find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Aalim-E-Deen Apne Gunaho ko ya Galatiyo ko Alim hone Ki wazah se Jayez sabit nahi kar sakte hai.

Aalim-E-Deen apne Gunaho ko Deendari ke liye jayez nahi kar sakta hai?

Aam taur par Dekha jata hai ke Koi aam Musalman Koi Galati karta hai ya Gunah kar leta hai to har koi Use Lanat malamat karta hai, Usko Charo taraf se tanqeed ka nishana Banaya jata hai, log Gali Muhalle ke Chaurahe (Corner) par Usko Zaleel O Ruswa karte hai ke isne yah Galat kiya wagairah..... Magar wahi Koi Deendar Shakhs, Aalim-E-Deen, Hafij, Qari, Imam, Maulavi ya Deen ki khidmat karne wala Koi Gunah karta hai to logo ki jubane kam karna band kar deti hai, uske Sahab-E-ilm aur Deendari ki wazah se uske Gunaho ko jayez sabit karne lagte hai. Yah kaisa deen hai jo Aam o khas ke liye alag alag Qayde kanun banaya gaya hai?
Koi Bhi Shakhs agar Gumah karta hai to Uska Social Boycott karke Usse yah ehsas Dilaya jata hai ke tum mujhme se nahi ho , tum hamse Alag raho, kya yah islah ka tarika hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کسی دیندار کی دینداری اس کے گناہ کو جائز نہیں کردیتی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

اگر آپ صاحبِ علم دین ہیں اور کسی خلافِ شرع کام کو آزادانہ انجام دیں تو اپنی صفائی میں آپ اپنی قابلیت کی سندیں پیش نہیں کر سکتے کہ جناب میں تو حافظ ہوں قاری ہوں امام ہوں یا دین کا خدمتگار ہوں ، اگر آپ یہ سب ہیں تو پھر جان لیجیے کہ آپ اللہ کے ہاں بھی عام لوگوں سے زیادہ قابل گرفت ہیں ، دینی مدارس عالمیت  و فاضلیت کی سندیں گناہوں پر جواز کے دلائل کے طور پر نہیں دیتے بلکہ گناہوں کے سد باب کے لیے دیتے ہیں ، کسی دین شناس شخص کے عیوب دینی قابلیت کے پردوں میں نہیں چھپائے جاسکتے، اور نا ہی کوئی داعیِ دین غیر شرعئی یا ایسا کام جو دین میں معیوب ہو اور لوگوں کے نزدیک کراہیت پر مبنی ہو اس کے ارتکاب پر اپنی صفائی کے لیے دینی خدمات کو آڑ بنا سکتا ہے، مومن گناہوں سے نفرت کرتا ہے، ایمان والے گناہ سرزد ہوجانے پر انا کا جھنڈا بلند نہیں کرتے اور نا ہی اپنی دستار کو بچانے کی فکر میں حیلے بہانوں اور فنکاریوں سے کام لیتے ہیں، بلکہ جب مومن نادانستگی میں برا کام کر بیٹھے تو وہ اسلاف کی عالی فکر کا ثبوت دیتے ہوئے تائب ہوتا ہے ، وہ نا صرف اللہ سے توبہ کرتا ہے بلکہ اس کے بندوں سے بھی معذرت خواہ ہوتا ہے ۔
دراصل ایسے ہی ایمان والے رحمٰن کے بندے ہیں .

اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جس میں ایمان کا ادنیٰ سا بھی شائبہ ہو منکسرالمزاج اور تواضع کا حامل بنائے ۔۔۔۔۔۔ آمین یارب العالمین

Share:

Islamic Parda: Yah Modern Fashion Aazadi hai ya Barbadi? Part 1

Yah Modern Fashion Aazadi hai ya Barbadi?

Allah ka Deen aaj Musalman Auraton ke liye itna Mushkil Ho gaya hai ke Gairo ke Tahjib ko Apna Idol Samajhne lagi hai.

ھر اک کی طبعیت کے موافق نھیں ھوں میں

کڑوا ضرور ھوں, منافق نھیں ھوں میں..!.

یہ آزادی ہے یا بربادی✨✨

۔۔۔ قسط نمبر 1

حمنہ اپنی موبائل پر نظریں جمائے بیٹھی تھی اس میں ایک ویڈیو چل رہا تھی کہ برہنہ  عورت کا جسم ظاہرہو رہا تھا  ہم کیوں پردہ کریں مرد نظری جھکائیں حمنہ ایسے ویڈیوز شوق سے دیکھتی اور فیشن کرنے کی بہت سی ویڈیوز کپڑوں کی ڈیزائن کے ویڈیو سرچ کرکے دیکھتی رہتی تھی اور ایسے کپڑے اور بنانے کا شوق ہوتا جارہا تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ اداکارہ عائزہ ۔سجل ۔منشا  پاشا۔ فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ مائرہ خان کی  طرح فیشن ایبل بننا چاہتی تھی  لوگ اس کی بھی تعریفیں کریں اسے پسند کریں ۔۔۔وہ خوبصورت تو تھی اس میں قابلیت بھی تھی مگر پیسا نہیں تھا.

مگر لڑکیاں بھی زد کی پکی ہوتی ہیں نا ,, ٹھیک اسی طرح وہ بھی اپنی پسند کی ہر چیز  بھی خرید لیتی تھی کوئی باپ کی اسے فکر نہیں تھی کہ وہ کتنی مشکل سے پیسے کماتا ہوگا اسے اپنی ماں کی سپورٹ تھی اس کی ماں خود فیشن ایبل تھی   روز روز اس کی یہ خواہشات کا شوق بڑہتا جارہا تھا وہ آزادی چاہتی تھی وہ آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی.

وہ اپنی سوچ میں چہرے پر پریشانی میں بیٹھی تھی۔۔  تو اچانک کسی نے اسے پیچھے سے آواز دی کہ میڈم کون سے خیلات میں کھوئی ہوئی ہیں اس کی بیسٹ فرینڈ تھی فریحہ جو اس کا پریشان چہرہ دیکھ چکی تھی.
فریحہ ایک دیندار گھرانے سے تھی اور وہ مکمل پردہ کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب اسکی شادی تھی حمنہ مخاطب ہوئی زیادہ کجھ بھی نہیں تمھاری شادی کے بارے میں سوچ رہی ہوں کون سے کپڑے پہنوں کون سے بالوں کے اسٹائل بناؤں صبح سے ویڈیوز دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ یہ کیا بات ہے پریشان ہونے کی سب اللّٰه سبحان و تعالیٰ پر چھوڑ دو سب ٹھیک ہوجاۂے گا اور ہاں میری شادی پر مکمل لباس پہننا  میں نہیں چاہتی میری دوست کو  کوئی  بھی وحشت بھری گندی نگاہوں سے دیکھتے اور دوپٹہ لازمی پہننا ہے ۔۔۔

فریحہ نے اس کو اپنی پسند  بتاتے ہوئے کہا مگر حمنہ یہ سب سن کر غصے میں آگئی کہ پھر سے یہی فضول مولویوں والی باتیں شروع کردی  سوری لیکن میں ہمیشہ کی طرح اپنی چوائز پر تیار ہونگی.

وحشت کس بات کی اور مجھے طعنے طنز نہیں سننے لوگوں کے کہ سادہ مولیانی ٹائپ پاگل وغیرہ وغیرہ.

   فریحہ اس کی یہ بات سن کر کجھ حیران ہوئی اور اسے غصہ بھی آرہا تھا وہ ظبط کرتے نرم لہجے میں مخاطب ہوئی کہ اگر پردے کرنے پر لوگ طعنے دیتے ہیں تو فیشن کرنے دنیا کے ساتھ چلنے پر بھی کہتے ہیں کہ یہ لڑکیاں بے حیا ہوگئی ہیں دنیا آپ کو چالاک ماڈرن کہے تو آپ فخر کرینگی اپنے آپ پر ؟

پردہ کرنا قید اور فیشن اور آزادی کے خیالات کو آزادی کا نام دینا , قید فیشن اور اسلام کا حکم اپنے رب کا حکم قید لگتا ہے آپ کو ؟

یہ کیسی زندگی ہے سارا دن خود کو سنوارنے میں فیشن کرنے میں آئینہ کے سامنے خود کو دیکھ کر میک اپ کرکے خوشبو لگا کر آزاد گھومنا دقیانوسی اسلام کا پردہ نہیں آزادی ہے جس میں نجانے کتنی لڑکیوں کی عزت گئی ہے دراصل غیروں کے طور طریقوں پر چل کر فخر کرنا رب کو ناراض کرنا یہ زندگی نہیں بہت سارا آپ کا ٹائم ضائع ہوتا ہے مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ زندگی ہے خود کو سنوارنے سجانے میں اتنا ٹائم پیسے ضائع کرنا وہ بھی غیر محرم مردوں کیلئے ہر آتا جاتا آپ کو وحشت سے دیکھے اور کچھ حیا دار مرد آپ کو نفرت سے دیکھیں.

یہ ناہی عورت کی پہچان ہے نا ہی عورت کا مقام ہے اس راستے پر چل کر آپ اپنی دنیا و آخرت برباد کر رہی ہیں اپنی عزت کی حفاظت کریں اسے پہلے کہ کوئی دردندہ آپ کی عزت نوچ لے آپ کو ساری زندگی پچتاوا نا رھ جائے میں یہ باتیں دوست ہونے کی حیثیت سے آپ کو نہیں کھ رھی ہوں بلکہ آپ کو یہ باتیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے سمجھا رہی ہوں ۔۔

آپ نے ہمیشہ ماڈرن بننے کے خواب دیکھے ہمیشہ یہی خواہش رکھی جس میں بربادی ہے آپ اپنے ذہن میں کبھی اسلام کی شہزادی بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھتی ہیں آپ اپنی امی عائشہ رضہ اللّٰہ تعالٰی عنہا کی زندگی پر امی سؤدہ رضہ اللّٰہ تعالٰی عنہا کی زندگی مبارکہ پر چلنے کے خواب کیوں نہیں بسائے.

اپنے دل میں ہمارا دین اسلام بہت سی قربانیوں سے ہمیں ملا ہے اس کی قدر کیوں نہیں کرتے پھر ہم ؟

روز محشر اگر سوال کیا امی فاطمہ الزہراء رضہ اللّٰہ تعالٰی عنہا نے کہ کیا میرا بابا کا دین اتنا مشکل تھا کہ آپ پردہ بھی نا کرسکی آپ اسکو اپنے دل تک میں نا رکھ سکی غیروں کا دین دل میں تو رکھا میرے دین کے عمل کو قید دقیانوسی مشکل کا نام دے دیا کیا میری ازواج مطہرات نے پردہ نہیں کیا اپنی شرم گاہوں کی حفاظت نہیں کی انہوں نے کبھی دین کو مشکل کہا کبھی پردے کو قید کہا نہیں نا ....

✨جاری ھےاگلی قست نیکسٹ پوسٹ میں ✨✨

منقول

Share:

Dikhawe ke liye Nek Kam karna ya Kisi Par Ehsan karna kaisa hai, Riyakari aur Digital Musalman.

Kisi Par ehsaan Kar ke Logo me shor machane wala kaisa hai?
Nek Kam karke duniya ko dikhane wale shakhs ki mishaal....

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

اپنے صدقات کو اپنے ہاتھوں سے آگ نا لگائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

کسی پر احسان کرنا، اس کی تکلیف دور کرنا صدقہ ہے، اور صدقات کو جتا کر اور احسان کو باور کراکر نیکی کا زعم رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے، یہ نیکی نہیں ہے ، جن نیک کاموں اور احسانوں کو آپ بقصد ریاکاری کے کریں گے وہ اسی ریت کی مانند ہے جسے ہتھیلی پر رکھ کر پھونک ماردی جائے اور آپ اس کے اجر کو نا پاسکیں، اور احسان جتانا ریاکاری ہی کا ثبوت ہے، یہ کہ آپ تکلیف زدہ کو اپنی نیکی جتارہے ہیں اور اپنے احسان کو باور کرارہے ہیں، پس ایسی نیکیوں اور صدقات کو اسی طرح آگ لگ جاتی ہے جس طرح برسوں کی محنت سے پھلدار باغ تیار کیا جائے اور اسے آگ لگ جائے ، تب آپ کے ہاتھ میں کچھ نا آئے

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ[البقرہ]

کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند آتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگور کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوںاسے اس باغ میں ہر طرح کے میوے حاصل ہوںاور اس پر بڑھاپا آگیا ہو اور اس کی اولاد کمزور ہو تب اس باغ پر ایک بگولا آپڑے جس میں آگ ہو جو باغ کو جلا ڈالے الله تعالی تم کو اسی طرح اپنی آیات سمجھاتا ہے تاکہ تم غور کرو ۔

اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف دے کر کرنے والا اپنے ہاتھ سے اپنے اجر کو آگ میں جھونک دیتا ہے ۔ نیکی کرکے اسے جتلانا اور احسان دھرنا مَنّ کہلاتا ہے، اور اللہ اسے پسند نہیں فرماتا کہ تم اسی کے مال سے اسی کے بندوں پر صدقات و احسان کرو اور یوں اسے جتاؤ کہ اس کے دل میں دکھ اور رنج پیدا ہو، کیونکہ کسی مصیبت زدہ کا حق آپ پر یہ ہے کہ آپ کی مدد اور احسان سے اسے فائدہ اور راحت پہنچے  ، اور نیکی کر کے جتانے میں اس کی حق تلفی ہے ۔اگر الله کی راہ میں کچھ دے کر ضرورتمند پر احسان دھرتے ہو یا اسے تکلیف پہنچاتے ہو تو آپ کادیا ہوا سب بے کار ہے ۔ اس کا آپ کو کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا ۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰىۙ كَالَّذِىْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۤءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِۗ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۗ لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْـكٰفِرِيْنَ [البقرہ آية ۲۶۴ ]

اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذاء پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے (١) ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی نیتوں کے اخلاص کو قائم و دائم رکھے، تاکہ ہماری نیکیوں کو ہماری بدنیتیں ضائع نا کر دیں ۔۔۔۔۔ آمین یارب العالمین

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Kya Namo ka Asar Sehat aur Shakhsiyat (Personality) par padta hai, Baccho ko Sham ke waqt ghar me kyu rakhna chahiye?

Kya Namo ka asar Shakhsiyat par padta hai?

Kaise kaise Nam Allah ko bilkul pasand nahi.
Baccho ko Sham ke waqt ghar se bahar kyu nahi nikalna chahiye?

Sardar Abbas Sajid

Assalam o alaikum!
Mera ik 4 sal ka beta hy us ko aksar koi na koi masla ho jata hy kabi bemar ho jata hy aur ziada tar gir jata hy jis ki wja sy us ko kafi zakham b aa jaty han. Mjy kafi logon ny us ka name change karny ka mshwara dia hy ta k wo theak rahy. Mehrbani farma kr rehnumai farma dain k mera ye amal Quran o sunnat ki roshni main sahe ho ga k nai.
Jazak Allah. 

۔┄┅═════════════┅┄

بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَعَلَيــْـــكُم السَّــــــلاَم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

✍ تحریر: مسزانصاری

بچے کے نام رکھنے سے متعلق کچھ غلط العوام باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ، جیسے بچہ کی صحت و عادات پر عدم اطمینان والدین کو اس کا نام تبدیل کرنے پر رغبت دلاتا ہے ، نیز لوگ ناموں کے معنی کو شخصیت پر اثر انداز سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ نام بچے کو بلندی اور شہرت دیں گے ، اسی طرح کسی بچے کی موت پر اگلے بچے کا نام فوت شدہ بچے کے نام پر رکھنے سے گریز کیا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ زندہ بچہ موت کے منہ میں جا سکتا ہے ۔

ان خیالات کے پیش نظر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اچھے نام بلا شبہ قیمتی جوہر ہیں ، نیز نام تبدیل کرکے اچھا نام رکھنا بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، تاہم اس کا شخصیت و کردار پر اثر انداز ہونا کوئی یقینی اور حتمی بات نہیں ہے ۔ نام کا اثر بچے کی شخصیت پر ہونا اللہ کی قدرت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا ۔

نام کے بارے میں نبوی ﷺ حکم صرف اتنا ہے کہ نام اگر برا ہو تو اسے بدل دینا چاہئے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کا طریقہ یہ تھا کہ) برے نام کو بدل دیا کرتے تھے۔
(ترمذی، الادب، ما جاء فی تغییر الاسمائح، 2839)

سیدنا ابو درداء فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:

"إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم"(ابو داود:)

تمہیں قیامت کے دن تمہارے اور تمہارے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا، لہذا تم اپنے نام اچھے اچھے رکھا کرو۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نام بدلنے کی وجہ انسان کی صحت و عافیت یا معاشرے میں اسکے رتبے اور بزرگی سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ نام بدلنے کی وجہ انکا غیر شرعئی ہونا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

(تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ ، وَأَحَبُّ الأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ ، وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ)

"تم انبیاء کے ناموں جیسے نام رکھو۔ اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ سب سے سچے نام حارث (محنت کار/کاشت کار) اور ہمام (سردار) ہیں۔ اور بدترین نام حرب (جنگ/لڑائی) اور مرہ (سختی/کڑواہٹ) ہیں۔"

(ابوداؤد، الادب، فی تغییر الاسماء، ح: 4990، اس میں عقیل بن شبیب مجہول راوی ہے تاہم یہ حدیث معنی کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے: (ان احب اسماءكم الى الله عبدالله و عبدالرحمٰن) (مسلم، الادب، النھی عن الکتنی بابی القاسم ۔۔ح: 2132)

کچھ ناموں سے بچنا ہمیں حکم دیا گیا ہے ، ان ناموں سے مراد ایسے نام ہیں جن میں عقائد بد اور غیر شرعئی نظریات شامل ہوں جو عقیدہ خالص کو مجروح کر رہے ہوں جیسے ، نبی بخش ، عبدالنبی اور عبدالرسول وغیرہ ۔ اور ایسے ناموں سے بھی بچنا چاہیے جو فخر و غرور اور بڑائی کا اظہار کرتے ہیں ، جیسے ملک الاملاک یا شہنشاہ وغیرہ ، یہ نام بدترین ناموں میں شمار کیے جاتے ہیں.

لہٰذا اے سائل بھائی ، بیماریاں ناموں کی وجہ سے نہیں آتیں ۔ ناموں کا اثر انسان کے مزاج اور صحت و عافیت پر نہیں ہوتا بلکہ نا پسندیدہ حالات سے دوچار ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے ، لوگوں کا ناموں کو بیماریوں کا مئوجب ٹہیرانا نہایت بد عقیدگی ہے ، شاید انسان جب نام پر گمان لگا دیتا ہے تو اللہ بھی اسے آزمائش کی خاطر اس طرف ہی لگا دیتا ہے ، اس لیے ایسے خیالات سے بچیے ،  نام بدلنا بچے کے امراض کا حل نہیں ہے ، بہترین بات یہ ہے کہ آپ بچے پر مسنون اذکار کا دم کرتے رہیے ، بچے معصوم ہوتے ہیں اور جلد شیطان کے شکنجے میں آجاتے ہیں ، یہ ہم والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جب تک بچہ مکلف نہیں ہوجاتا اور سن بلوغت کو نہیں پہنچ جاتا اس کے بارے میں احتیاط لازم رکھیں ، جیسے مغرب کے وقت بچے کو باہر نکلنے سے روکیے ، مغرب کے وقت شیاطین زمین پر پھیل جاتے ہیں اور گھروں سے باہر آوارہ پھرنے والے بچوں کو طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کر دیتے ہیں ، صبح شام اذکار مسنونہ بچے پر پڑھیے ، گھر میں ہر روز یا ہر تین روز سے سورہ البقرہ کی تلاوت کیجیے ، بچہ اگر بول سکتا ہے تو اسے مختصر اذکار سکھا دیجیے ، جیسے کھانے سے پہلے بسم اللہ سونے سے پہلے دعا وغیرہ ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے بچے پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائے ، اللہ تعالیٰ آپکے بچے کو تمام شیاطین جن و انس کے شرور سے محفوظ فرمائے ، اللہ تعالیٰ آپکے بچے کو تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں سے دائمی شفاء عطا فرمائے ۔

اللهم آمين آمين يارب انت الحي الذي لا يموت أبداً
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ
وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

Logo ke andar Na Shukri ka riwaz badhta ja raha hai, Kahin aap ki khamoshi aap ko Ehsan Faramosh na bana de?

Logo me Na Shukri ka riwaaz badhta ja raha hain?
Logo ke darmiyan Apasi mamlat me Shukriya ada Karne ka Riwaaz khatam ho raha hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

لوگوں کے درمیان باہمی معاملات میں شکریہ ادا کرنے کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️ : مسز انصاری

باہمی محبت و اخلاص اور باہمی احسانوں کا تبادلہ اور باہمی اعانت سدا سلامت رہیں ، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے ساتھ کیے گئے لوگوں کے اچھے کام اور لوگوں کے ساتھ کیے گئے آپ کے اچھے جاری رہیں، لیکن احسانوں کے اس تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ جب کوئی آپ کے ساتھ احسان کرے تو گرمجوشی سے اس کا شکریہ ادا کیجیے اور کچھ قیمتی دعاؤں کے ساتھ اسے سراہیں، تاکہ اسے خوشی اور حوصلہ افزائی ہو اور وہ معاونت کے اس نیک کام کو مزید حوصلہ اور اخلاص سے جاری رکھے ۔

اگر آپ کے ساتھ کوئی احسان کرے، تو اس کے احسان سے فائدہ اٹھا کر اس شخص سے لاتعلق نا ہو جائیں کہ آپ کی خاموشی آپ کو احسان فراموش اور خود غرض ثابت کردے، بلکہ یہاں تک کیجیے کہ اگر آپ کو اس شخص کے احسان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نا بھی پہنچے تب بھی خوشی اور احسانمندی سے اس کا شکریہ ادا کیجیے، یوں ظاہر کیجیے کہ جیسے آپ کو اس شخص کے اچھے کام سے فائدہ پہنچا ہے ۔

پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ لاَّ یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرِ اللّٰہَ۔
[صحیح سنن الترمذي، رقم : ۱۹۵۲ ]
’’ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ ‘‘

یاد رکھیے کہ شکر ادا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{فَاذْکُرُوْنِیْٓ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o}
[البقرۃ: ۱۵۲]
’’ اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ ‘‘

Share:

Valentine Day Ya Haya Day 14 February ko kya Celebrate karna hai aap ko? Europe ka Valentine Day aur Pakistan ka Haya Day?

Europe ka "Valentine Day" Aur Pakistan ka "Haya Day"

Aap 14 February ko kya manana Chahate hai? Valetine Day Ya Haya?
1 Aprill Ko Fool Day manana kaisa hai?

New Year Celebrate karna aur Cake katna kaisa hai?

Valentine Day aur Dukandaro ke nam ek paigham.

Europe ka Cultural Dron Musalmano par.

Valentine Day Musalmano ko manana Chahiye ya nahi?

14 February aur Hamari maan behan betiyo ki Izzat aur Hamari Gairat.

Kya hua tha 14 February ko? History in English.

Quran O Sunnat ki Raushani me 14 February ki hakikat.

Valentine Day 14 February ko kyu manaya jata hai?

Kya Koi Musalamaan Valentine Day mana Sakta hai?


ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کیا ہے

  پاکستان  میں یومِ حیا کی بنیاد کس نے رکھی ؟

جانئے پھولوں  کے دن کہلانے والے 14 فروری سے متعلق وہ تمام باتیں جو شاید آپ کو معلوم نہیں.

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ویلنٹائن ڈے اور ”یوم حیا“ ایک ساتھ منائے جاتے ہیں ۔

ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کرے گا تو وہیں پر ملک میں ایک بڑا طبقہ ’’یوم حیا ‘‘ کے عنوان سے حجاب ، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرتے ہیں.

ویلنٹائن ڈے کیلئے نوجوان نسل کی تیاریاں عروج پر ھوتی  ہیں ، محبت کے اظہار کے لیے تحائف، پھولوں ،کیک اور کارڈز کی خریداری زوروں پر  ھوتی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اسی دن کے چرچے ھو رھے ھوتے ہیں۔

میں آپ کو تھوڑی سی دونوں کی تاریخ بتا دوں ۔

ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700  سال قبل ہوئی تھی ۔
اہلِ روم میں 14 فروری ’یونو دیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا جسے ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی ‘سمجھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ  ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نےخفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کر دیا ، آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز ’’رومن سینٹ ویلنٹائن‘‘ کی مناسبت سے ہوا جسے ’’محبت کا دیوتا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا ،  قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی ، سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’’تمہارا ویلنٹائن‘‘۔ اسی کی یاد میں لوگوں  نے 14 فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کردیا۔

مغرب میں مدتوں سے 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
بالخصوص سوشل میڈیا کے باعث اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان واقف ہوچکا ہے۔ پاکستان میں جب ویلنٹائن ڈے کی روایت عروج پر پہنچی تو مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اسے یوم حیا کے طور پر منانا شروع کردیا ۔

اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے، پاکستان میں پہلی  مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ  9 فروری 2009ءکو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا ۔
ویلنٹائن کے مقابے میں اس روز   کو ’’یوم حیا ‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا ،انہوں نے 9 فروری کو اعلان کیا  کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14 فروری 2009 کو  ویلنٹائن کی بجائے ’’یوم حیا ‘‘ منایا جائے گا ۔

اگلے سال  جب قیصر شریف اسلامی جمعیت  طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا ‘‘ کو 14 فروری 2010 کے روز پورے صوبے میں جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور  پھر 2011ءمیں پورے پاکستان میں ٰ’’ یوم حیا‘‘  منایا گیا۔

اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ ’’یوم حیا ‘‘ کے بانی قیصر شریف ہیں جو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں.

اپنے آپ کو لبرل ،سیکولر اور آزاد خیال  سمجھنے والے لوگ  ”یوم محبت“ منائیں گے تو مذہبی سوچ کے حامل افراد اسے ”یوم حیا“ کے طور پر منائیں گے فیصلہ تو دل سے کرنا ہے کہ کس صف میں شامل ہونا ہے۔

میری دعا ھے کہ اللہ تعالیٰ ھم سب کو اسلامی اصولوں پر اپنی زندگیاں گزار نے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔
امین ثمہ امین یا رب العالمین

Share:

Islam 360 Application Gumrahiyo ka Majmu, Daur-E-Jadeed ka fitna.

Islam ke Nam par Failaye ja rahe Jhoothi Hadees.

*Islam360 Nami Application Gumraahiyon Ka Majmua'*

Urdu me padhne ke liye Yahan Click kare. 

اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے

Aaj Kal aam taur par log apni dawat waghaira ka aaghaz Kitab wa Sunnat se karte hain, shuru mein khalis Salafiyyat aur Ahle Hadeesiyat ke naam par apna parchar karte hain, Ahle Hadees ke bade Ulama e Keram ka taqarrub hasil karte hain, apne kaam ko aalami aur world level ka bata kar un ulama ka aitemad hasil karte hain, un se apne kaam ke liye tazkiyyah hasil karte hain, Ahle Hadees awaam apne Ulama e Keram ki naseehat par chalte huye aise logon ki  dawat ya application par aitemad kar lete hain aur us se istefadah karne lagte hain, lekin aise log bahut zyada der Salafi Manhaj par qayam nahi reh paate, kyunki Salafiyyat Nabi e Kareem Sallallahu Alayhi Wasallam ke nahaj par galat ko galat bolna aur us se dur rehna aur saheeh ko saheeh bolna aur us ka saath dene ka naam hai, apni khwahishon ke khilaf chalne ka naam hai, lekin is qism ke logon ko jab Ulama e Ahle Hadees ke tazkiyye ki buniyad par shohrat aur pazeerayi mil jaati hai toh yeh deobandi, barelwi, jama'at e Islami, munkireen e hadees waghaira se ittehad ke naam par haath mila lete hain, phir Salafiyyat ke naam par barelwi, munkireen e hadees, deobandi aur jama'at e Islami ke afkaar ko Ahle Hadees awaam ke darmiyan nashr karne lagte hain, jab unhein toka jata hai toh kehte hain: humara kaam har aalim ki baat ko awaam ke saamne rakh dena hai, log khud hi galat aur saheeh ki pehchaan kar lenge, yeh toh wohi baat huyi ke ek shakhs ne sone ki dukaan khol rakhi hai jis mein asli sona, jaali sona aur thode se peetal ka karobar chalate hain, bas mushkil yeh hai ke woh dono qism ke sona aur peetal ko ek saath mila kar logon ke saamne rakh dete hain, ab log usey sona hi samajh kar us ka bhao karte hain, jab koi un par aiteraaz karta hai ke bhai aisa lag raha hai ke is mein milawat hai, toh is qism ke dukaan daar kehte hain ke bhai jo asli sona hai woh le lo aur jo naqli sona ya peetal hai usey chhodh do, ab bechara kharidar is shash o panj mein mubtala hai ke mujhe jab asli sone ki parakh nahi toh main jaali sona aur peetal ki pehchaan kaise karoon?

Is qism ka na'ara laga kar Salafiyon ko Ahle Bid'at ki kitab padhne aur un ki taqreerein sunne ki targheeb dena bilkul waise hi jaise koi shahad mein zeher mila kar de aur kahe ke Allah Rabbul Aalameen ne shahad mein shifa rakhi hai, tum ko shahad se matlab hona chahiye zeher se nahin....

Islam360 nami application walon ne bhi apne application ki shuruwat Ahle Hadeesiyat ke naam par ki, Ulama e Ahle Hadees se apne application ke liye tazkiyyah ikhaththa karke Ahle Hadees awaam ko samjhane mein kamiyab ho gaye ke Ulama e Ahle Hadees ne hum par aitemad kar liya hai is liye aap awaam ko bhi aitemad karna chahiye, jab Ahle Hadees awaam is application se faidah uthane lagi toh is application ki intezaamiya ne application ka poora format hi change karke rakh diya, dheere dheere Ulama e Ahle Hadees ki tafseer ko nikalna shuru kiya aur un ki jagah:
*Sahaba e Keram ko gali dene wala munkir e sunnat engineer Ali mirza jehlami rafzi ki tafseer ko rakh diya*

*Shirk wa qabr parasti ko farogh dene wale tahir ul qadri ka tarjuma e Qur'aan bhi is application mein maujood hai*
Deobandi Ulama, neej maulana maudoodi, maulana waheeduddin Khan, maulana ameen ahsan islahi, nouman Ali khan aur in jaise deegar Ahle Bid'at aur munkireen e Sunnat ki tafaseer ko is application mein jagah de di gayi hai, yani Ahle Hadeesiyat ke naam par Rafziyat, Kharjiyat, Aitejaal, Ash'ariyat, Wahdatul wujood, inkaar e Sunnat, qabr parasti aur Shirk wa Bid'at ko khule aam farogh diya ja raha hai, balki is qism ke Ahle Bid'at se Ahle Hadees awaam ka rabta joda ja raha hai.....

Hind wa Pak ke kibar Ahle Hadees Ulama e Keram se moaddabana guzarish hai ke is fitney ki khabar lein, kyunki yaumiya is application par 5 lakh log jaate hain, yani itni kaseer ta'adad ko rozana ke hisab se Shirk wa Bid'at aur Rafz wa inkaar e Sunnat ka zeher dheere dheere diya jata hai, itne bade paimane par zalalat wa gumrahi ka karobar chal raha hai, agar waqt rehte is fitney ka tadaruk nahin kiya gaya toh khatra hai ke Ahle Hadees awaam un ke fitney mein mubtala ho jaye.

Muhtaram qarieen: Mufazzal bin Muhalhal farmate hain ke: agar kisi bid'ati ki majlis mein baithoge toh woh shuru se hi apni Bid'at ko bayan nahi karega, kyunki agar woh Bid'at se hi majlis ki shuruwat karega toh tum un ki majlis se uth kar chale jaoge, is liye woh majlis ki ibtida' un Ahadees se karta hai jo azmat e Sunnat par dalalat karti ho, phir us ke baad dauran e guftagu apni Bid'at ko qadre chalaki se pesh karega, agar woh Bid'at Sunnat ke naam par tumhare dil mein jagah bana le toh phir kaise bahir niklegi?

[Al-ibaanah li ibn Battah (Safa 140, Raqam al-Athar 394)]

Misaal ke taur par maulana maudoodi ki kitab "Khilafat wa Mulookiyat" ko le Lein, shuru ke safahat Qur'aani Ayat aur us ke tarjume se muzayyan hain, Ahadeeson ka anbaar hai, lekin baad mein ja kar unhone jo gul khilaya hai woh kisi sahib e aql wa khurd par posidah nahi hai, khas taur se jinhone unki is kitab ka muta'ala kiya hai.

Shaykh ibn Uthaymeen Rahimahullah farmate hain ke: Ahle Bid'at ki kitabon se dur rehna chahiye, kahin aisa na ho ke is kitab ke muta'ale ki wajah se fitnah mein mubtala ho jaye, aur bid'atiyon ke kitabon ki logon ke darmiyan tarweej wa isha'at bhi na ki jaye, un ki kitabon mein gumrahi hoti hai aur gumrahi ki jagahon se dur rehna wajib hai jaisa ke Nabi Sallallahu Alayhi Wasallam ne dajjal ke baare mein batate huye farmaya:

((من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات))
رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح

Mafhoom e Hadees: Jo dajjal ke aane ki khabar sune woh us se dur rahe, us ke qareeb na jaye, Allah ki qasam ek aadmi apne aap ko momin samjhega aur us ke paas muqabla karne ke liye jayega, lekin dajjal us ko apne shubuhaat mein aisa uljahyega ke woh usi ki pairokar ban kar reh jayega.

[Majmoo' Fatawa wa Rasail Fazilat Ash-Shaykh Muhammad bin Saalih al-Uthaymeen Rahimahullah (5/89)]

Is liye jin kitabon mein Bid'at wa zalalat hai, us se dur rehna chahiye, kahin aisa na ho ke koi apne aap ko bada daqqaq samajh kar un kitabon ka muta'ala karna shuru kare aur kahe ke main toh خز ما صفا ودع ماكدر par amal karoonga, aur baad mein pata chale ke woh is fikr se aisa mutassir huwa ke khud us ko bhi pata nahi chala.

Khulasa e kalam yeh ke: Islam360 nami application zalalat wa gumrahi ka majmua' hai, apne imaan wa  aqeedah ki hifazat ke liye is se duri ikhtiyaar karein, apne apne ilaqey ke Ahle Hadees Ulama e Keram se rabte mein rahein, kisi application ya site ki baat par us waqt tak yaqeen na karein jab tak Ahle Hadees Ulama se us ke talluq se poochh kar mutmayeen na ho jayein, yeh aap ke Deen wa imaan aur aqeedah wa manhaj ka mas'ala hai, is ki hifazat ke liye pehrah dena aap ka kaam hai, aap ki thodi si ghaflat aap ke aqeedah wa imaan ke fasad ka ba'is ho sakti hai, is liye khud bhi is se bachein aur apne azeez wa aqarib ko bhi is se bachane ki koshish karein.

Wallahu Aalam bis-Sawab

Abu Ahmed Kalimuddin Yusuf
Jamiah Islamiyyah Madinah Munawwarah

Roman Urdu: Abu Aaminah Abdullah

Share:

Islam 360 Application Ahlehadees (Salafi) manhaz Ko badalne ka App.

Islam 360 Nam ka Application Gum rahiyo ka Mazmuaa.

Ahle hadees aur Kitab o Sunnat ke nam par Salafi bhaiyo ko Dhoka dene ki Sajish.
Islam 360 Application ka pardafash.

Roman Urdu Me yahan se padhe. 


اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے

السلام علیکم
کاپی

*اسلام 360 نامی ایپلیکیشن گمراہیوں کا مجموعہ*.

آج کل عام طور پر لوگ اپنی دعوت وغیرہ کا آغاز کتاب و سنت سے کرتے ہیں، شروع میں خالص سلفیت اور اہل حدیثیت کے نام پر اپنا پرچار کرتے ہیں، اہل حدیث کے بڑے علمائے کرام کا تقرب حاصل کرتے ہیں، اپنے کام کو عالمی اور ورلڈ لیول کا بتا کر ان علما کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، ان سے اپنے کام کیلئے تزکیہ حاصل کرتے ہیں، اہل حدیث عوام اپنے علمائے کرام کی نصیحت پر چلتے ہوئے ایسے لوگوں کی دعوت یا ایپلیکیشن پر اعتماد کرلیتے ہیں اور اس سے استفادہ کرنے لگتے ہیں، لیکن ایسے لوگ بہت زیادہ دیر سلفی منہج پر قائم نہیں رہ پاتے، کیونکہ سلفیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نہج پر غلط کو غلط بولنا اور اس سے دور رہنا اور صحیح کو صحیح بولنا اور اس کا ساتھ دینے کا نام ہے، اپنی خواہشوں کے خلاف چلنے کا نام ہے، لیکن اس قسم کے لوگوں کو جب علمائے اہل حدیث کے تزکیہ کے بنیاد پر شہرت اور پذیرائی مل جاتی ہے تو یہ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، منکرین حدیث وغیرہ سے اتحاد کے نام پر ہاتھ ملا لیتے ہیں، پھر سلفیت کے نام پر بریلوی، منکرین حدیث، دیوبندی اور جماعت اسلامی کے افکار کو اہل حدیث عوام کے درمیان نشر کرنے لگتے ہیں،

جب انہیں ٹوکا جاتا ہے تو کہتے ہیں: ہمارا کام ہر عالم کی بات کو عوام کے سامنے رکھ دینا ہے، لوگ خود ہی غلط اور صحیح کی پہچان کر لیں گے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک شخص نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے  سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، جب کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو اس قسم کے دوکاندار کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی  سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟

اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں...

اسلام 360 نامی ایپلیکیشن والوں نے بھی اپنے اپلیکیشن کی شروعات اہل حدیثیت کے نام پر کی، علمائے اہل حدیث سے اپنے اپلیکیشن کیلئے تزکیہ اکٹھا کرکے اہل حدیث عوام کو سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ علمائے اہل حدیث نے ہم پر اعتماد کر لیا ہے اس لئے آپ عوام کو بھی اعتماد کرنا چاہیے، جب اہل حدیث عوام اس ایپلیکیشن سے فائدہ اٹھانے لگی تو اس ایپلیکیشن کی انتظامیہ نے ایپلیکیشن کا پورا فارمیٹ ہی چینج کر کے رکھ دیا، دھیرے دھیرے علمائے اہل حدیث کی تفسیر کو نکالنا شروع کیا اور

ان کی جگہ:

*صحابہ کرام کو گالی دینے والا منکر سنت انجینئر علی مرزا جہلمی رافضی کی تفسیر کو رکھ دیا.

*شرک و قبر پرستی کو فروغ دینے والے طاہر القادری کا ترجمہ قرآن بھی اس ایپلیکیشن میں موجود ہے.

دیوبندی علما، نیز مولانا مودودی، مولانا وحید الدین خان، مولانا امین احسن اصلاحی، نعمان علی خان اور ان جیسے دیگر اہل بدعت اور منکرین سنت کی تفاسیر کو اس ایپلیکیشن میں جگہ دے دی گئی ہے، یعنی اہل حدیثیت کے نام پر رافضیت، خارجیت، اعتزال، اشعریت، وحدت الوجود، انکار سنت، قبر پرستی اور شرک و بدعت کو کھلے عام فروغ دیا جا رہا ہے، بلکہ اس قسم کے اہل بدعت سے اہل حدیث عوام کا رابطہ جوڑا جا رہا ہے.....

ہند و پاک کے کبار اہل حدیث علمائے کرام سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ اس فتنہ کی خبر لیں، کیونکہ یومیہ اس ایپلیکیشن پر پانچ لاکھ لوگ جاتے ہیں، یعنی اتنی کثیر تعداد کو روزانہ کے حساب سے شرک و بدعات اور رفض و انکار سنت کا زہر دھیرے دھیرے دیا جاتا ہے، اتنے بڑے پیمانے پر ضلالت و گمراہی کا کاروبار چل رہا ہے، اگر وقت رہتے اس فتنہ کا تدارک نہیں کیا گیا تو خطرہ ہے کہ اہل حدیث عوام ان کے فتنے میں مبتلا ہو جائے.

محترم قارئین: مفضل بن مہلہل فرماتے ہیں کہ: اگر کسی بدعتی کی مجلس میں بیٹھوگے تو وہ شروع سے ہی اپنی بدعت کو بیان نہیں کرے گا، کیوں کہ اگر وہ بدعت سے ہی مجلس کی شروعات کرےگا تو تم ان کی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤگے، اس لئے وہ مجلس کی ابتدا ان احادیث سے کرتا ہے جو عظمتِ سنت پر دلالت کرتی ہوں، پھر اس کے بعد دوران گفتگو اپنی بدعات کو قدرے چالاکی سے پیش کرے گا، اگر وہ بدعت سنت کے نام پر تمہارے دل میں جگہ بنا لے تو پھر کیسے باہر نکلے گی؟

[ الابانۃ لابن بطہ (ص140، رقم الاثر 394)]

مثال کے طور پر مولانا مودودی کی کتاب "خلافت وملوکیت" کو لے لیں، شروع کے صفحات قرآنی آیات اور اس کے ترجمہ سے مزین ہیں، احادیثوں کا انبار ہے، لیکن بعد میں جاکر انہوں نے جو گل کھلایا ہے وہ کسی صاحب عقل و خرد پر پوشیدہ نہیں ہے، خاص طور سے جنہوں نے ان کی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اہل بدعت کی کتابوں سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو جائے، اور بدعتیوں کے کتابوں کی لوگوں کے درمیان ترویج و اشاعت بھی نہ کی جائے، ان کتابوں میں گمراہی ہوتی اور گمراہی کی جگہوں سے دور رہنا واجب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا: (( من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات )) رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح.
مفہومِ حدیث: جو دجال کے آنے کی خبر سنے وہ اس سے دور رہے، اس کے قریب نہ جائے، اللہ کی قسم ایک آدمی اپنے آپ کو مؤمن سمجھے گا اور اس کے پاس مقابلہ کرنے کے لیے جائے گا، لیکن دجال اس کو اپنے شبہات میں ایسا الجھائے گا کہ وہ اسی کا پیروکار بن کر رہ جائے گا۔
[مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله ( 5/89 )]

اس لئے جن کتابوں میں بدعت وضلالت ہے اس سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اپنے آپ کو بڑا دقاق سمجھ کر ان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کرے اور کہے کہ میں تو خذ ما صفا ودع ماکدر پر عمل کروں گا، اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ اس فکر سے ایسا متاثر ہوا کہ خود اس کو بھی پتہ نہیں چلا.

خلاصہ کلام یہ کہ: اسلام 360 نامی ایپلیکیشن ضلالت و گمراہی کا مجموعہ ہے، اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کیلئے اس سے دوری اختیار کریں، اپنے اپنے علاقے کے اہل حدیث علمائے کرام سے رابطے میں رہیں، کسی ایپلیکیشن یا سائٹ کی بات پر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک اہل حدیث علما سے اس کے تعلق سے پوچھ کر مطمئن نہ ہو جائیں، یہ آپ کے دین و ایمان اور عقیدہ و منہج کا مسئلہ ہے، اس کی حفاظت کیلئے پہرہ دینا آپ کا کام ہے، آپ کی تھوڑی سی غفلت آپ عقیدہ و ایمان کے فساد کا باعث ہو سکتی ہے، اس لئے خود بھی اس سے بچیں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کریں.

واللہ اعلم بالصواب

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Share:

Kaise logo par Namaj Maaf kar diya gaya hai, Namaz kis ke liye maaf hai?

Namaj kin logo ke liye Maaf kar diya gaya hai?

Kaise logo par Namaj maaf hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

نماز صرف اسی صورت میں معاف ہے جب تم ہوش و ہواس کھو بیٹھو :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️ : مسز انصاری

کسی بھی مریض سے نماز اس وقت تک ساقط نہیں ہوگی جب تک مریض کے ہوش و ہواس قائم ہوں ، کسی مریض کا مرض نماز میں سستی کرنے کے لیے قابل قبول نہیں ہے، شرعئی عذر وہ ہوتا ہے کہ مریض اپنے ہوش و ہواس کھو دے ۔ حالتِ مرض میں اگر طہارت کے لیے پانی مئوجبِ ہلاکت یا مرض کے اضافہ کا سبب ہے تو مریض تیمم کرے گا بلکہ شریعت میں اتنی آسانی ہے کہ جب مریض کے لیے طہارت حاصل کرنے میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو اور نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا مشکل ہو تو وہ جمع بین الصلاتین کرے گا، یعنی  ظہر اور عصر کی نمازاور مغرب اور عشاء کی نماز کو آسانی کے مطابق پہلے وقت میں یا دوسرے وقت میں جمع کرے گا ۔

اگر قیام پر قدرت رکھتا ہے تو قیام کرے ، بصورت دیگر بیٹھ کر پڑھے، اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو قبلہ رخ پہلو کے بل ، اگر پہلو پر بھی ادا کرنے کی طاقت نا ہو تو ٹانگیں قبلہ رخ کر کے پیٹھ پر ٹیک لگائے،
اور اگر ان سب میں آسانی نا ہو تو اپنی حالت کے مطابق سہولت اختیار کرے ، اور اشاروں سے رکوع و سجود ادا کرے، اور مریض کا سجدہ اسکے رکوع سے پست ہوگا ، اگر بدن کے ساتھ اشاروں سے رکوع و سجود مشکل ہوں تو اپنے سر کے ساتھ کرے ۔ اللہ تعالی کافرمان ہے :
لا يكلف الله نفساً إلا وسعها
(البقرة: 286)

اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا ۔

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺ فرمایا:

صَلِّ قَائِمًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ.
کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
( صحيح البخاري : ١١١٧ )

اس حدیث کا اطلاق اس بات کا متقاضی ہے کہ بواسیر کا مرض ہو یا کوئی اور تکلیف یا عذر لاحق ہو جس وجہ سے کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھنے والا شخص بیٹھ کر جس حال میں چاہے نماز پڑھے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Muashare (Society) me Mard aur Aurat ke huqooq Islam me.

Magribi Taji aur Islam me Auraton ke huqooq.
Waise Huqooq jo mard aur aurat ke liye barabar hai?

"اور تمنا نہ کرو اس چیز کی جس کے ذریعے سے اللّٰه نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے۔ مَردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گی اور اللّٰه سے اس کا فضل طلب کرو۔ یقیناً اللّٰه ہر شے کا علم رکھتا ہے۔" [سورۃ النساء : 32]

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰه عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ اللّٰه کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

[تفسیر ابنِ کثیرؒ]

اللّٰه تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا، کسی کو عورت۔ جہاں تک نیکیوں کا معاملہ ہے، مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔ چناچہ آدمی کا طرزِ عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللّٰه نے مجھے بنا دیا اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔

(یہ جو آیت میں ارشاد ہے کہ) 'مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا' تواس آیت میں کسب کا اطلاق دنیوی کمائی پر نہیں۔ یہاں مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللّٰه تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو، مفاہمت پر رضامند نہ ہو اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔

[تفسیر 'بیان القرآن' ڈاکٹر اسرار احمدؒ]

Share:

Islam And Democracy: Kya Islam me Jamhuriyat (Democracy) Ki koi Gunzaish hai?

Islam aur Western Rulling System Democracy.

Kya Islam me Democracy ka koi tasawwur hai?
Islami Democracy aur Western Democracy kya hai?

Sawal: Islam me Jamhuriyat (Democracy) Ki koi Gunzaish hai ya nahi..?  Kyunke mere mutabik Democracy Ki hukumat me Aazad khyali aur Lafz Aazadi ki wazah se Musalman tamam hado ko par kar jate hai. Jabki deen Ghar tak mahdud ho jata hai. Islam n ek Be Mishal Mazhab hai balki is me Khuda ke Kanoon nafij hai aur Islam me ek Hadd me rahte hue Aazadi bhi di gayi hai. Baraye Meharbani Jawab inayat farmaye.

Education ke nam par Europe ka Culture Dron.

Hollywood ki "Sex Symbol" ke aakhiri waqt ke Jumle.

Musalman jaise Parinde aur European Shikari.

Islam and Homosexuality: Kya ladki Ladki se SHADI kar sakti hai?

Europe ki Aazadi aur Quran ki Be hurmati. Quran burning is freedom.

New World order ya Zewish World Order.

Parda aur Hijab: Ghar me Sharai Parda kis se aur Kaise kare? Na Mehram & Mehram.

इस दुनिया मे हर शख्स उतना ही परेशान है,
जितना उसकी नजर मे दुनिया की अहमियत।

मगरिब् को असल खतरा यह है के कहीँ लोग इस्लाम की तरफ न देखने लगे वह इसलिए के हर रोज यूरोप मे आलिम, मुफक्कीर्, फलसाफि, मुवास्सिर् कुरान व् हदीस पढ़ कर इस्लाम कुबूल कर रहा है....  लेकिन मुस्लिम घरानो मे बे हया, बेशर्म और बे गैरत बनने को ही असल तरक्की समझा जा रहा है। अगर हम अंग्रेजी कल्चर (मागरिबि ) के पीछे पीछे चलते रहे तो तबाही व् बर्बादी हमारे घरों का रूख जरूर करेगी। अगर कौम के लोग कुर्सी, पैसे और इक्तदार  के लिए दिन और तहजीब का मज़ाक बनाने और मुस्लिम खवातीन अंग्रेजी भेड़ियों के बहकावे मे गुमराह होती रही तो आने वाली नस्ल भेड़िया से ज्यादा डरपोक और खिंजीर से भी ज्यादा बे हया बन जायेगी।

Islamic System vs European System

“جمہوریت” اس دور کا صنمِ اکبر

سوال … میری ایک اُلجھن یہ ہے کہ: “اسلام میں جمہوریت کی گنجائش ہے یا نہیں؟” کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق “جمہوریت” کی حکومت میں آزاد خیالی اور لفظِ “آزادی” کی وجہ سے مسلمان تمام حدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں، جبکہ دین “گھر” تک محدود ہوجاتا ہے، حالانکہ “اسلام” نہ صرف ایک بے مثال مذہب ہے بلکہ اس میں خدا کے مستند قوانین سموئے ہوئے ہیں، اور اسلام میں ایک حد میں رہتے ہوئے آزادی بھی دی گئی ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب … بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کرپاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً “بت پرستی” کو لیجئے!

خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہوگی کہ انسان کو - جو اَشرف المخلوقات ہے-
بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کردیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔
تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔

اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج “جمہوریت” میں چل رہا ہے، جمہوریت دورِ جدید کا وہ “صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کر دی۔

کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ “اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی “اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب “جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے، اس لئے اسلام کے ساتھ “جمہوریت” کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے۔

سب جانتے ہیں کہ اسلام، نظریہٴ خلافت کا داعی ہے جس کی رُو سے اسلامی مملکت کا سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اَحکامِ الٰہیہ کے نفاذ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ مسند الہند حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ، خلافت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“مسئلہ در تعریف خلافت: ھی الریاسة العامة فی التصدی لاقامة الدین باحیاء العلوم الدینیة واقامة ارکان الاسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق بہ من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة واعطائھم من الفییٴ والقیام بالقضاء واقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابة عن النبی صلی الله علیہ وسلم۔”

(ازالة الخفاء ص:۲)

ترجمہ:… “خلافت کے معنی ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں دِین کو قائم (اور نافذ) کرنے کے لئے مسلمانوں کا سربراہ بننا۔ دِینی علوم کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام کو قائم کرنا، جہاد کو قائم کرنا اور متعلقاتِ جہاد کا انتظام کرنا، مثلاً: لشکروں کا مرتب کرنا، مجاہدین کو وظائف دینا اور مالِ غنیمت ان میں تقسیم کرنا، قضا و عدل کو قائم کرنا، حدودِ شرعیہ کو نافذ کرنا اور مظالم کو رفع کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔”

اس کے برعکس جمہوریت میں عوام کی نمائندگی کا تصوّر کار فرما ہے، چنانچہ جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے:

“جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔”

گویا اسلام کے نظامِ خلافت اور مغرب کے تراشیدہ نظامِ جمہوریت کا راستہ پہلے ہی قدم پر الگ الگ ہوجاتا ہے، چنانچہ:

Y:… خلافت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا تصوّر پیش کرتی ہے، اور جمہوریت عوام کی نیابت کا نظریہ پیش کرتی ہے۔

Y:… خلافت، مسلمانوں کے سربراہ پر اِقامتِ دِین کی ذمہ داری عائد کرتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا دِین قائم کیا جائے، اور اللہ کے بندوں پر، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ نظامِ عدل کو نافذ کیا جائے، جبکہ جمہوریت کو نہ خدا اور رسول سے کوئی واسطہ ہے، نہ دِین اور اِقامتِ دِین سے کوئی غرض ہے، اس کا کام عوام کی خواہشات کی تکمیل ہے اور وہ ان کے منشاء کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے۔

Y:… اسلام، منصبِ خلافت کے لئے خاص شرائط عائد کرتا ہے، مثلاً: مسلمان ہو، عاقل و بالغ ہو، سلیم الحواس ہو، مرد ہو، عادل ہو، اَحکامِ شرعیہ کا عالم ہو، جبکہ جمہوریت ان شرائط کی قائل نہیں، جمہوریت یہ ہے کہ جو جماعت بھی عوام کو سبز باغ دِکھا کر اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرلے اسی کو عوام کی نمائندگی کا حق ہے۔ جمہوریت کو اس سے بحث نہیں کہ عوامی اکثریت حاصل کرنے والے ارکان مسلمان ہیں یا کافر، نیک ہی یا بد، متقی و پرہیزگار ہیں یا فاجر و بدکار، اَحکامِ شرعیہ کے عالم ہیں یا جاہلِ مطلق اور لائق ہیں یا کندہ ناتراش، الغرض! جمہوریت میں عوام کی پسند و ناپسند ہی سب سے بڑا معیار ہے اور اسلام نے جن اوصاف و شرائط کا کسی حکمران میں پایا جانا ضروری قرار دیا، وہ عوام کی حمایت کے بعد سب لغو اور فضول ہیں، اور جو نظامِ سیاست اسلام نے مسلمانوں کے لئے وضع کیا ہے وہ جمہوریت کی نظر میں محض بے کار اور لایعنی ہے، نعوذ باللہ!

Y:… خلافت میں حکمران کے لئے بالاتر قانون کتاب و سنت ہے، اور اگر مسلمانوں کا اپنے حکام کے ساتھ نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رَدّ کیا جائے گا اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، جس کی پابندی راعی اور رعایا دونوں پر لازم ہوگی۔ جبکہ جمہوریت کا “فتویٰ” یہ ہے کہ مملکت کا آئین سب سے “مقدس” دستاویز ہے اور تمام نزاعی اُمور میں آئین و دستور کی طرف رُجوع لازم ہے، حتیٰ کہ عدالتیں بھی آئین کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کرسکتیں۔

لیکن ملک کا دستور اپنے تمام تر “تقدس” کے باوجود عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ مطلوبہ اکثریت کے بل بوتے پر اس میں جو چاہیں ترمیم و تنسیخ کرتے پھریں، ان کو کوئی روکنے والا نہیں، اور مملکت کے شہریوں کے لئے جو قانون چاہیں بنا ڈالیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ یاد ہوگا کہ انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے دو مردوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دیا تھا اور کلیسا نے ان کے فیصلے پر صاد فرمایا تھا، چنانچہ عملاً دو مردوں کا، کلیسا کے پادری نے نکاح پڑھایا تھا، نعوذ باللہ!

حال ہی میں پاکستان کی ایک محترمہ کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ جس طرح اسلام نے ایک مرد کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے، اسی طرح ایک عورت کو بھی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ بیک وقت چار شوہر رکھ سکے۔

ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر مرد و زن کی مساوات کے جو نعرے لگ رہے ہیں، بعید نہیں کہ جمہوریت کا نشہ کچھ تیز ہو جائے اور پارلیمنٹ میں یہ قانون بھی زیر بحث آجائے۔ ابھی گزشتہ دنوں پاکستان ہی کے ایک بڑے مفکر کا مضمون اخبار میں شائع ہوا تھا کہ شریعت کو پارلیمنٹ سے بالاتر قرار دینا قوم کے نمائندوں کی توہین ہے، کیونکہ قوم نے اپنے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کا مکمل اختیار دیا ہے۔ ان صاحب کا یہ عندیہ “جمہوریت” کی صحیح تفسیر ہے، جس کی رُو سے قوم کے منتخب نمائندے شریعتِ الٰہی سے بھی بالاتر قرار دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں “شریعت بل” کئی سالوں سے قوم کے منتخب نمائندوں کا منہ تک رہا ہے لیکن آج تک اسے شرفِ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکا، اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلام، مغربی جمہوریت کا قائل ہے؟

Y:… تمام دُنیا کے عقلاء کا قاعدہ ہے کہ کسی اہم معاملے میں اس کے ماہرین سے مشورہ لیا جاتا ہے، اسی قاعدے کے مطابق اسلام نے انتخابِ خلیفہ کی ذمہ داری اہلِ حل و عقد پر ڈالی ہے، جو رُموزِ مملکت کو سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس کے لئے موزوں ترین شخصیت کون ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا:

“انما الشوریٰ للمھاجرین والأنصار۔”

ترجمہ:… “خلیفہ کے انتخاب کا حق صرف مہاجرین و انصار کو حاصل ہے۔”

لیکن بت کدہٴ جمہوریت کے برہمنوں کا “فتویٰ” یہ ہے کہ حکومت کے انتخاب کا حق ماہرین کو نہیں بلکہ عوام کو ہے۔ دُنیا کا کوئی کام اور منصوبہ ایسا نہیں جس میں ماہرین کے بجائے عوام سے مشورہ لیا جاتا ہو، کسی معمولی سے معمولی ادارے کو چلانے کے لئے بھی اس کے ماہرین سے مشورہ طلب کیا جاتا ہے، لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حکومت کا ادارہ (جو تمام اداروں کی ماں ہے اور مملکت کے تمام وسائل جس کے قبضے میں ہیں، اس کو) چلانے کے لئے ماہرین سے نہیں بلکہ عوام سے رائے لی جاتی ہے، حالانکہ عوام کی ننانوے فیصد اکثریت یہی نہیں جانتی کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے؟

اس کی پالیسیاں کیسے مرتب کی جاتی ہیں؟ اور حکمرانی کے اُصول و آداب اور نشیب و فراز کیا کیا ہیں․․․؟

ایک حکیم و دانا کی رائے کو ایک گھسیارے کی رائے کے ہم وزن شمار کرنا، اور ایک کندہ ناتراش کی رائے کو ایک عالی دماغ مدبر کی رائے کے برابر قرار دینا، یہ وہ تماشا ہے جو دُنیا کو پہلی بار “جمہوریت” کے نام سے دِکھایا گیا ہے۔

درحقیقت “عوام کی حکومت، عوام کے لئے اور عوام کے مشورے سے” کے الفاظ محض عوام کو اُلُّو بنانے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں نہ تو عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ عوام کی اکثریت کے نمائندے حکومت کرتے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کون کون سے نعرے لگائے جائیں گے اور کن کن ذرائع کو استعمال کیا جائے گا؟

عوام کی ترغیب و تحریص کے لئے جو ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جائیں، ان کو گمراہ کرنے کے لئے جو سبز باغ بھی دِکھائے جائیں اور انہیں فریفتہ کرنے کے لئے جو ذرائع بھی استعمال کئے جائیں وہ جمہوریت میں سب روا ہیں۔

اب ایک شخص خواہ کیسے ہی ذرائع اختیار کرے، اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہ “عوام کا نمائندہ” شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ عوام بھی جانتے ہیں کہ اس شخص نے عوام کی پسندیدگی کی بنا پر زیادہ ووٹ حاصل نہیں کئے بلکہ روپے پیسے سے ووٹ خریدے ہیں، دھونس اور دھاندلی کے حربے استعمال کئے ہیں اور غلط وعدوں سے عوام کو دھوکا دیا ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود یہ شخص نہ روپے پیسے کا نمائندہ کہلاتا ہے، نہ دھونس اور دھاندلی کا منتخب شدہ اور نہ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کا نمائندہ شمار کیا جاتا ہے، چشمِ بد دُور! یہ “قوم کا نمائندہ” کہلاتا ہے۔

انصاف کیجئے! کہ “قوم کا نمائندہ” اسی قماش کے آدمی کو کہا جاتا ہے؟ اور کیا ایسے شخص کو ملک و قوم سے کوئی ہمدردی ہو سکتی ہے․․․؟

عوامی نمائندگی کا مفہوم تو یہ ہونا چاہئے کہ عوام کسی شخص کو ملک و قوم کے لئے مفید ترین سمجھ کر اسے بالکل آزادانہ طور پر منتخب کریں، نہ اس اُمیدوار کی طرف سے کسی قسم کی تحریص و ترغیب ہو، نہ کوئی دباوٴ ہو، نہ برادری اور قوم کا واسطہ ہو، نہ روپے پیسے کا کھیل ہو، الغرض اس شخصیت کی طرف سے اپنی نمائش کا کوئی سامان نہ ہو اور عوام کو بے وقوف بنانے کا اس کے پاس کوئی حربہ نہ ہو۔ قوم نے اس کو صرف اور صرف اس بنا پر منتخب کیا ہو کہ یہ اپنے علاقے کا لائق ترین آدمی ہے، اگر ایسا انتخاب ہوا کرتا تو بلاشبہ یہ عوامی انتخاب ہوتا اور اس شخص کو “قوم کا منتخب نمائندہ” کہنا صحیح ہوتا، لیکن عملاً جو جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے، یہ عوام کے نام پر عوام کو دھوکا دینے کا ایک کھیل ہے اور بس․․․!

کہا جاتا ہے کہ: “جمہوریت میں عوام کی اکثریت کو اپنے نمائندوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا حق دیا جاتا ہے” یہ بھی محض ایک پُرفریب نعرہ ہے، ورنہ عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے غلط فارمولے کے ذریعہ ایک محدود سی اقلیت، اکثریت کی گردنوں پر مسلط ہوجاتی ہے! مثلاً: فرض کر لیجئے کہ ایک حلقہٴ انتخاب میں ووٹوں کی کل تعداد پونے دو لاکھ ہے، پندرہ اُمیدوار ہیں، ان میں سے ایک شخص تیس ہزار ووٹ حاصل کرلیتا ہے، جن کا تناسب دُوسرے اُمیدواروں کو حاصل ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہے، حالانکہ اس نے صرف سولہ فیصد حاصل کئے ہیں، اس طرح سولہ فیصد کے نمائندے کو ۸۴ فیصد پر حکومت کا حق حاصل ہوا۔ فرمائیے! یہ جمہوریت کے نام پر ایک محدود اقلیت کو غالب اکثریت کی گردنوں پر مسلط کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے․․․؟
چنانچہ اس وقت مرکز میں جو حکومت “کوس لمن الملک” بجا رہی ہے، اس کو ملک کی مجموعی آبادی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کی حمایت بھی حاصل نہیں، لیکن جمہوریت کے تماشے سے نہ صرف وہ جمہوریت کی پاسبان کہلاتی ہے بلکہ اس نے ایک عورت کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رکھا ہے۔

الغرض! جمہوریت کے عنوان سے “عوام کی حکومت، عوام کے لئے” کا دعویٰ محض ایک فریب ہے، اور اسلام کے ساتھ اس کی پیوندکاری فریب در فریب ہے، اسلام کا جدید جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، نہ جمہوریت کو اسلام سے کوئی واسطہ ہے، “ضدان لا یجتمعان” (یہ دو متضاد جنسیں ہیں جو اکٹھی نہیں ہوسکتیں)۔

آپکے مسائل اور انکا حل جلد 8
مولانا یوسف لدھیانوی شہید رح

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS