Umar Mukhtar Jinhone itally Faujo se Muqabla Kiya aur Kuffar ko Shikashat di.
Rom ke Faujo ko zaleel karne wale Umar Mukhtar ko Musalmano ne bhula diya.
عمر مختار تاریخ اسلام کی ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے عالم اسلام سخت ترین دور میں داستانِ شجاعت رقم کی۔
ان کی ولادت 20 اگست 1858 میں خلافتِ عثمانیہ کے "ولایت طرابلس غرب" میں ہوئی۔ بچپن میں ہی والدین ہی وفات کے بعد والد دوست نے وصیت کے مطابق مدرسہ زاویہ میں داخل کروایا۔
دینی علوم میں فقہ، حدیث اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی اور جوانی میں صحرا کے کئی سفر کرے جن کے ذریعے صحرائی راستوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔
اللہ نے ان کی جوانی ان کاموں میں بسر کروائی جو اللہ کی خوشنودی کا سبب تھیں اور جو بعد میں ان کے جہاد میں کارآمد ثابت ہوئے۔
بقول ڈاکٹر توفیق الواعی:
"عمر نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس نے دین میں سوچ و بچار اور اس کی طرف دعوت دینا سکھایا۔
ان کی نظر میں جہاد کی فضیلت بہت بڑی ہوگئی اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پوری عمر اسلام کے دشمنوں سے لڑنے اور ان کےطاقتوروں کو پچھاڑنے میں گزاری" 1909 میں خلیفہ عبد الحمید دوئم کو قوم پرست نے معزول اور ان کے بھائی کو کٹھ پتلی سلطان بنایا۔
خلیفہ کی برطرفی کفار کے لیے ناگزیر تھی کیونکہ خلیفہ عبدالحمید مسلمانوں کی ڈھال تھی اور بقول رسول اللہ ص "امام ہی وہ ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر تم لڑتے ہو اور خود کی حفاظت کرتے ہو" (مسلم)
ڈھال سے محروم ہو جانے کے بعد 1911 میں اٹلی نے ولایت طرابلس پر حملہ کیا اور مسلمانوں کو شکست دے کر طرابلس پر قبضہ کر لیا۔
کمزور خلافت عثمانیہ (جس پر ترک قوم پرستوں کا غلبہ تھا) نے شکست قبول کرلی۔ یہ حالات تھے جن میں عمر مختار کی کی بیس سالہ طویل جدو جہد کا آغاز ہوا۔
جنگ شروع ہونے کی اطلاع ملتے ہی انہوں نے "زاویہ القصور" کا رخ کیا اور جہاد کی منادی دی جس پر لوگوں نے لبیک کہا اور اسلحہ چلانے کے قابل مردوں کی فہرست تیار ہوئی۔
عید الاضحی سے تین روز قبل عمر مختار اپنے 1000 ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور قربانی کا فریضہ دوران سفر سر انجام دیا۔
قابض افواج کے پاس جدید اسلحہ تھا چنانچہ دشمن کو زک پہنچانے کے لیے گوریلا جنگ کا انداز اپنا کر کبھی دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرتے اور کبھی دشمن کے قافلوں پر حملہ آور ہو جاتے۔ انہوں نے فوج کی انتظامی تقسیم قبائل کی بنیاد پر کی تھی اور سپاہیوں کی درجہ بندی عثمانی فوج کی طرز پر۔
اطالوی ایجنٹس نے جب انہیں خریدنا چاہا تو ان کا جواب تھا: جو کوئی میرا عقیدہ بدلنا چاہے گا اللہ اسے مایوس کرے گا۔میں دھوکے باز نہیں کہ مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہوں۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر ایسا دن آئے کہ میں کفار کا ایجنٹ بن کر مسلمانوں کو جہاد ترک کرنے کا کہوں۔
بیس سال کے جہاد کے بعد ستمبر 1931 میں وہ چالیس سواروں کے ہمراہ جبل الاخضر کا دریا عبور کر رہے تھے کہ اطالوی فوج نے آ گھیرا۔
یکے بعد دیگرے مجاہدین شہید ہوتے گئے اور عمر مختار زخمی حالت میں گرفتار ہوگئے۔
اللہ نے ان کے لیے شہادت کی سعادت چن لی تھی۔
عمر مختار کو بن غازی کے قید خانے میں منتقل کیا گیا اور 15 ستمبر 1931 کو ان کو اطالوی کورٹ میں پیش کر کے سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔
فیصلہ سن کر عمر مختار نے اطالوی جج سے کہا "اصل عدالت اللہ کی ہے نا کہ تمہاری جعلی عدالت۔ ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف ہی لوٹیں گے"۔
16 ستمبر 1931 کو صبح نو بجے 73 سالہ عمر مختار کو بن غازی شہر میں سرِعام پھانسی دے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ مومن کی موت کی کیفیت قرآن کریم میں یوں بیان فرماتے ہیں: "اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہو" (الفجر)۔
منقول
No comments:
Post a Comment