Nikah Mesyar aur Nikah Mutah Kya hai?
Nikah Mutah aur Nikah Mesyar me Kya Fark Hai, isme kya chijon ki Jaruri nahi hoti?
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
نکاح مسیار
نکاح مسیار کے بارے میں وضاحت رہے کہ اس نکاح میں نکاح کے چاروں ارکان اورشرائط پوری ہوتی ہیں۔۱- نکاح مسیار میں لڑکی کے ولی کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ اس کے جواز کا فتوی دینے والے کہتے ہیں۔ ۲۔ دوسرا گواہان موجود ہوتے ہیں اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔
۳۔ تیسرا نکاح میں لڑکی کے لیے با قاعدہ حق مہر موجود ہوتا ہے۔
۴۔ اور چوتھی چیز یہ کہ ایجاب وقبول بھی ہوتا ہے اور یہ موقت نہیں ہوتا یعنی ہمیشہ کے لیے نکاح ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر نکاح مسیار اور عام نکاح میں کیا فرق ہے کہ اس بارے اتنا اختلاف ہو گیا۔ فرق یہ ہے کہ عام نکاح میں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہائش، خرچہ اور وقت دے جبکہ نکاح مسیار میں مرد شادی کے وقت یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ بیوی کو رہائش نہیں دے گا، یا خرچہ نہیں دے گا، یا وقت نہیں دے گا، یا ان میں سے دو یا تین چیزوں کی ہی شرط لگا لے کہ وہ یہ نہ دے گا۔
علماء کے مابین اس پر تو اتفاق ہے کہ رہائش، خرچہ اور وقت عورت کے شرعی حقوق ہیں لیکن اس میں اختلاف ہو گیا کہ کیا عورت اپنے ان حقوق کو معاف کر سکتی ہے؟ یعنی مرد اگر عورت سے شادی کے موقع پر یہ کہے کہ میں ان حقوق کو ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لہذا تم مجھے یہ حقوق معاف کر دو اور شادی کے موقع پر اس کا معاہدہ ہو جائے تو کیا اس طرح سے یہ حقوق معاف ہو جاتے ہیں یا پھر بھی باقی رہتے ہیں؟
نکاح مسیار کے بارے علماء اہل سنت کی تین رائے ہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے لیکن ہو جاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک صورت ہمارے معاشروں میں گھر جوائی کی بھی ہو سکتی ہے۔ یا شادی کے بعد لڑکی کا خرچہ اس کے والدین اٹھائیں، یا لڑکی کو گھر اس کے والدین بنا کر دیں وغیرہ۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ عملا ہمارے معاشروں میں ہو رہا ہے، اور ایک یہ ہے کہ کیا نکاح کے موقع پر مرد کی طرف سے اس کی شرط لگائی جا سکتی ہے؟
جن علماء نے اس کی اجازت دی ہے، ان میں سابق مفتی سعودی عرب شیخ بن باز، شیخ عبد العزیز آل الشیخ اور سابق مفتی مصر شیخ نصر فرید واصل وغیرہ ہیں۔ ان کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو نکاح کے موقع پر لگائی جائیں۔ اور یہ بھی کہ حضرت سودۃ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں چھوڑ دی تھی وغیرہ۔
جو علماء نکاح مسیار کو مکروہ کہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہو جاتا ہے تو ان میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور شیخ عبد اللہ بن منیع وغیرہ شامل ہیں۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اس نکاح میں شادی کی جو مصالح ہیں، وہ پوری نہیں ہوتیں لہذا مکروہ ہے اور حرام اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس میں کچھ ایسا مفقود نہیں ہے جو نکاح کے ارکان اور شروط میں شامل ہو۔
اور جن علماء نے نکاح مسیار کو ناجائز کہا ہے تو ان میں علامہ البانی، ڈاکٹر علی قرۃ داغی اور ڈاکٹر سلیمان الاشقر وغیرہ شامل ہیں کہ ان کے نزدیک یہ وہ نکاح نہیں ہے کہ جسے اسلام نے متعارف کروایا یا رواج دیا ہے۔
نکاح متعہ اور نکاح مسیار میں فرق یہ ہے کہ متعہ ایک وقتی نکاح ہے جبکہ نکاح مسیار دائمی نکاح ہوتا ہے۔ نکاح متعہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی جبکہ نکاح مسیار میں وارثت جاری ہوتی ہے۔ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی کہ وقت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے جبکہ نکاح مسیار میں طلاق ہوتی ہے۔ نکاح متعہ میں تعداد مقرر نہیں ہے یعنی ستر سے بھی ہو سکتا ہے جبکہ نکاح مسیار چار سے زائد سے نہیں ہو سکتا۔ متعہ میں لڑکی کے ولی اور گواہان کا ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ نکاح مسیار میں ولی اور گواہاں کا ہونا ضروری ہے۔
نوٹ: بہر حال یہ علماء کا اختلاف ہے جو ہم نے اس بارے نقل کر دیا ہے، البتہ نکاح مسیار کو کسی طور بھی پسندیدہ امر نہیں کہا جا سکتا کہ رہائش، خرچہ اور وقت عورت کے حقوق ہیں کہ جنہیں مرد کو ادا کرنا ہی چاہیے، چاہے عورت انہیں چھوڑنے پر راضی ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
No comments:
Post a Comment