Kya Zina Se Bachne ke liye Waqti taur par Nikah kiya ja sakta hai?
Kya Ladke ke Sath rat gujarne ke liye Waqti taur par Shadi kar sakte hai?Zina karne ke Gunah aur uski Sza?
Kya Ladki apni marzi se Shadi kar sakti hai?
Islam me Ladki apni Marji se Nikah kar sakti hai ya Ghar wale se ?
Hindu Ladko se Bhag kar Shadi karne wali Muslim Ladkiyo ki list.
Parda karne ke fayde aur Be Pardagi ke Nuksan.
سوال : کیا زنا سے بچنے کے لیے وقتی طور پر نکاح کیا جا سکتا ہے ؟
️: مسز انصاری
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
عقد نکاح، زوجین کے مابین ایک پختہ معاہدے کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا"
’’اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہدو پیمان لے رکھا ہے۔
[ النساء:4/21 ]
نکاح کا مقصد محض عزت و عصمت کو بچانا اور بدکاری سے محفوظ رہنا ہی نہیں ہے بلکہ نکاح میں عظیم اور اہم مقاصد پنہاں ہیں، جیسے نکاح میں نسب کی حفاظت کے ساتھ رشتے داری اور اقرباء کو باہم جوڑنا ، نسل انسانی کی بقا ، مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ، خاوند اور بیوی کے درمیان محبت و سکون پیدا کرنا اور دل کی راحت اور نفس کا سکون مقصود ہوتا ہے.
واضح ہو کہ ہماری شریعت اسلامیہ میں عقد نکاح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب میسر ہو تو نکاح کا اعلان کیا جائے ، یعنی اس میں دف کا استعمال کیا جائے ، وہ اس لیے تاکہ زنا سے اس کی تفریق ہو سکے کیونکہ زنا ہی وہ امر قبیح ہے جسے خفیہ طریقہ سے انجام دیا جاتا ہے ،اور جب عقد نکاح میں شروط شرعیہ اور نکاح کے ارکان پائے جائيں تو وہ نکاح صحیح ہوگا چاہے اس میں لڑکے کے گھر والے رضامند نہ بھی ہوں ۔
عقدِ نکاح کے ضمن میں اگر کوئی شخص عارضی یا وقتی نیت رکھ کر عورت سے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے تعلق قائم کرتا ہے تاکہ خلوت کے بعد اسے طلاق دے دے ، تو یہ ہرگز جائز نہیں ہے ۔
شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے، ارشاد نبوی ہے:
«إِنَّمَا الْأَعْمْالُ بِالنِّیَّات»
(صحیح البخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي الي رسول اللہ ﷺ ....حدیث: 1)
”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“
اسی طرح حلالہ بھی عارضی نکاح کی نیت سے کیا جاتا ہے جو کہ حرام امر ہے ، یہ بالکل اسی طرح سے ہے جس طرح جانوروں کی نسل کشی کے لیے سانڈ لیا جاتا ہے تاکہ وہ جفتی کر کے مونث جانوروں کو حاملہ کر دے، پھر وہ اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے ۔
اسلام مرد کو نکاح کی رغبت دلاتا ہے، اگر تو مرد صاحبِ حیثیت نہیں تو نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا :
يا معشر الشبًاب من استطاع منكم البًاءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج ومن لم يستطع فعليه بًالصوم فإن الصوم له وجاء
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“
الراوي : عبدالله بن مسعود | المحدث : أحمد شاكر | المصدر : تخريج المسند لشاكر | الصفحة أو الرقم : 6/49 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (5066)، ومسلم (1400) باختلاف يسير
زنا سے دوری ، پاکدامنی اور اپنی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور حرام طریقے سے شہوت رانی گناہ کا کام ہے ۔ چونکہ جوانی میں شہوت زیادہ ہوتی ہے اسی لیے پیارے نبی ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کر کے انہیں نکاح کی رغبت دلائی، تاکہ ہر وہ شخص جو مہر، نفقہ، رہائش اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے تاکہ اپنی شرمگاہ اور نظر کی حفاظت کر سکے، اور جو نوجوان نکاح کی ضرورت محسوس کرتا ہے لیکن نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے روزہ رکھنے کا حکم دیا، روزہ شہوت کو توڑتا ہے، روزہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ کھانے پینے سے دوری سے نفس کی کمزوری واقع ہوتی ہے اور خون کی رگیں جن کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے اور شہوت کے جوش کو بڑھاتی ہیں بند ہوجاتی ہیں ، نتیجتًا جماع کی شہوت ختم ہوجاتی ہے اور آدمی زنا کی طرف مائل نہیں ہوپاتا ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment