)
''ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا ، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا ۔''
اسی طرح قرآن مقدس نے اصول بیان فرمایا ہے کہ مشرک کا کوئی عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا ؛ چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اپنے سب سے زیادہ محبوب افراد انبیاء کے بارےمیں (ولو أشرکوا لحبط عنھم ما کانوا یعلمون) اگر وہ بھی شرک کرتے تو انکے تمام اعمال ضایع ہو جاتے۔ جب انبیاء کے لیے بھی یہ اصول ہے تو ابولھب کا یہ عمل کیسے قبول ہوا۔
خامسا: اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس وجہ سے آزاد کیا تھا کہ اس نے ابولہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشخبری سنائی تھی ۔
سادسا: اگر مذکورہ بات کو مان بھی لیں تب بھی ہر سال میلاد منانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟؟ کیونکہ ابولھب نے صرف اس ٹائم لونڈی آزاد کی تھی نہ کہ ہر سال اور بچہ جب پیدا ہوتا ہے اس ٹائم کی خوشی تو فطرتی خوشی ہے ۔
سابعا: اس واقعے کو سننے کے بعد کسی صحابی نے میلاد نہیں منایا کیونکہ اس خواب کادین سے دور تک کا تعلق نہیں ہے ؛ کیا ہم صحابہ سے زیادہ دین کو سمھجنے والے ہیں کیا؟؟ استغفر اللہ۔
نیا اھلحدیث: بھائی آپ نے بہت ہی اچھی انداز میں میرے اشکالات کا ازالہ فرمایا ۔۔۔جزاک اللہ خیرا۔
اھلحدیث: بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ بارہ تاریخ کو عید کا دن تصور کرتے ہیں وہ خود ہی اس دن وفات رسول صلی علیہ وسلم کے قائل ہیں
جناب احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ١٢ ربیع الاول دو شنبہ کو ہے اور اسی میں وفات شریف ہے ۔'' (ملفوظات : 2 /220)
اور آپ کے علم میں ہوگا جس دن رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی وہ دن صحابہ کی زندگی کا مشکل ترین اور دکھ سے بھرا دن تھا جس کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
[لَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِي قَدِمَ فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ، أَضَاء َ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، أَظْلَمَ مِنْہَا کُلُّ شَيْء ٍ]
''جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں (ہجرت فرما کر ) تشریف لائے تھے ، اس دن ہر چیز (خوشی سے )چمک اٹھی تھی اور جس دن آپ نے وفات پائی ، اس دن ہر چیز( غم سے ) اندھیری ہو گئی تھی ۔''
رواہ الترمذی: 3618.وغیرہ وصححه الالباني.
آپ خود بتائیں کیا کوئی محبت رسول کرنے والا اس دن کو عید کا دن کہہ سکتا ہے؟؟؟ استغفر اللہ۔
یہ دن صحابہ اور اھل بیت نے روتے روتے گزارا تھا جبکہ آج کا مسلم اس دن کو خوشی کا دن تصور کرتا ہے!!! نعوذباللہ۔
نیا اھلحدیث : پیارے بھائی پھر میلاد منانے والے وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دن میلاد منا کر محبت رسول کی دعوی کیسےکرتے ہیں؟؟ اب مجھے سمجھ آگیا کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والا کبھی بھی میلاد نہیں منائے گا۔ ان شاءاللہ
الحمدللہ مجھے مکمل طور پر حق سمجھ آگیا میں ہر وقت آپ کے لیے دعاگو رہوں گا۔
اھل حدیث: پیارے بھائی خودساختہ عید میلاد کے دن ہمارے معاشرے میں بیسیوں محرّمات کام کیے جاتے ہیں، جیسا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ بنانا ،شرکیہ نعتیں پڑھنا ، مجلس کے آخر میں قیام، اس نظریے کے تحت کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں خود حاضر ہوتے ہیں(نعوذباللہ)، اسی طرح اس دن دیگیں پکانا ، عمارتوں پر چراغاں کرنا ،جھنڈیاں لگانا ، ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین شریفیں کی تصویر بنانا ، رقص و وجد کا اہتمام کرنا، شب بیداری کرنا ، اجتماعی نوافل ، اجتماعی روزے ،اجتماعی قرآن خوانی ، مرد و زن کا اختلاط ، نوجوان لڑکوں کا جلوس میں شرکت کرنا اور ناچنا اور عورتوں کا ان کو دیکھنا ، آتش بازی، گانے بجانے، فحاشی وعریانی ، فسق و فجور ، من گھڑت قصے کہانیوں اور جھوٹی روایات کا بیان ،انبیاء ،ملائکہ ،صحابہ کرام اور اولیاء کے بارے میں شرکیہ اور کفریہ عقیدے کا اظہار وغیرہ۔
نیا اھلحدیث: یقیناً پیارے بھائی یہ ساری برائیاں ان دنوں میں ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہےکہ یہ برائیاں مجھے پہلے برائیاں نظر نہیں آتی تھیں؛ اب حق واضح ہوگیا اور مجھے یہ سارے اعمال برے نظر آرہے ہیں۔
اھلحدیث:
پیارے بھائی اللہ آپ کو سلامت رکھے، آپ کا قصور نہیں بلکہ ان مطلب پرست اور دنیا پرست مولویوں کا ہے جو دنیا کی خاطر حق چھپا تے ہیں اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں قرآن وسنت کی خالص تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
واللہ اعلم باالصواب۔
کتبہ/ عبد الرزاق دل الرحمانی۔
No comments:
Post a Comment