Kya Shauhar apni Biwi ko Uske Maike me rahne ko kah sakta hai?
Kya Khawind apni Biwi ko Sasural me rakh sakta hai?
Sawal- Agar kisi Shadi Shuda Aurat ka Shauhar bagair kisi wajah ke use Apne Maa Baap ke pas Chhor de jabki Maa Baap Sehatmand aur Jawan ho , unki ek bahu aur Shadi Shuda Beta bhi Ghar me Maujood ho. Jabki Shauhar ke pas Wasail bhi Maujood ho apni Biwi ko sath rakhne ke liye, lekin wah Rishtedaron ke tano se bachne ke liye Apni Biwi ko Sasural me chhor dein jabki wah apni Biwi se Mohabbat ke Dawe bhi karta hai.
Islam iske bare me kya Kahta hai?
کیا شوہر اپنی بیوی کو اسکے میکے میں رکھ سکتا ہے؟
Umme Ayesha
السلام علیکم:
سوال - اگر کسی شادی شدہ عورت کا شوہر بلاوجہ اسے اپنے ماں باپ کے پاس چھوڑ دے جب کہ ماں باپ صحت مند اور جوان ہوں اور انکی ایک بہو اور شادی شدہ بیٹا بھی گھر پر موجود ہو۔ جب کہ شوہر کے پاس وسائل بھی موجود ہوں اپنی بیوی کو ساتھ رکھنے کے لئے۔ لیکن وہ رشتے داروں کے طعنوں سے بچنے کے لئے اپنی بیوی کو سسرال میں چھڑ دے جب کہ وہ بیوی سے محبت کے دعوے بھی کرتا ہے۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے ۔ جزاکِ اللہ
۔----------------------------------
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
بلاشبہ دنیاوی زندگی میں خواہشات کی بہتات ہے ، اور انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان مختلف انواع و اقسام کے طریقے استعمال کرتا ہے ، اس لیے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اس میں احتیاط سے کام لے۔
اللہ تعالیٰ نے بیوی اور اولاد کے بارے میں مرد پر بہت ہی اہم ذمہ داری ڈالی ہے اور ان کے نان نفقہ اور حفاظت و تربیت کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ ومَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، -قَالَ: وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ: وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ- وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"
"تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہو گا ۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا اور تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔
( بخاری 893۔کتاب الجمعہ باب الجمعہ فی القری والمدن مسلم 1829۔کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل و عقوبۃ الجائز والحث علی الرفق بالرعیہ ترمذی 1705کتاب الجہاد باب ماجاء فی الامام نسائی فی السنن الکبری 9173/5۔عبدالرزاق 20649الادب المفرد للبخاری 214 ،بیہقی 287/6)
مسلمان خاوند کو جائز نہیں کہ وہ صرف دنیا کمانے کے لیے ہی زندگی بسر کرے اور اس حد تک اپنے کام کو ترجیح دے کہ بیوی کے حقوق ہی بھلا بیٹھے ۔
اگر چہ مال کی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے لہٰذا اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لیے بھی وقت نکال سکے اور ان کا خیال اور تربیت کر سکے۔
: صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی کو اپنے سے دور کر دینا جبکہ وہ قربت کے وسائل بھی رکھتا ہے نہایت غلط ہے ۔
اگر شادی کے بعد گھر سے دور رہنے میں بیوی کی حق تلفی ہوتی ہو یا اس کی عزت و ناموس اور اس کی حفاظت کا انتظام نہ ہو، یا شوہر کے دور ہونے کی وجہ سے اس کے گناہ اور فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے بیوی کو ایسی حالت میں تنہا چھوڑ کر شہر سے دور ملازمت کرنا درست نہیں ہے، اور اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو پھر شہر سے دور ملازمت کرنا جائز ہے، لیکن اس صورت میں بیوی کی رضامندی کے بغیر چار مہینہ سے زیادہ گھر سے دور رہنا درست نہیں ہے، اس میں بیوی کی حق تلفی ہے
ھٰذا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment