Aaj Modern Auratein Ghaar ke kamo se kyu bhagati hai?
Kyu Ghar ke kam karna Aaj ki ladkiyo ke liye Mushkil hota ja raha hai?
ایسی تحریروں کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
ایک ورکنگ وومن نے اپنی جاب اور خاندان میں سے ترجیحات کا درست انتخاب کر کے بروقت درست فیصلے ، جن کی بنا پر ان کو پچھتانا نہیں پڑا۔
ان کی داستان ان کی زبانی:
۔۔۔۔۔۔
تحریر: جویریہ ساجد
میں نے جس سال اکنامکس میں ماسٹرز کیا اسی سال میری جاب ھو گئی جس کالج سے میں نے بی کام کیا تھا وہ اس وقت ھمارے شہر کا واحد اور بڑا پرائیویٹ کالج تھا انہی نے مجھے لیکچرر شپ آفر کی اور میں نے فوری جوائن کر لیا سب سے پہلی کلاس جو مجھے پڑھانے کو ملی وہ بی کام پارٹ ٹو یعنی فورتھ ائیر کی لڑکے لڑکیوں کی کمبائن کلاس تھی جن کو میں نے میکرو اکنامکس اور انکم ٹیکس لاء پڑھانا تھا۔
جبکہ تھرڈ ائیر کو مائیکرو اکنامکس پڑھانے کو ملی۔
وہ بہت محنت کا سال تھا میرے اپنے اساتذہ جو اب میرے کولیگ تھے انہوں نے میری بہت راہنمائی کی۔
پہلے ھی سال پڑھانے کے ڈنکے بجنے لگے مجھے میرے کالج نے ایم بی اے ایگزیکٹو کلاس کے بھی لیکچر دے دیے جہاں مجھے پروفیشنلز کو ہائی لیول پہ اکنامکس پڑھانی تھی۔
رات رات بھر لیکچرز تیار کرنا، سارا سارا دن ٹاپک سے ریلیٹڈ مختلف کتابیں پڑھنا، اخبارات کھنگالنا، مدعا مختصر محنت رنگ لائی نام بنا شہر میں تیزی سے کھلتے بڑے پرائیویٹ کالجز سے جاب آفر آنی شروع ھوئیں شہر کے تقریباً تمام بڑے کالجز میں وزیٹنگ لیکچرر کے طور پہ انوائیٹ کیا جانے لگا۔
شہر میں یونیورسٹی کا کیمپس بنا تو وہاں بھی لیکچر دینے شروع کیے یونیورسٹی میں جاب کے دوران کئی سیمینار ارینج کیے ورکشاپس کروائیں۔
جب میری شادی ھوئی اس وقت میں کمائی اور نام کی وجہ سے اپنے کیرئیر کے عروج پہ تھی ایک بڑے ادارے میں ھیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھی بہت اچھا کماتی تھی ایک لمبے عرصے سے کمائی اور اخراجات میں خود کفیل تھی وہ میں کیرئیر کا عروج تھا شہر کے ھر چھوٹے بڑے ادارے میں میرے سٹوڈنٹ موجود ھوتے تھے بنک ھو یا نادرہ، پاسپورٹ آفس ھو یا چیمبر آف کامرس۔
شادی ھوئی تو شہر چھوڑنا تھا اپنے شہر کے اداروں کو بھی خیر آباد کہنا تھا سرکاری نوکری کی طرف میرا رجحان کبھی بھی نہیں رھا۔
جب شادی ھوئی تو میرے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا کہ جاب جاری رکھنی ھے یا نہیں۔
یہ میرے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا مگر میں نے فوری جاب نہیں کی ایک سال بعد محمد بن کبیر ھماری زندگی میں آئے مجھے کالجز سے آفر آنا شروع ھوئیں میرے میاں نے
مجھ پہ کوئی پابندی نہیں لگائی وہ ایک کوآپریٹیو اور روشن خیال انسان ھیں ان کے نزدیک یہ فیصلہ میرا اپنا تھا وہ ہر دو صورتوں میں تعاون کریں گے۔
ایک طرف میرا کیرئیر تھا میری اپنی ھینڈ سم کمائی، میری شناخت، میرا وقار میرا زعم کہ میں خود کماتی ھوں۔
دوسری طرف میرا گھر میرا شوہر اور بچہ۔
جوائنٹ فیملی میں تھی گھر تو چل ھی رھا تھا میاں کوآپریٹیو، اصل بات بچے کی تھی کہ میں چھ گھنٹے کے لیے اپنا دو ماہ کا بچہ گھر چھوڑ کے جاؤں تو کیوں جاؤں۔
میں نے سوچا میری زندگی میں کیا کمی ھے مجھے جاب کر کے کیا اچیوو ھوگا اس سوال کا جواب سوچا تو جانا کہ سب کے سب فائدے میری ذات تک تھے.
مجھے کھلی ھوا میں سانس آئے گا میری شخصیت بہتر ھوگی، میرا وقت اچھا گزرے گا، میرا کیرئیر مضبوط ھوگا۔ میری شخصیت کا اعتماد بحال ھوگا کہ میں اب بھی خود کما رھی ھوں چار برانڈڈ سوٹ مذید بناؤں گی، مہنگے جوتے، بیگز، پرفیومز کی تعداد بڑھ جائے گی۔
مگر مجھے اسکی قیمت کیا ادا کرنی پڑے گی میرا چھوٹا معصوم بچہ چھ گھنٹے مجھ سے الگ رھے گا۔ ایک ماں کے لیے یہ بہت بڑی قربانی ھے.
میں نے اپنے بچے کو سینے سے لگایا اور اپنی شخصیت کو ایک اچھی ماں کے طور پہ گروم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد دو اور بچے میری جھولی میں آئے اور میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا یہی بن گیا تیسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد میں نے یونیورسٹی دوبارہ جوائن کی اور ویکلی تین چار لیکچر لینے لگی۔
اب جب تینوں بچے سکول جاتے ھیں میں تینوں بچوں کو خود پڑھاتی ھوں۔
آج جب میں پیچھے مڑ کے دیکھتی ھوں اور اپنے اس وقت کے فیصلے پہ نظر دوڑاتی ھوں تو مجھے احساس ھوتا ھے کہ میرا اس وقت کا فیصلہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔
میں نے دو کشتیوں کا سوار بننے کا راستہ نہیں چنا۔
میں نے خود کو کیرئیر اور گھر داری میں کنفیوز نہیں کیا۔
میرا مقصد واضح تھا میں نے اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ سیکھا۔
سب سے پہلے میں نے اپنے بچوں کے لیے محمد کے پیدا ھوتے ھی قرآن پاک کو مکمل تجوید کے ساتھ دوبارہ سے سیکھا تاکہ میں اپنے بچوں کو صحیح طریقے سے قرآن پاک خود پڑھا سکوں۔
میں نے ترجمہ تفسیر، سیرت پڑھنی شروع کی۔
میں نے پیرنٹنگ کے کورسز کیے۔
سب سے بڑھ کے جب میں فوکسڈ تھی تو میں نے یہ سیکھا کہ میرا مثبت قدم اور مثبت شخصیت میرے بچوں کے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ھوگی۔ اس لیے خود کو مزید مثبت بنانے پہ توجہ دی۔
میں اپنی شخصیت کی تراش خراش کرتی گئی۔
میں نے انگلش کرائمر پہ دھیان دینا شروع کیا۔
اب ملٹی لینگویجز سیکھنا شروع کر رھی ھوں۔
آج جب میں پیچھے مڑ کے دیکھتی ھوں تو میں ایک کامیاب کیرئیر وومن کی نسبت اپنے آپ کو ذیادہ مثبت، ذیادہ مضبوط، ذیادہ گرومڈ پاتی ھوں ذیادہ فوکسڈ، ڈٹرمنڈ، کلئیر
Focused, determined, clear in thinking
جس کا فائدہ میرے بچوں کو بھی ھوا میں نے اپنی ذات سے نکل کے ذیادہ وسیع کینوس پہ محنت شروع کی۔
میں نے خود کو اندھا دھن بھاگنے میں نہیں تھکایا۔
میری تعلیم نے مجھے یہ سیکھایا کہ زندگی میں ترجیحات بدلنے کے ساتھ خود کو بدلنا ھی بہترین فیصلہ ھے۔
میری تربیت نے مجھے یہ سیکھایا کہ کسی بڑے مقصد کے لیے قناعت پسندی کے ساتھ جینا، کسی وقت میں اپنے لائف سٹائل پہ کمپرومائز کر لینا، کچھ کم اشیا پہ گزارا کر لینا کوئی بہت بڑی قربانی نہیں ھے میں نے ایک جگہ طنزیہ فقرہ پڑھا کہ پڑھی لکھی بیوی کے شوہر تندور سے روٹیاں ھی لگواتے پائے جاتے ھیں۔ جبکہ میں سمجھتی ھوں کہ ان پڑھ لڑکیوں کے شوہر بچوں کی ٹیوشن کے چکر لگاتے عمر گزارتے ھیں۔ فیصلہ ھمارا اپنا ھے۔
ایک شادی شدہ عورت کے لیے جاب کرنا کسی بھی طرح آسان نہیں ھے جس کی قیمت وہ کسی نا کسی صورت ادا ضرور کرتی ھے جس سے شخصیت الجھ جاتی ھے میں نے اپنے بچوں کو اپنا بیسٹ دیا جو میری بساط تھی۔
جاب کرتی ھوئی عورت کچھ بھی کر لے اس گلٹ میں رھتی ھے کہ میں بیسٹ نہیں دے پائی۔
اپنی شخصیت سنوارتے کرئیر بناتے اپنا وقار بڑھاتے جب بچے چپڑ چپڑ کرکے کھانا کھاتے ھیں، گھگیا گھگیا کے بولتے ھیں، تھرل کے نام پہ لڑکیوں سے پڑس چھیننا، ہنگامے کرنا، کلاس میں نسوار جسکا ماڈرن نام مجھے نہیں پتہ رکھتے ھوئے پائے جاتے ھیں تب جو ٹینشن کے اٹیک ھم ماؤں کو ھوتے ھیں وہ اس تمام میڈلوں اور انعامات سے کہیں ذیادہ خوفناک ھیں جو کیرئیر ومن کو ملتے ھیں۔
اس کے علاوہ میں ان تمام خواتین کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ھوں جو ضرورت اور مجبوری کے تحت شادی کے بعد جاب کرتی ھیں اور چاھتے ھوئے بھی اپنے بچوں کو ٹائم نہیں دے سکتیں۔
بچے تو بچے ان کی اپنی صحت بھی توجہ طلب ھو جاتی ھے اور وہ ٹائم نہیں نکال سکتیں۔
اس کے ساتھ ھی میں ان تمام خواتین کو بھی پسند نہیں کرتی جو جاب تو نہیں کرتیں مگر بچے سکول بھیج کے آدھا دن سوتی ھیں،
بچے ٹیوشن بھیج کے ڈرامے دیکھتی ھیں، صبح شام میکوں کے چکر لگاتی ھیں،
بازاروں میں ونڈو شاپنگ کرتی ھیں،
فون کالز پہ پورے خاندان کو تگنی کا ناچ نچاتی ھیں۔
میں آپ سب خواتین سے یہ کہنا چاھتی ھوں آپ جاب کرتی ھیں یا نہیں اپنی زندگی کو با مقصد، معیاری اور مثبت کاموں میں صرف کریں۔
اپنی ترجیحات کا درست تعین درست وقت پہ کریں۔
جاب کریں یا گھر پہ رھیں اپنی شخصیت سنوارنے پہ بھرپور توجہ دیں۔ وقت اور صحت کی شدید قدر کریں۔
شخصیت گھر پہ رہ کے بھی نکھر سکتی ھے۔
اپنے بچوں کی تربیت کو ترجیحات میں سب سے اوپر رکھیں۔
صرف مردوں کو نیچا دیکھانے کے لیے جاب مت کریں۔
صرف اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے خود کو خوار مت کریں۔
گزارا اچھا ھو رھا ھے ٹھیک ھے۔ لائف سٹائل کوئی چیز نہیں ھے جس کے لیے بچوں کو نسوار کا عادی کر دیا جائے۔
مردوں سے برابری کرنے کے لیے بیٹوں کو اپنی بے توجہی سے مت بگاڑیں۔
مخصوص قسم کے لبرل بیانیے بہت مضحکہ خیز ھیں ان کو پہچانیں۔
یہ ایک طرف لڑکیوں کو آزادی دینے کی بات کرتے ھیں دوسری طرف لڑکوں کی تربیت کی ان سے پوچھیں عورت کو تو آپ نے گھر کی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا تربیت کون کرئے گا۔
یہ آپ کو آئیں بائیں شائیں کریں گے
ہر چمکتی ھوئی چیز سونا نہیں ھوتی انگارہ بھی ھو سکتی ھے۔
تحریر: جویریہ ساجد
No comments:
Post a Comment