Talaq Dene Aur Fir Wapas Aane ka Sharai Tarika Kya hai?
سب تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں اما بعد !
طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟
اس مسئلہ میں کافی اختلاف کیا جاتا ہے - لیکن اختلاف کرنا نہیں چاہیے ، تاہم اگر اختلاف ہو جائے تو اس کا حل کہاں سے لینا ہے ؟؟؟
اس کا جواب بھی الله نے قرآن میں دیا ہے الحمد لله -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟
اس مسئلہ میں کافی اختلاف کیا جاتا ہے - لیکن اختلاف کرنا نہیں چاہیے ، تاہم اگر اختلاف ہو جائے تو اس کا حل کہاں سے لینا ہے ؟؟؟
اس کا جواب بھی الله نے قرآن میں دیا ہے الحمد لله -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اے اہل ایمان ! اطاعت کرو الله کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولوالامر کی بھی ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے ، تو اسے لوٹا دو الله اور رسول کی طرف ، اگر تم واقعی الله پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ‘ ہو یہی طریقہ بہتر بھی ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفید ہے
(النساء -59)
(النساء -59)
قارئین کرام ! یہاں یہ بات بہت قابل غور ہے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا (تو اسے لوٹا دو الله اور رسول کی طرف ، اگر تم واقعی الله پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ‘ ہو) یعنی الله او رسول کی طرف سے جو فیصلہ آئے اسے قبول کرنا ہے اور الله اور اس کے رسول کی طرف صرف وہی لوٹائیں گے جو اہل ایمان ہیں -
یہ الفاظ (اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ) اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایمان والے وہی ہیں جو صرف الله اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہیں -
اور جو ایمان والے نہیں ہیں وہ اختلاف کو اپنے آباؤ اجداد کی طرف لوٹاتے ہیں اور جو بھی وہاں سے بات ملتی ہے بس اسی کی تقلید کرنے لگ جاتے ہیں -یہ روش بالکل غلط ہے - جو کوئی ایسا کرتا ہے ، اس آیت کو پڑھ کر اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے -
بہر حال قارئین ! مضمون کو طول دینا تو نہیں چاہتے , لیکن یہ موضوع ہے ہی ایسا کہ اس پر مکمل تفصیل سے بات کی جائے -
ہم آپ کے سامنے صرف قرآن اور حدیث نبوی کی روشنی میں مسئلہ کا حل رکھ دیتا ہوں ان شاء الله ،
پھر آپ ان دلائل کا مطالعہ کیجیے اور پھر اپنا محاسبہ کیجیے کہ آپ کس طرف چل رہے ہیں -
طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟
یہ الفاظ (اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ) اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ایمان والے وہی ہیں جو صرف الله اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہیں -
اور جو ایمان والے نہیں ہیں وہ اختلاف کو اپنے آباؤ اجداد کی طرف لوٹاتے ہیں اور جو بھی وہاں سے بات ملتی ہے بس اسی کی تقلید کرنے لگ جاتے ہیں -یہ روش بالکل غلط ہے - جو کوئی ایسا کرتا ہے ، اس آیت کو پڑھ کر اسے اپنے ایمان کے متعلق سوچنا چاہیے -
بہر حال قارئین ! مضمون کو طول دینا تو نہیں چاہتے , لیکن یہ موضوع ہے ہی ایسا کہ اس پر مکمل تفصیل سے بات کی جائے -
ہم آپ کے سامنے صرف قرآن اور حدیث نبوی کی روشنی میں مسئلہ کا حل رکھ دیتا ہوں ان شاء الله ،
پھر آپ ان دلائل کا مطالعہ کیجیے اور پھر اپنا محاسبہ کیجیے کہ آپ کس طرف چل رہے ہیں -
طلاق دینے اور رجوع کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟؟؟
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ
طلاق(رجعی) دو مرتبہ ہے پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا ہے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ بھی واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے ‘ تو ان دونوں پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیہ میں دے یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں
(البقرہ -229)
(البقرہ -229)
قارئین ! دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔
چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔'' اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔'' یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ (رض) خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ( اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٢٩۔) 2۔ البقرة :229) (ترمذی۔ ابو اب الطلاق٫ اللعان(
اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔
قارئین ! طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اگرعدت کے اندر صلح کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد بھی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔
یہ تو ہے سنّت طریقہ کار -
لیکن ایک(بدعتی ) طریقہ جو آج کل بھی کافی معروف ہے وہ ہے ایک ہی بار تین طلاقیں دینا -یعنی کوئی کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی ،طلاق دی ،طلاق دی -
قارئین ! یہ طریقہ خلاف سنّت ہے - یعنی بدعت ہے -اگرچہ بعض فرقوں کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رض) کے زمانہ میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردیا جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
(٢) ابو الصہباء نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خلافت میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس نے فرمایا۔ ہاں۔'' (بحوالہ، ایضاً)
(٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر (رض) نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً)
مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔
دور نبوی، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتہً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ
"رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی آدمی سے متعلق یہ خبر دی گئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دے ڈالی ہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور غصہ میں فرمانے لگے کہ کیا کتاب اللہ سے کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ میں ابھی تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کو قتل کر ڈالوں؟"
( سنن نسائی كتاب الطلاق بَابُ: الثَّلاَثِ الْمَجْمُوعَةِ وَمَا فِيهِ مِنَ التَّغْلِيظِ)
مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا بقیہ فرقے کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔
جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر دونوں مل بیٹھنا چاہیں اور الله کی مقرر کردہ حدود کو قائم رکھ سکیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔
اگر معاملہ ایسا ہو کہ پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کر لیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح سے وہ دوبارہ مل جائیں ، لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد دوسری مرتبہ طلاق دے دے ،تو بھی پہلے طریقہ کی طرح دوبارہ وہ مل سکتے ہیں
لیکن اگر پھر سے اختلاف ہو جائے اور مرد تیسری دفعہ طلاق دے دے تو تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
چنانچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔'' اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔'' یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ (رض) خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ( اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَآ اَلَّايُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ٢٢٩۔) 2۔ البقرة :229) (ترمذی۔ ابو اب الطلاق٫ اللعان(
اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔
قارئین ! طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔
فائدہ یہ ہے کہ میاں بیوی اگرعدت کے اندر صلح کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت گزر جانے کے بعد بھی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔
یہ تو ہے سنّت طریقہ کار -
لیکن ایک(بدعتی ) طریقہ جو آج کل بھی کافی معروف ہے وہ ہے ایک ہی بار تین طلاقیں دینا -یعنی کوئی کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی ،طلاق دی ،طلاق دی -
قارئین ! یہ طریقہ خلاف سنّت ہے - یعنی بدعت ہے -اگرچہ بعض فرقوں کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
(١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رض) کے زمانہ میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردیا جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
(٢) ابو الصہباء نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خلافت میں اور حضرت عمر (رض) کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس نے فرمایا۔ ہاں۔'' (بحوالہ، ایضاً)
(٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر (رض) نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً)
مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔
دور نبوی، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتہً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ
"رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی آدمی سے متعلق یہ خبر دی گئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دے ڈالی ہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور غصہ میں فرمانے لگے کہ کیا کتاب اللہ سے کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ میں ابھی تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کو قتل کر ڈالوں؟"
( سنن نسائی كتاب الطلاق بَابُ: الثَّلاَثِ الْمَجْمُوعَةِ وَمَا فِيهِ مِنَ التَّغْلِيظِ)
مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا بقیہ فرقے کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔
جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ حالت طہر میں صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر دونوں مل بیٹھنا چاہیں اور الله کی مقرر کردہ حدود کو قائم رکھ سکیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔
اگر معاملہ ایسا ہو کہ پہلی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع کر لیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح سے وہ دوبارہ مل جائیں ، لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد دوسری مرتبہ طلاق دے دے ،تو بھی پہلے طریقہ کی طرح دوبارہ وہ مل سکتے ہیں
لیکن اگر پھر سے اختلاف ہو جائے اور مرد تیسری دفعہ طلاق دے دے تو تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
پھراگر وہ طلاق دے اسے (تیسری بار)تو وہ حلال نہیں اس کے لیے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ نکاح کرے کسی اور سے اس کے سوا پھراگروہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے دے توکوئی گناہ نہیں ان دونوں پر کہ وہ رجوع کرلیں اگردونوں یہ خیال کریں کہ وہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی حدیں اوریہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں وہ کھول کھول کربیان کرتاہے ا نہیں اس قوم کے لیے (جو) علم رکھتے ہیںَ
(البقرہ -230)
(البقرہ -230)
قارئین ! سورة البقرہ آیت ٢٣٠ کے مطابق تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی(حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ)(البقرہ -230)کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے- نکاح مستقل رہنے کی نیت سے ہو گا ، تمام نکاح کے کام سر انجام دیے جائیں گے ، یعنی ولیمہ بھی ہو گا اور نکاح کا اعلان بھی کیا جائے گا -لیکن پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
یہاں حلالہ کے نام پر زنا جو ہوتا ہے اس کی مختصراً وضاحت کر دی جائے -
اگر کوئی سابقہ شوہر کے لئے حلال ہونے کے لئے محض ایک یا دو راتوں کے معاہدے کے تحت نکاح کرے تو ایسا نکاح ہر گز نہ ہو گا -
بلکہ اگر وہ ہمبستری کریں گے تو وہ زنا ہو گا -
اور وہ عورت پہلے شوہر کے لئے ہر گز حلال نہ ہو گی -
نکاح کے وقت عورت کو مستقل نکاح میں رکھنے کی نیت ہو -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ
خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے- نکاح مستقل رہنے کی نیت سے ہو گا ، تمام نکاح کے کام سر انجام دیے جائیں گے ، یعنی ولیمہ بھی ہو گا اور نکاح کا اعلان بھی کیا جائے گا -لیکن پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
یہاں حلالہ کے نام پر زنا جو ہوتا ہے اس کی مختصراً وضاحت کر دی جائے -
اگر کوئی سابقہ شوہر کے لئے حلال ہونے کے لئے محض ایک یا دو راتوں کے معاہدے کے تحت نکاح کرے تو ایسا نکاح ہر گز نہ ہو گا -
بلکہ اگر وہ ہمبستری کریں گے تو وہ زنا ہو گا -
اور وہ عورت پہلے شوہر کے لئے ہر گز حلال نہ ہو گی -
نکاح کے وقت عورت کو مستقل نکاح میں رکھنے کی نیت ہو -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ
بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے۔
(النساء -24)
(النساء -24)
قارئین کرام ! لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ جب بھی کسی عورت سے نکاح کیا جائے تو نیت یہ ہو کہ اس عورت کو نکاح میں مستقل رکھنا ہے -نہ کہ یہ نیت ہو کہ ایک رات یا دو رات رکھ کر شہوت رانی کر کے پھر طلاق دے دوں گا -
کسی فرقے نے نکاح متعہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بالکل اسی طرح کچھ باطل فرقوں نے حلالہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے -جس میں عورت کو پہلے شخص کے لیے حلال کرنے کے لئے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایک دو راتوں رات کے لئے نکاح کر دیا جاتا ہے -
یعنی
تیسری طلاق دے چکنے کے بعد اگر کوئی شخص پھر اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کروایا جاتا ہے اور پھر ایک یا دو دنوں کے بعد وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو بقول فرقوں کے یہ سابقہ شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے اور اس طریقہ کو حلالہ کہا جاتا ہے۔ حلالہ کے نام سے ہمارے ہاں جو حرام پیشہ مروّج ہے کہ ایک معاہدے کے تحت عورت کا نکاح کسی مرد سے کیا جاتا ہے کہ تم پھر اسے طلاق دے دینا ‘ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے
(جامع ترمذیكتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ )
کسی فرقے نے نکاح متعہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بالکل اسی طرح کچھ باطل فرقوں نے حلالہ کے نام پر زنا کا بازار گرم کر رکھا ہے -جس میں عورت کو پہلے شخص کے لیے حلال کرنے کے لئے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایک دو راتوں رات کے لئے نکاح کر دیا جاتا ہے -
یعنی
تیسری طلاق دے چکنے کے بعد اگر کوئی شخص پھر اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کروایا جاتا ہے اور پھر ایک یا دو دنوں کے بعد وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو بقول فرقوں کے یہ سابقہ شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے اور اس طریقہ کو حلالہ کہا جاتا ہے۔ حلالہ کے نام سے ہمارے ہاں جو حرام پیشہ مروّج ہے کہ ایک معاہدے کے تحت عورت کا نکاح کسی مرد سے کیا جاتا ہے کہ تم پھر اسے طلاق دے دینا ‘ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے۔
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے
(جامع ترمذیكتاب النكاح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي الْمُحِلِّ وَالْمُحَلَّلِ لَهُ )
باطل فرقے لعنت تو اپنے اوپر ڈلوا رہے ہیں لیکن اس بےحیائی ، فحاشی کے کام کو بند نہیں کر رہے -
انہیں شیطان نے ایسا پھنسا دیا ہے تقلید کے جال میں کہ اب یہ گمراہی میں بہت دور نکل چکے ہیں -
لیکن انہیں فرقوں میں سے جنہوں نے الله سے ہدایت طلب کی اور کوشش بھی کی ، تو ما شاء الله وہ ان فرقوں کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ان سے -
اور الله تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے کہ فرقوں سے مسلم کا کوئی تعلق نہیں -
انہیں شیطان نے ایسا پھنسا دیا ہے تقلید کے جال میں کہ اب یہ گمراہی میں بہت دور نکل چکے ہیں -
لیکن انہیں فرقوں میں سے جنہوں نے الله سے ہدایت طلب کی اور کوشش بھی کی ، تو ما شاء الله وہ ان فرقوں کو چھوڑ کر الگ ہو گئے ان سے -
اور الله تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے کہ فرقوں سے مسلم کا کوئی تعلق نہیں -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کردیے اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ‘ پھر وہ انہیں جتلا دے گا جو کچھ کہ وہ کرتے رہے تھے
(الانعام -159)
(الانعام -159)
قارئین کرام ! نیز آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔
١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہے۔
٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی محفوظ رہنا چاہتا ہے جو شرعاً
اس پر لازم ہے۔
٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (الطلاق کی آیت ٢ ملاحضہ ہو ) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔
قارئین ! عدت ختم ہونے کے قریب ہو اور رجوع نہ کیا گیا ہو تو رخصتی کے وقت عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں ، ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبہ الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھیے کہ :
عدت کے اندر اگر کوئی میاں بیوی رجوع کر لیں تو یہ کام بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو گا -
١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہے۔
٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی محفوظ رہنا چاہتا ہے جو شرعاً
اس پر لازم ہے۔
٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (الطلاق کی آیت ٢ ملاحضہ ہو ) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔
قارئین ! عدت ختم ہونے کے قریب ہو اور رجوع نہ کیا گیا ہو تو رخصتی کے وقت عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں ، ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبہ الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھیے کہ :
عدت کے اندر اگر کوئی میاں بیوی رجوع کر لیں تو یہ کام بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو گا -
الله تعالیٰ فرماتا ہے ؛
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ۭ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ۭ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا
پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو (اپنے نکاح میں) روک رکھو معروف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے “ ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “ ’ اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ ‘ یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔
(الطلاق -2)
(الطلاق -2)
یعنی ایک یادو طلاق دینے کی صورت میں عدت پوری ہوجانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کرلے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے ۔
{ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ} ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “
یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔
اور اگا رخصت کرنا ہے تب بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں اچھے طریقے سے رخصت کرے -
{ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ} ” اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ “
{ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ} ” یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ “
{ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ} ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “
یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔
اور اگا رخصت کرنا ہے تب بھی دو عادل گواہوں کی موجودگی میں اچھے طریقے سے رخصت کرے -
{ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ} ” اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ “
{ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ} ” یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ “
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ! اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائے !
اور ہمیں ہر قسم کے فتنے سے محفوظ فرمائے !
اور اپنے نیک مقرب بندوں میں شامل کر کے جنّت الفردوس میں داخل فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد لله رب العالمین
اور ہمیں ہر قسم کے فتنے سے محفوظ فرمائے !
اور اپنے نیک مقرب بندوں میں شامل کر کے جنّت الفردوس میں داخل فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد لله رب العالمین
No comments:
Post a Comment