Ludo Ya Carem board Khelna kaisa Hai?
بورڈ اور لڈو کھیلنا
سوال:
ہمارے معاشرہ میں جب کسی کے پاس وقت فارغ ہوتا ہے تو وہ لڈو اور کیرم بورڈ کھیلنے میں اپنا وقت گزارتا ہے، کیا دین اسلام میں اس قسم کے کھیل کھیلے جا سکتے ہیں؟
جواب:
کھیل کا اصل مقصد ذہنی آرام اور جسمانی ورزش ہوتا ہے، جس کھیل میں یہ مقصد پورا نہ ہوتا ہو اسے کھیلنے کی اجازت نہیں۔ احادیث میں اس قسم کے کھیلوں کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت برید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے نرد شیر کھیلا، اس نے گویا اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون سے آلودہ کیا۔‘‘(صحیح مسلم، الشعر: ۲۲۶۰)
عربی زبان میں نرد کا معنی ’’لعبۃ الطاولۃ‘‘ کیا گیا ہے، وہ کھیل جو لکڑی کے تختے پر کھیلا جائے۔ اس میں کیرم بورڈ، سنوکر، شطرنج اور لڈو وغیرہ تمام فضول کھیل آجاتے ہیں۔ ایک بندۂ مومن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ایسے فضول کھیلوں سے خود کو آلودہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کا ایک وصف بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’رحمن کے بندے جب کسی لغو اور بے فائدہ چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت طور پر گزر جاتے ہیں۔‘‘(الفرقان: ۷۲)
اس کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن لغو اور فضول کھیلوں کو عمل میں لانا تو در کنار بلکہ وہ ایسے کھیلوں کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں اور وہاں سے شرافت کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس قسم کے کھیل کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے چوسر کھیلا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔‘‘ (ابودائود، الادب: ۴۹۳۸)
ہمارے رجحان کے مطابق شرعی طور پر ایسے تمام کھیل ناجائز ہیں جو وقت اور سرمائے کے ضیاع کا باعث ہوں۔ اگر جائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہوتا ہو تو وہ بھی ناجائز قرار پائیں گے۔ بہرحال جس شریعت میں ’’چوسر‘‘ کھیلنے کی اجازت نہیں، اس میں کرکٹ جیسے کھیل کی اجازت کس طرح ہو سکتی ہے جس میں بڑی بے دردی سے بے شمار لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے؟ اس کھیل میں نماز، روزے کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ نیز یہ کھیل جوئے جیسی بدترین لعنت کا سبب اور ذریعہ بن چکا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے فضول کھیل، مسلمان کی شان کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے کھیلوں سے دور رکھے جس کا کوئی دینی، دنیوی، ذہنی یا جسمانی فائدہ نہ ہو۔ (واللہ اعلم)
No comments:
Post a Comment