Waisi ladkiyaa Jo Parda karna chahati hai magar Uske ghar wale use mana karte hai.
Ek Ladki ka Sawal: Mai Parda karna chahati hoo magar Samajh nahi aata ke kaise manage karoo?Modern Jamane me Ladkiyo ke jism par ko becha ja raha hai kaise?
Parde ke khilaf jab Europe Ka Cultural drone Musalmano par giraya gaya.
Jab Ek American Doctor Quran ki tilawat sunkar Musalman ban gaye.
آسیہ عمران#
**پردہ کیسے مینیج کروں۔۔۔۔*
وہ ابوظہبی سے اپنے جیٹھ کی وفات کی خبر سن کر آ رہی تھیں۔ افسردگی سے ماضی کے کچھ ورق پلٹتے گویا تھیں ۔ میرا گھرانہ پردے کے معاملے میں کوئی خاص اہتمام کرنے والا نہ تھا ۔
جب شادی ہو کر سسرال آئی تو دیکھا سب دیور جیٹھ نگاہیں جھکائے داخل ہوتے ہیں۔اور ہر ایسی جگہ جہاں ہمارے ہونے کا گمان ہو نہیں جاتے خود کو گھر کے کچھ حصوں تک محدود رکھتے ہیں کچن میں بھی بے دھڑک نہیں آتے کہ ہم دیورانیوں جیٹھانیوں وغیرہ سے سامنا نہ ہو جائے۔
بہت اچھا سا احساس تھا جو گھر بھر میں چھایا تھا۔ شادی کے شروع میں ہی بڑی نند نے بڑے مان سے سمجھایا ۔ بھابھی جب باہر آئیں تو بڑی چادر لے لیا کریں کہ آپ کے لمبے ،خوبصورے بال چھوٹے دوپٹے میں نظر آتے ہیں۔کمرے میں جو جی چاہے کر لیا کریں کہ گھر کا مجموعی ماحول امی جی نے بڑی محنت سے بنایا ہے۔
کہنے لگیں مجھے یہ سب دلچسپ اور اچھا لگا تھا ہم نے جلد ہی اس گھر کے پیارے سے طور طریقے اپنا لئے۔ ہماری مشترکہ فیملی میں سبھی ایک دوسرے کا حد درجہ احترام کرنے والے تھے۔
بھائیوں میں سے جو بھائی کام سے باہر ہوتے گھر میں موجود بھائی بغیر احساس دلائے ان کی ذمہ داریا ں پوری کرنے لگتے۔
آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے گھروں میں الگ ہوگئے اور کچھ باہر چلے گئے مگر اب بھی جب اکٹھے ہوتے ہیں تو وہی وقت گویا لوٹ آتا ہے۔ یہ سب میری ساس کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ ہے۔
وہ ایک جذب کے عالم میں بتاتی چلی جا رہی تھیں۔
آج ایک بچی نے واٹس ایپ پر سوال کہا آپی میں پردہ کرنا چاہتی ہوں سمجھ نہیں آتا کیسے مینیج کروں؟
تو مجھے ان کا خیال آیا۔ بچی کہہ رہی تھی میں شریعت پر عمل کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہوں۔پردہ مینیج کرنے میں رہنمائی درکار ہے۔
میں نے اسے بتایا آج سے انیس سال پہلے اس رہنمائی کی میری ایک کزن کو بھی شدت سے ضرورت تھی۔
جب میٹرک کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ بس اب اللہ کے حکم سے انحراف نہیں کرنا فیصلہ تو کر لیا ، عملی لحاظ سے مسائل کے پہاڑ تھے ۔
خاندان میں اس طرح کے پردے کا تصور تک نہ تھا۔
سوچوں نے ذہن پر گھیرا ڈال دیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب وہ آبائی گاؤں ملنے گئی تو انتہائی سخت مرحلہ تھا اس نےرب کی خاص مدد مانگی اور ڈٹ گئی۔
اس نے کوشش کی کہ بڑوں کو سلام کرے۔
