Kam To Bs MAi Hi Karta Hoo
ثناءاللہ صادق تیمی
میں ایک مضمون کے ترجمے میں لگا ہوا تھا ، ایک لفظ ایسا تھا کہ اس کی اردو کہیں سے بیٹھ نہیں رہی تھی، میں نے کئی سارے الفاظ لکھے اور کاٹے ، پھر دوبارہ لغت سے رجوع کیا تو لغت نے بھی دادرسی نہیں کی ۔بیگم کو زرا تیز آواز میں حکم دیا کہ چائے پیش کرے اور بے چار ی ڈر گئی کہ ضرور کوئی مسئلہ ہے اور چپ چاپ اس نے چائے سامنے لاکر رکھ دیا لیکن وہ لفظ اپنی جگہ اڑا رہا ، کاہے کو ترجمے میں ڈھلے ۔ خود پر تیز غصہ آرہا تھا اور اپنی اوقات اچھی طرح سمجھ میں آرہی تھی کہ ہمارے دوست بے نام خاں آئے اور ہمیں پریشان دیکھ کر شروع ہوگئے ۔
اف مولانا صاحب ! یار یہ کیا ترجمے کو لےکر پریشان رہتے ہو ؟ ارے ترجمہ بھی کوئی بڑا کام ہے کیا ؟ کوئی تخلیقی کام ہو تو ایک بات بھی ۔ ایک تو سکنڈ تھرڈ گریڈ کا کام کرتے ہو اور اس پر اتنے پریشان رہتے ہو جیسے فرسٹ گریڈ کا کام کررہے ہو ۔ چھوڑو بھی ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تو پہلے سے ہی کافی غصہ تھا ۔ اب کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے کہا : خان صاحب! بہت فرسٹ ، سکنڈ ، تھرڈ گریڈ کررہے ہو تو چلو اس تھرڈ گریڈ کام میں پھنسا ہوا ہوں ، ایسا کرو اس لفظ کا مطلب بتلاؤ ۔
خان صاحب نے لفظ کو بغور دیکھا ، کئی ایک الفاظ زبان پر آئے اور پھر خود ہی نہ اوں ہوں کا شکار ہوگئے ۔ اب خان صاحب نے ایک دوسرا تیر چلایا ۔ یار مولانا! تمہیں بھی ترجمہ ہی کرنا ہو تو کسی سلجھے ہوئے قلم کار کی تحریریں ترجمہ کیا کرو نا ، یہ کیا کسی بے وقوف کی تحریر ترجمے کے لیے منتخب کرلی ہے ۔ میں نے اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے کہا : ویسے یہ عربی شیخ شریم کی ہے ! اب کہ خان صاحب کا چہرا دیکھنے لائق تھا ۔ یار میرا مطلب تھا کہ شیخ کو بھی تھوڑا ۔۔۔۔۔۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو تم سمجھ رہے ہو نا ۔۔۔شیخ اگر آسان الفاظ استعمال کرتے تو تمہیں ترجمہ کرنے میں کتنی آسانی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا پارہ گرم ہورہا تھا ۔ اب میری باری تھی : خان صاحب ! نکل گئی ساری ہیکڑی ، بابو ! ترجمہ کرناکوئی سکنڈ گریڈ یا تھرڈ گریڈ کام نہیں ہے ، ہر کام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور سماج و ملت کو اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سماج کے سارے لوگ اگر ترجمہ ہی کرنے لگیں تو تخلیقی کام کون کرے گا ؟ اور اگر سارے تخلیقی کام کرنے لگیں تو ترجمہ کون کرے گا ؟ پھر اللہ نے سب کو الگ الگ صلاحیتیں دی ہیں ، الگ الگ دلچسپیاں دی ہیں اور لوگ اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے حسا ب سے کام کرتے ہیں ۔ ایک محقق کی اہمیت یہ ہے کہ وہ محقق ہے اور ایک ناقد کی یہ کہ وہ ناقد ہے اور ادیب کی یہ کہ وہ ادیب ہے اور ظاہر ہے کہ ہر کسی کی اپنی اہمیت اور ضرورت ہے ۔
مدرس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پڑھاتا ہے اور تدریس اپنے آپ میں بڑا کام ہے ، داعی کی اہمیت یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام عام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور یہ کم اہم کام نہیں ۔ بہت اچھی بات ہے ۔ قلم کار لکھتا ہے اور کتابیں شائع ہوتی ہیں ، ایک مقرر تقریر کرتا ہے اور باتیں لوگوں کے دلوں میں اترتی ہیں ، کتنوں کے دل بدل جاتے ہیں اور کتنوں کی دنیا سنور جاتی ہے ۔ آپ صرف اس لیے اچھے نہیں ہیں کہ آپ مصنف ہیں اور میں صرف اس لیے کم اہم نہیں ہوں کہ میں مقرر ہوں ،دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کون کتنی ذمہ داری اور ایمانداری سے اپنا کام کرتا ہے ۔ملت و معاشرہ کو تو ہر ایک کی ضرورت ہے ۔ یہ تقابل کی نفسیات کیوں جنم لیتی ہے ؟ اس کے پیچھے فائدہ کیا ہے ؟
کبھی سوچا ہے کہ ابوالکلام آزاد کے الھلال اور البلاغ نے اگر صحافت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اورکتنے لوگوں کی دنیا بدل دی تو وہیں ان کی تقریروں نے بھی کم جاد و نہیں کیا ۔ اقبال کی شاعری نےاگر دلوں میں ایمانی حرارت پیدا کی تو ایسا نہیں ہے کہ شبلی اورسید سلیمان ندوی کی نثر نے کچھ نہیں کیا ؟ مودودی نے اگر اپنی فکری اور علمی کتابوں سے نئی نسل کو متاثر کیا اور اسلام کی خدمت کی تو مسعود عالم ندوی کی کیا یہ کم اہمیت ہے کہ انہوں نے مودودی کو عالم عرب سے متعارف کرایا ؟
خان صاحب ! زندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ مختلف میدانوں کے ماہرین ہمارے پاس ہوں ۔ خطیب بھی ہوں مناظر بھی ، محقق بھی ہوں ناقد بھی ، ادیب بھی ہوں شاعر بھی ، مدرس بھی ہوں داعی بھی ، منصف بھی ہوں صحافی بھی اور سب ایمانداری سے اپنا کام کریں ۔ تب معاشرہ بہتر معاشرہ بن پائے گا ۔ ہمارے معاشرے کو طبیب ، مہندس اور اچھے تاجر بھی درکار ہیں ، اچھے سیاستداں اور ڈپلومیٹ کی بھی ضرورت ہے اور سب کی اپنی اہمیت ہے ۔ بنیاد یہ ہے کہ سب اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ایمانداری سے اپنا کام کریں ۔ اور ہاں ایک چیز اور ہے اور وہ ہے کہ ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں ، خدمات کا اعتراف کریں ۔ بہت سے مصنف ہیں کہ محفل میں کھڑے ہوں تو دو لفظ ٹھیک سے ادا نہ کرسکیں ۔ بہت سے مقرر ہیں کہ قلم پکڑیں تو ہاتھ تھرتھرا جائے ، بہت سے داعی ہیں کہ تدریس ان کے بس کا نہیں ، بہت سے مدرس ہیں کہ دعوت کا کام ان سے نہیں ہوپاتا ۔محقق سے تخلیق کا مطالبہ درست نہیں اور ناقد سے تحقیق کی طلب فضول ہے ۔
ایک مناظرے میں ایک بڑے شیخ الحدیث بھی تھے اور ایک مقرر بھی ۔ کچھ دیر مناظرہ چلا تو شیخ الحدیث کے پسینے چھوٹ گئے ۔ اجازت لے کر مقرر نے جب مورچہ سنبھالا تو فریق مخالف کو اسٹیج سے بھاگتے ہی بنا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیخ الحدیث کمزور تھے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ مقرر کی بھی اپنی اہمیت ہے !!
رات دن سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ سیاست سے مفر بھی نہیں ہے ۔ آپ خود بھی سیاست کا حصہ بنیے البتہ سیاست میں ایمانداری برتیے ، اپنی ذمہ داری ادا کیجیے ۔ خان صاحب ! رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی سب ایک ہنر کے نہیں تھے ، سب کی الگ الگ خصوصیات تھیں اور سب کی خوبیوں سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا اور ان کی تربیت کی ۔ کوئی قلم کا دھنی تھا تو کوئی شاعری کا امام ، کوئی میدان حرب و ضرب کا مرد میداں تھا تو کوئی معاملات کو سلجھانے کے ہنر سے خوب واقف ۔کسی میں نرمی تھی تو کسی میں جلال ، کسی میں حیا کا عنصر زيادہ محکم تھا تو کسی میں شجاعت و بہادری کا ۔رسول پاک نے سب کی تربیت کی اور سب کی خوبیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ۔
آپ سے بھی شعور اور دانش کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر کام کی اہمیت کو سمجھیے اور کرنے والے کے کام کا اعتراف کیجیے ، اس سے معاشرہ ترقی کرے گا ورنہ کیڑے نکالتے رہیے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہیے ، خود کو برتر اور دوسرےکو کمتر سمجھنے کے روگ میں مبتلا رہیے ،معاشرے کو غارت اور شیطان کو خوش کرتے رہیے ۔