Europe Auraton ko bikni pehna kar use kis layek bana raha hai?
Islam me Auraton ke huqooq aur European culture.آپ کی بیوی ، بیٹیاں اور بہنیں آپ کی عزت و وقار ہیں انکو بے پردہ رکھ کر عیاش لوگوں کی ہوس کی تسکین کا سامان نہ بنائیں ! جزاك اللهُ خير.
عورت کے تعلق سے فکر کا ایک اہم زاویہ ۔اس وقت خواتین کو سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا جارہا ہے، اگرچہ انہیں تعمیر و ترقی اور عملی میدان میں آگے بڑھنے؛ نیز مردوں کے ہم پلہ کھڑا کردینے کے خواب دکھائے جارہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک object کی طرح استعمال کر کے شیطانی و دجالی طاقتیں اپنا مفاد نکال رہی ہیں.
ایک زمانے تک عورت کو چھوا چھوت اور سماجی زندگی کیلئے ایک لونڈی و کام کاج کی مورت بنا کر استحصال کرتے رہے، انہیں ناپاک اور گھٹیا بتا کر ان کے سایہ سے بھی دور بھاگتے رہے، تقدس اور نیکی میں انہیں خلل جان کر سوسائٹی سے الگ تھلگ کرتے رہے؛ لیکن اب اس کے برعکس انہیں استعمال کر کے، سنہرے خواب دکھا کر مفاد نکالا جارہا ہے، آپ غور کیجئے! ملک میں جتنے بھی مسائل اٹھائے گئے وہ کن سے متعلق ہیں، تین طلاق، پردہ، چار شادیاں، حلالہ، نان و نفقہ کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ - - -
پھر یورپ نے خواتین کے سلسلہ میں جو سلوگن بنائے وہ کیا تھے؟ یہی کہ کیا مرد و عورت برابر نہیں؟
کیا انہیں باہر کام کاج کی اجازت نہیں؟
انہیں مَن مرضی لباس پہننے، شراب نوشی، جوا اور سٹے بازی کرنے کی اجازت نہیں؟
خواہشات کے مطابق اپنی ہوس پوری کرنے اور اس سلسلہ میں قیود و بند سے آزاد ہوجانے کی اجازت نہیں؟
عورت ہی بچے پیدا کیوں کرے؟ وہی گھر کیوں سنبھالے؟
دراصل یہ خبیث دماغ جانتے ہیں کہ خاتون ہر گھر اور معاشرے کی سب سے مقدس اور لطیف شخصیت ہے، اسے اگر عریانی کا لباس پہنا دیا، فحاشیت اور شیطانیت کا ہمنوا بنا دیا تو پھر پورا معاشرہ ان کے ہاتھوں کا کھلونا ہے، آپ دیکھئے! یورپ، امریکہ، رَشیا جیسے ممالک کس رخ پر ہیں؟
ان کا معاشرتی ڈھانچہ برباد ہے، اولڈ ایج ہاؤس، ڈپریشن، حرارت قلب کا بند ہوجانا، کینسر، ایڈژ جیسی مہلک بیماریوں کی بھرمار ہے، آئے دن خواتین کے ساتھ زنا بالجبر، قتل اور بیوی یا کسی بھی خاتون کو دوستی کے نام پر ایک مدت معینہ تک استعمال کر کے بے گھر چھوڑ دینے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، یہی حال اب ہندوستان کا ہوتا نظر آتا ہے.
اپنی معاشرت تباہی دہانے پر پہنچا کر اب یہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان جنہیں پردہ و عزت کا تحفہ دیتے ہیں؛
انہیں یہ sex object اور کام کرنے والی محض ایک عام شخصیت کا روپ دے کر مردوں کی دنیا کا شکار بنالیں، اس کام میں ایک سب سے بڑا فیکٹر یہ ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کو مرد کی برابری کا لالچ دیتے ہیں.
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ یہ ظالم مرد اپنا کام چھوڑ کر خواتین سے نہ صرف اپنا؛ بلکہ ان کا کام بھی کروانا چاہتے ہیں، وہ بچے بھی پالے اور روزی روٹی کا بھی بندوبست کرے.
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے مشرق و مغرب کے میخانے دیکھے اور ان کی تنقیدی نگاہوں نے دونوں عالم سے خوب سیرابی حاصل کی تھی؛ بالخصوص مغربی معاشرے کی جڑ تک پہنچے ہوئے تھے، وہ جانتے تھے کہ خواتین کو ترقی کی آڑ میں کس طرف دھکیلا جارہا ہے، انہیں اسکرٹ پہنا کر کن کاموں کے لائق بنایا جارہا ہے، اعلی عہدے، صدارت و وزارت سے دور رکھ کر محض کلرک، پرکشش مقامات اور تلذذ کی دنیا میں جھونک کر ان سے کیا خواہش کی جارہی ہے، عجیب بات ہے کہ انٹلکچول خواتین بھی اسے سمجھنے کو تیار نہیں، اسلام یقیناً ایک خاص دائرے میں انہیں ہر جائز کام کرنے اور ترقی کی اجازت دیتا ہے، اور ناجائز چیزوں سے روکتا ہے اس میں انہیں کیلئے خیر ہے، ایسا نہیں ہے کہ مردوں کیلئے کوئی قیود نہیں؛ بلکہ انہیں بھی جائز و ناجائز کی شرطیں ملحوظ رکھنی ہیں، اگر موازنہ کی کیفیت سے نکل کر اپنا اپنا دائرہ عمل سمجھ لیا جائے تو بات ہی ختم ہوجائے گی، مولانا کا تجزیاتی بیان یہ ہے کہ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے وہ مرد بنا کر دیا ہے، بحیثیت عورت وہ آج بھی ذلیل ہے - -
اسی طرح پڑوسی ملک کے مولانا عمار خاں ناصر صاحب (سابق استاد جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) نے ٨/ ٣/ ٢٠٢٢ء کو ایک تحریر میں اہم نقطہ کی طرف متوجہ کیا ہے، مولانا لکھتے ہیں: "عورت کے لیے بطور عورت تکریم کو معاشرتی قدر بنانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہمیں اصرار ہے کہ "آزادی" کا مغربی فلسفہ اور جسم اور مرضی جیسے سلوگن ہمارے سیاق میں مددگار نہیں، بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کا پیغام اور تاثیر عورت کی تکریم نہیں جو ایک اخلاقی احساس ہے۔
ان کا پیغام ایک طرف انفرادیت کے نفسی احساس اور صنفین کے مابین بے گانگی اور منافرت کو فروغ دینا اور دوسری طرف نسوانی جسم کو جنس بازار بنانے میں سرمایہ دارانہ منڈی کو سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ اس کی خرید وفروخت کرنے والے کسی اخلاقی ججمنٹ کا موضوع نہ بنائے جا سکیں اور "آزادی" کی قدر کے تحت ان کو قانونی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
تکریم کو معاشرتی قدر بنانا انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک اخلاقی اصول پر استوار کرنا اور سماج میں محاسبے کا ایک خودکار میکنزم تشکیل دینا ہے۔
آزادی کو نقطہ حوالہ بنانا اس کے برعکس صنفین میں ایک بے گانگی اور کشمکش پیدا کرنا ہے جس میں تحفظ کی بنیادی ضمانت ریاست کا ڈنڈا ہے۔
جہاں ریاست یہ تحفظ مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہاں عدم تحفظ کے مظاہر پر صرف لعن طعن ہو سکتا ہے یا کچھ قوانین بنوا کر حصول طاقت کا نفسیاتی احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔
دونوں طریقے نتیجے میں غیر موثر رہتے ہیں اور صرف فرسٹریشن کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آئیے، اپنے معاشرے کو، اپنی اقدار کو، اپنی ریاست کو اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے وسائل کو خود اپنی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔
مستعار اور اجنبی تصورات کے سحر میں گرفتار ہو کر خود کو تباہ نہ کریں۔"
✍️ محمد صابر حسین ندوی ۔
Masha Allah
ReplyDeleteIslam ki shahzadiyo ki Allah hamesha hifajat kar
ReplyDeleteMuslim auraton ko Gumrah karne ke liye yah sab kiya ja raha hai
ReplyDeleteJin khawateen ko Islam ke bare me samajh hai, unko pata hai Ke Shariyat ne unhe kis tarah ke huqooq diye hai. Yah bat gulamo ke jaisi zindagi gujarne walo pata bhi nahi chalega.
Nice
ReplyDeleteBahut acha
Bahut acha likha aapane
ReplyDelete