کچھ نے اسے بھی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ایک صاحب نے اعلان کیا کہ ہم آئندہ اس گھر میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی اپنے گھر کسی مرد کو آنے دیں گے۔
حالات کچھ ایسے ہوئے کہ گھر والوں نے بھی باتیں سنائیں۔ اس نے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں کونسا سب رشتوں سے کٹ رہی ہوں سلام بھی کرتی ہوں ۔بس اللہ کی بتائی حدود میں رہنے کی تو کوشش کر رہی ہوں۔
دادی جان کف افسوس ملنے لگیں یہ کیسا پردہ ہے جو ایک برتن میں کھانا کھانے والوں سے بھی ہونے لگا ہے۔
واحد اس کے ابو جی تھے جو ان کےمعاون بنے دادی جان سے کہا آپ ہی ان بچیوں کے لئے حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنھا جیسا پردہ مانگا کرتی تھیں اب جب اللہ نے توفیق دی تو مخالفت کیوں کرنے لگیں۔
وہ وقتی طور پر خاموش ہو گئیں۔متفکر تھیں کہ ایسی بچی سے رشتہ کون کرے گا؟
یہ مرحلہ تو جیسے تیسے طے ہوا اس مبارک فیصلہ میں اللہ ربی نے ایسی برکت ڈالی کہ خاندان کی اسی فیصد قریبی رشتہ دار لڑکیاں اسی راستے پر چل پڑیں ۔
اب تقریباً سبھی گھروں میں پردہ کا خیال رکھا جاتا ہے کزن گھر میں آئیں بھی تو نگاہیں جھکائے کھنگارتے داخل ہوتے ہیں ۔
اس سے رسوم و رواج پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔
بچی کے لئے پیغام ہے۔
پہلا مرحلہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈالنا ہے کہ یہ احکام الٰہی کی پابندی میں نا محرم کے سامنے نہیں آتیں اور پھر ڈٹ جانا ہے۔ آہستہ آہستہ سب آسان ہو جاتا ہے۔
خود کو غیر ضروری تکلیف میں بھی نہ ڈالیں کہ لوگوں کو کوفت ہونے لگے اور کوئی آپ جیسا بننے سے ڈرنے لگے۔ معاملات میں محدود اور حسب ضرورت معاملہ کریں جہاں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور مخلوط محافل نہ ہوں تروتازہ ،زندہ دل اور باوقار نظر آئیں کہ لوگ آپ کے قریب ہوں رویے سے متاثر ہوں، فالو کرنا چاہیں۔
یاد رکھیے یہ فیصلہ عام فیصلہ نہیں۔ آپ کی زندگی کے رخ کو یکسر بدل دینے والا فیصلہ ہے۔ اس وقت کا غالب نظام سرمایہ دارانہ نظام بے۔ جو بے حیائ ،لذت پرستی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ خواتین حجاب لے لیں تو ان کی ملین ڈالرز کی کاسمیٹک انڈسٹری بیٹھ نہ جائے۔
عورت پروڈکٹ کے بجائے جب گھر کا مرکز ہوگی انھی حدود میں موثر سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوگی تو اس نظام کے لئے قیامت ہی تو ہوگی۔
پیاری بیٹی آپ کو قدم قدم پر مخالفت سے سابقہ ضرور پیش آ ئے گا کہ اس وقت کا معاشرہ ایک مغرب زدہ معاشرہ ہے۔ جس نے کھرے ،کھوٹے کی پہچان کھو دی ہے۔
لیکن یاد رکھیں تمام جہانوں کی سپر پاور آپ کے ساتھ ہے۔ بہت جلد آپ اس فیصلے کے بہترین ثمرات کا مشاہدہ کریں گی۔ انشاء اللہ
علامہ اقبال نے دیار مغرب میں رہنے والوں کو مخاطب کرتے کیا خوب کہا تھا۔
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔۔
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
No comments:
Post a Comment