find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Hazrat Khalid bin Walid Rz ne kaise Roman Empire aur Farsi Saltnat ko Shikasht di?

Khalid Bin Walid ne Roman Empire aur Faras Empire ko kaise Shikasht di?

Khalid bin Walid ko "Saifullah" Ka laqab kyu mila?
Aaj koi Baccha Sultan Salahuddin Ayyubi jaisa kyu nahi banta?

Sultan Salahuddin Ayyubi aur Masjid Al Aqsa.

مسلم ملکوں نے اسلام کو اپنا دستور مانا لیکن عمل اس پر نہیں

مغربی ملکوں نے عقل کو اپنا دستور مانا تو اس پر عمل بھی کر کے دکھایا.

طبعی بات تھی کہ نئی آنے والی نسلیں اسلام کے متعلق بدگمانیاں پالتیں اور مغرب کے متعلق اچھے خیالات!

حضرت خالد بن ولید 592ء میں مکہ میں بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے گھر پیدا ہوئے۔

ان کے سن پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے آپ شروع سے ہی دلیر اور غیر معمولی بہادری کے حامل تھے اور غزوہِ احد میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کا پیاسا الٹنے والے یہ ہی تھے اس کے علاؤہ آپ غزوہِ خندق میں بھی مسلمانوں کے خلاف لڑے آپ بت پرستی کی طرف اتنے مائل نہ تھے آپ ایک آزاد ذہنیت کے حامل تھے.
جب مسلمان 5 ھ میں خندق کی جنگ جیت گئے اس وقت سے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگی صلاحیت کے معترف ہو گئے.

خالد بن ولید خود ایک بہادر تھے اس لئے وہ جوہر شناس تھے.
7ھ کو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فتح خیبر کے بعد آپ اسلام کے اور نزدیک ہو گئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے پہلے ہی مکہ میں عکرمہ بن ابی جہل کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ایمان لا چکے ہیں عکرمہ بن ابی جہل نے یہ بات ابو سفیان تک پہنچائی کیونکہ اس وقت مکہ میں خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے بہادر تھے اس لئے عکرمہ بن ابی جہل اور ابو سفیان دونوں نے آپ کے اس فیصلے کو مجبوراً قبول کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عمر بن عاص اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 31 مئی 629ء بمطابق یکم صفر 8ھ کو مدینہ منورہ پہنچے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھو مشرف بہ اسلام ہوئے۔

جس سال آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے یعنی 8ھ کو اسی سال مسلمان جنگ موتہ میں رومیوں سے لڑے۔

اس جنگ جب سیدنا زید بن حارثہ، سیدنا جعفر بن طیار اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ کے شہادت کے مسلمانوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سپہ سالار بنایا۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خداداد صلاحیتوں مسلمان لشکر واپس لوٹ آیا اس جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ کا لقب دیا .
خلافت صدیقی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سپہ سالار اعلیٰ تھے اور مسلمہ کذاب کے خلاف کھٹن جنگوں میں فتح یاب ہوئے.
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو  کہہ کر معزول کر دیا کہ کہیں مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ کہ ہر جگہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے فتح یاب ہو رہے بلکہ یہ فتوحات اللہ کی طرف سے ہے۔

معزول ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہر جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا انہوں نے جنگ یرموک میں فتح سمیٹی اجنا دین میں جیتے دومتہ الجندل جیتے اردن فتح کیا فارسی سلطنت کے عراق علاقے فتح کیے تمام شام فتح کیا ترک علاؤہ انطاکیہ فتح کیا, فلسطین بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمان میں فتح ہوا, الغرض آپ نے سو چھوٹی بڑی جنگوں میں حصہ لیا اور ہر ایک میں کامیاب رہے.

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی معزولی کی وجہ سے بھی رنجیدہ تھے اس کے علاؤہ اسی عرصے کے دوران جب شام اور فلسطین میں طاعون کی وبا پھیلی تو وبا کی زد میں بڑے بڑے صحابہ کرام جب میں آپ کے قریبی ساتھی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی. اسی سال حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وجہ سے غمگین رہتے تھے.

مسلسل جنگوں میں شرکت کی وجہ سے ان کی جسمانی قوت سرعت سے زائل ہونے لگی اور آپ شہادت کی آرزو میں جینے لگے آپ کی وفات سے قبل ایک دوست آپ سے ملنے آئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سینہ ٹانگیں کمر اور بازو دکھائے جن پہ تلواروں تیروں اور نیزوں کے زخموں کے نشانات تھے اور کہا کہ مجھے اس کے باوجود بھی شہادت نصیب نہ ہوئی آپ کے دوست نے کہا کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا ہے اگر آپ شہید ہو جاتے تو کفار کہتے ہم نے اللہ کی تلوار توڑ دی .

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 18 رمضان المبارک 21 ھ بمطابق 20 اگست 642ء کو شام کے شہر حمص میں ہوئی۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملکیت میں چند تلواریں ایک گھوڑا اور ایک غلام تھا جب آپ کی وفات کی خبر مدینہ پہنچی تو عورتیں بین کرنے لگ گئی سیدنا عمر فاروق کسی کی وفات پہ رونے کے سخت خلاف تھے لیکن ابو سلیمان (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی وفات پہ فرمایا کہ عورتوں کو رو لینے دو ایسا بیٹا مائیں روز روز پیدا نہیں کرتیں۔

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین شام کے شہر حمص میں ہوئی اس جگہ پہ مسجد خالد بن ولید کے نام سے تعمیر کی گئی.

خاک بطحا خالدے دیگر بزاے
نغمہ ی توحید را دیگر سراے
مطلب: اے سرزمین مکہ تو پھر کوئی خالد پیدا کر اور ایک بار پھر توحید کا راگ گا.

#خالد_بن_ولید
#رمضان٢٠٢٣
#رمضان

Share:

Auraton ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me? Kya Auraten Masjid me Taraweeh ki Namaj padhne ja sakti hai?

Khawateen ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me?

Asmara HT
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُاللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

خیریت سے ہیں آپ؟

ڈیر اپی میں پوچھنا یہ چاہ رہی تھی کہ کیا عورتیں مُسلسل جماعت سے نماز نہ ادا کریں؟
کیا عورتوں کا انفرادی طور پر نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے؟
کیونکہ میری دو بہنیں اور امّی اکٹھا تراویح کی نماز اور باقی نمازوں میں اکثر جماعت سے ہی ادا کر لیتے ہیں تو میرا سوال یہاں یہ ہے کہ ہم نماز الگ الگ پڑھیں یہ ایسے ہی جماعت کے ساتھ پڑھتے رہیں؟
کُچھ لوگوں کو اِس پر اعتراض ہے پلیز واضح کر دیں۔۔
آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔
شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ معزز و مکرم سسٹر

الحمدللہ انابخیر اختی ۔۔۔۔

ہر حال میں عورت کی گھر میں پڑھی جانے والی نماز اس نماز سے افضل ہے جو مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے چاہے وہ گھروں میں تنہا نماز ادا کرے یا با جماعت بنا کر ۔ احادیث اس مسئلہ پر بعبارۃ النص دلالت کرتی ہیں کہ بہ نسبت مسجد کے عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر اور افضل ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها(صحيح أبي داود : ۵٧۰ )

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

تاہم اگر خاتون مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا چاہے تو  اسے روکنا نہیں چاہیے بشرطیکہ مکمل شرعی پردے کے ساتھ ہو اور خوشبو استعمال کئے بغیر  مسجد میں جائے اور مردوں کے پیچھے نماز ادا کرے ۔

عن ابی هریرة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن تفلات۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگو! تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو۔
(صحيح أبي داود: ۵۶٧)

اور اگر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو تو عورت کیلیے افضل یہی ہے کہ انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کے بجائے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے چاہے یہ جماعت خواتین کے ساتھ ہو یا محرم مردوں کے ساتھ ۔چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" (4989) میں ام الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ خواتین کی امامت کرواتی تھیں، اور وہ اس دوران انہی کی صف میں کھڑی ہوتیں۔

اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے "تمام المنہ" صفحہ: 154 میں صحیح کہا ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر گھر کی خواتین گھر میں با جماعت نماز کا اہتمام کریں تو یہ افضل ہے، اس کیلیے خاتون امام پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی ، ان کی امامت وہی کروائے گی جس کے پاس سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اور دین کے احکامات اس کے پاس سب سے زیادہ ہوں ۔

لہٰذا گھر کی خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر میں جماعت کی سہولت ملنے پر انفرادی نماز پر با جماعت کو فوقیت دیں اور نماز میں خشوع حاصل کرنے کیلیے بھر پور کوشش کرے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Parda karna koi Conservative Soch nahi balki Haya aur Izzat dar hone ki nishani hai? Hijab Muslim Auraton ke Sar ka taj hai?

Islam me Auraton ke liye Parde ka hukm kis liye hai?

Khawateen ka Hijab Purani soch nahi balki Nayi soch hai.

اس وقت ہمارے گھروں میں پرانے زمانے کی جاہلیت اور نئے زمانے کی جاہلیت کا ایک عجیب مرکب رائج ہے۔ ایک طرف تو وہ "روشن خیالی" ہے، جو ہماری مسلمان خواتین کو فرنگیت زدہ شکل میں لا رہی ہے، اور دوسری طرف اسی روشن خیالی کے ساتھ ساتھ پرانے زمانے کے جاہلانہ تخیلات، مشرکانہ عقیدے اور غیر اسلامی رسمیں بھی ہماری معاشرت میں برقرار ہیں۔

جن خواتین کو اپنے ایمانی فرائض کا احساس ہو جائے، ان کا کام یہ ہے کہ پرانی جاہلیت کی رسموں اور تصورات کو بھی چن چن کر گھروں سے نکالیں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے ان مظاہر کا بھی خاتمہ کریں، جو فرنگی تعلیم اور انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید کی بدولت گھروں میں گھس آئے ہیں۔

پردے کا مقصد مسلمان عورت کو وقار، احترام اور اس کی پہنچان دینا ھے تاکہ کوئی ہوس نفس کا دیوانہ اسے اپنے لئے چارہ گاہ نہ سمجھے آج مغرب ذہ اور ماڈرن ایزم کے شوق میں ہماری بہت سی بہنیں اسے نظر انداز کر رہی ہیں یاد رکھیں یہ قران میں اللّه تعالی کا حکم ھے کسی انسان یا کسی مولوی کی بات نہیں کچھ دیر کے لئے سوچیں کہیں قیامت کے دن اس کی جواب دہی میں مشکل پیش نہ آئے!

میرا حجاب مسلم معاشرے کی زینت و شعار ہے.
   
باپردہ عورت غیرت مند باپ، غیرت مند بھائی، غیرت مند شوہر اور غیرت مند خاندان کی نشانی ہوتی ہے۔

بے حیائی ہر شے کو داغدار بنا دیتی ہے اور شرم و حیاء اْسے زینت عطا کرتی ہے.

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں باخوبی اندازا ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوں کا معاشرہ ستر و حجاب سے خالی نظر آتا ہے۔

عورتوں میں نمائش حسن ِ نزاکت عام تھی ،اپنی ذات کوفیشن سے پرْ کر لینا، اس میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر جب دْنیا کے اندر مذہبِ اسلام نے اپنا مقدس و پاکیزہ قدم رکھا تو تمام برائیاں ختم کردیں اور پردے کو عورت کے حق میں لازم قراردی دیا تاکہ معاشرے میں بے ادبی، بے شرمی و بے حیائی نہ پھیلے، اور معاشرہ صاف ستھرا رہے ۔

نبی کریم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے ’’دوپٹہ عورت کی عزت ہوتا ہے اگر عورت خود اِس کو اپنے سر سے اتار دے تو پھر کوئی مرد اْسے عزت کی نگاہ سے کیسے دیکھے گا ‘‘

یہ بات بھی ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیاء کا مفہوم بہت و سیع ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ’’ حیاء اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ، ان میں سے اگر ایک بھی اْٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اْٹھ جاتا ہے یعنی ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں‘‘ یہ حکم ِ ربی ہے کہ جب ہم نے کلمہ پڑھ لیا اطاعت کا وعدہ کر لیا اس کی بجا آوری کے لئے ضروری ہے کہ کوئی وجہ وضاحت مانگے بغیر سر تسلیم خم کریں اور اْس پر عمل کریں سب سے بڑی وجہ جب عورت پردے میں ہوتی ہے تو کوئی بھی انسان اْس پر بری نظر نہیں ڈالتا کیونکہ آگے پردے کی دیوار ہے۔

گویا پردہ ایک قلعہ ہے لہذا باپردہ خواتین بلا جھجک ضرورت ِ زندگی کے کام آرام و سکون سے انجام دے سکتی ہیں مطلب کہ عورت کا پردہ اْس کا محافظ ہے.

عورت کا دائرہ کار اْس کا گھر ہے مگر ضرورت کے لئے باہر نکلنا پڑتا ہے اور جب یہ اللہ کا حکم ہے اور ہم اْس کے بندے ہیں تو اس میں قیل وقال کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

زمانہِ قدیم سے ہی حجاب مشرقی روایت و جذبات کا عکاس رہا ہے، بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ مشرق کو جو چیز مغرب سے ممتاز کرتی ہے وہ حجاب کا استعمال ہے۔

لیلیٰ احمد ایک امریکی مسلم ہے اپنی کتاب میں انہوں نے حجاب و نقاب کی اہمیت و افادیت کو اْجاگر کیا ہے امریکہ میں خواتین کو لباس پہنے کی مکمل آزادی ہے۔

لیلیٰ نقاب کا اہتمام کرتی ہیں اور اس ضمن میں ان کے خیالات بہت متوازن ہیں, یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ امریکہ میں اسلام دشمنی کے باوجود اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔
احکامِ حجاب نہ صرف مرد خواتین کی معاشرتی حدود کا تعین کرتے ہیں بلکہ اسکی وسعت و سوچ کی پاکیزگی سے لیکر مرد و عورت کے دائرہ عمل سمیت معاشرتی زندگی کے بیشترحصوں کا احاطہ کرتا ہے۔

ایک نوبل انعام یافتہ مسلم لڑکی سے کسی صحافی نے پوچھا ؛ آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں جب کے آپ باشعور ہیں آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔۔۔؟

’’اْس عظیم لڑکی نے جواب بھی لاجواب دیا ’’ آغازِ کائنات میں انسان بالکل بے لباس تھا اور جب اْسے شعور آیا تو اس نے لباس پہننا شروع کیا۔ آج میں جس مقام پر ہوں اور جو پہنتی ہوں وہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے، حجاب تحفظ و اعتماد کا احساس عطا کرتا ہے۔ یہ قدامت پسندی نہیں، اگر لوگ پرانے قوموں کی طرح پھر سے بے لباس ہوجائیں تو یہ قدامت پسندی ہے ، ‘‘اس عورت سے خوبصورت کوئی نہیں اس دنیا میں جو صرف اور صرف اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے پردہ کرتی ہو‘‘

اللہ تعالیٰ نے پردہ ہمارے لئے جیسے ایک نعمت رکھی ہے، ہم پھر بے پردہ ہو کر کیوں اپنی انا و عصمت کو داؤ پر لگائیں پردہ ہی تو ہے جو آج کی عورت کے لئے شرم و حیا کی علامت ہے۔

جلال و احترام کی چادر، حسن و جمال کا سب سے خوبصورت تاج اور ادب و کمال کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اللہ کی طرف سے تحفہ ِعظیم ہے، ہم پردے میں ہی اپنی زینت چھپا سکتے ہیں زمانے اور شر پسند لوگوں کی نظروں سے بچ سکتے ہیں.
بے پردگی نے عورت کی عزت وعصمت کو اس طرح برباد کر دیا ہے کہ پارسائی اور پاکدامنی کا لفظ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔

عورت کی پاکدامنی کا تاج حجاب، عورت کی خوبصورتی حیاء میں ہے عورت کی عزت و وقار پاکدامنی میں ہے۔
عورت کا رتبہ بلند اخلاق میں ہے ،، عورت کا تحفظ پردے میں ہے. پردے کا مقصد خواتین کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا یا اْن کی تمناؤں کا خون کرنا نہیں ہے بلکہ اْس کو عزت و عصمت و عظمت کی دولت سے نوازنا ہے اور مردوں کو بے خیالات و جذبات سے بچانا ہے۔

اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور برائی اور بے حیائی کی روک تھام کے لئے بہترین اور جامع نظام مسلمانوں کو دیا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی چھلک نظر نہیں آرہی آج کہا جاتا ہے کہ دنیا ترقی کر رہی ہے کیا عورت کے بن سنور کر نمائش کرنا، فیشن کا مظاہرہ کرنا یہ ترقی ہے۔۔۔۔؟

مغربی طرز کے کپڑے پہن کر پارکوں، گلیوں اور بازاروں میں پھرنا اسکول و کالجوں میں پھرنا یہ کون سی ترقی کی مثال ہے۔۔۔؟

موجودہ صدی کی ایجاد و اختراع نے جہاں زندگی کو بہت حد تک پرْ آسائش بنا دیا ہے وہیں لوگوں کی لائف اسٹا ئل کو بھی بدل کے رکھ دیا ہے پچھلے کچھ برسوں سے خواتین میں حجاب اور عبائیہ پہنے کا روحجان زیادہ نظر آرہا ہے۔

اس حوالے سے پردے والی خواتین ہی نہیں بلکہ اکثر خواتین شوقیہ پہنے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔

ایک دور تھا کہ عبائیہ پہنا صرف پردے والی خواتین تک محدود تھا مگر اب اس شوق میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔

فیشن پرستی اور بے حیائی کی لعنت نے اخلاقی قدروں کے زوال کو اور سسکتی ہوئی انسانیت کے حالت، زار کو بہت نمایا ں کر دیا ہے۔ حیاء انسان کا وہ فطری وصف ہے جس سے اْسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ہوتی ہے اللہ کی لعنت ہے اْن عورتوں پہ جو لباس پہن کر بھی بے لباس نظر آتی ہیں، مغربی تہذیب نے ان کے فکرو شعور پر اپنا قبضہ جمالیا ہے جو عورتیں پردہ کرتی ہیں انہیں اپنے آپ پر فخر ہونا چاہیے دنیا میں کثیر تعداد میں عورتیں ہیں، مگر پردہ صرف ’’مسلمان عورت ‘‘ہی کرتی ہے یعنی ہمیشہ عزت والی چیزوں کو ہی پردے میں رکھا جاتا ہے۔

حجاب مسلم معاشرے میں پاکیزگی، فروغ اور حیاء و تقدس کے تحفظ کا ذریعہ ہے, ا سلام نے درحقیقت عورت کو نگینے اور آبگینے جیسی حساس اور نازک طبع اور قیمتی چیز سے تشبیہ دی حجاب کے احکامات عورت کے لئے تحفہ کا درجہ رکھتے ہیں۔

Share:

Sehri aur Iftari me Padhi jane wali Dua, Iftari ke waqt Padhi jane wali Masnun Dua.

Iftar ke waqt Padhi jane wali Masnun Dua.

Sehri aur Iftaari me kaun si Dua Padhna Sunnat hai?
Roje ki Halat me Cigarettes, Tobaco ya Beedi Pina (Smoking) kaisa hai?

Kya Aurat Periods ki halat me Quran padh sakti hai?

Kya Na Paki (non Purity) Ki Halat me Sehri kha Sakte hai?

Hamila (Pregnant) Aurat ke liye Roze ka Hukm.

Iftar se Kuchh minutes/Second Pahle Haiz shuru hone se Roza Qubool hoga? 

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

افطار کے موقع پر کون سی دعا کس وقت پڑھی جائے افطار سے پہلے یا افطار کے بعد ؟اس سلسلہ میں افطار کی دعا کی پانچ روایتیں کتب حدیث میں وارد ہیں :

➖ ۱۔ حضرت معاذ بن زہرہ تابعی کی مرسل روایت :

عن معاذ بن زُهْرة، أنه بلغه أن النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-كان إذا أفطر،قال: "اللَهُمَّ لك صُمْتُ،وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ"۔( ابوداود2358)۔

کتب ستہ  حدیثیہ میں یہ دعاصرف ابوداود شریف میں بروایت معاذ بن زہرہ کےواردہے ،حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے لیکن دارقطنی نے "سنن" 3/ 156میں ،اورحافظ ابن حجر نے"التلخيص الحبير" 2/ 202،میں سند کی تحسین کی ہے۔ لیکن دوسرے محدثین نے اسے مرسل قرار دے کر ضعیف کہا ہے۔

اور اس روایت میں راوی کے مشہور الفاظ اسی طرح ہیں ( كان إذا أفطر ) البتہ بعض کتب حدیث میں(إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ ) کے الفاظ سے مروی ہے،جیسے:محمد بن فضیل کی (کتاب الدعا 66)اورابن المبارک کی (کتاب الزہد1411) میں اس طرح ہے :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» ۔

دعا کےبھی مذکورہ بالاالفاظ ہی زیادہ مشہور ومعروف ہیں ، لیکن ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ479) میں قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر کئے ہیں :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْتُ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْتُ» ۔

➖ ۲۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» ۔(الدعاء للطبرانی 918)۔

ابن الشجری نے (الامالی 1213) میں شروع میں بعض الفاظ کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت اس طرح ذکر کی ہے :

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، تَقَبَّلْهُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "

مگر یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں داود بن زبرقان متروک الروایت راوی ہے (التلخيص الحبير 2/ 445)۔

➖ ۳۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (سنن الدارقطنی 2280 ،ابن السني 481)۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (المعجم الکبیر للطبرانی 12720)۔

ابن عباس کی روایت بھی شدید الضعف ہے ، سند میں عبدالملک بن ھارون بن عنترہ پر علماءحدیث نے سخت جرح کی ہے ، جھوٹ بولنے کی تہمت بھی لگائی ہے ۔ ینظر : البدر المنير لابن الملقن (5/ 711)۔

➖ ۴۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 9744) ۔

اس روایت میں(مصنف ابن ابی شیبہ)کے بعض نسخوں میں راوی کے نام میں تحریف واقع ہوئی ہے،(ابو زہرہ) کے بدلے(ابوھریرہ ) ہوگیا ہے،صحیح (ابو زہرہ) ہے، اور یہ معاذ بن زہرہ تابعی کی کنیت ہے ، امام محمد بن فضیل ضبی کی (کتاب الدعاء 66)میں بھی (ابو زہرہ) ہے، جن کے واسطہ سے ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ابن المبارک کی (الزہد) کی روایت سے بھی تایید ہوتی ہے ۔

تحریف واقع ہونے کی وجہ سے ابن الملقن نے (البدر المنیر )میں کہا : وَذكره صَاحب «الْمُهَذّب» من حَدِيث أبي هُرَيْرَة، ثمَّ بيض لَهُ الْمُنْذِرِيّ، واستغربه النَّوَوِيّ وَقَالَ: إِنَّه لَيْسَ بِمَعْرُوف.

➖ ۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت :

يَا عَلِيُّ إِذَا كُنْتَ صَائِمًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقُلْ بَعْدَ إِفْطَارِكَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ۔(مسند الحارث بن ابی اسامہ 469)۔

یہ روایت بھی کافی ضعیف ہے(وقد تکون موضوعہ) سند میں انقطاع  ہے ، ایک راوی السري بن خالدمجہول ہے، اورحمادبن عمرونصيبی متروك الروایت ہے،عبد الرحيم بن واقد میں بھی کلام ہے ۔(تخریج المطالب العالیہ (6/ 141) برقم1074) ۔

احادیث مشہورہ کی تحقیق
واللہ الموفق والہادی الی الصواب
وكتبه العاجز أبو معاذ المكي محمد طلحة بلال أحمد منيار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⛔ صحیح مسنون دعا :

ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَائَ اللّٰہ ُ۔
ترجمہ: تشنگی ختم ہوئی، رگیں ترہوئیں اور ثواب ثابت ہوا اللہ تعالی کی مشیئت سے ۔

عمر رضي اللہ تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَائَ اللّٰہ ُ۔)
ترجمہ: تشنگی ختم ہوئی، رگیں ترہوئیں اور ثواب ثابت ہوا اللہ تعالی کی مشیئت سے ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 ) سنن الدار قطنی حدیث نمبر ( 25 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔

مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے افطار کیا جا ئے پھر دعاپڑھی جائے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری نے افطار کے بعد دعاء پڑھنے کاذکر کیا ہے :
اذاافطرای بعد الافطارقال ذہب الظمأ۔ ۔ ۔ کان اذا افطرقال ای دعاوقال ابن الملک ای قرأ بعد الا فطارومنہ اللہم لک صمت۔ ۔ ۔
(مرقات شرح مشکوٰۃ ج ۲ ص۵۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں

روزہ دار کیلئے قبول ہونے والی دعاء کا وقت افطار سے قبل غروب آفتاب کے وقت ہے ، کیونکہ اس وقت روزہ دار کیلئے انکسار نفس ،اور اللہ کے حضور تواضح ،جمع ہوجاتی ہیں ، اور وہ روزے کی حالت میں ہوتا ہے (اور یہ امور قبولیت دعاء کیلئے بہت مؤثر ہیں )
اور افطار کے بعد تو راحت وفرحت حاصل ہوتی ہے ، اور کبھی کبھی غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے ،
لیکن :۔ وہ دعاء جو نبی مکرم ﷺ سے افطار کے وقت منقول ہے : (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله)
تو یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
’’ اللقاء الشهري ‘‘ 8/ 25
المؤلف : محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ ( مرعاۃ المفاتیح ) میں لکھتے ہیں :
قوله: (إذا أفطر) من صومه (قال) أي بعد الإفطار (ذهب الظمأ) بفتحتين فهمز أي العطش أو شدته
یعنی یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘

افطار سے قبل بھی حسب موقع دعائیں شوق و اہتمام کریں ، پھر بسم اللہ پڑھ کر افطار کریں ،اور افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھ لیں

« ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ »
پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا
(جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعدہی پڑھی جائے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــلاَم عَلَيــــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Kya Haiza (Periods) Aurat Fajar se pahle Haiz Band hone par Sehri kha kar Roze rakh sakti hai?

Agar kisi Haiza Aurat ka Haiz fajar se pahle band ho jaye to wah Roze rakh sakti hai ?

Agar Junbi Mard ya Aurat Fajar kee bad Pak ho to kya wah Sehri kha kar roze rakh sakte Hain?
Kya Periods wali khatoon Sehri se pahle Haiz band hone par Sehri kha kar roze rakh sakti hai aur bad me Ghusal kar sakti hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

طلوع فجر سے پہلے پاکی حاصل ہونے پرحائضہ بغیر غسل کے روزہ رکھ سکتی ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اگر تو فجرسے قبل پاکی حاصل ہوجائے، یعنی ماہواری بند ہوجائے تو ایسی عورت بغیر غسل کیے روزہ رکھ سکتی ہے، اس کا روزہ ان شاءاللہ درست ہوگا، تاہم اس پر نماز فجر کے لیے غسل کرنا لازم ہے ۔

یاد رہے کہ عورتوں میں ماہواری کی عادت مختلف ہوتی ہے، کسی عورت کی ماہواری سات دن میں بند ہوجاتی ہے اور کسی کی پانچ دن میں بند ہوتی ہے ، لھذا عورت اپنی عادت کے مطابق عمل کرے گی ، یعنی جس عورت کی ماہواری کی عادت سات دن ہے اور سات دن بعد وہ صحیح طور پر پاک ہوجائے تو وہ نماز ادا کرے اور اگر رمضان المبارک ہے تو روزہ بھی رکھے ، علماء کرام کا اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے ۔

چنانچہ جب عورت ماہواری کے بعد قبل از طلوع فجر پاک ہوجائے، یعنی اسے حیض کا خون آنا بند ہوجائے تو اب اس پر واجب ہے کہ روزہ رکھے، اگر تو اسے سہولت ہے کہ وہ غسل حیض لے تو غسل کر لے، بصورتِ دیگر بغیر غسل کے روزہ رکھ سکتی ہے، وہ اس لیے کیونکہ روزہ طہارت سے مشروط نہیں، یعنی روزے کے لیے طہارت شرط نہیں ، البتہ نماز کی ادائیگي کے لیے ہر دو صورتوں میں غسل واجب ہے یعنی حائضہ یا جنبی مردو عورت وقت پر نماز فجر ادا کرنے کے لیے غسل کریں ۔

اس مسئلہ پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب حائضہ عورت طلوع فجر سے پاک ہوجائے چاہے ایک منٹ قبل لیکن اسے یقین ہوکہ حیض ختم ہوچکا ہے تو اگر وہ رمضان کے مہینہ میں ہو تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہے ، اور اس دن اس کا روزہ صحیح ہوگا ، اس پر قضاء لازم نہيں ہوگی کیونکہ اس نے طہر یعنی پاکی کی حالت میں روزہ رکھا ہے ، چاہے وہ غسل طلوع فجر کے بعد ہی کرے تواس پر کوئي حرج نہيں ۔

جیسا کہ اگر کوئي شخص جماع یا احتلام کی وجہ سےجنبی ہو اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا ۔ [ دیکھیے : فتاوی رمضان صفحہ : ٣۴۵ (السوال و جواب )]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Kya Bina Quran Samjhe (Mafhoom) Quran Sharif Padhne par Sawab milega?

Agar Koi Shakhs Bagair Quran samjhe Quran Majeed ki tilawat karta hai to use Sawab milega ya nahi?

Kya Quran Bagair Samjhe Padhne Par Gunah hota hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

اگر کوئی انسان بنا سمجھے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو کیا اسے ثواب بھی ملے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔ 

️: مسز انصاری

اکثر لوگ اس بارے میں تذبذب ہوتے ہیں کہ اگر قرآن کو بغیر سوچے سمجھے پڑھا جائے گا تو کیا یہ عمل عنداللہ مقبول ہوگا یا نہیں ؟؟؟

خوب جان لیجیے کہ ایک مومن پر قرآن کا حق یہ ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھے ، اور ان معنی و مفہوم پر عمل کرنے کی سچی نیت کرے، عمل کرنے کی نیت سے تلاوتِ قرآن میں سب سے اہم بات ترجمہ قرآن ہے ، دورانِ تلاوت جب قاری کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں تو وہ عمل کیسے کرے گا ۔ تلاوتِ قرآن کے لیے خود قرآن نے جو شرط لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اس عظیم کتاب کو سمجھ کر پڑھیں :

(اَلَّذِینَ آَتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ أُولَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِہِ)[البقرہ:١٢١]
''وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کتاب(قرآن) کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ،ایسے لوگ ہی اس پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہیں''

جیسا کہ ہمارے پروردگار نے بھی بندوں کو اس بات کی رغبت دلائی کہ میرے بندے میرے پاک کلام کو جب پڑھیں تو اسے سمجھیں ، اس پر غور و فکر کریں، اس کے حلال و حرام کو سمجھیں اور اس کے احکامات پر عمل کریں ، چنانچہ اللہ تعالی قرآن کو سمجھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے:

(أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا)
ترجمہ: کیا وہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں![محمد:24]

اور القاموس القرآن میں تلاوت کے معنی میں پڑھنے کے ساتھ ''عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا'' بھی شامل ہے۔گویاتلاوت کا معنی ہوا'' پڑھنا ،عمل کرنے کی نیت سے''۔
[تہذیب االغۃ:ج٥ص٢١،لسان العرب ج١٤ص١٠٢،قاموس القرآن ص١٦٩]

تاہم قرآن کو سمجھے بغیر پڑھنا بھی ثواب ہے ۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا :

کیا قرآن مجید کی سمجھے بغیر تلاوت کرنا جائز ہے؟
سماحۃالشیخ نے جواب دیا :
"جی ہاں جائز ہے، مومن مرد و خواتین چاہے قرآن مجید کا معنی نہ بھی سمجھ سکیں  تب بھی وہ قرآن پڑھ سکتے ہیں، لیکن قرآن مجید کو سمجھنا اور اس کی آیات پر غور و فکر کرنا مستحب  عمل ہے، اگر وہ سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس کیلیے کتب تفسیر سے رجوع کرے، قرآنی تفاسیر پڑھے، عربی لغت کی کتابیں بھی پڑھے تا کہ اسے سمجھنے میں مزید فائدہ ہو، جہاں سمجھ نہ آئے اہل علم سے پوچھے، ہدف یہ ہو کہ قرآن مجید کا فہم حاصل ہو سکے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ)
ترجمہ: ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے  وہ بابرکت ہے، تا کہ وہ اس کی آیات پر غور فکر کریں اور اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں۔ [ص:29]
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
[ماخذ: الاسلام سوال و جواب]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Mujhe Mardo ke Barabar (equals) Huqooq nahi chahiye, mai Pagal nahi hoo.

Jab Ek khatoon se Pucha gaya ke mardo ke barabar aapko huqooq milne chahiye?

Kya Auraten Mardo ke jaise sara din Labour wala Kam karengi?

میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہیں.

تو اس نے ایک حیران کن جواب دیا
اس نے کہا کہ
مجھے برابر کے حقوق نہیں چاہئیں

میں نے تفصیل چاہی تو اس نے کچھ یوں بیان کیا
میرا جائیداد میں
باپ کی طرف سے حصہ ہے
بھائی کی طرف سے حصہ ہے
بیٹے کی طرف سے حصہ ہے
خاوند کی طرف سے حصہ ہے
جب میں مردوں کے برابر آجاوں گی تو میں ان حقوق سے محروم ہو جاوں گی

میں کسی جگہ جاب کرتی ہوں تو مجھے جاب میں سہولت دی جاتی ہے

برابر کے حقوق میں میرا نقصان زیادہ ہے
بنک ہسپتال مارکیٹ ہر جگہ لیڈیز فرسٹ کہ اصول پر مجھے رلیف مل جاتا ہے

میں ابو سے ملنے جاؤں تو وہ کھڑے ہو کر ملتے ہیں اور بھائی کو بیٹھے بیٹھے سلام کر لیتے ہیں
ہم شہر سے باہر کہیں جائیں تو مین نے اور بیٹی نے اپنا اپنا ہینڈ بیگ پکڑنا ہوتا ہے، اور بس، باقی سامان بیٹے جانیں اور انکے پاپا۔

ایک بار راستے میں گاڑی رک گئی تھی، تو مجھے سٹیرنگ تھما کر بیٹے اور میاں نے دھکا لگایا، برابر کے حقوق ہوتے تو مجھے بھی دھکا لگانا پڑتا
سبھی بڑے اور بھاری کام خود بخود مردوں پر جا پڑتے ہیں.

مجھے کبھی بل ادا کرنے نہیں جانا پڑتا، کبھی پینٹ والے کے پیچھے نہیں دوڑنا پڑتا، کبھی الیکٹریشن کے ساتھ دماغ کھپائی نہیں کرنی پڑتی،
کمانے کی ذمہ داری کبھی میری نہیں رہی، میاں نے کمانے کیلیئے نکلنا ہی نکلنا ہے.

میں کبھی بھی کہہ دوں آج کچھ نہیں پکایا، گرمی لگ رہی تھی، یا موڈ نہیں تھا تو بازار سے کھانا آ جاتا یے، کوئی زبردستی نہیں ہے،،، لیکن انکو کام سے چھٹی نہیں ہے.

مین انکے کپڑے جوتے بنا بتاۂے کسی کو اٹھوا سکتی ہوں، وہ ایسا نہیں کر سکتے
میاں کی انکم پر مجھے حق حاصل ہے، میری انکم پر صرف میرا .

میرا لباس ان سے مہنگا ہوتا ہے، میرے جوتے کپڑون کی تعداد ان سے زیادہ ہوتی ہے،
ایسے بے شمار فایدے مجھے حاصل ہیں،

میں برابر کے حقوق لیکر گھاٹے کا سودا کروں گی؟؟؟
اتنی پاگل لگتی ہوں کیا؟؟؟
#Copied

Share:

Waisi Ladkiya jo Apni Niswaniyat se Ladko ko Mutashir (Impress) karti hai fir dhoka ka rona roti hai.

Social Media ki UN Ladkiyo ko Nasihat jo apni Nazakat aur Husn se Mardo ko Mayel karti hai.

Waisi Munafiq Ladkiya jo online Mardo ko apni Niswaniyat ki boo (smell) se Mutashir karti hai.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

️: مسز انصاری

سوشل میڈیا کی نیک پروینوں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم اچھی طرح جانتی ہو کہ سوشل میڈیا کا کوئی حصہ خالی نہیں ہے جہاں پر تم سے وہ مرد نا ٹکرائیں جن کی تربیت میں ان کے والدین سے کوتاہی ہوئی، ہر جگہ تمہیں جنت کی حور ثابت کرنے والے ایک نہیں سینکڑوں مرد ملیں گے، تمہاری وال پر سوئی گرنے کی آواز تک ان مردوں کو پہنچ کر تمہاری طرف راغب کر دیتی ہے، تمہیں وہ شادی شدہ کنوارے بھی ملیں گے جن کی پاکٹ میں بیوی کے سامان کی لسٹ ہوتی ہے اور موبائل پر وہ کنوارہ مرد بن کر لڑکیوں سے خوش طبعئی کے جوہر دکھارہا ہوتا ہے، وہ بھی مرد سوشل میڈیا پر کثرت سے موجود ہیں جو ایک ہاتھ میں موبائل لیے سوشل میڈیا کے سمندر سے مچھلیاں پکڑ رہا ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں اپنے بچے کی انگلی پکڑے ہوتا ہے ایسے اسیرِ زن مرد بھرے پڑے ہیں جن کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا جب تک وہ لڑکی کی ڈگڈگی پر بندر نا بن جائیں ، یہ سب شرم گاہ کے پجاری ہیں، شہوت پرست ہیں ، اللہ سے ڈرنا بھول گئے ہیں، لیکن اصل سوالات یہ ہیں :

- کہ ان سب کرتبوں میں تمہارا کیا رول ہے؟؟

- ان سب خوش طبع مردوں کی خوش طبعئی کی حوصلہ افزائی کیوں ہوتی ہے؟

جبکہ تمہارا حال تو یہ ہے کہ تمہارے کچن کا دھواں ابھی کچن سے باہر جاتا نہیں لیکن تمہارے پکوان کی خبر سوشل میڈیا تک پہنچ جاتی ہے، تمہاری ادائیں اور نزاکتیں تمہارے لفظوں میں اتر کر مردوں کو دعوتِ شہوت دیتی ہیں، تم فیس بک پر کسی رومانٹک افسانے کی رومانوی ہیروئین بن کر یا کسی فلم کی لو اسٹوری کی شوخ و چنچل ہیروئین بن کر پہلے وال پر مردوں کا مجمع اکھٹا کرتی ہو اور پھر انباکس کا رونا رو کر اپنے آپ کو سیدھی سادھی نیک پروین ثابت کرتی ہو ۔

انباکس کا حال یہ ہے کہ تم ہر نامحرم کا میسیج کھولنے کے لیے مقناطیس کی طرح لپکتی ہو اور اپنی وال پر مردوں کو دور رہنے کی نصیحتیں کر کے اپنی پارسائی منواتی ہو ، کئی آئی ڈیز بنا کر انہیں کئی کاموں میں فکس کرتی ہو، کسی سے کسی کی خبر اور کسی کو کسی کی خبر لیے تمہاری یہ آئیڈیز کی اڑن طشتریاں سوشل میڈیا پر ہر وقت پرواز کرتی رہتی ہیں ۔۔۔۔ واللہ تم کتنی منافق ہو 

یقین جانو، تم اپنی قبر کو عذاب کا گڑھا بنا رہی ہو، تم اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے کھلواڑ کر رہی ہو، تم سوشل میڈیا پر گناہوں میں لتھڑی ہوئی ہو، اندازہ کرو کہ اللہ کے نزدیک تم کتنی ناپسندیدہ ہوں گی ۔

تم اپنے ان معصوم اور عظیم والدین سے چھپ کر سوشل میڈیا پر نسوانیت کو تار تار کرتے ہوئے بھول جاتی ہو کہ تم اللہ سے نہیں چھپ سکتیں جو ستر پردوں سے بھی تمہاری اصلیت کو باہر لا کر تمہیں رسوا کر سکتا ہے، اللہ سے ڈر جاؤ، اللہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے، اللہ کو آمادہ نا کرو کہ وہ تمہیں سزا دے بیٹھے ۔

جو لڑکیاں اپنی چادر اور چاردیواری سے کھلواڑ کرتی ہیں ان کی زندگیوں سے خوشیاں رخصت ہو جاتی ہیں، جب وہ مائیں بنتی ہیں تو ان کے بچے بھی انہیں اسی جگہ پر کھڑا کر دیتے ہیں جہاں کل انہوں نے اپنے ماں باپ کو کھڑا کیا تھا، اتق اللہ، اللہ سے ڈر جاؤ، اللہ کی ذات بہت زیادہ ڈرنے والی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

Share:

Kya Ahle hadees Ladki ya Ladka ka Nikah Barailwi, Deobandi aur Shiya se ho sakta hai?

Kya kisi Ahle hadees Ladki ki Shadi Barailwi ya Deobandi Ladke se ho sakti hai?


بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

برادر Rizwan Khan

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اگر عورت بریلوی اور مرد اہل الحدیث ہو تو کیا ان دونوں کا نکاح ہو سکتا ہے؟؟؟➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :

  اہلحدیث مسلک کی بچی کا بریلوی ، دیوبندی یا کسی بھی بدعتی ومشرک بچے سے نکاح :

1  بچہ اگر مؤمن و مسلم ہے کافر یا مشرک نہیں تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست ہے، خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیو بندی، خواہ بریلوی۔ اور اگر بچہ مؤمن و مسلم نہیں، کافر یا مشرک ہے تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست نہیں۔ خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیوبندی ، خواہ بریلوی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط}
[البقرۃ:۲۲۱]

[’’ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘ ] الآیۃ۔
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَـلَا تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَاھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ ط}
[الممتحنۃ:۱۰] [’’

اگر وہ عورتیں تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘  ] الآیۃ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 /صفحہ 452

2   مشرک و کافر لڑکے یا لڑکی (خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث یا دیوبندی یا بریلوی یا کچھ اور کہلائے) کا مومن لڑکی یا لڑکے کے ساتھ نکاح شرعاً درست نہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 ﴿وَلَا تَنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤۡمِنَّۚ﴾--
بقرة221

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں‘‘ اور بیان ہے :

 ﴿وَلَا تُمۡسِكُواْ بِعِصَمِ ٱلۡكَوَافِرِ﴾--الممتحنة10
اور مت پکڑ رکھو نکاح عورتوں کافروں کا‘‘ ہاں مومن مرد کتابیہ محصنہ عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 ﴿وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ﴾--
المائدة5

اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں میں سے جو دئیے گئے کتاب پہلے تم سے‘‘

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1/ صفحہ 311

3  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

﴿وَلَا تُنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤۡمِنُواْۚ﴾--بقرة221

’’اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مسلمان عورتوں سے ان کا نکاح نہ کرو‘‘ الآیۃ ۔ قضاۃ،  ولاۃ اور نکاح خواں سبھی   اس آیت کریمہ میں مخاطب ہیں

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

﴿لَا هُنَّ حِلّٞ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّونَ لَهُنَّۖ﴾--
ممتحنة10

نہیں وہ عورتیں حلال واسطے ان کافروں کے اور نہ وہ کافر حلال واسطے ان عورتوں کے

اور معلوم ہے کہ ہر مشرک بشرک اکبر کافر ہے البتہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ ان میں مشرک وکافر بھی ہوتے ہیں اور موحد ومؤمن بھی۔

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1ص 303

  شیعہ رافضی سے نکاح :

1  شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے کا نکاح :

شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے یا شیعہ لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے ۔کیونکہ وہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں اور ہ کسی مسلمان لڑکی یا لڑکے کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔ تفصیل کے لئے فتوی نمبر (7134) پر کلک کریں۔
فتوی کمیٹی/محدث فتوی

2  شیعہ لڑکے یا لڑکی سے کسی سنی ( دیوبندی، اہل حدیث ،بریلوی) کا نکاح :

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی لڑکا شیعہ ہو کر دیو بندی عقائد کا حامل ہو، ممکن ہے کہ وہ شادی کی غرض سے تقیہ کر رہا ہو ،لہذا کسی بھی سنی لڑکے یا لڑکی کا شیعہ لڑکی یا لڑکے سے نکاح جائز نہیں ہے، اور نکاح سرے سے منعقدہی نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو شخص کفریہ عقیدہ رکھتا ہو، مثلاً: قرآنِ کریم میں کمی بیشی کا قائل ہو، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صفاتِ اُلوہیت سے متصف مانتا ہو، یا یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت جبریل علیہ السلام غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے آئے تھے، یا کسی اور ضرورتِ دِین کا منکر ہو، ایسا شخص تو مسلمان ہی نہیں، اور اس سے کسی سنی عورت کا نکاح دُرست نہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں، تین چار افراد کے سوا باقی پوری جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو (نعوذ باللہ) کافر و منافق اور مرتد سمجھتے ہیں، اور اپنے اَئمہ کو انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل و برتر سمجھتے ہیں، اس لئے وہ مسلمان نہیں اور ان سے مسلمانوں کا رشتہ ناتا جائز نہیں۔ کیونکہ کسی مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا رافضہ سے شادى كرنا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" الرافضة المحضة هم أهل أهواء وبدع وضلال ، ولا ينبغي للمسلم أن يزوِّج موليته من رافضي .وإن تزوج هو رافضية : صح النكاح ، إن كان يرجو أن تتوب ، وإلا فترك نكاحها أفضل ؛ لئلا تفسد عليه ولده "مجموع الفتاوى ( 32 / 61 ).

" رافضى لوگ خالصتا بدعتى اور گمراہ لوگ ہيں، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى ولايت ميں موجود کسی عورت كا نكاح رافضى سے نہيں كرنا چاہيے. اور اگر وہ خود رافضى عورت سے شادى كرے تو اس صورت ميں اس كا نكاح صحيح ہو گا جب اس عورت سے توبہ كى اميد ہو، وگرنہ اس سے نكاح نہ كرنا ہى افضل ہے؛ تا كہ وہ اس كى اولاد كو خراب نہ كرے"

وباللہ التوفیق
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
وٙالسَّــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Kya Zina se Bachne ke liye Waqti taur par Shadi kar sakte hai?

Kya Zina Se Bachne ke liye Waqti taur par Nikah kiya ja sakta hai?

Kya Ladke ke Sath rat gujarne ke liye Waqti taur par Shadi kar sakte hai?
Zina karne ke Gunah aur uski Sza?

Kya Ladki apni marzi se Shadi kar sakti hai?
Islam me Ladki apni Marji se Nikah kar sakti hai ya Ghar wale se ?

Hindu Ladko se Bhag kar Shadi karne wali Muslim Ladkiyo ki list.

Parda karne ke fayde aur Be Pardagi ke Nuksan.

سوال : کیا زنا سے بچنے کے لیے وقتی طور پر نکاح کیا جا سکتا ہے ؟

️: مسز انصاری

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

عقد نکاح، زوجین کے مابین ایک پختہ معاہدے کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا"
’’اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہدو پیمان لے رکھا ہے۔
[ النساء:4/21 ]

نکاح کا مقصد محض عزت و عصمت کو بچانا اور بدکاری سے محفوظ رہنا ہی نہیں ہے بلکہ نکاح میں عظیم اور اہم مقاصد پنہاں ہیں، جیسے نکاح میں نسب کی حفاظت کے ساتھ رشتے داری اور اقرباء کو باہم جوڑنا ، نسل انسانی کی بقا ، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ، خاوند اور بیوی کے درمیان محبت و سکون پیدا کرنا اور دل کی راحت اور نفس کا سکون مقصود ہوتا ہے.

واضح ہو کہ ہماری شریعت اسلامیہ میں عقد نکاح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب میسر ہو تو نکاح کا اعلان کیا جائے ، یعنی اس میں دف کا استعمال کیا جائے ، وہ اس لیے تاکہ زنا سے اس کی تفریق ہو سکے کیونکہ زنا ہی وہ امر قبیح ہے جسے خفیہ طریقہ سے انجام دیا جاتا ہے ،اور جب عقد نکاح میں شروط شرعیہ اور نکاح کے ارکان پائے جائيں تو وہ نکاح صحیح ہوگا چاہے اس میں لڑکے کے گھر والے رضامند نہ بھی ہوں ۔

عقدِ نکاح کے ضمن میں اگر کوئی شخص عارضی یا وقتی نیت رکھ کر عورت سے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے تعلق قائم کرتا ہے تاکہ خلوت کے بعد اسے طلاق دے دے ، تو یہ ہرگز جائز نہیں ہے ۔
شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے، ارشاد نبوی ہے:
«إِنَّمَا الْأَعْمْالُ بِالنِّیَّات» 

(صحیح البخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي الي رسول اللہ ﷺ ....حدیث: 1)

”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“

اسی طرح حلالہ بھی عارضی نکاح کی نیت سے کیا جاتا ہے جو کہ حرام امر ہے ، یہ بالکل اسی طرح سے ہے جس طرح جانوروں کی نسل کشی کے لیے سانڈ لیا جاتا ہے تاکہ وہ جفتی کر کے مونث جانوروں کو حاملہ کر دے، پھر وہ اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے ۔

اسلام مرد کو نکاح کی رغبت دلاتا ہے، اگر تو مرد صاحبِ حیثیت نہیں تو نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا :

يا معشر الشبًاب من استطاع منكم البًاءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بًالصوم فإن الصوم له وجاء

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“

الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : تخريج المسند لشاكر | الصفحة أو الرقم : 6/49 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (5066)، ومسلم (1400) باختلاف يسير

زنا سے دوری ، پاکدامنی اور اپنی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور حرام طریقے سے شہوت رانی گناہ کا کام ہے ۔ چونکہ جوانی میں شہوت زیادہ ہوتی ہے اسی لیے پیارے نبی ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے انہیں نکاح کی رغبت دلائی، تاکہ ہر وہ شخص جو مہر، نفقہ، رہائش اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے تاکہ اپنی شرمگاہ اور نظر کی حفاظت کر سکے، اور جو نوجوان نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے لیکن نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے روزہ رکھنے کا حکم دیا، روزہ شہوت کو توڑتا ہے، روزہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ کھانے پینے سے دوری سے نفس کی کمزوری واقع ہوتی ہے اور خون کی رگیں جن کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے اور شہوت کے جوش کو بڑھاتی ہیں بند ہوجاتی ہیں ، نتیجتًا جماع کی شہوت ختم ہوجاتی ہے اور آدمی زنا کی طرف مائل نہیں ہوپاتا ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Hamila (Pregnant) Aurat ke liye Roze ka hukm, kya Hamila Khatoon Roze tor sakti hai?

Kya Bacche wali Khawateen Roze rakh sakti hai?

Kya Hamila (Pregnant) Aurat Roze tor sakti hai?
Haiz aane par kya Aurat roza Rakh sakti hai?
Kya Na Paki ki halat me Sehri kha sakte hai?

Kya Bhookh lagne par Roza tod sakte hai, Khana Kha Sakte hai?

Hamila (Pregnant) Aur Doodh pilane Wali Aurat ke liye Roze ka Hukm.

Kya Aurat Haiz (Periods) ki halat me Roza rakh sakti hai?

Hamila aur Doodh pilane wali Khawateen ke liye Roze ke masail.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کیا حاملہ عورت روزے رکھے گی؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️ : مسز انصاری

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

حمل کے ابتدائی دور سے لے کر اختتامی حالت تک کسی بھی دور میں عورت کے لیے روزے چھوڑنا جائز نہیں ہے، وہ بھی دوسروں کی طرح روزے رکھنے کی مکلف ہے ، سوائے اس کے کہ اسے اپنی جان کا خطرہ ہو یا پھر وہ بچے کی جان کا خطرہ محسوس کرے اور یہ طبیب ہی فیصلہ کر سکتا ہے، اگر طبیب کے مطابق روزہ حاملہ یا اس کے حمل کے لیے ہلاکت کا سبب ہے تو اس کے لیے روزہ ترک کرنا مباح ہوگا ۔

لہٰذا عورت کی حالت کے لحاظ سے بعض اوقات روزہ چھوڑنا جائز ، کبھی واجب اور کبھی حرام بھی ہوجاتا ہے ۔ اور ایسی صورت میں جبکہ حاملہ عورت کو فرضی روزے رکھنا مشقت میں لے آئے لیکن ضرر نہ دے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
حاملہ عورت کی دو حالتیں ہیں :

پہلی حالت :

وہ عورت قوی اور طاقتور اور نشیط ہو روزہ رکھنے کی وجہ سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اس کے بچے پر بھی کوئي ضرر نہ ہو تو اس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، کیونکہ روزہ چھوڑنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہیں ۔

دوسری حالت :

عورت ثقل حمل کی وجہ سے روزے کی متحمل نہ ہو یا پھر کمزوری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ، تو اس حالت میں وہ روزہ نہيں رکھے گی اور خاص کر جب اس کے بچے کو ضرر ہو تو اس وقت اس کےلیے روزہ ترک کرنا واجب ہے ۔

دیکھییے : فتاوی الشیخ ابن عثيمین ( 1 / 487 )

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Pakistan ke halat se Wahan ki Khawateen kya Sikh sakti hai?

Pakistan ke halat ke madde nazar Khawateen ke liye Ahem paigam.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

🖋️: مسز انصاری

میری ان پیاری بہنوں کے نام جو شادی شدہ ہیں :

پاک سرزمین کی معیشت تنگ سے تنگ ہوتی جارہی ہے، ایسے میں اپنی خواہشات کو سکیڑ لیجیے، آپ دیکھ سکتی ہیں خودکشیوں کے تمام حالیہ بڑھتے ہوئے واقعات میں مرد ہی خودکشی کرتا نظر آرہا ہے، کیونکہ اہل و عیال کی کفالت مرد کے ہی کاندھوں پر ہوتی ہے، جب کفالت کسی عذاب کا روپ دھار لیں تو دو ہی باتیں ہوتی ہیں، یا تو آپ کے شوہر کو کوئی بڑی جان لیوا یا عاجز کردینے والی بیماری لگ جاتی ہے اور یا پھر وہ اپنے آپ کو ختم کر کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتا ہے ۔

آپ بہنیں تو گھروں کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر صرف فرمائشیں کرنا جانتی ہیں اور فرمائشیں پوری نا ہونے کی صورت میں آپ کے ناراض رویے سے ڈر کر آپ کا شوہر ذہنی دباؤ کے ساتھ کام کرتا ہے، وہ دھوپ کو اور ہر جسمانی تکلیف کو ہی نہیں جھیلتا بلکہ خودی اور غیرت کو گھائل کرتے لوگوں کے رویے بھی سہتا ہے، اور جب وہ ان سب کے باوجود آپ کی خواہشات کو پوری نہیں کر پاتا تو آپ مختلف القاب و کلمات کے استعمال سے اسے اپنی نظروں سے گرادیتی ہیں ۔

پیاری بہنوں !! اپنی خواہشات کو محدود کر لیجیے، وقت بہت نازک چل رہا ہے، پاکستان بہت حساس حالت میں ہے، ہم آپ نہیں جانتے کہ کب کیا ہوجائے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ پیسے کی بچت پر توجہ دیجیے، ہوٹلنگ نا ہونے کے برابر کر دیجیے، اپنے لباس ، زیب و زینت اور گھروں کی آرائش پر بے جا اسراف نا کیجیے، تصور کیجیے کہ اگر آپ پر ایسا کڑا وقت آجائے کہ ایک وقت ناکافی کھا کر اگلے وقت کا پتا ہی نا ہو کہ کہاں سے کھائیں گے تو کیا بہتر نہیں ہوگا کہ وہ وقت آنے ہی نا دیں ۔

سیاست کے حالیہ معیار کے تناظر میں کوئی ناقص العقل بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ معیشت کی تنگی کا یہ بحران بہت آگے تک جائے گا ۔

حالانکہ آپ خبروں اور تبصروں میں پاکستان کی معاشی حالت کے بارے میں سنتی ہیں اس کے باوجود آپ کے شاہانہ اخراجات آپ کے مردوں کی کمر توڑ رہے ہیں، اپنے مردوں کے ساتھ تعاون کیجیے ان کی طاقت بنیے، بے جا اخراجات روک دیجیے، جہاں پہلے آپ سال میں دس لباس بناتی تھیں اب انہیں گھٹا دیجیے، گھروں میں اچھا بنائیے لیکن ہزاروں روپے خرچ کر کے ہوٹل کے گندے اور مضر کھانے نا کھائیے، اپنی متعلقہ عورتوں سے تقابلہ چھوڑ دیجیے، کسی کی حرص میں اچھی چیز حاصل کرنا شخصیت کی نااہلی ہوتی ہے، جو بھی کھائیں پییں اور پہنیں اعتماد سے رہیے، مرد کا ہاتھ تنگ ہوجائے تو اس کا حوصلہ نا توڑیں، اپنی تکلیفوں کا انبار پیش نا کیجیے بلکہ اس کا حوصلہ بڑھائیے اور اپنے آپ کو اس کے سامنے مطمئین ظاہر کیجیے کیونکہ مرد کی آدھی سے زیادہ ہمت اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر ٹوٹ جاتی ہے ، اور جب یہی مرد اپنے بیوی بچوں کو خوش دیکھتا ہے تو اس میں معاشی جدوجہد کرنے کی ہمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم خواتین کو اپنے مردوں کی طاقت بنائے، ہمیں اللہ تعالیٰ صابر و شاکر اور وفادار بیویاں بنائے، اپنے مردوں کی  معاشی جدوجہد میں ہم اپنے صبر و شکر کا حصہ ڈالیں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہمارے مردوں کی صحت و عافیت اور خوشی ہمیں دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز ہو ۔۔۔۔ آمین یارب العالمین ۔۔۔۔۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS