Kya Shauhar Apni Biwi ko uske Maike ya Behan ke Ghar jane se Rok sakta hai?
Rehman Ali
Sawal: Agar Shauhar apni Biwi par pabandi Lagaye ke wah apni Behan ke Ghar raat nahi Gujar sakti , kya yah Pabandi Sharan Jayez hai?
Kya Aurat ka apne Shauhar ke Bagair apni Behan aur Bahnoi ki Maujudgi me Bagair kisi Majburi ke un ke Ghar Rat gujarna Munasib hai?
السلام عليكم
اگر شوھر اپنی بیوی پر پابندی لگائے کہ وہ اپنی بہن کے گھر رات نہیں گذار سکتی کیا یہ پابندی شرعاً جائز ھے۔
کیا عورت کا اپنے شوھر کے بغیر اپنی بہن اور بہنوئی کی موجودگی میں بغیر کسی مجبوری کے ان کے گھر رات گذارنا مناسب ھے ؟
رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ
۔--------------------------------
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
: مسز انصاری
جی ہاں شرعًا یہ جائز ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کی بہن کے گھر رات گزارنے سے روک دے ، بلکہ ماں باپ کے گھر سے بھی روکنے کا شوہر کو شرعًا حق حاصل ہے ۔ وہ اس لیے کیونکہ مرد کی اطاعت عورت پر واجب ہے ، اور اس لیے کہ مرد کو عورت پر زیادہ فضیلت حاصل ہے ، گو کہ عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد کے عورت پر حقوق زیادہ رکھے ہیں ، لیکن مردوں کو عورتوں پر بلند مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ ۚ وَلِلرِّجالِ عَلَيهِنَّ دَرَجَةٌ
﴿سورة البقرة/ ٢٢٨﴾
اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں معروف طریقے پر ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہے ۔
مرد عورتوں پر قوام ہیں ، کیونکہ مرد اپنے اہل و عیال پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے رہنما ہوتے ہیں ،
جس طرح حکمران اپنی رعایا پر حکمرانی کرتے ہیں اسی طرح مرد کی اپنے اہل و عیال پر حاکمیت ہوتی ہے اور حاکم کا حکم ماننا واجب ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے بھی نوازا ہے ، اور اس پر مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَموٰلِهِم ۚ
﴿سورة النساء/ ٣٤﴾
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں .
بلا شبہ خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ، بلکہ شافعیہ اورحنابلہ کے مطابق عورت اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ، اور خاوند کو اسے روکنے اور منع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے ۔ اس لیے کیونکہ خاوند کی اطاعت بیوی پر واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔
بیوی پر اس کے شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اس شخص کو داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے ۔ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے )
[ صحیح البخاری حدیث : ۴٨٩٩/ صحیح المسلم حدیث : ١٠٢٦ ]
لہٰذا اے سائل بھائی ، خوب جان لیجیے کہ عورت اپنے شوہر کے حکم سے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانے سے رک جائے گی ، ہر اس حکم کو ماننا اس پر واجب ہوگا جس میں معصیت کا حکم نا دیا گیا ہو ۔جب اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے اس کے شوہر کی فرمانبرداری اس کے والدین کی فرمانبرداری پر مقدم کر دی تو اب شوہر کی اطاعت سے سرکشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اگر عورت شوہر کی حکم عدولی کرے گی تو وہ گناہ کا کام کرے گی ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہے کہ وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی.
(صحيح الجامع : ٧٧٢۵)
فقط اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment