find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Aap Ki Biwi Aap Ke Liye Jannat.

 Aapki Biwi Aapki Hamsafer Aur Aapki Jannat.


 آپ کی بیوی آپ کی جنت

  1۔  شریکِ حیات کے لیے زیبائش اِختیار کیجیے.
اپنی شریکِ حیات کے لیے خُوبصورت لباس زیبِ تن کیجیے،خُوشبو لگائیے۔ آپ آخری بار اپنی بیوی کے لیے کب بنے سنورے تھے؟؟
جیسے مرد چاہتے ہیں کہ اُن کی بیویاں اُن کے لیے زیبائش اِختیار کریں،اسی طرح خواتین بھی یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اُن کے شوہر بھی اُن کے لیے زیبائش اختیار کریں۔ یاد رکھیے کہ اللہ کے رسول ﷺ گھر لوٹتے وقت مسواک استعمال کرتے اور ہمیشہ اچھی خُوشبو پسند فرماتے۔
2۔ شریکِ حیات کے لیے خوبصورت نام کا چناؤ:
اپنی شریکِ حیات کے لیے خوبصورت نام کا اِستعمال کیجیے۔ اللہ کے رسُول ﷺ اپنی ازواج کو ایسے ناموں سے پُکارتے جو اُنہیں بے حد پسند تھے۔
اپنی شریکِ حیات کو محبوب ترین نام سے پُکارئیے، اور ایسے ناموں سے اجتناب کیجیے جن سے اُن کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
3۔ خوبیوں کی قدر کیجیے :
اپنی شریکِ حیات سے مکھی جیسا برتاؤ مت کیجیے۔اپنی روزمرہ زندگی میں ھم مکھی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں،یہاں تک کہ وہ ہمیں تنگ کرے۔ اسی طرح بعض اوقات عورت تمام دن اچھا کام کر کے بھی شوہر کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی،یہاں تک کہ اُس کی کوئی غلطی شوہر کا دھیان کھینچ لیتی ہے۔ ایسا برتاؤ مت کیجیے،یہ غلط ہے۔ اُس کی خوبیوں کی قدر کیجیے اور انھی خوبیوں پر توجہ مرکوز کیجیے۔
4۔ غلطیوں سے صرفِ نظر کیجیے.
اگر آپ اپنی شریکِ حیات سے کوئی غلطی سرزد ہوتے دیکھیں تو درگزر کیجیے۔ یہی طریقہ نبی اکرم ﷺ نے اپنایا کہ جب آپ ﷺ نے ازواجِ مطہرات سے کچھ غیر موزوں ہوتے دیکھا تو آپ ﷺ نےخاموشی اختیار کی۔ اس اسلوب میں بہت کم مسلمان مرد ہی مہارت رکھتے ہیں۔.
5۔ شریکِ حیات کو دیکھ کر مسکرائیے.
۔جب بھی اپنی شریکِ حیات کو دیکھیں تو دیکھ کر مسکرا دیجیے اور اکثر گلے لگائیے۔ مُسکرانا صدقہ ہے اور آپ کی شریکِ حیات اُمّتِ مسلمہ سے الگ نہیں ہے۔ تصور کیجیے کہ آپ کی شریکِ حیات آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوۓ دیکھے تو آپ کی زندگی کیسی گزرے گی۔ اُن احادیث کو یاد کیجیے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے جانے سے پہلے اپنی زوجہ کو بوسہ دیتے جبکہ آپ ﷺ روزہ کی حالت میں ہوتے۔
6۔ شکریہ ادا کیجیے.
وہ تمام کام جو آپ کی شریکِ حیات آپ کے لیے کرتی ہیں،اُن سب کے لیے اُن کا شکریہ ادا کیجیے۔ بار بار شکریہ ادا کیجیے،مثال کے طور پر گھر پر رات کا کھانا۔ وہ آپ کے لیے کھانا بناتی ہے،گھر صاف کرتی ہےاور درجنوں دوسرے کام۔ اور بعض اوقات واحد 'تعریف' جس کی وہ مستحق قرار پاتی ہے وہ یہ کہ 'آج سالن میں نمک کم تھا'۔ خدارا! ایسا مت کیجیے۔ اُس کے احسان مند رہیے۔
7۔ شریکِ حیات کو خوش رکھیے...
اپنی شریکِ حیات سے کہیے کہ وہ آپ کو ایسی 100 باتوں سے متعلق آگاہ کرے جو آپ نے اُس کے لیے کیں اور وہ چیزیں اُس کی خوشی کا باعث بنیں۔ پھر آپ ان چیزوں کو اپنی شریکِ حیات کے لیے دہرائیے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جاننا مشکل ہو کہ کیا چیز اسے خُوشی دے سکتی ہے۔ آپ اس بارے میں خود سے قیاس مت کیجیے، براہِ راست اپنی شریکِ حیات سے معلوم کیجیے اور ایسے لمحوں کو اپنی زندگی میں بار بار دھراتے رہیے۔
8۔آرام کا خیال رکھیے...
اپنی شریکِ حیات کی خواہشات کو کم مت جانیے۔ اسے آرام پہنچائیے۔ بعض اوقات شوہر اپنی بیویوں کی خواہشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں۔ ایسا مت کیجیے۔ نبیِ اکرم ﷺ نے اس واقعے میں ہمارے لیے مثال قائم کر دی کہ 'حضرت صفیہ(رضی اللہُ عنھا)رو رھی تھیں،انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ ﷺ نے انھیں ایک سست رفتار اونت پر سوار کروا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان کے آنسو پونچھے، ان کو تسلی دی اور انہیں(نیا) اونٹ لا کر دیا'۔
9۔ مزاح کیجیے...
اپنی شریکِ حیات سے مزاح کیجیے اور اس کا دل بہلائیے۔ دیکھیے کہ کیسے اللہ کے رسول ﷺ حضرت عائشہ(رضی اللہُ عنھا) کے ساتھ صحرا میں دوڑ لگاتے تھے۔
آپ نے اس طرح کی کوئی بات اپنی بیوی کے ساتھ آخری مرتبہ کب کی؟؟
10- بہتر بننے کی کوشش کیجیے...
ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے یہ الفاظ یاد رکھیے: ''تُم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہے۔اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں سے بہترین پیش آنے والا ہوں''۔  آپ بھی بھتر بننے کی کوشش کیجیے
آخر میں بالخصوص  اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اللہ کے حضور دعا کرنا مت بھولیے۔ اللہ بہتر جاننے والا ہے."
Share:

HMADARD Biwi Ki Ahmiyat.

😊💛ہمدرد بیوی کی اہمیت💛☺
آج آپ کو اپنی تحریر میں تصویر کے دو رخ دیکھاوں گا .....
پہلا رخ👈" آپ کو بہت مس کر رہی ہوں. "
" کیا ہو رہا ہے ڈیئر ؟ "
" اگر فارغ ہیں تو دو منٹ کال پر بات ہی کر لیں."
" توبہ ہے!!! جواب تک نہیں دیتے. "
" آج تو لفٹ ہی کوئی نہیں! "
ذیشان نے میٹنگ سے فارغ ہو کر موبائل سائلنٹ سے ہٹانے کے لیے جیب سے نکالا تو اپنی نئی نویلی بیوی فوزیہ کے چار گھنٹوں میں آئے ہوئے یہ میسجز پڑھ کر اور کئی مس کالز دیکھ کر اس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا.
" یہ تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہے. آج میں اس کا نخرہ نکالتا ہوں. "، یہ بڑبڑاتے ہوئے اس نے بیوی کو کال ملا دی.
" شکر ہے کہ آپ کو ہماری یاد بھی آ ہی گئی. "، کال ریسیو کرتے ہی اس کی بیوی لاڈ بھرے لہجے میں بولی.
" یہ کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے میرے ساتھ؟ میں تمہارے ساتھ موبائل پر لگا رہوں گا یا اپنا کوئی اور کام بھی کروں گا؟ میسجز اور کالز کر کر کے میرا دماغ خراب کر دیا ہے تم نے. اپنی اوقات میں رہو. بیوی ہو تو بیوی بن کر رہو. میری ماں یا میری محبوبہ بننے کی کوشش نہ کرو. خبردار! جو آئندہ مجھے اس طرح کال میسج کیے. "
ذیشان ایک ہی سانس میں غصے سے چلاتے ہوئے بہت کچھ کہہ گیا.
اس کے ساتھ ہی رابطہ ٹوٹ گیا، کسی کا دل اور مان بھی ٹوٹ گئے. اس کے ساتھ ساتھ مزید بھی بہت کچھ ٹوٹ گیا. اس دن کے بعد ذیشان کو گھر سے باہر کبھی بھی فوزیہ کے میسجز یا کالز نہیں آئیں. یوں ذیشان کا مسئلہ حل ہو گیا.
.....................
دوسرا رخ👈 " آپ کو بہت مس کر رہی ہوں. "
" کیا ہو رہا ہے ڈیئر ؟ "
" اگر فارغ ہیں تو دو منٹ کال پر بات ہی کر لیں."
" توبہ ہے!!! جواب تک نہیں دیتے. "
" آج تو لفٹ ہی کوئی نہیں! "
مراد نے میٹنگ سے فارغ ہو کر موبائل سائلنٹ سے ہٹانے کے لیے جیب سے نکالا تو اپنی نئی نویلی بیوی عالیہ کے چار گھنٹوں میں آئے ہوئے یہ میسجز پڑھ کر اور کئی مس کالز دیکھ کر اس کے چہرے پر بے اختیار محبت بھری مسکراہٹ پھیل گئی.
" یہ تو میری ہی یادوں میں کھوئی رہتی ہے. "، اپنے آپ سے خود کلامی کرتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کا نمبر ڈائل کر دیا.
" شکر ہے کہ آپ کو ہماری یاد بھی آ ہی گئی. " کال ریسیو کرتے ہی اس کی بیوی لاڈ بھرے لہجے میں بولی.
" کیسی بات کرتی ہو جانِ من! آپ تو ہر وقت میری یادوں میں بستی ہو. لیکن کیا کروں. آفس کے بہت سارے کام بھی کرنے پڑتے ہیں ناں. میں ایک میٹنگ میں تھا اور موبائل سائلنٹ تھا. ابھی میٹنگ سے فارغ ہو کر موبائل دیکھا تو آپ کے میسجز اور کالز دیکھتے ہی آپ کو کال ملا دی. "، مراد نے محبت بھرے لہجے میں ساری تفصیل بتائی.
" اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آفس ٹائم میں آپ کو کال میسج نہ کیا کروں؟ "، مراد کی بیوی نے سنجیدہ لہجے میں کہا.
" میں نے یہ کب کہا. یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے مجھے آپ جیسی بیوی عطا کی کہ جو مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے کہ مجھ سے دور رہ کر بھی مجھے ہی یاد کرتی رہتی ہے. آپ بے شک میسجز کالز کرتی رہیں مگر میں ضروری کاموں سے فارغ ہو کر ہی جواب دیا کروں گا. بس اس پر ناراض نہیں ہوا کرنا. "، مراد نے بڑی نرمی سے بات کرتے ہوئے کہا.
" کیسی باتیں کرتے ہیں. میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگی. مجھے آپ کی یاد آئی تو رابطہ کر لیا. لیکن ظاہر ہے کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ ہی بات تو نہیں کر سکتے ناں. اچھا چلیں آپ اپنا کام کریں. جب گھر آئیں گے تو مزید گپ شپ کریں گے. "
" جی ٹھیک ہے. اپنا خیال رکھنا. السلام علیکم! "
مراد نے محبت بھرے لہجے میں کہا.
سلام کا جواب دے کر عالیہ نے کال کاٹ دی. رابطہ ٹوٹ گیا مگر نہ تو کسی کا دل ٹوٹا اور نہ ہی مان ٹوٹا. کچھ بھی نہ ٹوٹا. آئندہ کے لیے عالیہ نے پورا احساس کرتے ہوئے آفس ٹائم کے دوران مراد سے رابطہ کم کر دیا تاکہ اس کے میسجز کالز کی وجہ سے ان کے کسی کام میں حرج نہ آئے.....لہذا اپنی چاند سی بیوی کی قدر کیجئیے گا شکریہ
ایسی بیوی خوش نصیبوں کو ملتی ہیں....اللہ ہمارا نصیب بھی اچھا کرے ایسی بیوی دے جو صبح فجر کی نماز کیا رات تہجد کی نماز کے لیے بھی جگاے....

Share:

Kya Qabro Me Dafan Hue Murde Sunte Hai?

 Kya Qabro Me Dafan Hue Murde Sunte Hai

کیا قبروں میں مدفون مردے سنتے ھیں۔؟؟
ہمارا عقیدہ سماعِ موتٰی کے بارے میں: "قدرت کا اصول، ضابظہ اور قانون ہے کہ جو شخص اس دنیا سے چلا گیا اس کا کسی قسم کا رابطہ اس دنیا سے قائم نہیں رہتا،کوئی مردہ دنیا والوں کا کلام ہر وقت نہیں سن سکتا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو سنوا دے وہ پر چیز پہ قادر ہے لیکن یہ خرقِ عادت ہے قانون نہیں"
آیت نمبر 1 : سورۃ الانعام آیت نمبر 36 :
اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ
وہ ہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں (١) اور مردوں کو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے
یہاں پر اصول اور کلیہ بیان کیا گیا ھے کہ بات کا جواب وہی دیتا ھے جو سنتا ھے۔جو سنتا نہیں وہ جواب بھی نہیں دیتا اور یہی حقیقت ھے۔کیونکہ کی قران پاک کے واضح الفاظ موجود ھیں
اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی کا قول نقل ھے:
جن کے بارے میں آپ سے حرص کرتے ھیں کہ وہ آپ کی تصدیق کریں گے وہ تو مردوں کی طرح ھیں جو نہیں سنتے""
تفسیر کبیر جلد 4، صفحہ 37، تفسیر بحر محیط جلد 4 صفحہ 117
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا
اور یہ کافر مردوں کی طرح ھیں جو نھیں سنتے۔۔۔
تفسیر بیضاوی جلد 7 صفحہ 186
تفسیر جالالین میں ھے: شبہ فی عدم السماع----
یعنی ان کفار کو نہ سننے پر مردوں سے تشبیہ دی ہے۔
تفسیر جالالین صفحہ 114
تفسیر خارزن میں علامہ علاؤالدین محمد خارزن رحمہ اللہ علیہ نے لکھا "ولھذاشبہ بہ الکفار بالموتٰی لان المیت لا یسمع ولا یسمع ولا یتکلم
اسی لیئے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے کیونکہ مردہ یقیناً نہیں سنتا اور نہ کلام کرتا ہے۔
تفسیر خارزن جلد 2 صفحہ 15
تفسیر مدراک میں علامہ ابو البرکاۃ رحمہ اللہ علیہ نے لکھا:
مردوں کو اللہ تعالٰی قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے گا۔۔۔۔۔تب وہ سنیں گے اس سے پہلے نہیں۔
تفسیر مدراک جلد 2 از سورۃ الانعام
تفسیر ابن جریر میں لکھا ھے:
پس اللہ تعالٰی نے ان کے ذکر کو مردوں میں شمار کر دیا ھے، مردے نہ تو آواز سنتے ہیں اور نہ پکار کو سمجھتے ھیں۔
تفسیر ابن جریر صفحہ 185، از سورہ الانعام
آیت نمبر2: سورۃ فاطر 19-22
مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوۡرُ ۔وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ۔ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ۔
اور اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں اور نہ اندھیرا اور روشنی اور نہ سایہ اور دھوپ اور نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ‏
دیکھیں یہاں کس قدر صراحت کے ساتھ کہ دیا گیا ہے کہ "اور نہ زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں" جب کہ حیاتی حضرات کے مولانا سرفراز صاحب لکھتے ہیں کہ
"کہ ادراک ،شعور ،فہم اور سماع میں مردے اور زندہ برابر ہیں ۔ سماع الموتٰی صفحہ 221
اسی آیت کی تائید میں ۔ فقیہ ابو اللیث سمر قندی حنفی رحمہ اللہ علیہ کا قول علامہ عینی رحمہ نے عمدۃ القاری جلد 4 صفحہ 225 میں نقل فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی تو مطلب ہوا کہ جیسے تو مردوں کو نہیں سنا سکتا ایسے ہی مکہ کے کافروں کو تو سمجھا سکتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی سماعِ موتٰی کے منکر تھے
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ھلاک ھونے والوں کو خطاب فرمایا کہ:
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز بدر قریش کے چوبیس سربرآوردہ اشخاص کو بدر کے کنوؤں میں ایک گندے پلید کنویں میں پھنکوادیا، حضور کاطریقہ یہ تھا کہ جب کسی قوم پر فتحیاب ہوتے تو میدان میں تین دن قیام فرماتے، جب بدرکا تیسرا دن تھا تو سواری مبارک پر کجاوہ کسوایا، پھر چلے، صحابہ نے ہمر کابی کی، اور کہا ہمارا یہی خیال ہے کہ اپنے کسی کام سے تشریف لے جارہے ہیں، یہاں تک کہ کنویں کے سرے پر ٹھہر کران کا اور ان کے آباء کانام لے لے کر اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کہہ کر پکارنے لگے، فرمایا ''کیا اس سے تمھیں خوشی ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تم نے مانا ہوتا، ہم نے تو حق پایا وہ جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا، کیا تم نے اس کو ثابت پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ''۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال
۔۔ ( ذرا غور سے پڑھئیے گا انشاء اللہ سب سمجھ آجائے گا)
یا رسول اللہ کیف تکلم اجساد الا ارواح فیھا؟
(یا رسول اللہ آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رھے جن میں روح موجود نہیں!) بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۶۶ ، مسند احمد جلد صفحہ ۳۵۷
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1176
اسی طرح دوسری روایت میں موجود ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
یارسول اللہ کیف اتنا دیھم بعد ثلاث و ھل یسمعون یقول اللہ عزوجل "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی"
یارسول اللہ آپ ان سے گفتگو فرما رھے ھیں جن کو ھلاک ہوئے تین دن گزر چکے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت فرماتے ھیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۸۷
یہ چیزیں معلوم ہوئیں:
1- حضرت عمر رضی اللہ عنہ اعادہ روح،اور جسم میں روح کے حلول و دخول کے قائل نہیں تھے۔
2-حضرت عمر رضی اللہ عنہ سماع موتٰی کے قائل نھیں تھے۔اگر قائل ہوتے تو کبھی یہ سوال نہ کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے کلام کر رہے ہیں ؟؟
3- "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی سے سماع موتیٰ کی نفی ھوتی ھے تب ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور دلیل یہ آیت پیش کی۔ اور اس آیت سے استدلال کیا کہ مردے نہیں سنتے۔
ظاہر ہے اب جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مردے سنتے ہیں تو وہ ایسے سوال کیوں پوچھے گا ازراہِ تعجب سے ۔۔ اور کیوں دلیل پیش کرے گا! جبکہ آپ نے دیکھا حضرت عمر نے سوال کے ساتھ دلیل بھی پیش کی "انک لا تسمع الموتٰی "۔۔۔
یہ آیت قرآن میں ہے ۔۔۔
-Surah Roum 52
فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ
بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔
تو میرے خیال میں ہم،تم سے ذیادہ قرآن سمجھنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے یہ آیت پیش کر کے بتا دیا کہ اس آیت سے سماعِ موتٰی کی نفی ہوتی ہے۔اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ تقرری بھی بنتی ہے کہ آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی اور منع نہیں کیا کہ نہیں عمر اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم لے رہے ہو ۔۔ آگے آپ جواب ملاحظہ کریں بات واضح ہو جائے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:
’’انھم الان یسمعون ما اقول لھم‘‘ بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۷۶
جو بات میں ان سے کہ رھا ھوں وہ اس وقت اسکو سن رھے ھیں
ایک اور جگہ ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے میری بات تم ان سے زیادہ نہیں سنتے،
اب جواب پر غور فرمائیں یہ جواب آگے خود واضح ھو جائے گا
صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں) بات سن رھے ھیں
حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ کا قول نقل کر رھا ھوں۔
قال قتادہ احیا ھم اللہ حتی اسمعھم قولہ تو بیحا و تصغیرا و نقمۃ و حسرۃ و ند ما (بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۲۶۶)
حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ھے کہ اللہ نے کچھ دیر کے لیئے ان مردوں کو زندہ کر دیا تھا کہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کی بات سنا دے، افسوس دلانے اور ندامت کے لئیے ،
(گویا یہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کا معجزہ تھا)
ما کلامہ علیہ السلام اھل القلیب فقد کانت معجزۃ لہ علیہ السلام
بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔
شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴
فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷
روح المعانی صفحہ ۵۰
مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳
اب جواب دوبارہ پڑھئیے ، غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا:
صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں)
بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۶۷
"پس ثابت ہوا کہ بدر کے مردوں سے کلام کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور عموم میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ معجزہ تھا (خرقِ عادت) اور اس پر ہم عقیدہ قائم نہیں کر سکتے کہ تمام مردے ہر وقت سنتے ہیں ۔ "
اور اللہ کا بڑافضل واحسان ھے کہ اشاعت توحید والسنۃ والے اسی عقیدے و مسلک سے جڑے ھیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اور تمام صحابہ اکرام کا تھا۔
انشاء اللہ جلد ہی میں حضرت عائشہ کا عقیدہ پیش کروں گا کہ وہ بھی سماعِ موتٰی کی منکر تھیں ۔۔
اللہ سب کو ہدایت دے اور ضد سے بچائے ۔
یہ آپ نے صحیح فرمایا قرآن وسنت کی نصوص نے بھی اسی طرف رہنمائی فرمائی ہے حدیث میں آتاہے کہ اللہ کے رسول ﷜ نے آخر وقت میں یہود ونصاری پر اسی وجہ سے لعنت فرمائی کہ انہووں نے اپنے انبیاکی قبروں کو مساجد بنالیا تھااللہ مسلمانوں کو اس قبور پرستی کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔
[کیا ھرمردہ سنتا ھے؟] ----
قرآن وحدیث میں مذکور ایسے واقعات جن کا الله کےبنائےھوئےقوانین کےخلاف صدور ھوا معجزہ یاخرق عادت کہلاتے ھیں، جیسے موسی عليه السلام کےعصاء کا اژدھا بن جانا، عیسی عليه السلام كی بغیرباپ کے پیدائش وغیرہ- خرق عربی میں پھٹ جانےکو کہتے ھیں، معجزے میں چونکہ عادی قانون ٹوٹ جاتاھےاسلئےاسےخرق عادت کہاجاتا ھے-معجزہ الله تعالى کافعل ھوتا ھےجو نبی کےھاتھ پر ظاھر ھوتا ھے، معجزے کےظاھر ھونےمیں نبی کا قطعا" کوئی اختیارو تصرف نہیں ھوتا- الله سبحانه تعالی معجزات یاخرق عادت واقعات سےاپنی قدرت کا اظہار فرماتا ھے- چنانچہ جسطرح معجزات یا خرق عادت کا انکارالله تعالی کی قدرت کا انکارھےبالکل ویسےھی معجزےکومعمول بنانا بھی الله کےقانون کا صریح کفرھے، دونوں صورتوں میں الله کی کتاب کی تکذیب و تکفیر لازم آتی ھے- اس آخری امت کی بدنصیبی کہ اس میں جہاں معدودے چند ایسےلوگ پائےجاتےھیں جنہوں نےمعجزات کا صاف انکارکردیاجیسےمنکرین حدیث وغیرہ، وھیں ایسے لوگوں کی بھی اکثریت ھےجنہوں نےمعجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا برملا مذاق اڑایا- تفصیل اس اجمال کی یہ ھےکہ قرآن کا فیصلہ اوراٹل قانون ھےکہ: "مردےنہیں سنتے" لیکن چونکہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا-جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی صلى الله عليه وسلم کی بات سننا، احادیث میں اس واقعےکی تمام تر تفصیلات درج ھیں،جس سے واضح ھوجاتا ھےکہ یہ ایک معجزہ تھا- ھرمردہ سنتا ھے یہ کسی صحابی کاعقیدہ نہیں تھا- لیکن اس کےباوجود اکابرین دیوبند، بریلوی اور اھلحدیث نےعلمی فریب کاری کےذریعےھر مردےکوسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بناڈالا- ان سب کا عقیدہ ھےکہ " ھرمردہ لاشہ دفن کےبعد دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی آواز سنتا ھے"
معجزےکو معمول بناکر الله کےقانون کا انکار اورمذاق اڑانےمیں ویسےتو تینوں فرقوں کےاکابرین کا اپنا اپنا کردار ھےلیکن اھلحدیث کےاکابرین کا کلیدی کردار (key role) ھے-اور آج بھی اس کفریہ عقیدہ کی تبلیغ وترویج میں اھلحدیث "محققین"سب سےآگےھیں،
جسکا خمیازہ ذلت ورسوائی کی شکل میں یہ امت صدیوں سےبھگت رھی ھےتباھی وبربادی کےالمناک واقعات سےتاریخ کےصفحات بھرےپڑےھیں،موجودہ حالات تو ماضی سےزیادہ کربناک ھیں، اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
[وما علینا الا البلاغ]
  
Share:

Valentine Day Musalman Ko Manana Chahiye Ya Nahi?

 Valentine Day Aur Islamic Muashra

ویلنٹـــــائـــــن_ڈے_اور_مسلمـــــــــان
اس کـــو منــانــا چـاہیــے یـا نہــیں ؟؟



گنــــــــــــاہ_ہــــے_بـــہت_بــــــــڑا
ایک فوجی عیسائی تھا اس کا مطالبہ تھا کہ زناکاری کو عام کیا جائے یہ گناہ نہیں ہے
اس وقت کے بادشاہ نے اس کو قید کر دیا
جیــل میں جیلــر کی بیٹی کو اس نے اپنی محبت کے جال میں پھنسایا
وہ لڑکی جب بھی ویلنٹائن سے ملنے آتی تو سرخ لباس پہن کر اتی تھی ہاتھ میں سرخ گلاب کا پھول ہوتا تھا
یہ سب وہ ویلنٹائن کی پسند پر اس کی خوشی کے لیے کرتی تھی
بادشاہ کو جب یہ سب معلوم ہوا کے ویلنٹائن جیل میں قیدیوں کو شامل کر کے زناکاری عام کر رہا ہے تو
بادشاہ نے ویلنٹائن کو پھانسی کا حکم دیا
اس لیـے 14 فروری والے دن سب لوگوں کے سامنے ویلنٹائن کو پھانسی دے کر زناکاری جیسے گناہ کو روکا گیا ۔
مگر افسوس ہـے آج کے مسلمان پر جس نے 14 فروری کے گندے دن کو ایک تہوار کی شکل دے دی ہـے
_ویلنٹــــــائــن_ہـــے_کیـــا ؟؟؟
لوگوں کو اس کا پتہ ہے نہیں عاشق لوگ ایک دوسرے کو سرخ گلاب دے رہے ہوتے ہیں سرخ لباس پہن کر
اور بعض جاہل تو بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو سب گھر والے ایک دوسرے کو سرخ گلاب اور گفٹ دے رہے ہوتے ہیں یہ سوچ کر کے یہ محبت کا دن ہے
لعنت ہے ایسے سب لوگوں پر جن کو اپنے اسلام کا اسلامی تہواروں کا تو پتہ نہیں اور انگریزوں کی نقل کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں
اسلام میں تو یہودیوں سے دوستی کرنا گناہ ہے تو کہاں ان کے گھٹیا تہواروں کو منانا
مسلمانو ہوش میں آؤ اس سے پہلے کے آللہ آپ کے ہوش چھین لے
میں نے یہ سوچ کر یہ سب لکھا ہے کے شاید کسی کے دل میں میری بات اتر جائے اور وہ گناہگار ہونے سے بچ جائے اللہ کی نظر میں اور روز قیامت جس کی بخشش ہی نہ ہو اور ٹھکانا جہنم
میـری مُسلــم مــاؤں سے التجـا ہـے اپنـے بچـوں کو یہ سب بتـائیـں تاکہ وہ بـڑے ہـو کـر اس گناہ سـے بـچ سکیـں
آج کے والدین گناہگار ہیں وہ بچوں کو دنیـــاوی تعلیـــــم تــو دیتـے ہیــں مگـر
افســــــــــــــــــــوس
دیـن کـــی تعلیــــــم نہیـــــــں دیتــــــے
#_آللہ_پــــــــــاک
ہم سب کو اسلام سمجھ کر اور اس پر عمل کرکے جینے کی توفیق عطا کرے
الہــــــی آمیـــــــــــن ثـــــــم آمیـــــــــــن
 
Share:

Salam Kab Karni Chahiye, Salam Karne Ke Aadab

Salam Karne Ke Aadab.
ﺍﻟﺴَّـــــــﻼَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ
ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﻣﺮﺩ ﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎﺍﯾﮑﺪﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﺳﻼﻡ :
ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻡ ﮨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔
‏« ﺍﺗﻴﺖ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻫﻮ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﻓﺴﻠﻤﺖ ﻋﻠﻴﻪ
" ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺁﭖ ﻏﺴﻞ ﻓﺮﻣﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ۔ "
ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﺍﻟﻤﺴﺎﻓﺮﻳﻦ ﺑﺎﺏ ﺍﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﺻﻼﺓ ﺍﻟﻀﺤﻲٰ ‏( ١٦٦٩ ‏)
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺩﻭﻥ ﺯﻛﺮ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏( 1103 ‏)
‏( ﯾﺎ ﺩ ﺭﮨﮯ ﺍﻡ ﮨﺎﻧﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﺑﮩﻦ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏« ﻳﺎ ﻋﺎﺋﺸﺔ ! ﻫﺬﺍ ﺟﺒﺮﻳﻞ ﻳﻘﺮﺍ ﻋﻠﻴﻚ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏» ﻗﺎﻟﺖ : ﻗﻠﺖ : ﻭﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺑﺮﻛﺎﺗﻪ
ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻻﺳﺘﺌﺬﺍﻥ ﺡ ‏( ٦٢٤٩ ‏)
ﺍﮮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﯾﮧ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻭ ‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧؓ ﻧﮯﮐﮩﺎ ‏) ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﺭﺣﻤﺔﺍﻟﻠﮧ ﻭﺑﺮﮐﺎﺗﮧ
ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺑﺎ ﯾﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﺒﻮ ﯾﺐ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔
‏« ﺑﺎﺏ ﺗﺴﻠﻴﻢ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻭﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ‏» ﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻻﺳﺘﺌﺬﺍﻥ ﺭﻗﻢ ﺍﻟﺒﺎﺏ ‏( ١٦ ‏)
ﯾﻌﻨﯽ " ﻣﺮﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ۔ "
ﭘﮭﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻼﻡ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﺷﺎﺭﺡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺍﺑﻦ ﺑﻄﺎﻝ ﻧﮯ ﺍﻟﻤﮩﻠﺐ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔
‏« ﺳﻼﻡ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻭﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻋﻠﻲ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﺫﺍ ﺍﻣﻨﺖ ﺍﻟﻔﺘﻨﺔ ‏»
" ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﺎ ﺋﺰ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔ " ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﻋﺎﻡ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﺴﯽ ﻣﺠﻤﻊ ﺳﮯ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﺎ ﮈﺭﻧﮧ ﮨﻮ۔
‏( ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ : 11/24 ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ ﻣﺪﻧﯿﮧ / ﺟﻠﺪ /1 ﺻﻔﺤﮧ 816
ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﺎ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ :
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺤﺮﻣﺎﺕ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻼﺋﮯ ﯾﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺣﺮﺍﻡ، ﻓﺘﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺍﺣﺶ ﮐﮯ ﻇﮩﻮﺭ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﺴﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭـ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﯿﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﺭﻗﯿﻘﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﻬـ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﻲ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺮﯾﮟ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﮩﺪ ﻟﯿﺎ ۔۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ : ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ : ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮭـ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ؟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮭـ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﻴﺴﮯ ﺍﻳﮏ ﺳﻮﻋﻮﺭﺕ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ۔
ﻣﺴﻨﺪﺍﺣﻤﺪ 270,163/6
ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ / ﻓﺘﺢ ﺍﻟﺒﺎﺭﯼ / 7214,4891,41814180
ﺷﺮﺡ ﻧﻮﻭﯼ 10/13 - ﺳﻨﻦ ﺗﺮﻣﺬﯼ -3306 ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ 2875
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﺍﻟﻠﻪ ﻛﻰ ﻗﺴﻢ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭـ ﻧﮯ ﺑﯿﻌﺖ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭـ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﯾﺎ، ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﯿﻌﺖ ﻟﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻌﺖ ﻟﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﺴﻨﺪﺍﺣﻤﺪ -6/357 ﺍﻟﻤﻮﻃﺎ -2/982 ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ 2874
ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﮨﻤﺴﺎﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺟﻤﺎﻉ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﺍﻡ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻭﺳﯿﻠﮧ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﯼ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻗﺎﺭﺏ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺮﺩ ﯾﺎ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﯾﺎ ﺍﮨﻞ ﻭﻃﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﮞ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮈﺭﺍﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﯾﺎ ﺑﻮﺳﮧ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺻﺮﻑ ﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺑﻦ ﺑﺎﺯ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ / ﺟﻠﺪﺍﻭﻝ / ﺻﻔﺤﮧ 186
ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﻟﻎ ﺑﯿﭩﯽ ‏( ﺧﻮﺍﮦ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﮨﻮﯾﺎﻏﯿﺮﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ‏) ﮐﻮﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﺎ :
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﺩﻣﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﯾﺎ ﺑﮍﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺑﭽﯽ ﺑﮍﯼ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖؓ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﺨﺖ ﺟﮕﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧؓ ﮐﮯ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﻨﺴﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﻮ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺘﺎﻁ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻧﺎﮎ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺷﮩﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﺳﮧ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﺳﺪﺑﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﺟﻠﺪ /3 ﺻﻔﺤﮧ 92
. ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮐﺎﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﮐﻮﺳﻼﻡ،ﺑﻮﺳﮧ ﯾﺎﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ :
ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ، ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﺪﺭﺳﮧ ﻣﯿﮟ، ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻃﻠﺒﮧ ﻭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺍﺧﺘﻼﻁ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﭘﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﻃﻠﺒﮧ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ، ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻓﺘﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺟﺘﻨﺎﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻭﮦ ﺷﺮﻋﯽ ﺳﻼﻡ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﯾﺎ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﻮ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺷﮩﻮﺕ ﯾﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺭﻏﺒﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻋﺎً ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ / ﺟﻠﺪ /3 ﺻﻔﺤﮧ 83
ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﯾﺎ ﺟﻮﺍﺏ :
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺸﺮﮎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯿﮏ ﯾﺎ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻭﺭﻧﮧ ﻭﻋﻠﯿﮏ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﯾﺎ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮔﺮ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺸﺮﮎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ۔
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭﻣﺴﺎﺋﻞ
ﺟﻠﺪ 01 / ﺻﻔﺤﮧ /532 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ :
ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﺧﻮﺍﮦ ﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﮐﺎﻓﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﻣﻘﺮﺭﮐﺮﺩﮦ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ۔
ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﺩﻭﺭﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﺍﻭﺭﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮮﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﮮ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ،ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔
ﻣﻘﺎﻻﺕ ﻭﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺑﻦ ﺑﺎﺯ
ﺻﻔﺤﮧ /411 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺁﻧﮯﻭﺍﻟﮯﺷﺨﺺ ﮐﺎﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭﺣﺎﻟﺖِ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ :
ﻧﻤﺎﺯﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﯾﺎ ﺑﺎﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺻﺤﺎﺑﯽ﷢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮍﯼ ﭼﻮﭨﯽ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﴿ﺇِﻥَّ ﺃَﻧْﮑَﺮَ ﺍﻟْﺎَﺻْﻮَﺍﺕِ ﻟَﺼَﻮْﺕُ ﺍﻟْﺤَﻤِﯿْﺮِ)﴾ﻟﻖﻣﺎﻥ 19 ‏) ’’ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﺮﯼ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﮯ ‘‘ ﺭﮨﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﺎﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ۔ ‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﻭﺩ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﺑﺎﺏ ﺭﺩ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ، ﺗﺮﻣﺬﯼ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ۔ ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻹﺷﺎﺭۃ ﻓﯽ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ‏)
ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ / ﺟﻠﺪ /1 ﺻﻔﺤﮧ 160
ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﻢ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ۔ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
'' ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ؟ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‏( ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ ﻭﻗﺎﻝ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﯿﺢ ‏)
ﻋﻼﻣﮧ ﻧﺎﺻﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻻ ﻟﺒﺎﻧﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮨﮯ ۔
‏( ﻣﺸﮑﻮۃ ﺟﻠﺪ۱، ﺻﻔﺤﮧ۳۱۴ ‏)
ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺧﻮﺍﮦ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺧﻮﺩ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﮯ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺘﮯ۔ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺣﺒﺸﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺣﺒﺸﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
)) ﺃﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺤﺪﺙ ﻣﻦ ﺍﻣﺮﻩ ﻣﺎ ﻳﺸﺎﺀ ﻭ ﺇﻥ ﻣﻤﺎ ﺃﺣﺪﺙ ﺃﻥ ﻻ ﺗﺘﻜﻠﻤﻮﺍ ﻓﻰ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ ((. ‏( ﺭﻭﺍﻩ ﺃﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺎﻧﻰ ﺣﺴﻦ ‏)
'' ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮ ﺣﮑﻢ ﻧﯿﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ '' ۔
ﺍﻥ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺭﺳﻮﻝ ﺍ ﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ۔ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ۔
ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻞ / ﺟﻠﺪ /1 ﻣﺤﺪﺙ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﺎ ﺧﺸﻮﻉ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺾ ﮐﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﻤﺎ ﺯ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ،ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﮐﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﺮﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﺗﮏ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﮐﺎ ﺧﺸﻮﻉ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺗﮭﯽ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﯾﺎﮔﯿﺎ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩؓ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺟﺐ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺒﺸﮧ ﮐﮯﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺠﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﻮ ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯﻣﺘﻌﻠﻖ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﺍٓﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺟﺐ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ۔ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ‘‘: ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ’’
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ،ﺍﻟﻤﺴﺎﺟﺪ : ۱۲۰۱ ‏)
ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ : ۱۲۰۵ ‏)
ﺍﻥ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺽ ﮐﺎ ﺗﺎﺭﮎ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﺎﺋﮯ،ﺍ ﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺎٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﺳﻼﻡ ‘‘ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ’’ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍٓﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ۔ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮩﻨﺎ ﺩﻭﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔
‏( ۱ ‏) ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﮮ، ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﻮ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﺍﻏﺖ ﮐﮯﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯼ۔
‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۹۴۲ ‏)
‏( ۲ ‏) ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯﺍﺷﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﻗﺒﺎﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯﮔﺌﮯ۔ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻘﯿﻢ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﮯﮨﻤﺮﺍﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﮩﯿﺐ ؓ ﺗﮭﮯ،ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﯿﺴﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍٓﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
‏( ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ،ﺍﻗﺎﻣۃ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۱۰۱۷ ‏)
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼ ﻝ ؓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﮩﯿﺐ ؒ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
‏( ﺟﺎﻣﻊ ﺗﺮﻣﺬﯼ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۳۶۸ )
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ؓ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‏( ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ،ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ : ۹۲۷ ‏)
ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﺴﻦ ﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﮯﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﺮﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺴﻨﻮﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ،ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﺎٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ‘‘ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺗﺤﻤﯿﺪ ’’ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺧﻼﺹ ﮐﮯﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺤﺴﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﺑﺠﺎﻻﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ،ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻗﺒﯿﻞ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﻮﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﻓﻀﻞ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺳﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺠﺎﻻﺗﮯ ،ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﺎﺑﺮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ؓ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺯ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺻﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺻﺮﻑ ﺟﻮﺍﺯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
ﺟﻠﺪ /2 ﺻﻔﺤﮧ 11
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺍﺫﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻼﻡ ﻭ ﺟﻮﺍﺏ :
ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔
‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ‏) ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ، ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ ﺹ ۳۲۳ ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ / ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ
ﺟﻠﺪ 1 / ﺻﻔﺤﮧ 159
ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺒﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﻮٔﺫﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ۔ ‏( ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﻠﺪ ﻧﻤﺒﺮ ۶ ﺷﻤﺎﺭﮦ ﻧﻤﺒﺮ ۱۷ ‏)
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ / ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺼﻼۃ
ﺟﻠﺪ 1 / ﺻﻔﺤﮧ 159
ﺩﻭﺭﺍﻥِ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻼﻡ :
ﺍﻧﺴﺎﻥ ‏( ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ‏) ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻄﺒﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﻠﮑﯽ ﭘﮭﻠﮑﯽ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺘﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﮩﮯ۔ ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ :
‏« ﺇِﺫَﺍ ﻗُﻠْﺖَ ﻟِﺼَﺎﺣِﺒِﮏ ﺍٔﻧﺼﺖَ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﺠُﻤُﻌَﺔِ ﻭَﺍﻟْﺈِﻣَﺎﻡُ ﻳَﺨْﻄُﺐُ ﻓَﻘَﺪْ ﻟَﻐَﻮْﺕَ ‏» ﻭﺻﺤﻴﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ، ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺑﺎﺏ ﺍﻻﻧﺼﺎﺕ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺍﻻﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ، ﺡ : ۹۳۴، ﻭﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺑﺎﺏ ﻓﯽ ﺍﻻﻧﺼﺎﺕ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﯽ ﺍﻟﺨﻄﺒﺔ، ﺡ : ۸۵۱ ‏( ۱۱ ‏) ﻭﺍﻟﻠﻔﻆ ﻟﻤﺴﻠﻢ۔
’’ ﺟﺐ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺧﻄﺒﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ۔ ‘‘
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
‏« ﻭَﻣَﻦْ ﻣَﺲَّ ﺍﻟْﺤَﺼٰﯽ ﻓَﻘَﺪْ ﻟَﻐَﺎ ‏» ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۱۰۵۰، ﻭﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻣﺎﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﺿﻮﺀ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۴۹۸۔
’’ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻨﮑﺮﯼ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﺍ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ۔ ‘‘
ﺍﺱ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﻤﻌﮯ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺧﺘﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ :
‏« ﻭَﻣَﻦْ ﻟَﻐَﺎ ﻓﻼ ﺟﻤﻌﺔ ﻟﻪ ‏» ﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﻭﺩ، ﺍﻟﺼﻼﺓ، ﺑﺎﺏ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺡ : ۱۰۵۱۔
’’ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻟﻐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ، ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺟﻤﻌﮧ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔ ‘‘
ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﻭ، ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺳﮯ ﻭﻋﻠﯿﮏ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ، ﺧﻮﺍﮦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮏ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮩﮯ ﮨﻮﮞ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺑﻌﺾ ﺍﮨﻞ ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻨﺪﮦ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻭﺟﻮﺏ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﺳﮯ ﻣﻘﺪﻡ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﮮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺧﻄﺒﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺧﻄﺒﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﻓﺘﺎﻭﯼٰ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺍﺳﻼﻡ / ﻧﻤﺎﺯﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ
ﻭﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﻮﻓﯿﻖ
ﮬٰﺬﺍ ﻣﺎﻋﻨﺪﯼ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺼﻮﺍﺏ
ﻭٙﺍﻟﺴَّـــــــﻞﺍَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ
Share:

Valentine Day Manana Kaisa Hai?

VALENTINE DAY MANANA KAISA HAI
Prepared By : Bint e Iqbal



         *بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
__________________________________
Valentine day Ek aisa din hai jiska intezar aksar ladke-ladkiyan bahut hi besabri se karte hain Ke Valentine day aaye aur wo Allah ke Qanoono ko tod dale.
Bhale hi niyat ye na rahti ho kyunki bahut se log kam ilmi ka bhi shikar hote hai jiski ek sabse badi wajah Sahi ilm e deen se doori hai._
     Valentine day ki history jo bhi rahi hogi lekin aaj log is valentine day ke din sarey-aam khul kar zina karte hain.Jabke Allah ta'ala ne hame Zina ke qareeb bhi jane se mana kiya hai._
Allah Taa'la farmata hai_

"Khabardaar zina ke qareeb bhi na bhatakna, kyunki wo badi be-hayaayi hai aur bahut hee buri raah hai"
_(Surat Bani Israeel - 17 :32)_

_Agar Ham Ghaur karen to payenge ke Valentine Day ke din sirf aur sirf Allah ke Banaye Qanoono ko bedardi se toda jata hai. Jo ki ek musalman ke liye bahut hi sharmnaak baat honi chahiye._
_Aj log behayaai me itne doob chuke hai ke dekh kar koi pahchan nahi sakta ke kaun muslim hai aur kaun ghair muslim, jabki Allah ne musalman ki ek alag pahchan di hai, agar ek shakhs musalman lafz ke taqazo ko pura karne lage to wo sabse alag dikhega._

_Aaiye dekhte hain ke in behayaai phailane walo ke liye Allah Taa'la kya farma raha:_

_*▫▫ Jo log musalmaano mein be hayaayi phailaane ki aarzu mandh rehte hai, un ke liye duniya aur akhirat mein dardnaak azaab hai, Allah sab kuch jaanta hai aur tum kuch bhi nahi jaante."*_
_(Surat un Noor 24 : 19)_

_Kya ye ayat kaafi nahi Dilo me khauf bharne ke liye, ke wo dardnak azaab kab aur kaha a pakde aur duniya me zillat ka sabab bane. Yaad rakho musalmano Allah ka wada sachha hai Uska azaab kahin bhi aur kabhi bhi akar pakad lega aur duniya o akhirat dono me ruswa karega._

_Allah Taa'la ne Behayaai ki baato ko haram kaha hai._

_*"▫▫ Ap kah dijiye ke mere Rab ne to Behayaai ki baato ko Zahir ho ya Posheeda aur gunah ko aur Nahaq zyadti ko haram kiya hai."*_
_(Surat Ul Aeyraaf 7 : 33)_

_*▫▫ "Allah ta'ala adl(insaaf) ka bhalaayi ka aur qaraabat'daaro ko(Kharch se madad) dene ka hukm deta hai aur  be' hayaai ke kaamo, Aur Naa Maqool harkato aur zulm wa zyaadati se rokta hai, wo khud tumhe nasihate kar raha hai ke tum nasihat haasil karo"*_
_(Surat un Nahal 16 : 90)_

_Aye be-khauf musalmano Allah ki di hui nasihaton ka faida uthao kahi ye behayaai tumhe us Aag me na dhakel de jiska indhan patthar aur insan hain._

_Allah Taa'la musalmano ko hukm deta hai ke wo islam me pure pure dakhil ho jaaye warna shaytan to imanwalo ka khula dushman hai aur uska maqsad hi imanwalo ko bahkana aur jahannum ki taraf le jana hai._

_*▫▫" Imaan walo! Islaam mein pure pure daakhil ho jao aur shaitaan ke qadmo ki tabedaari na karo, wo tumhaara khula dushman hai."*_
_(Surat ul Baqara - 2 : 208)_

_*▫▫" Imaan waalo! shaitaan ke qadam ba qadam na chalo, jo shaqs shaitaani qadmo ki pairvi kare, to wo to be hayaayi aur bure kaamo ka hee hukm karega aur agar Allah ta'ala ka fazl wa karam tum par na hota, to tum mein se koyi bhi kabi bhi paak saaf na hota, lekin Allah ta'ala jise paak karna chaahe kar deta hai aur Allah sab sunne wala aur sab jaane wala hai.*_
_(Surat un Noor - 24 : 21)_

_Aur Jo log sahi raah bata dene ke bad bhi nahi mante unka anjam Allah Taa'la ne kuch is tarah bayan kiya hai._

_*▫▫ "agar tum ba-wajood tumhaare paas daleelen aa jaane ke bad bhi phisal jaao to jaan lo ke Allah ta'ala ghalba waala aur hikmat waala hai.*_
_(Surat ul Baqara - 2 : 209)_

_*▫▫ "Jo shakhs ba-wajood raah hidaayat ke waazeh ho jaane ke baad bhi Rasool (sallallahualaihi wasallam) ke khilaaf kare aur tamaam momino ki raah chhod kar chale,hum use udhar hee mutawajje kar denge jidhar wo khud mutawajje ho aur dozakh mein daal denge,wo pahonchne ki bahut hee buri jagah hai."*_
_(Surat un Nisaa : 115)_

_Aye musalmano daro, kahi tum us bhadakti hui aag me na daal diye jaao, kahi wo zina ka pal tumhari zindagi ka akhiri pal na ho aur tum is halat me na maro ke momin na ho Jaisa ke Hadees e Rasool hai_

_Rasool’Allah sallallaho alaihi wasallam ne farmaya *"koi shaks jab zina karta hai to ain zina karte waqt wo momin nahi hota.”
_(Sahih Bukhari,5578)_

Kya in Roshan Daleelo ke baad bhi ek musalman zina ke qareeb jayega aur behayaai karega?

Share:

Haram Mohabbat Ka Izhar Karne walo Ka Anjaam.

Mohabbat Halal Ya Haram.
رات کا آخری پہر تھا ، وہ دونوں مزے کی نیند سوۓ ھوئے تھے ، کیف و مستی میں ڈوبے ھوئے ، ، ،
نوجوان کی آنکھ کھلی ،اس نے کمرے میں جلتی مدھم لائٹ میں کلاک کو دیکھا ، ، اوہ ،،،! بہت لیٹ ھو گئے ، ، اس نے سوچا ، ، ، ابھی اور آرام کر لیں !! نہیں ، ،اس نے اس خیال کو جھٹکا اور اُٹھ کر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ، ، ، ، وہ غسل کر کے باہر نکلا تو اس نے ایک محبت بھری نگاہ اپنی بیوئ پر ڈالی اور محبت بھری آواز سے اسے بیدار کرنا چاھا ، مگر وہ کامیاب نہ ھو سکا ، وہ دوبارہ باتھ روم میں داخل ھوا،اپنے ھاتھ گیلے کیے اور ایک چھینٹا اس پر مارا ،، اس نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں ۔وہ مسکرایا اور اسے تہجد کے لیے خبردار کیا ، ، !!
یہ تھی وہ محبت بھری کوشش اس مبارک جوڑے کی کہ جس پر اللہ تعالی بھی فرشتوں پر فخر فرماتے ھیں اور ان کی بخشش کا اعلان فرماتے ہیں ، ان پر خاصی رحمتِ الٰہی کا نزول ھو رھا تھا ۔ ۔!!! ۔ ۔ایک پاکیزہ محبت ، ،!!!
چودہ فروری کی ایک تاریک شام ۔ ، ،۔ ۔ ۔!
اسے بار بار لوّ میسج وصول ھو رھا تھا ، اس نے مسکرا کر اسے اوکے کر دیا اور گھر سے نکلنے کی ترکیب سوچنے لگی ۔ ۔ !۔
تھوڑی دیر بعد ۔ ۔ ۔
وہ اپنے یونیورسٹی فیلو کے ساتھ ایک جدید ھوٹل میں بیٹھی آئس کریم کھا رھی تھی ۔ ۔ ۔ !
! ! ۔ ۔
غیر محرم ھوتے ھوئے اس ملاپ پر ان پر  لعنت اللہ تعالی کی طرف سے برس رھی تھی ۔ ۔ لعن اللہ الناظر و المنظور الیہ ۔ ۔ ۔ ۔مگر وہ دونوں اس سے بے خبر تھے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اللہ تعالی کے غیر محرموں سے اجتناب کے احکامات کی دھجیاں اُڑا کر اللہ تعالی کے غضب اور قہر میں داخل ہو رھے تھے , ,اور اللہ کے عذاب کا کوڑا کسی بھی وقت ، کسی شکل میں ان پر برس سکتا تھا ۔ ۔ ۔ ، ، ، ،
وہ اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رھا تھا ، شہوت اس کی آنکھوں میں ناچ رہی تھی ۔ ۔ ۔
آؤ ، ، ،
ڈنر کے لیے میں نے ایک سیپریٹ کمرے میں بندوبست کروایا ھے ۔ ۔ ، ،
اور وہ دونوں ایک خوبصورت ، ویل فرنشڈ کمرے میں داخل ہو رھے تھے ۔ ۔ ۔
مگر اسے معلوم نہ تھا کہ آج جو اس کا مدعی عشق ھے ، وہ کل کا بڑا بلیک میلر ثابت ہو گا ، اور کمرے میں لگے خفیہ کیمرے سے بنی ہوئی ایچ ڈی ویڈیو جہاں اس کے نام نہاد محبوب کے لیے کمائی کا ذریعہ ھو گی، وھیں وہ اس کی معصوم زندگی کو تلخ اور ناکام بنا دے گی ، ، ،
مگر اس وقت تو اس کی آنکھوں پر جھوٹی محبت اور مغربی تہذیب کی نقل کا ایسا پردہ پڑا ھوا تھا کہ ۔ ۔ ۔۔اسے اپنی عزت ،اپنے خاندان کی عزت کے اُٹھتے ھوئے جنازے کا بھی احساس تک نہ تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ ایک ایسی بند گلی میں پھنس چکی تھی جہاں سے واپسی ناممکن تھی ، ، ، ،
مگر وہ خوش تھی ، ۔ ۔😢😢😢 ۔
ناجائز اظہار ِ محبت کی آزادی پر ۔ ۔ ۔
ایک بےحیاء دن # ویلنٹائن ڈے#
کی یاد تازہ کرنے پر ۔ ۔ ۔
بہت بڑی قیمت چکانے کے باوجود ۔ ۔ ۔ !!
مگر پھر کیا ہوا اس کی ویڈیو بن گئ اور لڑکے نے اچھے خاصے پیسے وصول کر لیئے اور لڑکی کی ناجائز ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئ خاندان والوں کا سر شرم سے جھک کیا اور کچھ ہی لمحہ بعد لڑکی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا ..😢😢😢😢
ان کاموں کا انجام یہی ہوتا ہے 😢😢😢😢اسلئیے کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے شادی سے پہلے کسی کو کسی ہوٹل میں ملنے سے بہتر ہے انسان خودکشی کر لے😢😢😢
مرد فقط اک غسل سے پاک ہوجاتا ہے غلط رواج ہے معاشرے کا...عورت بیچاری معصوم 😢😢 اپنی غلطی پر ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوجاتی ہے ...خدارہ رحم کیجئیے
کاش کوئی اس کو سمجھاتا تو آج اندھیروں اور ناکامیوں کے سفر سے وہ بچ جاتی ، ، ،
۔ ۔ یا اللہ اُمّتِ مسلمہ کی بچیوں کی حفاظت فرما ۔ ۔ ۔!!۔ ۔ آمین ،

Share:

Valentine Day Ke Din Hm Apne Ghar Ke Logo Ko Kyu Mna KArte HAi?

ویلنٹائن ڈے منانے سے کیوں روکتے ہو؟؟

ابھی جنوری ختم ہونے کو تھا کہ سوشل میڈیا پر ہر طرف ایک ہی پوسٹ گردش کرنے لگی، ہر کوئی ایک ہی بات کر رہا تھا،
Say No Valentine
I am Against VALENTINE
Valentine is totally against the Islamic teachings
نہ صرف یہ بلکہ نہ جانے کتنی ہی باتیں اورعلماء کرام کی ویڈیو شئیر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں ہوتی ہیں۔ کچھ ویڈیوز اور پیغامات میں تو ویلنٹائن منانے والوں کو اسلام کے مخالف کہا جاتا ہے اور کچھ میں تو کافر تک قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں میں تمام پڑھنے والوں سے ایک سوال کروں گا اور وہ یہ کہ اس طرح کی پوسٹ جو فیس بک اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر کی جاتی ہیں، کیا ان سے ویلنٹائن منانے والے ڈر جاتے ہیں؟ کیا کسی قابل شخصیت کے بیان سننے کے بعد آپ یہ توقع کرسکتے ہیں کہ ایسے دوست جو پورے سال اس دن کے آنے کا انتظار کرتے ہیں وہ کچھ تنقیدی باتیں سن کے رک جائیں گے؟
اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو بالکل اپنے خیالات شئیر کیجئے اور کھل کر ویلنٹائن ڈے پر تنقید کریں کیونکہ آزادی رائے کے اظہار کے تحت اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے، میں اس کو کسی اور زاویہ سے سوچتا ہوں جو آپ کے سامنے اب بیان کرنے جا رہا ہوں۔ بھئی غور سے پڑھیئے گا اور اگر کسی کو اچھا نہ لگے تو معذرت۔ فرض کیجئے آپ کو ویلنٹائن منانے والے اچھے نہیں لگتے اور آپ صرف اپنے غصے کی بناء پر اپنے دوستوں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کو یہ دن منانے سے منع کرتے ہیں، تو بھئی یہ توآپ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ آج سے آپ ہر سال بس اس پیغام کو عام کریں جو میں اب آپ کو بتا رہا ہوں۔
میری قوم کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں اور ہر عمر سے تعلق رکھنے والوں آپ ویلنٹائن منائیں ضرور منائیں، اور اس کے لئے آپ کو کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی آپ کو کسی سے ڈرنا چاہیئے۔ آپ ڈنکے کی چوٹ پر منائیں اگر پھول ہر سال کی طرح 14 فروری کو دوکانوں پر ختم یا مہنگے ہوجاتے تو 13 فروری کی صبح ہی گھر کے فریج میں لاکر رکھ لیں، نہ صرف پھول بلکہ چاکلیٹس، پرفیومز، نئے نئے کپڑے، جیولری، ٹیڈی بئیر اور جو کچھ اس عالمی یومِ محبت کے دن دیا جاتا ہے تحفے کے طور پر وہ آپ دیں اپنے محبوب کو، اور ہرگز نہ شرمائیں نہ ہی یہ کام چھپ کر کیجئے۔
ارے  رکیے بھائی رکیے تو سہی، ابھی سے گفٹ لینے کہاں جارہے ہیں؟ پوری بات تو سنئیے، اس ساری آسانی کے بعد آپ کو ایک کام اور لازمی کرنا ہوگا، جس طرح آپ 14 فروری کو لال ٹی شرٹ اور شرٹس پہن کر کسی لڑکی کو ڈیٹ پر لے کر جاتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو اپنے اندر اتنی اخلاقی جرات اور بہادری رکھنی ہوگی کہ آپ اپنی بہن کو بھی یہ اجازت دیں کہ اگر تمہیں آج کسی غیر لڑکے کے ساتھ ڈیٹ پر یا کہیں بھی گھومنے پھرنے جانا ہو تو ضرور جاؤ۔ میں تمہارا بھائی ہوتے ہوئے آج تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، کیونکہ آج میں خود کسی کی بہن یا بیٹی کے ساتھ عالمی یومِ محبت کے دن کو منانے جا رہا ہوں۔
بس بات ختم، جس دن آپ کے اندر یہ جذبہ آجائے تو پھر ضرور منائیں ویلنٹائن ڈے اور اگر یہ ہمت اور جذبہ نہیں ہے کہ آپ اپنی ہمشیرہ کو اجازت دیں کہ وہ بھی کسی کے ساتھ جائے۔۔۔۔ تو پھر آپ کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ آپ اس دن کو منائیں۔Happ New Year Islam Me Mnana Kaisa HAi?
Share:

Paidaish Ke Waqt Bacche ki kan me Aazan-O-Akamat Kahna.

پیدائش کے وقت بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا

اقامت کہنا تو بالکل ثابت نہیں ہے کیونکہ جس حدیث میں اس کا ذکر ہے وہ قابل حجت نہیں ہے۔جیسا کہ حضرت حسین بن علی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
(من ولدله ولدفأذن في اذنه اليمني وأقام في اذنه اليسري لم تضره ام الصبيان) (موضوع:الضعیفۃ 320/1)ارواہ الغلیل 1174)شعب الایمان للبیہقی 8620)
’’جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا اور وہ اس کے دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہے تو اسے ام صبیان کی بیماری نقصان نہیں پہنچائے گی۔
اس سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی روایت بھی مستند نہیں ہے (تلخیص الحبیر273/4)
علاوہ ازیں آذان کہنے کے متعلق روایت بھی ضعیف ہے اس کی سندمیں عاصم بن عبیداللہ راوی کی صحت میں اختلاف ہے (تقریب التہذیب 384/1،میزان الاعتدال 353/2)
البتہ دیگر شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن درجہ تک پہنج جاتی ہے
حضرت ابورافع سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ
(أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة)۔(حسن:صحیح ترمذی 1224)صحیح ابوداؤد 4258)اراوہ الغلیل 1173)
’’جس وقت حضرت فاطمۃ نے حضرت حسین بن علی کو جنا تو آپﷺ نے ان کے کان میں نماز کے لیے (کہی جانےوالی )آذان کی طرح آذان کہی ۔‘‘
عبدالرحمن مبارکپوری:یہ حدیث ضعیف ہے لیکن حضرت حسین بن علی نےکی اس روایت سے کہ جسے امام ابویعلی موصلیؒ اور امام ابن سنیؒ نے روایت کیا ہے مضبوط وقوی ہوجاتی ہے (تحفۃ الاحوذی91/1)
امام ترمذی :یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے (ترمذی 1516) امت کا متواتر ومتوارث عمل بھی اسے قابل احتجاج بنادیتا ہے۔
ابن قیمؒ:انہوں نے اپنی کتاب زادالمعاد میں حضرت ابورافع کی حدیث نقل فرمائی ہے (زادالمعاد333/2)
Share:

Kya Deen Ki Batein Btane Ke Liye Certificate Ka Hona Jaruri Hai?

Kya Deen ki Batein Btane Ke Liye Certificate Ki Jarurat Hai?
Sawal- Asslaam alaikum warahmatullah Shaykh. Kya Deen batane ya sikhane ke liye kisi madarse ya university ke certificate ka hona zaruri hai❓
Bara e maherbani jawab irshad farma dijiye. Allah apke ilm me izafa kare.

Al jawaab :-       Alhamdulillah..

Quran e hakeem me hame kahi bhi ye nahi milta ki Deen ki baate batane ya sikhane ke liye apko kisi madarse ya university ki certificate ka hona zaruri hai. Balki Allah ﷻ farmate hai,

Aur usse behtar kiski baat hai jo logo ko Allah ke taraf bulata hai, nek kaam karta hai aur kahta hai ki mai Musalmano me se hun 💖

Surah Fussilat ﴾41﴿, ayat- 33📚

۩ Tum behtareen Ummat ho jo logon ke liye paida kiye gaye ho. Tum nek baaton ka hukm dete ho aur buri baaton se rokte ho aur Allah Taalaa par eemaan rakhte ho
Surah Aal e Imran ﴾3﴿, ayat- 110📚

In ayato me Allah ﷻ ne puri ummat ko  ek aam ijazat di hai ki wo logo ko Deen ke taraf dawat dein. Ab aiye dekhte hai ki hamare Rasool ﷺ ne hame is baare me kya baate batayi hai.

۩ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلاَ حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"-

۩ Abdullah ibn Amr r.a. riwayat karte hai ki RasoolAllah ﷺ ne farmaya, *Pahucha do meri taraf se wo kyu na ek ayat hi ho* aur Bani Israail ke waaqyaat tum bayan kar sakte ho, isme koi harj nahi aur jis ne mujh par jaanbuj kar jhut bandha to use apne jahannam ke thikane ke liye tayar rahna chahiye‼
Sahih al Bukhaari, Kitab ahadees anNabi ﴾60﴿, hadith-3461📚

Ye hamare Rasool ﷺ ka ek saada (simple) sa hukm hai ki agar hame ek ayat bhi aati hai to ham use dusro tak pohchayein  Rasool ﷺ ne yaha par na to kisi degree ka zikr kiya aur na hi kisi madarse ya university ka‼

Aur kya sahaaba e kiraam ke paas koi digree thi ❓

Ab aiye dekhte hai ki hamare ahle ilm is mauzu par hame kya naseehate karte hain?

۩ Imam Ibn Hajar Asqalani Rh saheh Bukhari ki sharah  Fath al Baari me likhte hain:-
“Is hadees me '(Pohcha do meri taraf se) chahe wo ek ayat hi kyun na ho' se murad ye hai ke har shaks jisne jo bhi baat unse (Rasool se) suni ho, chahe kitni hi thodi ho, wo logo tak pohchane ki jaldi koshish kare, is tarah se har cheez jo RasoolAllah ﷺ lekar aaye the, wo logo tak pahunch jayegi‼

Fath ul Bari by Imam ibn Hajar, Kitab ahadees anNabi ﴾60﴿, hadith-3461📚

۩ Shaykh ibn Uthaymeen r.h. kehte hain:-

“Jab ek shaks us chiz ki samajh rakhta hai jis ke taraf wo logo ko bula raha hai to isse koi fark nahi padta ke wo bada ya mashhoor aalim ho ya Deen ka sachha taalib e ilm ho ya ek aam sa aadmi ho jise kuch ilm ho us masle me jo sawal pucha ja raha hai,
RasoolAllah ﷺ ne farmaya hai, "Pohcha do meri taraf se wo kyu na ek ayat hi ho", aur unhone ne ye shart nahi rakhi ke us daaiyah (logo ko deen ki taraf bulane wale) ko Ilm ke aala darje par faiz  hona chahiye, bas zaroori hai ke use us baat ka ilm ho jiski taraf wo bula raha hai. Lekin apne la-ilmi aur apne jazbaat ke bina par logo ko (deen ki taraf) bulane ki ijazat nahi hai‼

Fataawa ‘Ulama’ al-Balad al-Haraam, p. 329📚

۩ Shaykh Saleh al Munajjid farmate hain:

“Allah ke taraf logo ko bulana sabse behtareen aur azeem amal hai Allah subhanahu wa tala ke yaha. Jab ye fareeza Nabiyo aur Rasoolo ka hai jinhe Allah ne makhlook maise chuna to ye farza unke (Nabiyo aur Rasoolo ke) wariso ka kaise nahi ho sakta hai jo ki Ulema aur Daaiya hai‼

Ye zaruri hai ki jo shaks logo ko Islam ki taraf bula raha ho uske paas us chiz ki kuch samajh zarur ho jiski taraf wo logo ko bula raha hai, lekin iski zarurat nahi hai ki use poore Deen ka ilm hona chahiye kyuki Abd-Allaah ibn Amr se Bukhaari (3461) me riwayat hai ki RasoolAllah ﷺ ne farmaya, "Pohcha do meri taraf se wo kyu na ek ayat hi ho‼

source:- https://islamqa.info/en/106137

۩ Shaykh Saleh al Fawzan se sawal kiya gaya, “Moazzaz Shaykh, Allah apko qamyabi ata kare. Kya wo shaks logo ko Deen muamlat ki taaleem dena chahta hai, kya ye kafi hai ki uske pas kisi university ka certificate ho ya fir uske paas kisi ulema ki tazkiyaat (shabashi, taareef) ke hone ki zarurat hai❓

Shaykh farmate hain,

“Ilm ka hona zaruri hai. Har shaqs jiske paas certificate hai wo alim nahi ban jata hai (certificate hone ke wajah se), (lekin) Ilm aur Allah ke Deen ki samajh (fiqh) zaruri hai. Ek Certificate ilm ki nishandehi nahi karta. Ek shaks ke paas (certificate) hone ke ke bawujud wo logo me sabse zyada jahil ho sakta hai, aur ek shaks ke paas certicate na hokar bhi wo logo me sabse zyada ilm rakhne wala shaks ho sakta hai. Kya Shaykh ibn Baaz ke paas certificate tha? Kya Shaykh Ibn Humayd (ke paas koi certificate tha)? Kya inlogo ke paas certificate tha? Fir bhi wo is waqt ke maroof (leading) Imam the. Lihaza ye taqreer ek shaks ke andar ilm aur samajh ki maujudgi ke ird-gird ghumti hai, uske certificate aur tazkiyaat par nahi, (certificate aur tazkiyaat) par gaur nahi kiya jata hai. Aur haqiqat ek shaks ko be-naqab kar deta hai jab sath me koi masla aata hai, ya koi musibat ati hai, fir (sachha) alim aur naqli aur jahil alim se wazeh ho jata hai. Ji Han ‼

Wama Alaina illal balaagh.

*Allah se dua hai ke wo hame kehne sunne se zyaada amal ki taufeek ata farmaye ameen.
🌹🍂🌹🍂🌹🍂🌹🌹🍂🌹🍂🌹🍂🌹🍂🌹🍂🌹

D͓̽a͓̽n͓̽i͓̽s͓̽h͓̽ A͓̽n͓̽s͓̽a͓̽r͓̽i͓̽

Share:

Kaun Si Chaar Chijein Ambiya Ki Sunnat Hai?

Chaar Chijen Ambiya Ki Sunnato Me Se Hai.
🌷  ▫  *Aaj Ki Hadees
🍁 Huzoor ﷺ ka irshaad hai: Chaar cheezein Ambiya ki Sunnaton mein se hai: Sharm-o-Haya, Khushbu lagaana, miswaak karna aur Nikaah karna. (Tirmizi: 1080)

Share:

Valentine day Aur Hmari Bahen Betiya ki Izzat Aur Hmari Gairat.

Valentine Day Ek Behyayi Ka Din.

( BEHAYAYI AUR BESHARMI KA EK AALAMI FESTIVAL)


Valentine's Day manana ALLAH ke Azaab ko Dawat dena hai.
Allah Taala Quran Majeed mein Farmaate hain.
Jo Log ye Chahte hain ki Musalmaano (Momino) mein Behayayi Phaile, Unke liye Duniya aur Akhirat mein Dardnaak Azaab hai.
Surah Noor
Surah Number - 24
Aayat Number - 19

Hum sab Jaante hain ki Valentine's Day Yahood-o-Nasara ka amal hai, Allah ke Rasool Sallallaho Alaihe Wasallam ne Kabhi iski Taleem nahi diya, Phir bhi Kuch Na-Samajh Musalmaan Yahood-o-Nasara ki Nakal karte huye Valentine's Day Manate hain.
Jiske baare me Rasoolullah ﷺ ne Farmaaya.
 *Jisne jis Qaum (Religion) ke Tarike ko ikhteyaar kiya, Wo unhi me se hoga.*
Sunan Abu Dawood
Hadees Number - 3512
Quran mein Allah Taala ye bhi Farmaate hain.
Khabees ( Yaani Na-Paak) Auraten Khabees Mardo ke liye hain aur Khabees Mard Khabees Auraton ke liye hain, aur Pakiza Auraten Pakiza Mardo ke liye hain aur Pakiza Mard Pakiza Auraton ke liye hain.
Surah Noor
Surah Number - 24
Aayat Number - 26
Bahut se log ye bhi kahte hain ki Duniya me itne saare log manate hain, kya itne saare log Galat hain?
Jabki Allah Ne Quran me Saaf Saaf farmaya diya hai :-
Aksar log jo Zameen par abaad hain wo GUMRAH hain, Agar tum Unka kaha maan loge to wo tumhe Allah ka Raasta Bhula denge.*
Surah Anaam
Surah Number - 06
Aayat Number - 116
*Isliye Musalmaano se Muaddabana guzarish hai ki Besharmi aur Behayayi ke is Festival ko Celebrate na karen Aur Apne aapko Azaab-e-Elaahi se bachayen.
Kyuki 14 February ko kisi ki Beti aur Bahan ko Date dene se pahle ye Mat bhoolna ki Tum bhi Kisi Ladki ke Bhai aur Baap ho.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS