find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts
Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts

Namaj me Chhink aane ya Khansne ka Hukm, Namaj me Chhinkne ke Aadab.

Namaj me Chhink ka Sharai Aadab.

Namaj me Chinkne ya Khasne ka Sharai Hukm


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

نماز اور غیر نماز میں چھینک کے شرعئی آداب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

✒️: مسز انصاری

چھینک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ چھینک آنے پر مسنون دعا اور دعا سننے والے پر جواب کا وجوب شرعئی لحاظ سے ثابت ہے ۔
صحیح بخاری،کتاب الادب کی دسویں حدیث یہ ہے :

عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله، وليقل له أخوه أو صاحبه: يرحمك الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فليقل: يهديكم الله ويصلح بالكم "
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے اور اس کا بھائی اسے یرحمک اللہ کہے تو جب وہ اسے یرحمک اللہ کہے تو وہ اسے یوں کہے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے ۔
(صحیح بخاری ،سنن ابو داود ، سنن الترمذی )

اور چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہترین نعمت ہے ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔
[بخاري كتاب الادب]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جمائی کو ناپسند فرماتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد لله کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے يرحمك الله کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا “ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]

صحیح حدیث کے مطابق تین مرتبہ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیے، مگر تین مرتبہ سے زائد بار چھینک زکام کے مرض کی علامت ہے
يُشَمَّتُ العاطِسُ ثلاثًا ، فما زاد فهو مَزْكومٌ
چھینکنے والے کو چھینک آنے پر تین بار جواب دیا جائے، اور جو اس سے زیادہ ہو ‘ تو پھر وہ زکام زدہ ہے ۔
الراوي : سلمة بن الأكوع | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح ابن ماجه | الصفحة أو الرقم : 3009 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

یاد رہے کہ چھینک کے جواب میں الحمدللہ کے ساتھ علی کل حال کہنا بھی ثابت ہے ، چنانچہ ابن عمر نے ایک آدمی کو بتایا کہ آپﷺ نے انھیں الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے تھے ، حدیث شریف میں ہے :

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ »
ترجمہ : سیدنانافعؒ کہتے ہیں کہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا' الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ'یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم ' الحمد للہ علی کل حال' (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں۔
[ دیکھئے : شیخ البانیؒ کی کتاب : إرواء الغليل | الصفحة أو الرقم: 3/245 | خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اور جس شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ نہ کہے تو سننے والے کو بھی اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے :
عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، قَالَ: إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ وَلَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں نے چھینکا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کی چھینک پر یرحمک اللہ کہا اور دوسرے کی چھینک پر نہیں کہا۔ اس پر دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ان کی چھینک پر یرحمک اللہ فرمایا۔ لیکن میری چھینک پر نہیں فرمایا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے الحمدللہ کہا تھا اور تم نے نہیں کہا تھا۔
الراوي : أنس بن مالك | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم | الصفحة أو الرقم : 2991 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح] | التخريج : أخرجه البخاري (6225)، ومسلم (2991).

دورانِ باجماعت نماز جب مقتدی کو امام کے پیچھے چھینک آئے تو خاموشی سے آہستہ آواز کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکتا ہے جیسا کہ حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
" میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا تھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے۔‏‏‏‏“
[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 932  ||  صحيح ابي داود :700 || صحيح ترمذي :331 ]

واضح رہے کہ چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 799]

البتہ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ، اس بارے میں شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

" جب نمازی کوچھینک آئے تووہ المحد للہ کہے گا ، اس لیے کہ اس کا ثبوت سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں ملتا ہے :
سیدنا معاویہ بن حکم رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے توایک شخص نے چھینک لی اورالحمدللہ کہا تواس کے جواب میں معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے يرحمك الله کہا تولوگ انہيں گھور گھور کردیکھنے لگے کہ اس نے غلط کام کیا ہے ، توانہوں نے کہا کہ ان کے مائیں گم پائيں تووہ لوگ اپنی رانوں پرہاتھ مارنے لگے تا کہ وہ خاموش ہوجائيں تووہ خاموش ہوگیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو انہیں بلایا معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں اللہ کی قسم نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا اورنہ ہی مارا اورنہ برا بھلا کہا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
نماز میں لوگوں سے باتیں کرنا صحیح نہيں بلکہ اس میں تو تسبیح وتحمید اورتکبیر اورقرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ۔
[ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 537 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 930 ) ]

اس قصہ سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے بعد الحمدللہ کہنے والے کو کچھ نہيں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نمازمیں جب انسان کو جب چھینک آئے تو اسے الحمدللہ کہنا چاہیے کیونکہ یہاں ایسا سبب پایا جاتا ہے جو الحمد للہ کہنے کا متقاضی ہے ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ ہر وہ سبب جس کی بنا پر کوئي دعا ہو وہ بھی نماز میں کہنا جائز ہے ۔ "
[ دیکھیے : فتاوی ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ ( 13 / 342 )  ]

ھٰذا ماعندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Khubsurat Na Mehram Aurat kisi Mard ke liye kitna Khatrnak Sabit ho sakti hai?

Maine Apne bad ke mardo ke liye Auraton se jyada bada fitna nahi chhora hai.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

خوبصورت نامحرم عورت عمومًا مرد کے زھد و تقویٰ کے لیے زہر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


️: مسزانصاری

خوبصورت عورت مرد کی روح کے لیے وہ نشہ آور شراب ہے جس سے کمزور قوتِ ایمانی رکھنے والے دلوں کے مرد اپنے ہوش گنوا بیٹھتے ہیں، جب بھی تم کسی نامحرم عورت کی طرف دانستہ نظر اٹھا بیٹھو اور اس کے لیے اپنے دل کو معلق ہوتا محسوس کرو تو بغیر وقت ضائع کیے فورًا شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو ، کیونکہ عورت کے وجود سے بڑھ کر کوئی چیز مرد کی روح کو تیزی سے مدہوش نہیں کرتی یہاں تک کے مرد اپنے رب سے جدا ہوجاتا ہے اور عبادتِ الہٰی سے زیادہ اس عورت کو پوجنے لگتا ہے، اور یہ سب تلبیسِ ابلیس ( ابلیس کی مکاریاں ) ہے ۔

ما تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أضَرَّ علَى الرِّجالِ مِنَ النِّساءِ.
’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔‘‘

الراوي : أسامة بن زيد | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 5096 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
التخريج : أخرجه البخاري (5096)، ومسلم (
2740)

Share:

Shauhar ke Faut ho jane ya talaq dene par Shauhar ka walid Biwi ka Mehram hoga ya Na Mehram?

Kisi Aurat ka Shauhar ke faut ho Jane par Uska Sasur Mehram hoga ya Na Mehram?
Agar Shauhar Talaq de de to biwi ka Sasur Mehram hoga ya Na Mehram?

اسلام کی شہزادی
ایک عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو سسر محرم ہو گا یا نا محرم؟؟
سسر سے پردہ کرنا ہو گا یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

جب کسی عورت سے عقد نکاح ہو جائے تو اس عورت پر سسر حرام ہوجاتا ہے ۔صرف عقد نکاح سے ہی حرمت ثابت ہوجاتی ہے اس لیے اگر کسی مرد نے عورت سے عقد نکاح کرلیا تو خاوند کا والد (یعنی عورت کا سسر) ا پنی بہو کا محرم بن جائے گا ۔ یہ حرمت برقرار رہتی ہے خواہ خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دے، بیوی کا سسر اس کا محرم رہے گا، وہ اس کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے، اس کے ساتھ سفر بھی کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اور اسی طرح عورت کے لیے خاوند کی دوسری بیوی سے بیٹے بھی محرم ہوں گے اورخاوند پر اس کی ساس بھی حرام ہوجائے گی۔

اسے  تحریم مصاہرت (یعنی سسرالی تحریم) کہتے ہیں اور اس بات کی دلیل کہ سسر کے لیے اس کی بہو حرام ہے مندرجہ ذیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"اور (تم پر حرام ہیں) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں۔" النساء۔23۔

اور خاوند کے بیٹے کی والد کی بیوی حرمت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"اور تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے۔" النساء۔22۔

اور دادماد پر اپنی ساس سے نکاح کی حرمت کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اور (تم پر حرام ہے) تمہاری بیویوں کی مائیں۔"

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share:

Sweden ya Dusre European Mumalik me Quran ki behurmati kyu ki ja rahi hai?

Sweden me Ijtemai taur Par Quran ko Najar-E- Aatish karne ka mamala aur sari Duniya ki khamoshi.
Batil ko hamesha isse ranj aur chid rahti he ke haqe ka Muqabla kaise kiya jaye.. Isliye apni gussa aur nakami ko chupane ke liye Aisi harkate karta hai.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

سویڈن میں قرآن جلایا گیا ....... خبر محزن ومؤسف جدا 😢

🖋️: مسز انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق (اسلام) پہلے بھی باطل کی یلغار سے محفوظ نہیں تھا اور آج بھی حق تیروں سے آزاد نہیں ہے، قرونِ اولیٰ اور آج کے وقت میں باطل کی ان یلغاروں میں فرق یہ ہے کہ پہلے جب مسلمان فولادی عزائم رکھتا تھا اور امت مسلمہ پر عمر بن الخطاب کی ہیبت کی پرچھائیاں تھیں تو دشمنانِ اسلام پیٹھ پیچھے سے وار کرنے کے لیے بھی سو بار سوچتا تھا، اور آج جبکہ مسلمان باہمی افتراقی جنگوں کے شغل میں منہمک ہے، اس کی ساری قوت اسلام کی دیوار گرانے میں ہی صرف ہورہی ہے تو اس کے ہاتھ میں تلوار لوہے کے زنگ آلود ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہی، اسی لیے دشمنانِ حق کو اس کی تلوار کی کاٹ کا خوف بھی نہیں رہا ، اب بھرے مجمع میں ہر ایرا غیرا مسلمانوں کے دلوں کو چیر ڈالتا ہے اور مسلمان کے جذبات کو لہولہان کیا جاتا ہے، کبھی قرآن کو جلا کر، کبھی قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے، کبھی پیارے نبیﷺ کے چہرہ اقدس کو مضہکہ خیز اشکال کی صورت میں پیش کر کے اور کبھی آپﷺ کی شان میں گستاخیاں کر کے۔
اسلام کی صفوں میں شب خون کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور اس میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا، اس وقت تک جب تک مسلمان دنیا پرستی، زن پرستی اور زر پرستی میں لگا رہے گا اور قرآن و سنت گرد میں اٹا الماریوں میں مقفل رہے گا ۔۔۔۔
تمسک  بالقرآن والسنۃ(قرآن و سنۃ سے چمٹ جاؤ)
قرآن علامت اخلاصِ توحید ہے، اس کی حکمت و دانائی وسیع اور نفع بخش ہے،اس کی تعلیم شفاف ہے، کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی التباس نہیں، کوئی رَیب نہی اور کوئی تشکیک نہیں۔
پس جب بھی تم قرآن سے منہ موڑو گے اللہ تمہیں ذلیل و خوار کر دے گا ۔

﴿وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يٰرَبِّ إِنَّ قَومِي ٱتَّخَذُواْ هٰذَا ٱلۡقُرءَانَ مَهجُورا﴾ [ الفرقان: 30]’’
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ‘‘

Share:

Apne Qurbani ke Janwaro ko Khula na chhore taki dusro ko taklif pahuche.

Qurbani ke Janwaro ka khyal rakhe, kahi isse dusro ko taklif nahi pahuche.

Qurbani ka Gosht kitne dino tak rakh sakte hai?
Qurbani (Eid-UL-Azaha) ke Ahkaam o Masail. ....
Jo log Qurbani karne ki taqat nahi rakhte wah kya kare?
Qurbani ke liye kaisa janwar jayez hai?

Qurbani se Jude Ahem Sawalo ke jawab janane ke liye yaha click kare.

Qurbani se jude Masail aur Unka Hal.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

️: مسز انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قربانی کریں مگر ..............

- اپنے قربانی کے جانور کو لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث نا بنائیں ۔
- اپنے جانوروں کی گندگی سے آنے جانے والوں کو تکلیف نا دیں ۔
- جانور باندھنے کی وہ جگہ منتخب نا کیجیے جہاں ہرروز کسی کی گاڑی پارک ہوتی ہے ۔
- جس جگہ جانور باندھیں اسے صاف کرتے رہیں تاکہ ناگوار بدبو لوگوں کو تکلیف نا پہنچائے۔
- اپنے جانوروں کو اس طرح کھلا نا چھوڑیے کہ وہ کسی کی محنت سے مرتب کیا گیا گارڈن خراب کر ڈالیں ۔

کامل ایمان رکھنے والے مؤمن اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی آرام و راحت پسند کرتے ہیں جو وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کا کوئی عمل یا رویہ کسی مسلمان کے لیے تنگی قلب کا باعث نا بنے ۔

لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى يُحِبَّ لأخِيهِ ما يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔ 

الراوي : أنس بن مالك | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم : 13 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Mai Ek Jawan Khubsurat Aurat hoo mujhe Driver ki jarurat hai Achi sallary Dungi... Naukari Chahiye to Posts Share kare.

Mai Talak Shuda Jawan aur Khubsurat hoo, mujhe ek Cab Driver chahiye achi tankhawah dungi.....

Waise Musalman Mard jo Na Mehram aur Be haya Aurato ki tasaweer Par Apni Hajiri Dene Jate hai.
Islamic Parda aur European (liberals) Parda.
Kapde chhote nahi Soch chhoti hai.

Modern Education ke nam par Behyayi Firog diya ja raha hai.

دیسی لبرلز اصل منافقین ہے!

افغان و امریکہ کا مسئلہ ہو تو امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اسرائیل و فلسطین کا قضیہ ہو تو اسرائیل انکو حق پر نظر آتا ہے مسلم آپس میں اختلاف کریں تو فرقہ پرستی کی راگ الاپتے ہیں مسلم کسی مسئلہ پر اکھٹے ہو جائیں تو کہتے ہیں ہم آپ کے اتفاق کو نہیں مانتے.


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

مسلمان مرد کے لیے فحش عورت کی کشش، دردناک حقیقت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

پُرکشش عورتوں کی تصاویر پر جملہ لکھ کر شئیر کردیا جاتا ہے کہ مجھے ڈرائیور کی ضرورت ہے تنخواہ اتنی ہوگی، مجھے ملازم کی ضرورت ہے تنخواہ اتنی ہوگی، 29 سالہ خوبصورت بیوہ کو دوسری شادی کرنی ہے جائیداد بینک بیلنس بیوہ کے نام ہے،،،، وغیرہ وغیرہ

یہاں تک تو ہم ایسے خبیث لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا ہی کرسکتے ہیں تاکہ یہ ان امورِ قبیح سے باز آئیں اور تقدسِ نسواں کو پامال نا کریں ۔ لیکن سب سے زیادہ دکھ اور افسوس بلکہ آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں جب ہم اپنی لسٹ کے ایمان والے بھائیوں کو ایسی گندی پوسٹس کے کمنٹ باکس میں مکھیوں کی طرح بھنبھناتے دیکھتے ہیں جو گندگی کے اوپر ہی منڈلاتی ہیں، جبکہ ان بھائیوں کی والز اللہ رسول کی تعلیمات پیش کر رہی ہوتی ہیں ۔

میرے بھائیوں!! ذرا سی تفریح اور دل کے مزے کے لیے آپ لوگ اپنے خالق و مالک سے ہی ڈرنا چھوڑ دیتے ہو؟
جیسے ہی عورت کی تصویر سامنے آتی ہے تو آپ لوگ بھول جاتے ہو کہ مسلمان کو کیا حکم کیا گیا ہے؟

آپ لوگ اتنے کمزور اعصاب کے ہو کہ شیطان آپ کو موم کی طرح پگھال دیتا ہے؟

مردانگی مرد کے زورِ بازو کا نام نہیں بلکہ مردانگی تو مرد کا اللہ اور رسول کی شریعت پر ثابت قدمی کا نام ہے ۔ والز پر اللہ اور فحش پوسٹ پر کون اللہ؟

نہایت شرم کا مقام ہے کہ مسلمان خصوصًا مسلک برحق سے تعلق رکھنے والا، عورتوں کی پوسٹس پر گدھ کی طرح منڈلائے، فکر کا مقام ہے کہ جو نبی برحق عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے اس عظیم نبی ﷺ کی امت کے مرد عورت کے فتنے میں سرcتا پیر ڈوب گئے ہیں ۔

مسلمان مرد کے اعصاب پر جب عورت سوار ہوجائے تو آہنی تلوار بھی اس کے ہاتھ میں آکر لوہے کا زنگ آلود ٹکڑا بن کر رہ جاتی ہے ۔

میری یہ تحریر پڑھنے والے تمام بھائیوں کو میری نصیحت ہے کہ اپنی قبروں کو تنگ و تاریک اور جھلسا دینے والی نا بنائیں، یہ نا بھولیں کہ ایک دن آپ کو قبروں میں دفن ہونا ہے، اور اس طرح ایمان پر ثابت قدم رہیے کہ آپ کے جنازوں میں چالیس مواحدین کی صفیں تیار ہوجائیں ۔۔۔۔

Share:

Muslamano ke Liye Is batil (liberalism) se bachna kyu mushkil hota ja raha hai?

Batil ka Muslim Muashare me yalgaar.

Magrib (yahud o nasara) ke fitno se kaise Musalman Do char ho rahe hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

️: مسز انصاری

نہایت معزز و مکرم اہل الحدیث سلفی مردوں !!
اہل و عیال کے ایمانوں کی سلامتی و بقا کی خاطر اپنی عورتوں پر کڑی نظر رکھو :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت پاکستان پر الحاد کی یلغار ہے ، اسلام کے خلاف الحادی علمبرداری اور الحاد کی ترویج و تشہیر کے لیے ایک منظم سازش جڑیں پکڑ رہی ہے۔ اس سازش کا مقصد مسلمانوں کو دین برحق سے دور کرکے الحاد کی طرف دھکیلنا ہے ۔ الحاد امت مسلمہ کی جڑوں کے لیے ایک کینسر ہے ، یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حدود سے متجاوز باغی گروہ ہے اور بے شک بہت ہی بدنصیب اور بہت ہی خسارے میں ہے :

وَ مَا  قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ  اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ  عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ  شَیۡءٍ ؕ [الانعام : 91 ]

اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی ۔

جب ہم سب یہ بات بخوبی سمجھتے اور دوسروں سے کہتے بھی ہیں کہ مرد کی دینداری دین کو دہلیز تک لے آتی ہے اور عورت کی دینداری دین کو نسلوں تک لے جاتی ہے ، اس کے باوجود افسوس ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ اپنے گھر کی دنیا کو روشن کرنے کے لیے روشنی کے اس منبع کو درست حالت میں رکھیں جہاں سے ہماری اولادیں ناصرف دنیا کے داؤ پیچ کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے گُر سیکھتی ہیں بلکہ اپنے جنازوں کی پہلی صف تیار کرتی ہیں ۔

مرد کے مقابلے میں شیطان کو عورت کی گمراہی زیادہ مطلوب و مقصود ہوتی ہے، کیونکہ یہی عورت ہے جو صالح اولاد پیدا کرسکتی ہے، یہی عورت ہے جو مساجد کی آبادکاری کا ذریعہ بن سکتی ہے، یہی عورت ہے جو دینی مدارس کو بھر سکتی ہے، یہی عورت ہے جو مزید مومنہ عورتوں کی جماعت مرتب کر سکتی ہے، اور یہی عورت ہے جو گھر کو برباد بھی کرسکتی ہے اور آباد بھی ، اسی لیے مردوں کو اپنی عورتوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہیے کہ

وہ کن لوگوں کی صحبت میں وقت گزارتی ہیں ؟
کن سرگرمیوں میں مشغول رہتی ہیں؟
ان کے مطالعہ کے ماخذ کیا ہیں ؟
نیز سوشل میڈیا پر ان کی ترجیحات کیا ہیں؟؟

ایسا نا ہو کہ مرد جس خاندان کے لیے کسبِ معاش کی صعوبتیں جھیل رہا ہو وہ خاندان جہنم کی طرف اپنے قدم ڈال دے ، وہ اس لیے کیونکہ سوشل میڈیا جو کہ ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا اور وسیع پلیٹ فارم ہے، یہ پلیٹ فارم جتنا وسیع و عریض ہے اتنا ہی یہاں حق و باطل کی محاذ آرائی اور رسہ کشی ہے ۔

قابل احترام سلفی مردوں !! اہل بدعت و شرک کی جماعتیں دراصل شیطان کے ہتھیار ہیں، خبردار اپنی عورتوں سے بےخبر نا رہنا ، ایسا نا ہو کہ بدعت و شرک اور کفر کا سانپ تمہاری دہلیزوں کو پار کر کے تمہاری نسلوں کی شریانوں میں الحاد کا زہر انڈیل دے، اور اس لاپرواہی کے نتیجے میں آخرت میں تم سخت باز پرس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت کے کٹہیرے میں کھڑے کر دیے جاؤ ۔

Share:

Naye Hijri Saal ya Eid ke mauke par "Kullo Amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Eid ki mubarak Bad dene par "Kullo amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Naye saal ki ya Eid ki Mubarak Bad ke liye kaun se jumle Istemal kiye jane chahiye?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کل عام وانتم بخیر جملے کا حکم اور نئے سال کی مبارکباد کے شرعئی احکامات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدین اور نئے ہجری سال کے موقعہ پر لوگوں کا ایکدوسرے کو نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ ایک جملہ کل عام وانتم بخیر (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) زبان زد عام ہے ، یہ جملہ سلف صالحین سے ثابتہ نہیں ہے، یہ اغیار کا خود ساختہ کلمہ ہے جو مسلمانوں میں اس حد تک رائج ہوچکا ہے کہ دین کی ہی تعلیم محصوص ہوتی ہے ۔ آئیے جید علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں اس جملہ کے حکم کے بارے میں جانتے ہیں :

کل عام وانتم بخیر جملے کا کیا حکم ھے؟

امام البانی کہتے ہیں کہ اسکی کوئی اصل نہیں ھے۔ تقبل اللہ طاعتك کہنا کافی ھے۔ باقی رہا *کل عام وانتم بخیر کہنا یہ ھم مسلمانوں میں غفلت کیوجہ سے رائج کر چکا ھے۔  نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی.
[ علاّمہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ / {سلسلۃالھدیٰ النور : ٣٢٣} ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کا فتویٰ

سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے۔
[ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ/(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘  ص 230) ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ حرمین کے مفتی اور دورِحاضر کے معروف امام سماحۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ :
آپ رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "الضياء اللامع" ص:702 میں فرماتے ہیں:

سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب : نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ/(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ  للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم استاذ العلماء:سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ :

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب1: بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:

نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر"یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک"کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
[ نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ]

۔✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦

✦مذکورہ فتاویٰ کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے:

1۔نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مسلمانوں کی محترم و نیک شخصیات یعنی سلف صالحین رحمہم اللہ سے بھی ثابت نہیں ، جن میں سرِفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین و اتباعہم شامل ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کوزندگی کے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور سلف صالحین رحمہم اللہ کےمعروف طریقہ کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے ، اسی میں خیر ہے۔

2۔اگر کوئی مسلمان نئے سال کی مبارکباد دینے یا وصول کرنے کو مسنون سمجھتا ہے تو یہ انتہائی بڑی غلطی ہے،ایسی صورت میں مبارکباد دینا بدعت اور اسکا جواب دینا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔اگر کوئی مسلمان اسے امور عادیہ (عام عادت کے معاملات، جنہیں شرعی طور پر ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے) میں شامل سمجھتے ہوئے مبارکباد دیتا ہے تو اسے امور عادیہ ہی سمجھتے ہوئے جواب دینے کی حد تک مبارکباد دینا جائز ہے، البتہ:

4۔اس معاملہ میں علم آجانے کے بعد پہل کرنا ہرگز جائز نہیں ، یعنی خود سے کسی کو مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ شرعا اسکا ثبوت نہیں ہے البتہ دعائیہ کلمات کا جواب دینا، گرچہ وہ مبارکباد ہی کے کیوں نہ ہوں بشرطیکہ امور عادیہ میں سے ہو ں شریعت کے عمومی نصوص کی و جہ سے جائز قرار پاتا ہے۔

5۔نئے سال کی آمد کو خوشی کا تہوار سمجھنا ہی شرعا ثابت نہیں ہے،کیونکہ اجتماعی طور پر مسلم اُمہ کے خوشی کے تہوار دو ہیں : عید الفطر اور عید الاضحیٰ اسکے علاوہ عمومی و اجتماعی طور پر کوئی بھی مسلسل آنے والا ،موسمی خوشی کےتہوار کا شریعت ِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

6۔لہٰذا جواب کی حد تک مبارکباد دینے کے علاوہ :

نئے سال منانے کی مروّجہ تمام صورتیں خلافِ شرع ہیں ان سے ا جتناب کرنا چاہیے ۔ جیسے نئے سال کی مبارکباد باد پر مشتمل کارڈز کا تبادلہ کرنا، خوشی کے تہوار کے طور پر مجالس، تقریبات ، پارٹیز ، پروگرامز منعقد کرنا، چہ جائکہ اُن میں خلافِ شریعت امور کا انفرادی یا اجتماعی طور پر ارتکاب و مظاہرہ کیا جائےجس سے اس عمل کی قباحت میں مزیداضافہ ہوجائے۔

7۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود کے اندر ایسی فکر اور سوچ بیدار کرنی چاہیے کہ:

ہماری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنے اچھے یا برے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کیا اس انجام کو قبول کرنے کے لیے اور اسکا سامنے کرنے کے لیے ہم تیار ہیں؟ کیا کل اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت میں جوابدہی کے لیے ہم تیار ہیں؟

گذرےسال میں ہم نے کہاں کہاں اور کون کون سی غلطیاں کی ہیں، کون سے گناہ کیے ہیں ، کتنے حق اللہ تعالی کے اور کتنے حق اللہ کے بندوں کے پامال کیے ہیں ؟ انفرادی و اجتماعی اعتبار سے ہماری طرف سے ہماری ذات کو اور معاشرے و امت کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور اُس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟

ہمیں سوچنا چاہیےکہ ہماری انفرادی و اجتماعی حالت آج کیسی ہے اور آج ہم پچھلے سال کی نسبت کہاں کھڑے ہیں اور کیا آنے والے سال کو گذرے سال سے ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے ہم نے کوئی تیاری اور پلاننگ کی ہے؟

کیا جو غلطیاں ہم سے گذرے سال میں ہوئیں ،دوبارہ اُن غلطیوں کو دہرانے سے ہم اپنے آپ کو روک پائیں گے؟
کیا ہم آنے والے سال میں اپنی ذات سے خود کو ، معاشرے کو ،اس امت کو اور سب سے بڑھکر اللہ کے اس دین کو جسکی دعوت لیکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمین شریفین سے اُٹھے تھے ،کوئی فائدہ پہنچاسکیں گے؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور انہیں نبھانے کے لیے تیار ہیں ؟؟؟

نئے سال کی آمد ان تمام باتوں کے عملی جواب کا ہم سے مطالبہ کرتی ہے ........

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہما اللہ) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) اور دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب کے مذکورہ فتاویٰ :(کتاب " الإجابات المهمة " ص : 230) پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

مقرر، مرتب اور توضیح: حافظ حماد امین چاؤلہ حفظہ اللہ
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Jume ki Eid Hukumat par Bhari hoti hai, Jume ke din ki Eid kisi hadse ki nishani hai?

Kya Juma Ke din Ki Eid Nahusat bhari hoti hai?
Jume ke Din ki Eid Hukumat ke liye Khatra hoti hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

یہ کہنا کہ جمعہ کی عید حکومت پر بھاری ہوتی ہے ، تو یہ سراسر بے بنیاد مفروضہ ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کی خبر ضرور کرتے، کیونکہ جمعہ کے دن عید تو آپ کے عہد میں بھی آئی تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں عید الفطر اور جمعہ جمع ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون)

’’تمہارے اس دن میں دو عیدین جمع ہو گئیں ہیں، تو جو چاہے یہ (نمازِ عید) جمعہ کے بدلے کافی ہے اور بلاشبہ ہم جمعہ پڑھیں گے
(ابوداؤد، الصلاة، اذا وافق یوم الجمعة یوم عید، ح: 1073، ابن ماجه، ح: 1311، حاکم (288/1) نے مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے، البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)

نیز عید خیر و برکت کا حامل عمل ہے، اسی طرح جمعہ کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے لہذا اِن کا ایک ہی دن میں آ جانا بھاری اور باعث مشکلات کی بجائے مزید باعثِ رحمت و برکت اور نور علیٰ نور ہے ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب

Share:

Eid Ke din kisi ke faut hone par matam karna aur Khushi nahi manana kaisa hai?

Eid ke Din Maiyyat ka SOG manana aur logo ka maiyyat ke ghar jama hona.

Eid Ke din Kisi ke inteqal ho jane par Agle Sal ki Eid me Khushi nahi manana, naye kapde nahi pehanana aur matam karna kaisa hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

عید کے دن میت کا سوگ منانا اور لوگوں کا میت کے گھر جمع ہونا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اسلام ادیانِ عالم میں امن و سلامتی کا دین ہے ۔ حلم و بردباری، عفو و درگزر، اور احترامِ انسانیت اسلام کا طُرۂ امتیاز ہے۔ یہ آفاوی دین، دنیا میں فلاح اور آخرت میں نجات کا نقیب و امین ہے ۔
اسلام میں مسلمانوں کے لیے دو تہوار " عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ " ہیں جو خوشیوں کے دن ہیں،
پورا مہینہ روزہ رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید الفطر خوشیوں کا دن منایا جاتا ہے، عید الفطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے ایک عظیم انعام اور امّتِ مسلمہ کے لیے جشن کا ایک مخصوص دن ہے اور اس اعتبار سے بھی عیدالفطر جشنِ مسرّت کا دن ہے کہ اس سے ایک ہی دن قبل وہ ماہِ مبارک تھا، جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا
لہٰذا اکثر لوگوں کا اپنے فوت شدگان کے بعد پہلی عید نا منانا ای بے دلیل اور غیر ثابتہ خود ساختہ طرز عمل ہے جو خلافِ شرع ہے ۔

شرعً مسلان کو جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، البتہ خاوند کی وفات پر بیوی چار مہینے دس دن سوگ مناتی ہے۔

جب میت کے انتقال کو کچھ عرصہ گزر گیا ہو، چاہے چند دن، چند ماہ یا ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو  تو معاشرے میں موجود کچھ  غیر شرعئی روایات دیکھنے میں آتی ہیں، جیسے

- عید کے دن اپنے فوت شدہ کے سوگ کی وجہ سے اچھے کپڑے نہ پہننا شریعت کی خلاف ورزی ہے ۔

- عید کے دن تعزیت کی غرض سے اس گھر میں جمع ہونا جہاں گزرے وقت میں کسی کی وفات ہوئی ہو اور اس وفات کے بعد لواحقین کی یہ پہلی عید ہو اور گھر والوں کا غم تازہ کرنا جائز نہیں ہے، صاحبِ شریعتﷺ نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ البتہ عید کی خوشی میں شریک کرنے کے لیے اس گھر میں جانا درست ہے۔

جس گھر میں کسی کی وفات ہو اور وفات کو تین دن ہوچکے ہوں تو معمول کے مطابق عید کی خوشی اور دیگر امور انجام دینے چاہییں ۔ فوت شدہ پر نا ہی گھر والوں کو تعزیت کرنا جائز ہے اور نا ہی متعلقین کو میت کے گھر جمع ہوکر گھروالوں کے غموں کو تازہ کرنا مدتحسن عمل ہے، سلف صالحین شریعتِ محمدیﷺ کے زیادہ پاسدار تھے، ان میں بھی اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا، لہذا اس قسم کی بدعتوں سے بچنا اور انہیں ترک کر دینا واجب ہے ، کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

(مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ )
(صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)
’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
( إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)
(سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم)
اپنے آپ کو(دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہےاور ہر بدعت گمراہی ہے

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Aeitekaf kitne dino ka hota hai? Aeitekaf me 1 ghanta ya 1 din ke liye baith sakta hai?

Aeitekaf Kitne Dino ka hota hai?

Koi Shakhs Aeitekaf Me jyada se jyada aur kam se kam kitne Dino tak baith sakta hai?
Aeitekaf ki minimum aur Maximum timing kitne dino ki hai?
Kya koi Shakhs 1 din ke liye ya 1 ghante ke liye Aeitekaf me baith sakta hai?
Kya Har Roja ke liye alag se niyat karna hoga?
Doodh Pilane wali Aurat ke liye roze ka hukm.
Kya Na Paki Ki halat me Sehri kha sakte hai?
Nak se Khoon aane par ya Aankh me drops dalne par roja toot jayega?

Kya Haiz wali aurat Aeitekaf me baith sakti hai?
Kya koi khatoon Ghar me hi Aeitekaf ke liye baith sakti hai?

Laylatul Qadar ki fajilat aur Ahamiyat.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

اعتکاف کتنے دن کا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

گو کہ اعتکاف صرف دس دن سنت ہے ، آپﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں دس دن میں اعتکاف کیا ہے۔ لیکن اپنی وفات کے سال آپ نے 20 دن کا بھی اعتکاف کیا تھا۔

اب اگر کوئی رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرے، تو یہ سنت کہلائے گا اور اگر 20 دن کا اعتکاف کرے تو یہ بھی جائز کہلائے گا ۔ اسی طرح دس دن سے زیادہ یا کم مثلاً سات دن، پانچ دن، تین دن، ایک دن یا کچھ گھنٹوں وغیر کےلیے جو اعتکاف کرتا ہے۔ تو یہ بھی جائز و درست ہے۔ کیونکہ کتاب وسنت میں عام اعتکاف کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ اس کا حکم عام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ۔ (البقرة:125)

’’ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس نذر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اوف بنذرك واعتكف ليلة " ( صحیح بخاری مع الفتح 4/333، صحیح مسلم 11/134)

یعنی اپنی نذر کو پورا کرو اور ایک رات کا اعتکاف کرو۔

سلف صالحین سے بھی یہ عمل ثابت ہے مثلاً صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" اني لامكث في المسجد وما امكث الا لاعتكاف " (المحلی لابن حزم5/180)

یعنی میں ایک گھڑی مسجد میں بیٹھتا ہوں مگر یہ کہ میری نیت اعتکاف کی ہوتی ہے۔

حافظ ثناء اللہ مدنی سے سوال پوچھا گیا

اعتکاف کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے دنوں تک ہو سکتا ہے؟

شریعت مطہرہ میں اعتکاف کے لیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ البتہ رسولِ کریمﷺ کی اقتداء میں مستحب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا جائے۔

امام عبدالرزاق نے یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے بسندہ بیان کیا ہے، وہ فرماے ہیں ، میں تھوڑے سے وقفہ کے لیے بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہر جاتا ہوں۔ (فتح الباری،ج:۴،ص:۲۷۳)

( دیکھیے : فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی/جلد:3/کتاب الصوم/صفحہ:277 )

Share:

Dukandaro Se saman kharidte waqt Na Mehram Auraton ko Dekh sakte hai?

Dukano se Saman kharidte waqt kya Na mehram Auraton ko dekh sakte hai?
Churiyo (Bangles) aur kapdo ke dukano par Kya Custumers Ke chehre ko dekh sakte hai?

M.A
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

دوکانداروں کا خریدو فروخت کے وقت نامحرم عورتوں کی طرف دیکھنا کیسا ہے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں شریعت کےحرام و حلال کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھے ۔ اور نامحرم کے ضمن میں مسلمان کو شہوت وغیرہ کے تعلق سے ”نظروں کی حفاظت“ کا حکم ہے ۔ کیونکہ حقیقتًا ”بدنظری“ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے، تاہم قرآن و حدیث میں مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو مطلقاً دیکھنا حرام قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ بحالت مجبوری بقدر ضرورت مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ۔ البتہ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہےغض البصر، کسی نامحرم کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے کو کہتے ہیں ۔

لہٰذا معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خرید و فروخت کے وقت عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ، وہ اس لیے تاکہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے ، مبادا کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے یا کسی بھی قسم کے مالی نقصان وضرر سے بچا جاسکے ، یا قیمت کی وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر عورت خريد و فروخت يا اجرت كا لين دين كرے تو مرد اس كے چہرے كو ديكھ سكتا ہے تا كہ اسے وہ بعينہ جان لے اور درك ( يعنى استحقاق بيع كے وقت قيمت كى ضمانت ہے ) اس عورت پر ہے، ليكن ضرورت كے وقت اور بغير شہوت كے اس ميں كوئى حرج نہيں "
ديكھيے : المغنى ( 7 / 459 ) الشرح الكبير على متن القنع بھامش المغنى ( 7 / 348 ) ، اور الھدايۃ مع تكملۃ فتح القدير ( 10 / 24 ).

اور امام نووی رحمہ اللہ اس بارے میں رقمطراز ہیں :

جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء
(النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔)
”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے ۔

اور امام کاسانی لکھتے ہیں :
لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیھا للحاجة إلی کشفھا فی الأخذ والعطاء
(الکاسانی،البدائع والصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔)
”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔

لہٰذا دوکانوں پر خریداری کے لیے آنے والی خواتین کو دیکھنا جائز ہے، اور يہ نظر بطور لذت نہيں ہونى چاہيے ، اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بلا ضرورت نامحرم عورتوں کو دیکھا جائے، بلکہ دوکاندار مرد حضرات لین دین کرتے وقت کم سے کم نظریں اٹھائیں، اور اسی طرح بے پردہ خواتین بھی نا ہی بلا ضرورت فضول گفتگو یا ہنسی مذاق کریں اور نا ہی دوکاندار کی طرف بلا ضرورت دیکھیں ۔۔۔۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Auraton ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me? Kya Auraten Masjid me Taraweeh ki Namaj padhne ja sakti hai?

Khawateen ka Masjid me Namaj padhna Afzal hai ya Ghar me?

Asmara HT
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُاللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

خیریت سے ہیں آپ؟

ڈیر اپی میں پوچھنا یہ چاہ رہی تھی کہ کیا عورتیں مُسلسل جماعت سے نماز نہ ادا کریں؟
کیا عورتوں کا انفرادی طور پر نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے؟
کیونکہ میری دو بہنیں اور امّی اکٹھا تراویح کی نماز اور باقی نمازوں میں اکثر جماعت سے ہی ادا کر لیتے ہیں تو میرا سوال یہاں یہ ہے کہ ہم نماز الگ الگ پڑھیں یہ ایسے ہی جماعت کے ساتھ پڑھتے رہیں؟
کُچھ لوگوں کو اِس پر اعتراض ہے پلیز واضح کر دیں۔۔
آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔
شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ معزز و مکرم سسٹر

الحمدللہ انابخیر اختی ۔۔۔۔

ہر حال میں عورت کی گھر میں پڑھی جانے والی نماز اس نماز سے افضل ہے جو مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے چاہے وہ گھروں میں تنہا نماز ادا کرے یا با جماعت بنا کر ۔ احادیث اس مسئلہ پر بعبارۃ النص دلالت کرتی ہیں کہ بہ نسبت مسجد کے عورتوں کو اپنے گھروں میں نماز پڑھنا بہتر اور افضل ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها(صحيح أبي داود : ۵٧۰ )

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

تاہم اگر خاتون مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا چاہے تو  اسے روکنا نہیں چاہیے بشرطیکہ مکمل شرعی پردے کے ساتھ ہو اور خوشبو استعمال کئے بغیر  مسجد میں جائے اور مردوں کے پیچھے نماز ادا کرے ۔

عن ابی هریرة ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن تفلات۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگو! تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو۔
(صحيح أبي داود: ۵۶٧)

اور اگر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو تو عورت کیلیے افضل یہی ہے کہ انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کے بجائے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے چاہے یہ جماعت خواتین کے ساتھ ہو یا محرم مردوں کے ساتھ ۔چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" (4989) میں ام الحسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ خواتین کی امامت کرواتی تھیں، اور وہ اس دوران انہی کی صف میں کھڑی ہوتیں۔

اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے "تمام المنہ" صفحہ: 154 میں صحیح کہا ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر گھر کی خواتین گھر میں با جماعت نماز کا اہتمام کریں تو یہ افضل ہے، اس کیلیے خاتون امام پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی ، ان کی امامت وہی کروائے گی جس کے پاس سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اور دین کے احکامات اس کے پاس سب سے زیادہ ہوں ۔

لہٰذا گھر کی خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر میں جماعت کی سہولت ملنے پر انفرادی نماز پر با جماعت کو فوقیت دیں اور نماز میں خشوع حاصل کرنے کیلیے بھر پور کوشش کرے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Sehri aur Iftari me Padhi jane wali Dua, Iftari ke waqt Padhi jane wali Masnun Dua.

Iftar ke waqt Padhi jane wali Masnun Dua.

Sehri aur Iftaari me kaun si Dua Padhna Sunnat hai?
Roje ki Halat me Cigarettes, Tobaco ya Beedi Pina (Smoking) kaisa hai?

Kya Aurat Periods ki halat me Quran padh sakti hai?

Kya Na Paki (non Purity) Ki Halat me Sehri kha Sakte hai?

Hamila (Pregnant) Aurat ke liye Roze ka Hukm.

Iftar se Kuchh minutes/Second Pahle Haiz shuru hone se Roza Qubool hoga? 

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

افطار کے موقع پر کون سی دعا کس وقت پڑھی جائے افطار سے پہلے یا افطار کے بعد ؟اس سلسلہ میں افطار کی دعا کی پانچ روایتیں کتب حدیث میں وارد ہیں :

➖ ۱۔ حضرت معاذ بن زہرہ تابعی کی مرسل روایت :

عن معاذ بن زُهْرة، أنه بلغه أن النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم-كان إذا أفطر،قال: "اللَهُمَّ لك صُمْتُ،وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ"۔( ابوداود2358)۔

کتب ستہ  حدیثیہ میں یہ دعاصرف ابوداود شریف میں بروایت معاذ بن زہرہ کےواردہے ،حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے لیکن دارقطنی نے "سنن" 3/ 156میں ،اورحافظ ابن حجر نے"التلخيص الحبير" 2/ 202،میں سند کی تحسین کی ہے۔ لیکن دوسرے محدثین نے اسے مرسل قرار دے کر ضعیف کہا ہے۔

اور اس روایت میں راوی کے مشہور الفاظ اسی طرح ہیں ( كان إذا أفطر ) البتہ بعض کتب حدیث میں(إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ ) کے الفاظ سے مروی ہے،جیسے:محمد بن فضیل کی (کتاب الدعا 66)اورابن المبارک کی (کتاب الزہد1411) میں اس طرح ہے :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ» ۔

دعا کےبھی مذکورہ بالاالفاظ ہی زیادہ مشہور ومعروف ہیں ، لیکن ابن السنی نے (عمل الیوم واللیلہ479) میں قدرے اختلاف کے ساتھ ذکر کئے ہیں :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْتُ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْتُ» ۔

➖ ۲۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» ۔(الدعاء للطبرانی 918)۔

ابن الشجری نے (الامالی 1213) میں شروع میں بعض الفاظ کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت اس طرح ذکر کی ہے :

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قُرِّبَ إِلَى أَحَدِكُمْ طَعَامٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، تَقَبَّلْهُ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "

مگر یہ روایت ضعیف ہے ، سند میں داود بن زبرقان متروک الروایت راوی ہے (التلخيص الحبير 2/ 445)۔

➖ ۳۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْنَا فَتَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (سنن الدارقطنی 2280 ،ابن السني 481)۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَفْطَرَ قَالَ : «لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» (المعجم الکبیر للطبرانی 12720)۔

ابن عباس کی روایت بھی شدید الضعف ہے ، سند میں عبدالملک بن ھارون بن عنترہ پر علماءحدیث نے سخت جرح کی ہے ، جھوٹ بولنے کی تہمت بھی لگائی ہے ۔ ینظر : البدر المنير لابن الملقن (5/ 711)۔

➖ ۴۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَامَ ثُمَّ أَفْطَرَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 9744) ۔

اس روایت میں(مصنف ابن ابی شیبہ)کے بعض نسخوں میں راوی کے نام میں تحریف واقع ہوئی ہے،(ابو زہرہ) کے بدلے(ابوھریرہ ) ہوگیا ہے،صحیح (ابو زہرہ) ہے، اور یہ معاذ بن زہرہ تابعی کی کنیت ہے ، امام محمد بن فضیل ضبی کی (کتاب الدعاء 66)میں بھی (ابو زہرہ) ہے، جن کے واسطہ سے ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے۔ابن المبارک کی (الزہد) کی روایت سے بھی تایید ہوتی ہے ۔

تحریف واقع ہونے کی وجہ سے ابن الملقن نے (البدر المنیر )میں کہا : وَذكره صَاحب «الْمُهَذّب» من حَدِيث أبي هُرَيْرَة، ثمَّ بيض لَهُ الْمُنْذِرِيّ، واستغربه النَّوَوِيّ وَقَالَ: إِنَّه لَيْسَ بِمَعْرُوف.

➖ ۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت :

يَا عَلِيُّ إِذَا كُنْتَ صَائِمًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقُلْ بَعْدَ إِفْطَارِكَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ۔(مسند الحارث بن ابی اسامہ 469)۔

یہ روایت بھی کافی ضعیف ہے(وقد تکون موضوعہ) سند میں انقطاع  ہے ، ایک راوی السري بن خالدمجہول ہے، اورحمادبن عمرونصيبی متروك الروایت ہے،عبد الرحيم بن واقد میں بھی کلام ہے ۔(تخریج المطالب العالیہ (6/ 141) برقم1074) ۔

احادیث مشہورہ کی تحقیق
واللہ الموفق والہادی الی الصواب
وكتبه العاجز أبو معاذ المكي محمد طلحة بلال أحمد منيار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⛔ صحیح مسنون دعا :

ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَائَ اللّٰہ ُ۔
ترجمہ: تشنگی ختم ہوئی، رگیں ترہوئیں اور ثواب ثابت ہوا اللہ تعالی کی مشیئت سے ۔

عمر رضي اللہ تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَائَ اللّٰہ ُ۔)
ترجمہ: تشنگی ختم ہوئی، رگیں ترہوئیں اور ثواب ثابت ہوا اللہ تعالی کی مشیئت سے ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 ) سنن الدار قطنی حدیث نمبر ( 25 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔

مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے افطار کیا جا ئے پھر دعاپڑھی جائے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ الباری نے افطار کے بعد دعاء پڑھنے کاذکر کیا ہے :
اذاافطرای بعد الافطارقال ذہب الظمأ۔ ۔ ۔ کان اذا افطرقال ای دعاوقال ابن الملک ای قرأ بعد الا فطارومنہ اللہم لک صمت۔ ۔ ۔
(مرقات شرح مشکوٰۃ ج ۲ ص۵۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں

روزہ دار کیلئے قبول ہونے والی دعاء کا وقت افطار سے قبل غروب آفتاب کے وقت ہے ، کیونکہ اس وقت روزہ دار کیلئے انکسار نفس ،اور اللہ کے حضور تواضح ،جمع ہوجاتی ہیں ، اور وہ روزے کی حالت میں ہوتا ہے (اور یہ امور قبولیت دعاء کیلئے بہت مؤثر ہیں )
اور افطار کے بعد تو راحت وفرحت حاصل ہوتی ہے ، اور کبھی کبھی غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے ،
لیکن :۔ وہ دعاء جو نبی مکرم ﷺ سے افطار کے وقت منقول ہے : (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله)
تو یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
’’ اللقاء الشهري ‘‘ 8/ 25
المؤلف : محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ ( مرعاۃ المفاتیح ) میں لکھتے ہیں :
قوله: (إذا أفطر) من صومه (قال) أي بعد الإفطار (ذهب الظمأ) بفتحتين فهمز أي العطش أو شدته
یعنی یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘

افطار سے قبل بھی حسب موقع دعائیں شوق و اہتمام کریں ، پھر بسم اللہ پڑھ کر افطار کریں ،اور افطار کرنے کے بعد یہ دعا پڑھ لیں

« ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ »
پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا
(جیساکہ الفاظ احادیث بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ افطاری کے بعدہی پڑھی جائے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــلاَم عَلَيــــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS