Namaj me imamat kaun kara sakta hai?
Sawal: Namaj me Imamat ka Haqdar kaun hai? Aur kya Gulam, Majoor (Disability) aur Na Balig baccha logo ki Imamat Karwa sakta hai?
Namaj se jude Masail ke bare me padhne ke liye yahan click kare.
Namaj-E-Nabwi Part 01
Tahajjud ki Namaj kaise Padhe?
Kya Aurat aur Mard ke Namaj ka tarika alag alag hai?
Witr, Tahajjud, Nawafil ki namaj aur Salatul Tasbeeh kaise padhe?
Namaj-E-Janaza me Surah Fatiha padhna hai Ya nahi?
Namaj kaise padhe? Shuru se aakhir tak Roman urdu me Padhe
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-252"
سوال_نماز میں امامت کا حقدار کون ہے؟ اور کیا غلام، معذور اور نابالغ بچہ لوگوں کی امامت کروا سکتا ہے؟
Published Date: 17-6-2019
جواب:
الحمدللہ:
*نماز میں امامت کا حقدار وہ ہے جسکو قرآن زیادہ یاد ہو اور اگر قرآن کو یاد کرنے میں سب برابر ہوں تو امامت کا وہ زیادہ حقدار ہے جو حدیث کا علم زیادہ رکھتا ہو اور اگر حدیث کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو امام وہ بنے گا جو ایمان پہلے لایا یا جس نے اسلام کے لیے ہجرت پہلے کی ہو اور اگر قرآن و حدیث کے علم اور ایمان و ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو امامت وہ کروائے گا جو ان میں عمر کے لحاظ سے بڑا ہو گا*
*مندرجہ بالا شرائط اگر نابالغ بچے،غلام یا معذور افراد میں پائی جائیں تو انکو ہی امام بنانا چاہیے بجائے اسکے کہ قرآن و حدیث سے ناواقف لوگوں کو امام بنائیں*
دلائل درج ذیل ہیں..!
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو ، اگر وہ سنت ( کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو ، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو ۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس ( دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے ۔ ( ابوسعید ) اشج نے اپنی روایت میں اسلام قبول کرنے میں ( سبقت ) کے بجائے عمر میں ( سبقت رکھتا ہو )ہے۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 673)
ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب ( قرآن مجید ) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ، اور اگر سنت ( کے جاننے ) میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے،
(سنن نسائی حدیث نمبر-781)
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ملک سے حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر نوجوان تھے۔ تقریباً بیس راتیں ہم آپ کی خدمت میں ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی رحم دل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہماری غربت کا حال دیکھ کر ) فرمایا کہ جب تم لوگ اپنے گھروں کو جاؤ تو اپنے قبیلہ والوں کو دین کی باتیں بتانا اور ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہنا کہ فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھیں۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
(صحیح بخاری،کتاب الأذان،حدیث نمبر-685)
،بَابُ إِذَا اسْتَوَوْا فِي الْقِرَاءَةِ فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ:
باب: اس بارے میں کہ اگر جماعت کے سب لوگ قرآت میں برابر ہوں تو امامت بڑی عمر والا کرے،
*غلام کی امامت کی دلیل*
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-692)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا،
(صحیح بخاری،قبل الحدیث-692)
*معذور کی امامت کی دلیل*
عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور آپ نے پوچھا: تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں نماز پڑھی،
(سنن نسائی حدیث نمبر-789)
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ییں، کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (جب بھی سفر پر جاتے ) تو ابن
ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرماتے، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-595)
*نابالغ بچے کی امامت کی دلیل*
عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ جب فتح مكہ ہوا تو لوگ جوق در جوق اسلام قبول كرنے لگے، اور ميرے والد بھى اپنى قوم كے ساتھ مسلمان ہو گئے، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے:
اللہ كى قسم ميں تمہارے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں سے حق لايا ہوں، چنانچہ انہوں نے فرمايا ہے كہ اس وقت اتنى نماز اور اس وقت اتنى نماز ادا كرو، اور جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے كوئى ايک شخص اذان كہے اور تمہارى جماعت وہ كرائے جو شخص سب سے زيادہ حافظ قرآن ہو، چنانچہ انہوں نے ديكھا كہ ميرے علاوہ كوئى اور زيادہ قرآن كا حافظ نہيں، كيونكہ ميں قافلوں كو ملتا اور ان سے قرآن ياد كيا كرتا تھا، چنانچہ انہوں نے مجھے امامت كے ليے آگے كر ديا، جبكہ اس وقت ميرى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى "
(صحيح بخارى حديث نمبر_4302)
عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو“، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری ( قرآن یاد کرنے والا) میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا
(سنن نسائي، كتاب الإمامة،حدیث790)
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
بَابُ: إِمَامَةِ الْغُلاَمِ قَبْلَ أَنْ يَحْتَلِمَ
باب: نابالغ بچہ کی امامت کا بیان
*اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کر سکتا ہے، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے.
سعودی فتاویٰ ویبسائٹ پر درج ذیل سوال کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ،
لوگوں ميں امامت کا سب سے زيادہ امامت كا حقدار وہ شخص ہے جو نماز كے احكام كا عالم اور قرآن مجيد كا حافظ ہو،
ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگوں كى امامت وہ كروائے جو قرآن مجيد كا سب سے زيادہ قارى ہو اور اگر وہ اس ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كو سب سے زيادہ جاننے والا شخص امامت كروائے "
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 630)
" سب سے زيادہ قارى "
یہاں قاری سے مراد بہترين قرآت کرنے والا نہيں، بلكہ اس سے مراد كتاب اللہ كا حافظ ہے،
جیسا کہ عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں وہ کہتے ہیں کہ ميں سب سے زيادہ قرآن مجيد كا حافظ تھا۔۔۔۔انتہی (صحیح بخاری،4302)
ہم نے يہ اس ليے كہا ہے كہ وہ نماز كے احكام كا علم ركھتا ہو، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے نماز ميں كوئى مسئلہ پيش ہو مثلا وضوء ٹوٹ جائے، يا كوئى ركعت رہ جائے اور اسے اس سے نپٹنا بھى نہ آئے، جس كى بنا پر وہ غلطى كر بيٹھے اور دوسروں كى نماز ميں بھى نقص پيدا كرے، يا اسے باطل ہى كر بيٹھے,
سابقہ حديث سے بعض علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ امامت كے ليے اسکو آگے كيا جائے جو زيادہ سمجھ ركھتا ہو، اور فقيہ ہو
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
امام مالك اور شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے:
حافظ قرآن پر افقہ جو زيادہ فقيہ ہو مقدم ہے؛ كيونكہ قرآت ميں سے جس كى ضرورت ہے اس پر تو وہ مضبوط ہے، اور فقہ ميں سے اسے جس چيز كى ضرورت ہے اس ميں مضبوط نہيں، اور ہو سكتا ہے نماز ميں اسے كچھ معاملہ پيش آ جائے جس كو صحيح كرنے كى اس ميں قدرت نہ ہو، ليكن جو كامل فقہ والا ہے وہ صحيح كر لے گا.
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو نماز ميں امامت كے ليے باقى صحابہ سے مقدم كيا حالانكہ صحابہ ميں كئى ايك ان سے بھى زيادہ حافظ اور قارى تھے.
اور وہ حديث كا جواب يہ ديتے ہيں كہ صحابہ كرام ميں سے زيادہ حافظ و قارى ہى افقہ يعنى زيادہ فقيہ تھے،
ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:
" اگر وہ قرآت ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كا سب سے زيادہ عالم "
اس بات كى دليل ہے كہ مطلقا زيادہ قارى و حافظ ہى مقدم ہو گا
(ديكھيں: الشرح مسلم للنووى_ 5 / 177 )
چنانچہ نووى رحمہ اللہ تعالى كى اگرچہ ان كے امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے استدلال حديث ميں ان كى مخالفت كى ہے، ليكن ان كى كلام كا اعتبار اس اساس پر ہے كہ صحابہ كرام ميں كوئى بھى ايسا نہيں تھا جو قرآت اور قرآن مجيد كا اچھى طرح حافظ ہو اور اسے شرعى احكام كا علم نہ ہو، جيسا كہ آج كے ہمارے دور ميں اكثر لوگوں كى حالت ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر ان دونوں ميں سے ايك شخص نماز كے احكام كا زيادہ علم ركھے، اور دوسرا شخص نماز كے علاوہ باقى دوسرے معاملات ميں زيادہ علم ركھتا ہو تو نماز كے احكام جاننے والے كو مقدم كيا جائيگا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 19 )
مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:
..۔۔جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جاہل شخص كى امامت صحيح نہيں الا يہ كہ امامت كا اہل شخص نہ ہونے كى صورت ميں وہ اپنى طرح جاہل لوگوں كى امامت كرائے،
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 264 )
(https://islamqa.info/ar/answers/20219/)
*یعنی نماز میں امامت کسی عالم دین اور حافظ قرآن کو ہی کروانی چاہیے،جو نماز کے مسائل وغیرہ کو سمجھتا ہو،اگر نماز پڑھنے والوں میں سے کوئی بھی حافظ قرآن یا حدیث کا علم جاننے والا نا ہو تو ان میں سے کوئی شخص بھی انکی امامت کروا سکتا ہے، لیکن حافظ قرآن یا عالم کی موجودگی میں کسی جاہل یا دین سے انجان شخص کا امامت کروانا درست نہیں*
نوٹ_
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خوبصورت شخص کو امام بنانا چاہیے تو یہ بات سرا سر غلط ہے اور اس کے متعلق پیش کی جانے والی تمام روایات موضوع اور باطل ہیں،
(دیکھیں موضوع اور منکر روایات،47٫48)
( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info