Islam me Shadi Ke liye kya kya Jaruri Hai?
جائز طریقے سے باہم ملنے کا نام نکاح ہے، اسلام میں اس نکاح کی بڑی اہمیت ہے اسی سے نسل انسانی آگے بڑھی اور بڑھ رہی ہے اوریہ مومن ومسلم کے ایمان کی تکمیل کا باعث ہے۔ اس کا اہم مقصد عفت وعصمت کی حفاظت ہے۔یہ انسانی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے اور اللہ کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے نایاب تحفہ ہے۔ اول وآخر سارے انبیاء نے شادی کی اور اپنی اپنی امت کو شادی کا پیغام دیا تاکہ انسان اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا ہے ۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً (الرعد:38)
ترجمہ : ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔
یہ دور بہت ہی پرفتن ہے ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کی جوان ہوتے ہی کہیں دینی اعتبار سے اچھا رشتہ دیکھ کر شادی کردے ۔ شادی کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(النور:32)
ترجمہ :تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو، اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اورنبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(صحیح البخاري:5066و صحیح مسلم :1400)
ترجمہ :اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔
یہاں میں نکاح کے مسائل پہ بات نہیں کروں گا بلکہ یہ بتلاؤں گا کہ نکاح کیسے منعقد ہوتا ہے؟ ، نکاح پڑھانے میں نبی ﷺ کا نمونہ اور اسوہ کیا ہے ؟
نکاح جس قدر عظیم امر الہی ہےاس کا نعقاد بھی اسی قدر آسان ہے مگر لوگوں نے اسے تصنع اور رسم ورواج کا رنگ دے کر اسلامی رنگ سے بہت الگ کردیا ۔ ایک حدیث پیش کرتا ہوں اس سے اندازہ لگائیں کہ نکاح کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے ؟ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
اس میں نکاح کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی شادی کا پیغام کسی لڑکی کے والد/سرپرست کو دے کہ میں فلانہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور لڑکی کے والد لڑکے میں دین واخلاق پائے تو اس سےلڑکی کی شادی کردے یعنی لڑکی کا ولی لڑکے سے کہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کرتا ہوں کیا تمہیں قبول ہے ، لڑکا کہے ہاں مجھے قبول ہے ۔ شادی ہوگئی ۔یہی شادی کا اسلامی طریقہ ہے جس میں کسی محفل ، کوئی رسم ورواج اورکوئی تصنع کا ذکر نہیں ۔جو اس طریقہ یا اس طرح سے شادی نہیں کرتا تو اس سےفتنہ پھیلتا ہے ۔ آج زمین پر فتنہ وفساد کی کثرت اس سبب سے بھی ہےکہ شادی میں ہم نےسنت کا دامن چھوڑ دیا اور غیروں کی روش اختیار کرلی حتی کہ آج فلمی ستاروں کو دیکھ دیکھ کر مسلمان لڑکے کافرہ سے یا مسلم لڑکیاں کافر لڑکوں سے شادی کررہی ہیں ۔ العیاذ باللہ
جو شادیاں مسلمانوں کی آپس میں ہوتی ہیں ان میں ذات وبرادری، رنگ ونسل، حسن وجمال ، دولت ومنصب، رسم وراوج ، ریاونمود ، تکلف وتصنع اور بدعات ومنکرات کی آمیزش ہوتی ہیں جبکہ نبی ﷺ کے زمانے کی شادیاں بالکل سادہ اورعام ہوتی تھیں ۔ ایک طرف سے پیغام آیا دوسری طرف سے پیغام قبول کرکے شادی ہوگئی ۔ دیکھیں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ۔ بخاری شریف کی روایت ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رأى عبدَ الرحمنِ بنِ عوفٍ أثرَ صُفرةٍ، قال :ما هذا؟ . قال : إني تزوجت امرأةً على وزنِ نواةٍ من ذهبٍ، قال :بارك لك اللهُ، أولمْ ولو بشاةٍ .(صحيح البخاري:5155)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
اس شادی میں حضرت عبدالرحمن نے امام کائنات حضرت محمدﷺ تک کو نہیں بلایا جبکہ دونوں ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔کتنی سادگی ہوگی اس شادی میں ؟ ۔نبی ﷺ جنگ خیبر کے سفر پہ تھے مال غنیمت میں بنوقریظہ کے سردار کی بیٹی صفیہ آئیں ان سے نبی ﷺ کی شادی کا ذکر چند لفظوں میں دیکھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أعتَقَ صفيَّةَ وتزوَّجَهَا وجعَلَ عِتْقَهَا صدَاقَهَا ، وأولمَ عليها بِحَيْسٍ(صحيح البخاري:5169)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیااور ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا ۔
بخاری شریف میں ایک عورت کی شادی کا اس طرح ذکر کیا جسے نبی ﷺ نے منعقد کروائی ۔
جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : إني وهبت منك نفسي . فقامت طويلا ، فقال رجل : زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة ، قال : ( هل عندك من شيء تصدقها ) قال : ما عندي إلا إزاري ، فقال : ( إن أعطيتها إياه جلست لا إزار لك ، فالتمس شيئا ) . فقال ما أجد شيئا ، فقال : ( التمس ولو خاتما من حديد ) . فلم يجد ، فقال : ( أمعك من القرآن شيء ) . قال : نعم ، سورة كذا ، سورة كذا ، لسور سماها ، فقال : ( زوجناكها بما معك من القرأن ) .(صحيح البخاري:5135)
ترجمہ: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی ۔ اتنے میںایک مرد نے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرمادیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میںدینے کے لئے کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دوگے تو تمہارے پاس پہننے کے لئے تہمد بھی نہیں رہے گا ۔ کوئی اور چیز تلاش کرلو ۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو ، ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ! اسے وہ بھی نہیں ملی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فلاں فلاں سورتیں ہیں ، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں ۔
نکاح سے متعلق تمام احادیث کا حلاصہ یہ ہے کہ بس ایجاب وقبول کا نام نکاح ہے ، نہ قاضی وامام کی ضرورت ، نہ تقریب کا انعقاد ، نہ بارات و جہیز کا تصور اور نہ ہی کسی قسم کے رسم ورواج کی ضرورت ہے۔ سطور ذیل میں اب اختصار سے نکاح پڑھانے کا ذکر کرتا ہوں تاکہ نکاح خواں کے لئے آسانی ہو اور مسنون طریقہ سے نکاح پڑھائے ۔
نکاح سے پہلے شادی کا پیغام آچکا ہوتا ہے اور طرفین سے منگنی کے ذریعہ رضامندی کے ساتھ شادی کی بات پکی ہوچکی ہوتی ہے ۔ اب مسجد، مدرسہ یا کسی گھر پہ لڑکے والے جمع ہیں جہاں لڑکی کا ولی (اگر ولی حاضر نہ ہو تو اس کی رضامندی کے ساتھ کوئی وکیل) اور اس کے رشتہ دار بھی جمع ہیں ۔ نکاح کے ذریعہ لڑکا اورلڑکی کا عقد مسنون کیسے کیا جائے ؟
پہلی بات : بارات کا رواج غلط ہے لیکن نکاح کے موقع پر کچھ لوگوں کا جمع ہونا مستحب ہے اس سے نکاح کا اعلان ہوجائے گا جس کا حکم نبی ﷺ نے دیا ہے ۔
أعلِنوا هذا النِّكاحَ واضرِبوا عليْهِ بالغربالِ(صحيح ابن ماجه:1549)
ترجمہ: اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس موقع پر دَف بجایا کرو۔
٭ شیخ البانی نے اس حدیث صرف پہلا ٹکڑا ثابت مانا ہے۔
دوسری بات : اس وقت سماجی اور حکومتی سطح پہ نکاح نامہ کی بڑی سخت ضرورت بن گئی ہے اس لئے قاضی صاحب جنہیں نکاح پڑھانے کے لئے مدعو کیا گیا ہے انہیں چاہئے کہ نکاح نامہ اور دیگر کاغذی امور مکمل کرلیں ۔
تیسری بات : مہر طے ہو تو بہتر ہے اور اسے بھی لکھ لیا جائےتاکہ زوجین یا ان کے خاندان والوں میں بعد میں کوئی تنازع نہ ہو اور مہر طے کرنے کی دلیل ملتی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ(البقرة:237)
ترجمہ: اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا۔
چوتھی بات : لڑکی کی طرف سے اس کے ولی کی رضامندی حاصل ہواور وہ وہاں موجود ہو یا اس کی رضامندی سے اس کا کوئی وکیل موجود ہوکیونکہ بغیر ولی کے کوئی نکاح نہیں ہوگا ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ(صحیح ابن ماجہ :1537)
ترجمہ: بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ بھی فرمان رسول ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔(صحیح ابوداؤد: 2083)
ترجمہ: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
پانچویں بات : نکاح ہوتے وقت دو عادل گواہ کی بھی ضرورت ہے جو اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے ۔
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (الطلاق:2)
ترجمہ: پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یاتو قاعدہ کے ساتھ اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو۔
اس معنی کی کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے لیکں موقوفا صحیح ہے شیخ البانی نے حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت حسن سے موقوفا صحیح کہا ہے ۔
لا نكاحَ إلا بوليٍّ وشاهدَينِ(إرواء الغليل:1858)
ترجمہ: ولی اور دو گواہ کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔
٭یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ولی گواہ نہیں بن سکتا ۔
چھٹی بات : مذکورہ بالا کام ہوجانے کے بعد اب قاضی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے خطبہ مسنونہ جسے خطبہ الحاجہ کہا جاتا ہے وہ پڑھیں ۔ یاد رہے خطبہ الحاجہ پڑھنا ضروری نہیں ہےاس کے بغیر بھی صرف ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجائے گاتاہم اس کا پڑھنامستحب ہے ۔ خطبہ الحاجہ کے الفاظ بتحقیق شیخ البانی رحمہ اللہ جو نبی ﷺ سے منقول ہیں وہ اس طرح ہیں :
إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه و رسولُه .يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً, يَا أ يها الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيماً[ أ ما بعد ] (خطبة الحاجة للالباني)
ساتویں بات : لوگوں کی کثرت ہو توا ما بعد کے بعد خطبہ میں مذکور تینوں آیات کی مختصر تشریح کردی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر خطبہ کے بعد تقریر وبیان کوضروری سمجھنا یا تقریر کرنے والے نکاح خواں کو بلانا تاکہ زوردار تقریر کرے سنت سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ عہد رسول میں نکاح کے موقع پر تقریر کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، خطبہ میں اپنی جانب سے قرآنی آیات اور احادیث کا پڑھنا بھی نکاح خواں کی طرف سے زیادتی ہے جس کا ثبوت نہیں ہے۔
آٹھویں بات : خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد امام / قاضی صاحب(جنہیں لڑکی کے ولی نے اپنا وکیل بنایا ہے) کو چاہئے کہ وہ لڑکے سے کہے کہ میں اپنی وکالت میں فلانہ بنت فلاں کا نکاح آپ سے کرتا ہوں کیا آپ کو قبول ہے ؟ تو لڑکا کہے کہ مجھے قبول ہے ۔ نکاح مکمل ہوگیا۔ ایجاب وقبول میں مہر کا ذکر ضروری نہیں ہے طے ہوجانا ہی کافی ہے۔
نویں بات : بعض جگہوں پر قاضی صاحب لڑکی سے بھی رضامندی لینے جاتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ، لڑکی کی رضامندی اس کے ولی کو چاہئے جوکہ منگنی کے وقت ہی ہوچکی ہوتی ہے پھر لڑکی کی جانب سے اس کا ولی شادی کی رضامندی کا اظہار کرتا ہے ۔منگنی کے موقع سے چاہے تو لڑکا لڑکی کو دیکھ سکتا ہے سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے ۔
دسویں بات : ہاں شروع میں نکاح کا فارم پر کیا گیا تھا اس پہ زوجین کے دستخط لے لئے جائیں ، لڑکی کے پاس اس کا ولی یا اس کا کوئی محرم جاکر دستخط کروائے ۔
ہر نکاح خواں ، ولی ، دلہا اور دلہن کو چاہئے کہ وہ نکاح کے ارکان وشروط کو جانے بلکہ ہر مسلمان کو جاننے کی ضرورت ہے۔
نکاح کے دوارکان ہیں ۔
(1)زوجین کا وجود اور ان دونوں کا آپس میں شادی جائز ہونا یعنی شادی میں رضاعت ،نسب ،عدت ،حمل وغیرہ کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(2) ولی یا اس کے وکیل کی طرف سے ایجاب یعنی تعیین کے ساتھ فلانہ کی شادی کرانے کا ذکر اور لڑکے کی جانب سے قبول کرناحاصل ہو ۔
اورنکاح کی دو شرطیں بھی ہیں ۔
ایک ولی کی اجازت ورضامندی اور دوسری دو عادل گواہ کی موجود گی ہیں اور نکاح کا اعلان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ دوارکان اور دو شرطیں پائی گئیں تو نکاح درست ہے ۔
نکاح کے بعد اجتماعی صورت میں دعا کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر دلہا اور دلہن کو مبارکبادی دینا چاہئے ۔ سيدنا ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم جب کسي کو اس کي شادي کي مبارک باد ديتے تو فرماتے «بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في خير» اللہ تمہيں برکت دے ، تم پر اپني برکت فرمائے اور تم دونوں کو خير کے ساتھ اکٹھا رکھے۔(صحيح أبي داود:2130(
اور دلہا کو چاہئے کہ لڑکی کی رخصتی کے بعد ولیمہ کرے ۔ولیمہ سے متعلق عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی شادی کی حدیث گزری جس میں نبی ﷺ نے کہا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کیوں نہ ہو۔
نکاح سے متعلق مزیدچند باتوں کی وضاحت
(1) نکاح پڑھانے کے لئے کسی دوسری جگہ سے عالم یا قاضی بلانے کی ضرورت نہیں ہے لڑکی کا ولی لڑکا سے کہے میں فلانہ بنت فلاں کی شادی آپ سے کرتا ہوں اور لڑکا کہے میں قبول کرتا ہوں ۔ شادی ہوگئی۔ گاؤں میں عالم موجود ہو تو ان سے نکاح پڑھالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(2) نکاح کے وقت لڑکا یا لڑکی سے کلمہ پڑھا نا ، توبہ کرانا اور ایمان مجمل وایمان مفصل بیان کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے یہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔
(3) عقد نکاح کے لئے عربی کلمات مثلا زوجت، نکحت، قبلت کے الفاظ کہنا ضروری قرار دینا غلط ہے کسی بھی زبان میں ایجاب وقبول ہوسکتا ہے ۔
(4) لازما تین دفعہ ایجاب وقبول کروانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ بھی کافی ہے ۔
(5) نکاح کے بعد چھوہارا تقسیم کرنا رسول اللہ یا اصحاب رسول اللہ کی سنت نہیں ہے یہ محض رسم ہے اسے ہٹانا بہتر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر تنازع ہوتا ہے ۔ بیہقی کی روایت اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔ : كان إذا زوَّج أو تزوَّج نثَر تمرًا. ( السلسلة الضعيفة:4198)
ترجمہ: جب نبی ﷺ شادی کرتے یا کراتے تو کھجور تقسیم کرتے ۔
(6) نکاح ہونے کے بعد آنگن یا صحن میں دلہا اور اس کے خواص کو طلب کرنا اور اجنبی لڑکیوں کاان سب سےہنسی مذاق ، چوری چماری، نازیبا کلام وحرکات ناجائز وحرام ہےاس کا گناہ وہاں موجود دیکھنے سننے اور مددکرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا۔
(7) مہر نہ تو ارکان نکاح میں سے ہے اور نہ ہی شروط میں سے ،اگر نکاح کے وقت مہر طے نہیں ہوا تو بھی نکاح صحیح ہے لیکن نکاح ہو جانے سے مہرمثل واجب ہوجاتا ہے ۔
(8) مسجد میں نکاح کو سنت قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ مسجد میں نکاح سے متعلق روایت ضعیف ہے ، نکاح مسجد، غیرمسجد کہیں بھی کرسکتے ہیں ۔
(9) صرف چار لوگوں کی موجود گی ولی ، لڑکا اور دو عادل گواہان سے شادی ہوجائے گی تاہم کچھ لوگ مزید جمع ہوجائیں تو اعلان نکاح ہوجائے گا مگر مروجہ بارات کا تصور اسلام میں نہیں ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
(10) اوپر بیان کئے نکاح کے ارکان وشرائط پائے جائیں تو ٹیلی فون پر بھی نکاح درست ہے مگر لڑکی کو بھگا کر ایک دوسرے کے گلے میں ہار ڈال دینے یا انگوٹھی پہنا دینے یا کورٹ میں رجسٹریشن کرا لینے یا پارک میں جھولہ چھاپ نکاح خواں سے نکاح پڑھوا لینے سے نکاح نہیں ہوگا جب تک کہ لڑکی کا ولی راضی نہ ہو۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً (الرعد:38)
ترجمہ : ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔
یہ دور بہت ہی پرفتن ہے ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کی جوان ہوتے ہی کہیں دینی اعتبار سے اچھا رشتہ دیکھ کر شادی کردے ۔ شادی کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(النور:32)
ترجمہ :تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو، اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اورنبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(صحیح البخاري:5066و صحیح مسلم :1400)
ترجمہ :اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔
یہاں میں نکاح کے مسائل پہ بات نہیں کروں گا بلکہ یہ بتلاؤں گا کہ نکاح کیسے منعقد ہوتا ہے؟ ، نکاح پڑھانے میں نبی ﷺ کا نمونہ اور اسوہ کیا ہے ؟
نکاح جس قدر عظیم امر الہی ہےاس کا نعقاد بھی اسی قدر آسان ہے مگر لوگوں نے اسے تصنع اور رسم ورواج کا رنگ دے کر اسلامی رنگ سے بہت الگ کردیا ۔ ایک حدیث پیش کرتا ہوں اس سے اندازہ لگائیں کہ نکاح کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے ؟ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
اس میں نکاح کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی شادی کا پیغام کسی لڑکی کے والد/سرپرست کو دے کہ میں فلانہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور لڑکی کے والد لڑکے میں دین واخلاق پائے تو اس سےلڑکی کی شادی کردے یعنی لڑکی کا ولی لڑکے سے کہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کرتا ہوں کیا تمہیں قبول ہے ، لڑکا کہے ہاں مجھے قبول ہے ۔ شادی ہوگئی ۔یہی شادی کا اسلامی طریقہ ہے جس میں کسی محفل ، کوئی رسم ورواج اورکوئی تصنع کا ذکر نہیں ۔جو اس طریقہ یا اس طرح سے شادی نہیں کرتا تو اس سےفتنہ پھیلتا ہے ۔ آج زمین پر فتنہ وفساد کی کثرت اس سبب سے بھی ہےکہ شادی میں ہم نےسنت کا دامن چھوڑ دیا اور غیروں کی روش اختیار کرلی حتی کہ آج فلمی ستاروں کو دیکھ دیکھ کر مسلمان لڑکے کافرہ سے یا مسلم لڑکیاں کافر لڑکوں سے شادی کررہی ہیں ۔ العیاذ باللہ
جو شادیاں مسلمانوں کی آپس میں ہوتی ہیں ان میں ذات وبرادری، رنگ ونسل، حسن وجمال ، دولت ومنصب، رسم وراوج ، ریاونمود ، تکلف وتصنع اور بدعات ومنکرات کی آمیزش ہوتی ہیں جبکہ نبی ﷺ کے زمانے کی شادیاں بالکل سادہ اورعام ہوتی تھیں ۔ ایک طرف سے پیغام آیا دوسری طرف سے پیغام قبول کرکے شادی ہوگئی ۔ دیکھیں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ۔ بخاری شریف کی روایت ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رأى عبدَ الرحمنِ بنِ عوفٍ أثرَ صُفرةٍ، قال :ما هذا؟ . قال : إني تزوجت امرأةً على وزنِ نواةٍ من ذهبٍ، قال :بارك لك اللهُ، أولمْ ولو بشاةٍ .(صحيح البخاري:5155)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
اس شادی میں حضرت عبدالرحمن نے امام کائنات حضرت محمدﷺ تک کو نہیں بلایا جبکہ دونوں ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔کتنی سادگی ہوگی اس شادی میں ؟ ۔نبی ﷺ جنگ خیبر کے سفر پہ تھے مال غنیمت میں بنوقریظہ کے سردار کی بیٹی صفیہ آئیں ان سے نبی ﷺ کی شادی کا ذکر چند لفظوں میں دیکھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أعتَقَ صفيَّةَ وتزوَّجَهَا وجعَلَ عِتْقَهَا صدَاقَهَا ، وأولمَ عليها بِحَيْسٍ(صحيح البخاري:5169)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیااور ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا ۔
بخاری شریف میں ایک عورت کی شادی کا اس طرح ذکر کیا جسے نبی ﷺ نے منعقد کروائی ۔
جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : إني وهبت منك نفسي . فقامت طويلا ، فقال رجل : زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة ، قال : ( هل عندك من شيء تصدقها ) قال : ما عندي إلا إزاري ، فقال : ( إن أعطيتها إياه جلست لا إزار لك ، فالتمس شيئا ) . فقال ما أجد شيئا ، فقال : ( التمس ولو خاتما من حديد ) . فلم يجد ، فقال : ( أمعك من القرآن شيء ) . قال : نعم ، سورة كذا ، سورة كذا ، لسور سماها ، فقال : ( زوجناكها بما معك من القرأن ) .(صحيح البخاري:5135)
ترجمہ: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی ۔ اتنے میںایک مرد نے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرمادیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میںدینے کے لئے کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دوگے تو تمہارے پاس پہننے کے لئے تہمد بھی نہیں رہے گا ۔ کوئی اور چیز تلاش کرلو ۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو ، ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ! اسے وہ بھی نہیں ملی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فلاں فلاں سورتیں ہیں ، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں ۔
نکاح سے متعلق تمام احادیث کا حلاصہ یہ ہے کہ بس ایجاب وقبول کا نام نکاح ہے ، نہ قاضی وامام کی ضرورت ، نہ تقریب کا انعقاد ، نہ بارات و جہیز کا تصور اور نہ ہی کسی قسم کے رسم ورواج کی ضرورت ہے۔ سطور ذیل میں اب اختصار سے نکاح پڑھانے کا ذکر کرتا ہوں تاکہ نکاح خواں کے لئے آسانی ہو اور مسنون طریقہ سے نکاح پڑھائے ۔
نکاح سے پہلے شادی کا پیغام آچکا ہوتا ہے اور طرفین سے منگنی کے ذریعہ رضامندی کے ساتھ شادی کی بات پکی ہوچکی ہوتی ہے ۔ اب مسجد، مدرسہ یا کسی گھر پہ لڑکے والے جمع ہیں جہاں لڑکی کا ولی (اگر ولی حاضر نہ ہو تو اس کی رضامندی کے ساتھ کوئی وکیل) اور اس کے رشتہ دار بھی جمع ہیں ۔ نکاح کے ذریعہ لڑکا اورلڑکی کا عقد مسنون کیسے کیا جائے ؟
پہلی بات : بارات کا رواج غلط ہے لیکن نکاح کے موقع پر کچھ لوگوں کا جمع ہونا مستحب ہے اس سے نکاح کا اعلان ہوجائے گا جس کا حکم نبی ﷺ نے دیا ہے ۔
أعلِنوا هذا النِّكاحَ واضرِبوا عليْهِ بالغربالِ(صحيح ابن ماجه:1549)
ترجمہ: اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس موقع پر دَف بجایا کرو۔
٭ شیخ البانی نے اس حدیث صرف پہلا ٹکڑا ثابت مانا ہے۔
دوسری بات : اس وقت سماجی اور حکومتی سطح پہ نکاح نامہ کی بڑی سخت ضرورت بن گئی ہے اس لئے قاضی صاحب جنہیں نکاح پڑھانے کے لئے مدعو کیا گیا ہے انہیں چاہئے کہ نکاح نامہ اور دیگر کاغذی امور مکمل کرلیں ۔
تیسری بات : مہر طے ہو تو بہتر ہے اور اسے بھی لکھ لیا جائےتاکہ زوجین یا ان کے خاندان والوں میں بعد میں کوئی تنازع نہ ہو اور مہر طے کرنے کی دلیل ملتی ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ(البقرة:237)
ترجمہ: اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا۔
چوتھی بات : لڑکی کی طرف سے اس کے ولی کی رضامندی حاصل ہواور وہ وہاں موجود ہو یا اس کی رضامندی سے اس کا کوئی وکیل موجود ہوکیونکہ بغیر ولی کے کوئی نکاح نہیں ہوگا ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا نِكاحَ إلَّا بوليٍّ(صحیح ابن ماجہ :1537)
ترجمہ: بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ بھی فرمان رسول ہے :أيُّما امرأةٍ نَكَحَت بغيرِ إذنِ مَواليها ، فنِكاحُها باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔(صحیح ابوداؤد: 2083)
ترجمہ: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
پانچویں بات : نکاح ہوتے وقت دو عادل گواہ کی بھی ضرورت ہے جو اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے ۔
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ (الطلاق:2)
ترجمہ: پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یاتو قاعدہ کے ساتھ اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو۔
اس معنی کی کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے لیکں موقوفا صحیح ہے شیخ البانی نے حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت حسن سے موقوفا صحیح کہا ہے ۔
لا نكاحَ إلا بوليٍّ وشاهدَينِ(إرواء الغليل:1858)
ترجمہ: ولی اور دو گواہ کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔
٭یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ولی گواہ نہیں بن سکتا ۔
چھٹی بات : مذکورہ بالا کام ہوجانے کے بعد اب قاضی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے خطبہ مسنونہ جسے خطبہ الحاجہ کہا جاتا ہے وہ پڑھیں ۔ یاد رہے خطبہ الحاجہ پڑھنا ضروری نہیں ہےاس کے بغیر بھی صرف ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجائے گاتاہم اس کا پڑھنامستحب ہے ۔ خطبہ الحاجہ کے الفاظ بتحقیق شیخ البانی رحمہ اللہ جو نبی ﷺ سے منقول ہیں وہ اس طرح ہیں :
إن الحمد لله نحمده ، و نستعينه ، ونستغفره ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ، ومن سيئات أعمالنا .من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له .وأ شهد أ ن محمداً عبدُه و رسولُه .يَاأَيها الذين آ مَنُوا اتقُوا اللهَ حَق تُقَا ته ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً, يَا أ يها الذين آ منوا اتقوا الله وقولوا قَو لاً سَديداً يُصلح لَكُم أَ عما لكم وَ يَغفر لَكُم ذُ نُو بَكُم وَ مَن يُطع الله وَ رَسُولَهُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظيماً[ أ ما بعد ] (خطبة الحاجة للالباني)
ساتویں بات : لوگوں کی کثرت ہو توا ما بعد کے بعد خطبہ میں مذکور تینوں آیات کی مختصر تشریح کردی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر خطبہ کے بعد تقریر وبیان کوضروری سمجھنا یا تقریر کرنے والے نکاح خواں کو بلانا تاکہ زوردار تقریر کرے سنت سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ عہد رسول میں نکاح کے موقع پر تقریر کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، خطبہ میں اپنی جانب سے قرآنی آیات اور احادیث کا پڑھنا بھی نکاح خواں کی طرف سے زیادتی ہے جس کا ثبوت نہیں ہے۔
آٹھویں بات : خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد امام / قاضی صاحب(جنہیں لڑکی کے ولی نے اپنا وکیل بنایا ہے) کو چاہئے کہ وہ لڑکے سے کہے کہ میں اپنی وکالت میں فلانہ بنت فلاں کا نکاح آپ سے کرتا ہوں کیا آپ کو قبول ہے ؟ تو لڑکا کہے کہ مجھے قبول ہے ۔ نکاح مکمل ہوگیا۔ ایجاب وقبول میں مہر کا ذکر ضروری نہیں ہے طے ہوجانا ہی کافی ہے۔
نویں بات : بعض جگہوں پر قاضی صاحب لڑکی سے بھی رضامندی لینے جاتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ، لڑکی کی رضامندی اس کے ولی کو چاہئے جوکہ منگنی کے وقت ہی ہوچکی ہوتی ہے پھر لڑکی کی جانب سے اس کا ولی شادی کی رضامندی کا اظہار کرتا ہے ۔منگنی کے موقع سے چاہے تو لڑکا لڑکی کو دیکھ سکتا ہے سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے ۔
دسویں بات : ہاں شروع میں نکاح کا فارم پر کیا گیا تھا اس پہ زوجین کے دستخط لے لئے جائیں ، لڑکی کے پاس اس کا ولی یا اس کا کوئی محرم جاکر دستخط کروائے ۔
ہر نکاح خواں ، ولی ، دلہا اور دلہن کو چاہئے کہ وہ نکاح کے ارکان وشروط کو جانے بلکہ ہر مسلمان کو جاننے کی ضرورت ہے۔
نکاح کے دوارکان ہیں ۔
(1)زوجین کا وجود اور ان دونوں کا آپس میں شادی جائز ہونا یعنی شادی میں رضاعت ،نسب ،عدت ،حمل وغیرہ کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(2) ولی یا اس کے وکیل کی طرف سے ایجاب یعنی تعیین کے ساتھ فلانہ کی شادی کرانے کا ذکر اور لڑکے کی جانب سے قبول کرناحاصل ہو ۔
اورنکاح کی دو شرطیں بھی ہیں ۔
ایک ولی کی اجازت ورضامندی اور دوسری دو عادل گواہ کی موجود گی ہیں اور نکاح کا اعلان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ دوارکان اور دو شرطیں پائی گئیں تو نکاح درست ہے ۔
نکاح کے بعد اجتماعی صورت میں دعا کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر دلہا اور دلہن کو مبارکبادی دینا چاہئے ۔ سيدنا ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم جب کسي کو اس کي شادي کي مبارک باد ديتے تو فرماتے «بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في خير» اللہ تمہيں برکت دے ، تم پر اپني برکت فرمائے اور تم دونوں کو خير کے ساتھ اکٹھا رکھے۔(صحيح أبي داود:2130(
اور دلہا کو چاہئے کہ لڑکی کی رخصتی کے بعد ولیمہ کرے ۔ولیمہ سے متعلق عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی شادی کی حدیث گزری جس میں نبی ﷺ نے کہا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کیوں نہ ہو۔
نکاح سے متعلق مزیدچند باتوں کی وضاحت
(1) نکاح پڑھانے کے لئے کسی دوسری جگہ سے عالم یا قاضی بلانے کی ضرورت نہیں ہے لڑکی کا ولی لڑکا سے کہے میں فلانہ بنت فلاں کی شادی آپ سے کرتا ہوں اور لڑکا کہے میں قبول کرتا ہوں ۔ شادی ہوگئی۔ گاؤں میں عالم موجود ہو تو ان سے نکاح پڑھالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(2) نکاح کے وقت لڑکا یا لڑکی سے کلمہ پڑھا نا ، توبہ کرانا اور ایمان مجمل وایمان مفصل بیان کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے یہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔
(3) عقد نکاح کے لئے عربی کلمات مثلا زوجت، نکحت، قبلت کے الفاظ کہنا ضروری قرار دینا غلط ہے کسی بھی زبان میں ایجاب وقبول ہوسکتا ہے ۔
(4) لازما تین دفعہ ایجاب وقبول کروانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ بھی کافی ہے ۔
(5) نکاح کے بعد چھوہارا تقسیم کرنا رسول اللہ یا اصحاب رسول اللہ کی سنت نہیں ہے یہ محض رسم ہے اسے ہٹانا بہتر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر تنازع ہوتا ہے ۔ بیہقی کی روایت اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔ : كان إذا زوَّج أو تزوَّج نثَر تمرًا. ( السلسلة الضعيفة:4198)
ترجمہ: جب نبی ﷺ شادی کرتے یا کراتے تو کھجور تقسیم کرتے ۔
(6) نکاح ہونے کے بعد آنگن یا صحن میں دلہا اور اس کے خواص کو طلب کرنا اور اجنبی لڑکیوں کاان سب سےہنسی مذاق ، چوری چماری، نازیبا کلام وحرکات ناجائز وحرام ہےاس کا گناہ وہاں موجود دیکھنے سننے اور مددکرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا۔
(7) مہر نہ تو ارکان نکاح میں سے ہے اور نہ ہی شروط میں سے ،اگر نکاح کے وقت مہر طے نہیں ہوا تو بھی نکاح صحیح ہے لیکن نکاح ہو جانے سے مہرمثل واجب ہوجاتا ہے ۔
(8) مسجد میں نکاح کو سنت قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ مسجد میں نکاح سے متعلق روایت ضعیف ہے ، نکاح مسجد، غیرمسجد کہیں بھی کرسکتے ہیں ۔
(9) صرف چار لوگوں کی موجود گی ولی ، لڑکا اور دو عادل گواہان سے شادی ہوجائے گی تاہم کچھ لوگ مزید جمع ہوجائیں تو اعلان نکاح ہوجائے گا مگر مروجہ بارات کا تصور اسلام میں نہیں ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
(10) اوپر بیان کئے نکاح کے ارکان وشرائط پائے جائیں تو ٹیلی فون پر بھی نکاح درست ہے مگر لڑکی کو بھگا کر ایک دوسرے کے گلے میں ہار ڈال دینے یا انگوٹھی پہنا دینے یا کورٹ میں رجسٹریشن کرا لینے یا پارک میں جھولہ چھاپ نکاح خواں سے نکاح پڑھوا لینے سے نکاح نہیں ہوگا جب تک کہ لڑکی کا ولی راضی نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment