find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by relevance for query namaj. Sort by date Show all posts
Showing posts sorted by relevance for query namaj. Sort by date Show all posts

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika Kya hai?

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika kya hai?

Eid ki Namaj kaise Padhni chahiye.?

Jashn-E-Eid Miladunnabi Manana Kaisa hai Islam me?

Eid ki Namaj se Pahle fitara Nikalane Ke Masail.

Sabse Pahle Eid ki Namaj kab Padhi gayi thi?

Qurbani ke Ahkaam o Masail part 2

Fitra me Hame kya kya dena Chahiye Shariyat ke mutabik?

Lock down me Eid Ul Fitra ya Eid Ul Azaha ki Namaj kaise padhi jayegi?

Eid ki Namaj se  pahle aur bad me Kya karna chahiye?

*نماز عیدین پڑھنے کا سنت طریقہ*

*شیخ جیلانی کا موقف*

تحریر: *قاری محمد اسماعیل قادرپوری*

شیخ جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نماز عیدین کا سنت طریقہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

*اسکی دو رکعت ہیں پہلی رکعت میں سبحانک اللہم کے بعد سات تکبیریں پڑھے اور اس کے بعد آعوذ پڑھے اور دوسری رکعت میں قرات پڑھنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہے اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک تکبیر کہتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے (رفع الیدین کرے)....... اور جب تکبیروں سے فارغ ہو تو آعوذ پڑھے اور اس کے بعد سورۃ الفاتحہ اور پھر سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ھل اتک پڑھے۔*

(غنیۃ الطالبین باب دونوں عیدوں کے بیان میں، صفحہ نمبر 517)

شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کی عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

*1- پہلی رکعت میں ثناء کے بعد سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں ٹوٹل 12 تکبیریں کہنی ہیں۔*

*2- دونوں رکعتوں میں زائد تکبیرات کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہے اور تکبیرات میں رفع الیدین بھی کرنا ہے۔*

*3- دونوں رکعات میں وہی سورتیں تلاوت کرنی ہیں جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے۔*

*ہمارے جو بھائی شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کو اپنا غوث الاعظم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہر بات اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے لکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ نماز عیدین کا طریقہ درست کریں اور سنت رسول کے مطابق نماز ادا کریں۔*

احادیث سے بھی نماز عیدین کے پڑھنے کا یہی طریقہ ثابت ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:

*أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فِي الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(سنن ابوداؤد حدیث نمبر 1149وسندہ صحیح)

سیدنا عمرو بن عوف المزنی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:

*كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ*

*عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(جامع ترمذی حدیث نمبر 536)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں:

*قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا۔*

*اللّٰہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت (زائد) تکبیرات کے بعد ہے۔*

(ابوداؤد حدیث نمبر 1151)

*قارئین کرام! ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عیدین پڑھاتے تو آپ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ، ٹوٹل بارہ تکبیریں کہتے تھے۔ اور دونوں رکعتوں میں تکبیرات قرات سے پہلے کہتے اور قرات بعد میں کرتے تھے اور اہل الحدیث بھی الحمدللہ اسی طریقہ پر سنت کے مطابق پڑھتے ہیں۔*

Share:

Namaj Se Pahle Jubani Niyat Karna Kaisa Hai?

Namaj Se Pahle Niyat Karne Ke Kya Dalail Hai?

نماز کی زبانی نیت کرنا​
بے شمار نمازیوں کی یہ بڑی مشہور بدعت ہے کہ وہ نماز سے پہلے مختلف الفاظ کے ساتھ زبانی نیت کرنا شروع کر دیتے ہیں مثلاََ
((نویت ان اصلی کذا رکعۃ فرضاََ للظھرائو۔۔۔۔و نحوہ))
''میں نیت کرتا ہوں اتنی رکعت نماز پڑھوں گا۔یا ظہر کی۔۔۔۔اس جیسے الفاظ ہوتے ہیں۔''
یہ پرانی بدعت ہے۔شریعت اسلامیہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں حتی کہ کوئی ضعیف حدیث بھی اس کی موید نہیں ہے۔
بلکہ نیت کا مقام دل ہے جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اور اسی پر عقل والوں کا اجماع ہے۔زبان کے ساتھ نماز یا دوسری عبادات میں نیت کرنا نہ تو نبی کریم ۖ سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی سے اور نہ کسی معتبر اما م سے۔
اس مسئلہ پر نہ کوئی صحیح سند ہے اور نہ ضعیف'آپ ۖ کا افتتاح نماز میں صرف یہی طریقہ ہوتا تھا کہ ''اللہ اکبر''کہتے تھے۔امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
''رسول اللہ ۖ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ کہتے 'اس (تکبیر) سے پہلے آپ کچھ بھی نہیں کہتے اور نہ زبانی نیت کرتے۔نہ یہ فرماتے کہ:میں ایسے،چار رکعتیں،قبلہ رخ ہو کر پڑھتا ہوں،امام یا مقتدی کی حثیت سے،اور نہ یہ فرماتے کہ اداء ہے یا قضاء ہے یا (میری یہ نماز)فرض وقت(میں) ہے۔یہ سب بدعات ہیں۔ آپ ۖ سے اس کا ثبوت نہ صحیح سند سے ہے اور نہ ضعیف سند سے۔ان میں سے ایک لفظ بھی با سند(متصل)یا مرسل(یعنی منقطع) مروی نہیں ہے۔اور نہ کسی صحابی سے یہ (عمل) منقول ہے۔تابعین کرام اور آئمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اسے (مستحب و)مستحسن قرار نہیں دیا۔
(زاد المعاد ج١ص٢٠١فصل فی ھدیہ ۖ فی الصلاۃ 
Namaj-E-Janaza Me Surah Al Fatiha Padhna.☘☘☘☘☘☘

Share:

Imam kaun hota hai? Namaj me Imamat kaun kara sakta hai, Na Balig, Gulam aur Disability Namaz Padha Sakta hai?

Namaj me imamat kaun kara sakta hai?

Sawal: Namaj me Imamat ka Haqdar kaun hai? Aur kya Gulam, Majoor (Disability) aur Na Balig baccha logo ki Imamat Karwa sakta hai?
Namaj se jude Masail ke bare me padhne ke liye yahan click kare.

Namaj-E-Nabwi Part 01

Tahajjud ki Namaj kaise Padhe?

Kya Aurat aur Mard ke Namaj ka tarika alag alag hai?

Witr, Tahajjud, Nawafil ki namaj aur Salatul Tasbeeh kaise padhe?

Namaj-E-Janaza me Surah Fatiha padhna hai Ya nahi?

Namaj kaise padhe? Shuru se aakhir tak Roman urdu me Padhe

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-252"
سوال_نماز میں امامت کا حقدار کون ہے؟ اور کیا غلام، معذور اور نابالغ بچہ لوگوں کی امامت کروا سکتا ہے؟

Published Date: 17-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نماز میں امامت کا حقدار وہ ہے جسکو قرآن زیادہ یاد ہو اور اگر قرآن کو یاد کرنے میں سب برابر ہوں تو امامت کا وہ زیادہ حقدار ہے جو حدیث کا علم زیادہ رکھتا ہو اور اگر حدیث کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو امام وہ بنے گا جو ایمان پہلے لایا یا جس نے اسلام کے لیے ہجرت پہلے کی ہو اور اگر قرآن و حدیث کے علم اور ایمان و ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو امامت وہ کروائے گا جو ان میں عمر کے لحاظ سے بڑا ہو گا*

*مندرجہ بالا شرائط اگر نابالغ بچے،غلام یا معذور افراد میں پائی جائیں تو انکو ہی امام بنانا چاہیے بجائے اسکے کہ قرآن و حدیث سے ناواقف لوگوں کو امام بنائیں*

دلائل درج ذیل ہیں..!

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو ، اگر وہ سنت ( کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو ، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو ۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس ( دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے ۔ ( ابوسعید ) اشج نے اپنی روایت میں اسلام قبول کرنے میں ( سبقت ) کے بجائے عمر میں ( سبقت رکھتا ہو )ہے۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 673)

ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب  ( قرآن مجید )  سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ، اور اگر سنت  ( کے جاننے )  میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے،
(سنن نسائی حدیث نمبر-781)

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ملک سے حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر نوجوان تھے۔ تقریباً بیس راتیں ہم آپ کی خدمت میں ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی رحم دل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہماری غربت کا حال دیکھ کر ) فرمایا کہ جب تم لوگ اپنے گھروں کو جاؤ تو اپنے قبیلہ والوں کو دین کی باتیں بتانا اور ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہنا کہ فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھیں۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

(صحیح بخاری،کتاب الأذان،حدیث نمبر-685)
،بَابُ إِذَا اسْتَوَوْا فِي الْقِرَاءَةِ فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ:
باب: اس بارے میں کہ اگر جماعت کے سب لوگ قرآت میں برابر ہوں تو امامت بڑی عمر والا کرے،

*غلام کی امامت کی دلیل*

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-692)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا،
(صحیح بخاری،قبل الحدیث-692)

*معذور کی امامت کی دلیل*

عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا:  تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟  انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی،
(سنن نسائی حدیث نمبر-789)

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ییں، کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (جب بھی سفر پر جاتے ) تو ابن
ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرماتے، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-595)

*نابالغ بچے کی امامت کی دلیل*

عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ جب فتح مكہ ہوا تو لوگ جوق در جوق اسلام قبول كرنے لگے، اور ميرے والد بھى اپنى قوم كے ساتھ مسلمان ہو گئے، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے:
اللہ كى قسم ميں تمہارے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں سے حق لايا ہوں، چنانچہ انہوں نے فرمايا ہے كہ اس وقت اتنى نماز اور اس وقت اتنى نماز ادا كرو، اور جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے كوئى ايک شخص اذان كہے اور تمہارى جماعت وہ كرائے جو شخص سب سے زيادہ حافظ قرآن ہو، چنانچہ انہوں نے ديكھا كہ ميرے علاوہ كوئى اور زيادہ قرآن كا حافظ نہيں، كيونكہ ميں قافلوں كو ملتا اور ان سے قرآن ياد كيا كرتا تھا، چنانچہ انہوں نے مجھے امامت كے ليے آگے كر ديا، جبكہ اس وقت ميرى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى "
(صحيح بخارى حديث نمبر_4302)

عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری ( قرآن یاد کرنے والا) میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا
(سنن نسائي، كتاب الإمامة،حدیث790)
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
بَابُ: إِمَامَةِ الْغُلاَمِ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ
باب: نابالغ بچہ کی امامت کا بیان

*اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے.

سعودی فتاویٰ ویبسائٹ پر درج ذیل سوال کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ،

لوگوں ميں امامت کا سب سے زيادہ امامت كا حقدار وہ شخص ہے جو نماز كے احكام كا عالم اور قرآن مجيد كا حافظ ہو،

ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگوں كى امامت وہ كروائے جو قرآن مجيد كا سب سے زيادہ قارى ہو اور اگر وہ اس ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كو سب سے زيادہ جاننے والا شخص امامت كروائے "
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 630)

" سب سے زيادہ قارى "
یہاں قاری سے مراد بہترين قرآت کرنے والا نہيں، بلكہ اس سے مراد كتاب اللہ كا حافظ ہے،
جیسا کہ عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں وہ کہتے ہیں کہ ميں سب سے زيادہ قرآن مجيد كا حافظ تھا۔۔۔۔انتہی (صحیح بخاری،4302)

ہم نے يہ اس ليے كہا ہے كہ وہ نماز كے احكام كا علم ركھتا ہو، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے نماز ميں كوئى مسئلہ پيش ہو مثلا وضوء ٹوٹ جائے، يا كوئى ركعت رہ جائے اور اسے اس سے نپٹنا بھى نہ آئے، جس كى بنا پر وہ غلطى كر بيٹھے اور دوسروں كى نماز ميں بھى نقص پيدا كرے، يا اسے باطل ہى كر بيٹھے,
سابقہ حديث سے بعض علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ امامت كے ليے اسکو آگے كيا جائے جو زيادہ سمجھ ركھتا ہو، اور فقيہ ہو

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام مالك اور شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے:
حافظ قرآن پر افقہ جو زيادہ فقيہ ہو مقدم ہے؛ كيونكہ قرآت ميں سے جس كى ضرورت ہے اس پر تو وہ مضبوط ہے، اور فقہ ميں سے اسے جس چيز كى ضرورت ہے اس ميں مضبوط نہيں، اور ہو سكتا ہے نماز ميں اسے كچھ معاملہ پيش آ جائے جس كو صحيح كرنے كى اس ميں قدرت نہ ہو، ليكن جو كامل فقہ والا ہے وہ صحيح كر لے گا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو نماز ميں امامت كے ليے باقى صحابہ سے مقدم كيا حالانكہ صحابہ ميں كئى ايك ان سے بھى زيادہ حافظ اور قارى تھے.

اور وہ حديث كا جواب يہ ديتے ہيں كہ صحابہ كرام ميں سے زيادہ حافظ و قارى ہى افقہ يعنى زيادہ فقيہ تھے،
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:

" اگر وہ قرآت ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كا سب سے زيادہ عالم "
اس بات كى دليل ہے كہ مطلقا زيادہ قارى و حافظ ہى مقدم ہو گا
(ديكھيں: الشرح مسلم للنووى_ 5 / 177 )

چنانچہ نووى رحمہ اللہ تعالى كى اگرچہ ان كے امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے استدلال حديث ميں ان كى مخالفت كى ہے، ليكن ان كى كلام كا اعتبار اس اساس پر ہے كہ صحابہ كرام ميں كوئى بھى ايسا نہيں تھا جو قرآت اور قرآن مجيد كا اچھى طرح حافظ ہو اور اسے شرعى احكام كا علم نہ ہو، جيسا كہ آج كے ہمارے دور ميں اكثر لوگوں كى حالت ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر ان دونوں ميں سے ايك شخص نماز كے احكام كا زيادہ علم ركھے، اور دوسرا شخص نماز كے علاوہ باقى دوسرے معاملات ميں زيادہ علم ركھتا ہو تو نماز كے احكام جاننے والے كو مقدم كيا جائيگا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 19 )

مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:
..۔۔جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جاہل شخص كى امامت صحيح نہيں الا يہ كہ امامت كا اہل شخص نہ ہونے كى صورت ميں وہ اپنى طرح جاہل لوگوں كى امامت كرائے،
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 264 )

(https://islamqa.info/ar/answers/20219/)

*یعنی نماز میں امامت کسی عالم دین اور حافظ قرآن کو ہی کروانی چاہیے،جو نماز کے مسائل وغیرہ کو سمجھتا ہو،اگر نماز پڑھنے والوں میں سے کوئی بھی حافظ قرآن یا حدیث کا علم جاننے والا نا ہو تو ان میں سے کوئی شخص بھی انکی امامت کروا سکتا ہے، لیکن حافظ قرآن یا عالم کی موجودگی میں کسی جاہل یا دین سے انجان  شخص کا امامت کروانا درست نہیں*

نوٹ_
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خوبصورت شخص کو امام بنانا چاہیے تو یہ بات سرا سر غلط ہے اور اس کے متعلق پیش کی جانے والی تمام روایات موضوع اور باطل ہیں،
(دیکھیں موضوع اور منکر روایات،47٫48)

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                 +923036501765

آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

Share:

Bagair Kisi wajah ke Ghar par Salat (Namaj) Ada Karna Kaisa Hai?

 Masjid Me N Jaker Ghar me hi Namaj Padhna Kisa Hai?

Kya bagair kisi Wajah ke Ghar pe hi Namaj Padh Sakte Hai kyu ke Akser Log Bina kisi Sabab Ke Ghar par hi Namaj Padh lete Hai Jabke wo tandurust aur Sehat mand rahte hai.
 
گھر نماز پڑھنے سے منع فرمایا
تندرست اور غیر معذور آدمی پر فرض نماز با جماعت کرنا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( وارکعو ا مع الراکعین ) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یعنی نماز با جامعت ادا کرو ۔ یہ امر ہے او ریہاں امر ( حکم ) وجوب کیلئے ہے ۔ دارقطنی میں حدیث ہے، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جس شخص نے اذان سنی، پھر وہ بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہ آیا، اس کی نماز ہی نہیں ''( مشکوۃ۱/۳۳۸)
Ghar Pe namaj Padhna
علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں '' اسناد صحیح '' اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔
صحیح مسلم میں ہے ایک نا بینا شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُ سنے کہا کوئی مجھے مسجد میں لانے والا نہیں ۔ گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت دے دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دے دی ۔ جب وہ واپس پلٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اذان سنتا ہے؟ اُس نے کہا جی ہاں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فا جب ) تو پھر قبول کر یعنی تیرا مسجد میں آنا لازمی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ رسو ل اللہ نے ایک نا بینا شخص کو اذان سننے کے بعد اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو بینائی والے شخص کو بغیر شرعی عذر کے بھلا گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت کس طرح ہوگی ۔ صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلاؤں اور ایک شخص کو نماز با جماعت پڑھانے کیلئے کھڑا کر کے ایسے لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز با جماعت کیلئے حاضر نہیں ہوتے اور ان کو ان کے گھر سمیت جلا ڈالوں۔
یہ سخت وعید اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں پر با جماعت نماز ادا کرنا فرض ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت یہیں اور اذان سننے کے بعد اپنے کاموں میں ہی مشغول رہتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے اپنے مقام پر ہی نماز پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں جبکہ بغیر شرعی عذر کے ایسے لوگوں کی نماز ہوتی ہی نہیں جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوا.
Share:

Namaj Ke liye Ham apne bacho Ko kaise Taiyar kare?

Namaj Hi Ek Aeisi Ebadat hai jisse Momeen aur Mushrik Me fark Zahir hota hai.
Namaj ke bagair Hamari Zindagi kaisi hai?
without Namaj Our Life is impossible.
Meri Ammi Jab bhi Namaj Parhti hai tab mere Liye Dua Karti hai.
قابل رشک تربیت

ایک شخص کہتا ھے ۔۔۔

💞میری امی جب بھی مجھے نماز پڑھنے کا کہتیں
ساتھ ہی میرے لئے دعا بھی کرتی جاتیں اور کہتیں :

*نماز پڑھو اللہ تمہیں عزت دیں ۔*
*اللہ تمہیں نماز کی حلاوت  نصیب کریں ،*
*اللہ تمہیں توفیق دیں ۔*

اسی لئے بچپن سے ہی میرے اندر نماز  کی  محبت پیدا ہو گئی ،
مجھے نماز  پڑھنا اچھا لگنے لگا ،
اور میں اپنی ماں کی اپنے لئے دعائیں سننے کے لئے  نماز کا انتظار کرتا رہتا ۔
میں اپنی امی کو دیکھتا تھا
وہ ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا مانگتیں :
*اے اللہ ! میرے بیٹے کو  نماز سے لطف اندوز ہونے والوں میں شامل فرما ،*
*اے اللہ۔۔۔! نماز کو میرے بیٹے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے ۔*
وہ اسی طرح دعائیں مانگتی رہیں ۔
اور جب میں بڑا ہو گیا تو میری زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات وہی ہوتے تھے
💞 جب میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا تھا ۔
مجھے نماز سے بہت محبت تھی ۔

اپنے بچوں سے صرف ایک لفظ
" نماز پڑھو "
  یہ کہنا کافی نہیں ہوتا ،
بلکہ انہیں ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے
کہ نماز کیوں پڑھی جائے ؟
نماز پڑھنے سے کیا ہوگا ؟
جیسے قرآن پاک میں اللہ تعالی نے جب حضرت آدم و حواء علیہما السلام سے یہ فرمایا
🌱  *کہ اس درخت کے قریب نہ جانا*
تو ساتھ اسکی وجہ بھی بیان کی ۔

*قال اللہ تبارک و تعالی :*

*{لاَ تَقرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكونَا   مِنَ الظَّالِمِين}*_
*اس درخت کے قریب نہ جانا*
*ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔*

جب بھی اپنے بچوں کو کسی کام کا حکم کریں
ساتھ اسکی وجہ بھی بتائیں
*جیسے نماز پڑھنے سے اللہ راضی ہوتے ہیں ۔*
*تم بھی نماز پڑھو*
*تاکہ اللہ تم سے راضی ہو جائے ۔*
اور
*خشوع و خضوع سے نماز پڑھو کیونکہ اللہ ایسی نماز قبول کرتا ہے ۔*
اور اسی طرح 
*وضو اچھی طرح کرو تاکہ تمہارے سارے گناہ جھڑ جائیں ۔*

ہمیشہ مسکرا کر اپنے بچے کو اپنے ساتھ نماز کے لئے بلائیں ۔

ایک منظر جو میں آج تک نہیں بھولا ۔۔۔ 
🍃 *میرے والد جب بھی نماز کا  وقت آتا وضو کرنے کے لئے اپنی آستین اوپر چڑھاتے ہوئے  ہمارے پاس سے گزرتے اور  فرماتے ۔۔۔*  
*"مومن اور کافر کے درمیان فرق نماز سے ہے" ۔

یہی وجہ ہے کہ  نماز میری زندگی کا ایک ایسا جزو بن گیا
🍃 جس کے بغیر میری زندگی ممکن ہی نہیں ۔

💞 _*" رَبِّي اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصّلاةِ وَ مِن ذُرِّيَّتِي " ۔*_

📝 *آج کے اس دور میں بچوں کی ایسی تربیت کی بہت ضرورت ھے بچوں کی آخرت کی فکر بھی والدین کو ایسے ہی کرنی چاھئیے جیسے اپنی آخرت کی فکر کرتے ہیں اللہ تعالٰی ہمیں حسن عمل کی توفیق عطاء فرمائیں آمین ثم آمین  یارب العالمین*

    *«¤حدیث¤»*
_[بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ آدمی کا اپنے بچے کی اچھی تربیت کرنا اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے]_

صدقہ جاریہ کے طور پر آگے شیئر کر دیں...

Share:

Aurat Aur Mard ki Namaj me Kya fark hai?

Kya Aurat aur Mard ki Namaj alag alag hai?

Kya Aurat aur Mard ke namaj padhne ka tarika alag hai?

Aurat aur Mard ki Namaj me fark

Kya Bagair Pair dhanke Khawateen ki Namaj ho sakti hai? 

سوال: لمبی تحریری پوسٹ کی وضاحت فرمائیں ؟

عورتوں مردوں کی نماز میں فرق ۔۔۔۔

یاد رکھیں حدیث میں نماز نبوی صلی اللّہ علیہ وسلم میں عورتوں مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے ✔️ ہم اپ کو مکمل نماز نبوی صلی اللّہ علیہ وسلم طریقہ سینڈ کرتے ہیں اپ ٹھیک سے اس طریقہ کو پڑھیں اور عمل کریں ۔۔۔۔۔

نمازِ نبوی عورتوں مردوں کی نماز کا طریقہ*

*نماز ميں مرد و عورت كے مابين فرق*

الحمد لله
اصل ميں عورت سب دينى احكام ميں مرد كى طرح ہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتيں مردوں كى طرح ہى ہيں "

مسند احمد، صحيح الجامع حديث نمبر ( 1983 ) ميں اسے صحيح قرار ديا گيا ہے.

ليكن اگر عورتوں كے متعلق كسى چيز ميں خصوصيت كى دليل مل جائے تو اس ميں وہ مردوں سے مختلف ہونگى، اور اس موضوع ميں نماز كے اندر عورت كے بارہ ميں جو علماء نے ذكر كيا ہے وہ درج ذيل ہے:

- عورت پر اذان اور اقامت نہيں ہے، كيونكہ اذان ميں آواز بلند كرنا مشروع ہے، اور عورت كے ليے آواز بلند كرنا جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس ميں ہميں كسى اختلاف كا علم نہيں .

ديكھيں: المغنى مع الشرح الكبير ( 1 / 438 ).

- عورت كے چہرے كے علاوہ باقى سب كچھ نماز ميں چھپائے گى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى نوجوان عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں كرتا"

رواہ الخمسۃ.
عورت كے ٹخنے اور قدموں ميں اختلاف ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نماز ميں آزاد عورت كا سارا بدن چھپانا واجب ہے، اگر اس ميں سے كچھ بھى ظاہر ہو گيا تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى، ليكن اگر بالكل تھوڑا سا ہو، امام مالك، اوزاعى اور امام شافعى كا يہى قول ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 328 ).

- عورت ركوع اور سجدہ ميں اپنے آپ كو اكٹھا كرے گى اور كھلى ہو كر نہ رہے كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 258 ).

ليكن اس كا ذكر كسى حديث ميں نہيں ملتا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے " المختصر " ميں كہا ہے كہ: عورت اور مرد كے مابين نماز ميں كوئى فرق نہيں، ليكن اتنا ہے كہ عورت كے ليے اكٹھا ہونا اور سجدہ ميں اپنا پيٹ رانوں سے لگا لينا مستحب ہے، كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے، اور زيادہ پسنديدہ ہے، ركوع اور سارى نماز ميں. انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 429 ).

- عورت كے ليے عورت كى جماعت ميں نماز ادا كرنا مستحب ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام ورقہ كو حكم ديا تھا كہ وہ اپنے گھر والوں كى امامت كروايا كرے"

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ المغنى اور المجموع ديكھيں، اور اگر غير محرم مرد نہ سن رہے ہوں تو عورت اونچى آواز سے قرآت كرے گى.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 202 ) اور المجموع للنووى ( 4 / 84 - 85 ).

- عورتوں كے ليے گھروں سے باہر مسجدوں ميں جا كر نماز ادا كرنا جائز ہے، ليكن ان كى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى كى بنديوں كو مسجدوں كى طرف نكلنے سے منع نہ كرو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں"

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 983 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

- اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع" ميں كہتے ہيں:

عورتوں كى جماعت مردوں كى جماعت سے كچھ اشياء ميں مختلف ہے:

1 - جس طرح مردوں كے حق ميں ضرورى ہے اس طرح عورتوں كے ليے ضرورى نہيں.

2 - عورتوں كى امام عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى.

3 - اكيلى عورت مرد كے پيچھے كھڑى ہو گى نہ كہ مرد كى طرح امام كے ساتھ.

4 - جب عورتيں مردوں كے ساتھ صفوں ميں نماز ادا كريں تو عورتوں كى آخرى صفيں ان كى پہلى صفوں سےافضل ہونگى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 455 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كا فائدہ يہ ہے كہ اس سے اختلاط كى حرمت كا علم ہوتا ہے. انتہى

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

Share:

Namaji ke Aage se gujarne se Namaj toot jati hai, Kaun si chij ke gujarne se Namaj toot jati hai?

Kya Namaji Ke aage se gujarne se Namaj toot jati hai?
Namaj Ke aage se kin chijon ke gujar jane se Namaj toot jati hai?
اگر نمازی کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے .

*جواب تحریری

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازی کے آگے سے کسی مرد کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی بلکہ علماء کے صحیح قو ل کے مطابق تین چیزوں میں سے کسی ایک کے گزرنے کی صورت میں نماز ٹوٹ جاتی ہے۔اور وہ تین چیزیں ہیں:

1۔بالغ عورت
2۔سیاہ رنگ کا کتا اور
3۔گدھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح ثابت ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

«يقطع صلاة المر المُسلم اِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قُلْتُ يَا أَبَا ذَرٍّ مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ مِنْ الْكَلْبِ الْأَصْفَرِ؟ َقَالَ: الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ»(510/265)
''جب پالان کی کیلی (پالان کے پچھلے طرف والی لکڑی) کے مانند مسلمان آدمی کے سامنے سترہ نہ ہو تو پھر عورت ۔ گدھا۔ اور کالا کتا آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔''عرض کیا گیا یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم ) کالے رنگ کے اور سرخ و پیلے رنگ کے کتے میں فرق کیوں ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''سیاہ رنگ کا کتا شیطان ہے۔''

مقصود یہ ہے کہ علماء کے صحیح قول کے مطابق ان تین اشیاء میں سے اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر جائے تو اس سے اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ آدمی کے آگے سے گزر نے سے اس کے ثواب میں کمی ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر ممکن ہو تو اسے آگے سےگزرنے سے منع کرناچاہیے۔ گزرنے والے کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ کسی نمازی کے آگے سے گزرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لو يعلم المار بين يدى المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه المصلی»(صحیح بخاری)
''اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو یہ علم ہو کہ اس سے اسے کس قدر گناہ ہوتا ہے تو چالیس سال تک کھڑے رہنا اس کے لئے نمازی کے آگے سے گزرنے کی نسبت بہتر ہو۔''

نمازی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب وہ نماز پڑھے تو اپنے آگےسترہ رکھ لے اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے بلکہ اسے منع کرے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إذا صلى أحدكم إلى شىء يستره من الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأراد أحد أن يجتاز بين يديه فليدفعه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن أبى فليقاتله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنما هو شيطان ‏"»‏‏.‏(صحیح بخاری)
''جب کوئی شخص لوگوں سے سترہ کرکے نماز ادا کررہا ہو اور کوئی اس سے آگے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ اسے منع کرے اور اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی میں بھی دریغ نہ کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔''

سنت اس امر پر دلالت کرتی ہے۔ کہ نمازی کو چاہیے کہ وہ اپنے سے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے خواہ وہ ان تین مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہو خواہ وہ انسان ہو یا حیوان بشرط یہ کہ اسے آسانی کے ساتھ روکنا ممکن ہو لیکن اگر وہ غالب آکر گزر جائے تو اس کی نماز کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔

مسلمان کے لئے سنت یہ ہے کہ جب وہ نماز پڑھے تو اس کے آگے کوئی چیز بطور سترہ ہو مثلا  آگے کرسی رکھ لے یا زمین میں نیزہ گاڑ لے یا دیوار ہو یا مسجد کے ستونوں میں سے کوئی ستون ہو۔ اگر گزرنے والے سترہ کے پیچھے سے گزریں تو اس سے نماز کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اگر وہ سترہ اور نمازی کے درمیان میں سے گزریں تو پھر انھیں منع کیا جائے گا اور اگر گزرنے والا عورت یا گدھا یا کالا کتا ہو تو اس سےنماز ٹوٹ جائےگی یعنی جب ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز نمازی کے آگے سے گزرے اور اس نے سترہ نہ رکھا ہو اور اس کے اور نمازی کے درمیان تین ہاتھ یا اس سے بھی کم فاصلہ ہو تو اس سے نماز ٹوٹ جائےگی۔ اور اگر یہ دور سے گزریں کہ فاصلہ تین ہاتھ سے زیاد ہ ہو تو پھر نماز کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کعبہ میں نماز اد افرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور مغربی دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ رکھا اس سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ سترہ کی مسافت تین ہاتھ ہے اورقطع کے معنی باطل ہونےکے ہیں۔جب کہ جمہور کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کمال ختم ہوجاتا ہے۔جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔اوراگرآدمی فرض نمازادا کررہا ہو۔تو اسے دوہرانا لازم آئے گا۔(شیخ ابن بازؒ)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

Share:

Namaj-E-Juma ki kitni Rakatein hai.

jume ki Namaj kitni Rakaat hai

jume ki Namaj kitni Rakaat Padhe
Juma ki Namaj padhne ki Tarika
juma ki Namaj kaise padhe 



نماز جمه كي كتنى رکعتیں ہیں مع الدلیل۔ سائل : ۔ ۔ ۔ ۔
الجواب بعون رب العباد:
نماز جمعہ[خطبہ] سے قبل کوئی نماز یعنی سنت ثابت نہیں ہے۔
جو شخص جمعہ کے دن خطبہ جمعہ سے قبل آجائے اسکے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ خطبہ شروع ہونے سے قبل کم از کم دورکعت نماز ادا کرے اور اسے زائد جتنی رکعت ادا کرنا چاھئے نوافل کی نیت سے ادا کرسکتا ہے۔
اگر وہ اسوقت مسجد میں پہنچے جس وقت خطیب ممبر پر چڑھا ہو تو وہ ہلکی سی دو رکعت تحية المسجد ادا کرے۔
دلیل:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا پہر عطرلگائی اور وہ مسجد کو چلااور جو کچھ اسکے حق میں لکھا گیا تھا نماز پڑھی پہر امام نکلا اور اس نے خاموشی سے خطبہ سنا اللہ تعالی اسکے دونوں جمعہ کے درمیان سرزد ہوئے گناہوں کو معاف کردے گا۔[بخاری حدیث نمبر:91]۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قبل از جمعہ کوئی مخصوص نماز ثابت نہیں
اسے جتنی رکعات پڑھنے کا موقع ملے نماز ادا کرے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ[فصلى ماكتب له]
اس پر دلالت کرتا ہے کہ نماز جمعہ سے قبل نوافل ادا کرنا مشروع ہے۔[ فتح الباري372/2]۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم سے یہ ثابت ہے کہ وہ نماز جمعہ سے قبل نماز ادا فرماتے ، بعض صحابہ بارہ رکعت ، بعض دس ، بعض آٹھ ، بعض اسے کم ادا فرماتے۔[مجموع الفتاوى189/24]۔
اسے ثابت ہوا کہ جمعہ سے قبل نوافل نماز ادا کرنا مشروع عمل ہے لیکن نماز جمعہ سے نوافل کی نیت سے نماز ادا کرے نہ کہ سنت راتبہ کیونکہ نماز جمعہ[خطبہ]سے قبل سنت راتبہ ثابت نہیں ، البتہ جمعہ کے دن مسجد میں آنے والے شخص کو جتنا وقت ملے نماز ادا کرسکتا ہے اور جوں ہی خطبہ شروع ہوجائے اسکے بعد صرف دو ہی رکعت نماز ادا کرے جیساکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
ثعلبہ بن ابی مالک بیان کرتے ہیں کہ صحابہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ سے قبل نوافل ادا کرتے تھے یہاں تک حضرت عمر رضی اللہ  عنہ خطبہ کے لئے نکلتے۔[الموطأ103/1 ، امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔[المجموع للنووي550/4].
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ جمعہ سے پہلے بارہ رکعات ادا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [مصنف عبد الرزاق329/8].
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ سے قبل کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔[الباري426/2]۔
اس حدیث سے علماء اجلاء نے  استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز جمعہ سے قبل کویی سنت ثابت نہیں ہے البتہ خطبہ سے قبل جتنا موقع ملے نوافل ادا کی جاسکتی ہیں۔
البتہ نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا دو رکعت ادا کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام جمعہ کے دن گھر لوٹنے کے بعد دو رکعت گھر میں ادا فرماتے تھے۔[البخاري937،  مسلم882]۔
دوسری حدیث:ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں کا کوئی جمعہ نماز ادا کرلے اسے چاھئے کہ وہ چار رکعت نماز ادا[سنت] کرے۔[مسلم881]۔
ان دونوں احادیث کی بنا پر علماء کے درمیان اختلاف ہوا کہ آیا جمعہ کے بعد چار رکعت یا دو رکعت ادا کرنی ہے۔
اسی وجہ سے بعض علماء نے ان دونوں حدیثوں کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ جو شخص گھر میں سنت ادا کرتا ہو وہ نبی علیہ السلام کی فعلی حدیث پر عمل کرتے ہوئے دو ہی رکعت ادا کرے اور جو شخص مسجد میں سنن ادا کرتا ہو وہ جمعہ کے بعد چار رکعت مسجد میں ادا کرے۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے نزدیک یہی قول اقرب الی الصواب ہے کہ جو شخص گھر میں سنت پڑھے وہ دو رکعت جو مسجد میں سنت ادا کرے وہ چار رکعت سنت ادا کرے۔[" التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 175/14]۔
اسی رائے کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور انکے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔[ فتاوی  اللجنة الدائمة للإفتاء]۔
نماز جمعہ کے بعد چاھئے کوئی چار رکعت یا دو رکعت ادا کرے دونوں ہی طریقے صحیح ہے اس معاملے میں وسعت ہے۔
امام عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احادیث اس بات دلالت کرتی ہیں کہ جمعہ کے بعد نماز ادا کرنا سنت موکدہ ہے۔[شرح سنن أبي داود للعيني475/4]۔
خلاصہ کلام:جمعہ سے قبل کویی نماز ثابت نہیں البتہ نوافل ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور جمعہ کے بعد چار یا دو چار وہ شخص ادا کرے جو مسجد میں ادا کرے اور جو شخص گھر میں سنت ادا کرے اسے دو رکعت نماز ادا کرنا چاھئے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
Share:

Lockdown me Eid ki Namaj kaise Ada ki jayegi, Khutba diya jayega ya nahi?

Is Sal Lockdown me Kaise Eid ki Namaj kaise ada karna chahiye?
apne Gharon me Eid ki Namaj padhne Wale Kya khutba denge?
Jamat ke sath apne Ghar pe Namaj ada karne ke liye Khutba diya jayega ya nahi?
आदाब व अहकाम ईद उल फित्र एवं जरूरी हिदायात

रमजान का मुबारक महीना तेजी से इख्तिताम की तरफ बढ़ रहा है और ईद की आमद आमद है कोरोना वायरस की वजह से लाकडाउन पेशे नजर इस बार ईद की रौनक पहले जैसी नहीं होगी ईद की नमाज हमेशा की तरह बड़ी जमात के साथ ईदगाहों और मस्जिदों में नहीं हो पाएगी बल्कि वह किसी और शक्ल में अदा की जाएगी फिर भी ईद उल फित्र के जो खुसूसी आदाब व अहकाम हैं उन पर जहाँ तक मुमकिन हो अमल की कोशिश करनी होगी
*वह काम मुख़्तसर निम्नलिखित हैं*
*1सदका फित्र अदा करना*
*2चांद देखने के बाद से ईद की नमाज तक कसरत से तकबीरात पढ़ना*
*3 ईद की सुबह को ताक खजूर या कोई मीठी चीज खाना*
*4 गुस्ल करना*
*5 अपने पास जो अच्छा कपड़ा हो उसे पहनना*
*6 खुशबू लगाना*
*8 ईद के लिए एक रास्ते से जाना और दूसरे रास्ते से वापस आना*
*9 ख्वातीन और बच्चों को भी ईद की नमाज में शामिल होना
*(नमाज ईद का तरीका)*
*तकबीरे तहरीमा के बाद दुआ ए सना पढें फिर  7 बार (अल्लाहु अकबर) तकबीराते जवाइद कहें फिर सूरह फातिहा और कोई सूरह पढ़कर रुकू में जाएं फिर सजदे करें दुसरी रकअत के लिए खड़े होने के बाद 5 बार (अल्लाहु अकबर) तकबीराते जवाइद कहें फिर सूरह फातिहा और कोई सूरत पढ़कर रुकूअ में जाएं सजदे करें और अत्ताहियात दरुद दुआ पढ़ कर सलाम के जरिये आम नमाज की तरह नमाज मुकम्मल करें*
ईद की पहली रकात में सूरह फातिहा के बाद सुरह का़फ या सूरह आला और दूसरी रकअत में सूरह कमर या सूरह गाशिया पढ़ना मसनून है अगर यह सूरतें याद ना हो तो कोई और भी सूरतें पढ़ी जा सकती हैं
*ईद का खुत्बा*
घरों में बा जमाअत ईद की नमाज अदा करने की सूरत में खुत्बा भी दिया जाएगा या नहीं ?

इस सिलसिले में बड़ी बहसें हो रही हैं खुलासा यह की ओलामा इस सिलसिले में दो तरह की राय पेश कर रहे हैं एक यह कि खुत्बा भी ईद के खुत्बा की तरह दिया जाएगा दूसरी यह कि खुत्बा नहीं दिया जाएगा सिर्फ 2 रकात नमाज पर इक्तिफा किया जाएगा
*मेरी जाती राय यह है कि अगर घर के अंदर दो या दो से ज्यादा लोग मौजूद हों और ईद का खुतबा अगर मुमकिन हो तो दें इस लिए कि घर में ईद की नमाज ही पढ़ी जा रही है कोई और नमाज नहीं (जुमे की नमाज की जगह जुहर की तरह नहीं) वरना सिर्फ 2 रकअत ईद की नमाज बतौरे शुक्राना अदा कर ले.
अगर ईद की नमाज तन्हा पढ़ेंगे तो खुत्बा की जरूरत नहीं है
*कुछ जरूरी हिदायत*
**हुकूमत की हिदायात और मुल्क के मौजूदा हालात को सामने रखते हुए जहां तक मुमकिन हो एहतियात से काम ले*
**ईद की नमाज के लिए कहीं भी बड़ा इज्तेमा बिल्कुल ना करें हर घर के लोग अपने-अपने घर में नमाज पढ़ें
**ईद की नमाज के अलावा भी कहीं भीड़ भाड़ ना लगाएं*
**सादगी के साथ त्यौहार मनाए

**अपने बाल बच्चों पर भी नजर रखें कि वह कोई खिलाफे कानून और खिलाफे शरिअत काम ना करें

**ड्रोन कैमरों से भी घरों की निगरानी की जाती है इसलिए छत वगैरह पर भी बड़ा इज्तेमा करने से परहेज करें* **मुखबिरी करने वाले भी गली-गली में मौजूद होते हैं*
**ईद मनाते वक्त अपने इर्द-गिर्द के जरूरतमंदों की जरूरत का भी ख्याल रखें*
**मुख्तलिफ शहरों से अपने इलाकों की तरफ पैदल या सवारी से सफर करने वालों की खिदमत करें.

**कोरोना वायरस के खातेमा के लिए रमजान के बाकी बचे औकात में और बाद में भी खुसूसी दुआएं करें.

**रमजान उल मुबारक के बाकी  बचे लम्हात को गनीमत जानें और ज्यादा से ज्यादा नेकियां करें मालूम नहीं दोबारा यह मौका मिले ना मिले, अल्लाह तआला हमारी नेकीयों को कबूल फरमाए कोताहियों और गलतियों को माफ करे, मुल्क और पूरी दुनिया को आफियत और अमन ओ अमान की नेअमत से सरफराज करे आमीन
अमानुल्लाह सलफी

Share:

Namaj ke Dauran Insaan ke Jism me Kharis karne Se Namaj Makroo ho Jati Hai?

Namaj Ke Dauran Jism Khujlane Se Kya NAmaj MAkroo Ho JAti HAi

سوال:کیا دوران نماز انسان کے جسم وغیرہ میں کھجلنے سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے رہنمائی فرمائے۔
الجواب بعون رب العباد:
اگر کھجلے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوران نماز اگر کوئی ایسا فعل کرنا پڑے جیسے کہ جسم کے کسی حصہ میں کھجلی تآئے یا دوران نماز آگے سے کوئی موذی جانور آئے اسے مار بھی سکتے ہیں۔
دلیل:نبی مکرم علیہ السلام نے فرمایا کہ دو کالے کو مارو: یعنی سانپ اور بچھو۔[رواه اصحاب السنن بسند صحيح].
علامہ امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز میں بغیر کسی کراھت کے سانپ اور بچھو کو مارنا جائز ہے۔[نيل الاوطار354/2].
اسے ثابت ہوا کہ دوران نماز ضرورت کے وقت نمازی موذی جانور کیڑا وغیرہ یا اسی طرح دوران نماز بوقت ضرورت کھجلنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
كتبه/ابوزهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
Share:

Kya Bina Pair Dhake Auraton ki Namaj Nahi ho sakti?

Kya Namaj Padhne ke liye Pair Dhakna Jaruri hai?
Bina Dupatta rakhe kya Namaj Padhi Ja Sakti Hai?
Sawal: Kya Bagair Pair Chhupaye Auraton ki Namaj Nahi hogi?
سوال :کیا بغیر قدم چھپائے عورتوں کی نماز نہیں ہوگی ؟
جواب : ابن ابی شیبہ کی روایت ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
قال ابنُ عمرَ إذا صلت المرأةُ فلتصلِّ في ثيابِها كلِّها : الدرعِ والخمارِ والملحفةِ(تمام المنة:162)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب عورت نماز پڑھے تو مکمل لباس میں نماز پڑھے یعنی قمیص ، دوپٹہ اور قمیص کے اوپر چادر۔
عورت کا یہ لباس سلف کے یہاں معروف ہے اس لئے بحالت نماز جہاں عورت کو بالوں سمیت مکمل جسم چھپانا ہے (سوائے چہرے کے لیکن اجانب ہوں تو چہرہ بھی واجب الستر ہے ) وہیں دبیز کپڑے سے اچھی طرح دونوں قدموں کو بھی ڈھکنا ہے ۔بعض اہل علم نماز میں دونوں قدموں کا ڈھکنا واجب قرار دہتے ہیں ، مالک بن انس کہتے ہیں کہ اگر عورت نے نماز پڑھی اس حال میں کہ اس کے بال کھلے تھے یا اس کے قدموں کا ظاہری حصہ کھلا تھا تو اپنی نماز دہرائے گی اگر وہ نماز کے وقت میں ہی ہو۔
بعض اہل علم عدم وجوب کے قائل ہیں بہر کیف ! احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عورت نماز میں اپنے دونوں پیروں کو ڈھک کر نماز پڑھے ۔
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی طائف

Share:

Aurat Aur Mard Ki Namaj Me Fark Kya Hai?

Kya Auraton Aur Mardon Ki Namaj Alag Alag Hai?

Mard Aur Khawateen ke Namaj me Fark? 

Kya Bagair Pair Dhanke Khawateen Namaj padh sakti hai? 

اصل ميں عورت سب دينى احكام ميں مرد كى طرح ہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتيں مردوں كى طرح ہى ہيں "
مسند احمد، صحيح الجامع حديث نمبر ( 1983 ) ميں اسے صحيح قرار ديا گيا ہے.
ليكن اگر عورتوں كے متعلق كسى چيز ميں خصوصيت كى دليل مل جائے تو اس ميں وہ مردوں سے مختلف ہونگى، اور اس موضوع ميں نماز كے اندر عورت كے بارہ ميں جو علماء نے ذكر كيا ہے وہ درج ذيل ہے:

- عورت پر اذان اور اقامت نہيں ہے، كيونكہ اذان ميں آواز بلند كرنا مشروع ہے، اور عورت كے ليے آواز بلند كرنا جائز نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس ميں ہميں كسى اختلاف كا علم نہيں .
ديكھيں: المغنى مع الشرح الكبير ( 1 / 438 ).

- عورت كے چہرے كے علاوہ باقى سب كچھ نماز ميں چھپائے گى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى نوجوان عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں كرتا"

رواہ الخمسۃ.
عورت كے ٹخنے اور قدموں ميں اختلاف ہے، ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نماز ميں آزاد عورت كا سارا بدن چھپانا واجب ہے، اگر اس ميں سے كچھ بھى ظاہر ہو گيا تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى، ليكن اگر بالكل تھوڑا سا ہو، امام مالك، اوزاعى اور امام شافعى كا يہى قول ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 328 ).

- عورت ركوع اور سجدہ ميں اپنے آپ كو اكٹھا كرے گى اور كھلى ہو كر نہ رہے كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے.
ديكھيں: المغنى ( 2 / 258 ).

ليكن اس كا ذكر كسى حديث ميں نہيں ملتا.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے " المختصر " ميں كہا ہے كہ: عورت اور مرد كے مابين نماز ميں كوئى فرق نہيں، ليكن اتنا ہے كہ عورت كے ليے اكٹھا ہونا اور سجدہ ميں اپنا پيٹ رانوں سے لگا لينا مستحب ہے، كيونكہ يہ اس كے ليے زيادہ پردہ كا باعث ہے، اور زيادہ پسنديدہ ہے، ركوع اور سارى نماز ميں. انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 429 ).

- عورت كے ليے عورت كى جماعت ميں نماز ادا كرنا مستحب ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام ورقہ كو حكم ديا تھا كہ وہ اپنے گھر والوں كى امامت كروايا كرے"

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ المغنى اور المجموع ديكھيں، اور اگر غير محرم مرد نہ سن رہے ہوں تو عورت اونچى آواز سے قرآت كرے گى.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 202 ) اور المجموع للنووى ( 4 / 84 - 85 ).

- عورتوں كے ليے گھروں سے باہر مسجدوں ميں جا كر نماز ادا كرنا جائز ہے، ليكن ان كى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى كى بنديوں كو مسجدوں كى طرف نكلنے سے منع نہ كرو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں"

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 983 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

- اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع" ميں كہتے ہيں:

عورتوں كى جماعت مردوں كى جماعت سے كچھ اشياء ميں مختلف ہے:
1 - جس طرح مردوں كے حق ميں ضرورى ہے اس طرح عورتوں كے ليے ضرورى نہيں.

2 - عورتوں كى امام عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى.
3 - اكيلى عورت مرد كے پيچھے كھڑى ہو گى نہ كہ مرد كى طرح امام كے ساتھ.

4 - جب عورتيں مردوں كے ساتھ صفوں ميں نماز ادا كريں تو عورتوں كى آخرى صفيں ان كى پہلى صفوں سےافضل ہونگى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 3 / 455 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كا فائدہ يہ ہے كہ اس سے اختلاط كى حرمت كا علم ہوتا ہے. انتہى
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS