Ham sab Un Se mutalba karte hai wah Ukraine par Human Rights ke khilafwarzi ka mukadma chalaye.
Ukraine kyu Army me Mardo ko Shaamil kar raha hai Aurato ko nahi?
(حقوق نسواں)
✍ : طالب العلم معاذ عثمان
ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ یوکرین پر سنگین پابندیاں عائد کرے کیونکہ یوکرین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، یوکرینی حکومت کی طرف سے
پیغام جاری کیا گیا ہے کہ یوکرین کا ہر مرد جس کی عمر 18 سال سے لے کر 60 سال تک ہے، وہ ملکی دفاع کے خاطر
ہتھیار اٹھائے۔
ہتھیار بھی خود حکومت فراہم کرے گی.
جبکہ عورتوں اور بچوں کو با حفاظت محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہیں۔
یوں تو یوکرینی فوج میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، مگر عام عوام کو پیغام میں یوکرینی صدر زلنسکی نے نہایت واضع الفاظ میں صرف یوکرینی مردوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھائے۔
یوکرینی صدر کے اس پیغام کے بعد چند سوالات کا اٹھنا فطری ہیں کیونکہ یوکرینی حکومت نے عورتوں کے حقوق کو خاک میں ملا دیا ہے۔
وہ سوالات ہیں، کیا عورتیں مردوں سے کمزور ہے؟
کیا عورتوں میں حب الوطنی کا جزبہ نہیں ہوتا ؟
کیا یوکرینی عورتیں بزدل ہیں؟؟؟
اگر یورپ (یوکرین) میں عورتوں کو مردوں کے سنگ ملک و وطن کی دفاع کی خاطر لڑنے نہیں دیا جاتا تو پھر کیا یہ اندازہ لگانا درست ہے کہ یورپ میں خواتین کو حقیر سمجھا جاتا ہے ؟؟؟
اگر حقیر نہیں سمجھا جاتا اور عورت کو مرد کے برابر اور ہم پلّہ سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ دہرا معیار کیوں؟
یا ماجرا کچھ اور ہے جیسا کہ عام طور پر ہمارے معاشرے کا تصوّر ہے کہ حقوق سب کے برابر ہیں مگر کرنے کے کام مختلف۔۔۔
بات عورتوں کے حقوق کی ہو رہی ہو اور ہمارے معاشرے کے مغرب زدوں کو یاد نہ کیا جائے، کوئی جواز ہی نہیں بنتا!
عموماً ہمارے معاشرے کے مغرب زدہ لوگ بڑے رشک بھری نظروں سے یورپی معاشرے کو دیکھتے ہیں۔
یورپی معاشرے میں سب سے زیادہ دلکش چیز جو انہیں لگتی ہے وہ ہے عورتوں کی آزادی یا بالفاظ دیگر ،حقوق نسواں۔۔۔
حقوق نسواں مطلب و مقصد ہی یہی ہے کہ عورتوں کو حقیر نہ سمجھا جائے، ہر عورت کو ان کا حق فراہم کیا جائے، خواتین کو تعلیم سے ہرگز محروم نہ کیا جائے، زبردستی شادیاں نہ کرائے جائیں، اگر عورتیں کو جاب وغیرہ کرے تو منع نہ کیا جائے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو در حقیقت وہی بات کر رہے ہیں جو رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بہت پہلے کی تھی، یعنی وہ محمد رسول اللّٰہ ہی تھے جنہوں نے جاہلیت کے زمانے میں عورتوں کو وہ حقوق دئے جو روز روشن کی طرح واضح ہیں اور بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہیں کیونکہ ہر شخص (بالخصوص مسلمان) اس سے واقف ہے۔
درحقیقت معاملہ اس وقت سمجھ سے بالا تر ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو حقوق مانگ رہے ہیں، یہ حقوق تو پہلے ہی سے آئین شریعت نے فراہم کی ہیں۔
اگر بات یہ ہی ہے کہ شریعت پر عملدرآمد نہیں ہو رہی تو واضح بتائے تاکہ فقط چند لوگ نہیں بلکہ پورا عوام اس تحریک میں شامل ہو جائے اور اسلام پسند سیاسی پارٹیاں بھی حمایت کر دے۔
مگر بات حقوق کے حصول کی نہیں ہے یہ تو محظ ایک بہانہ ہے اور حصول حقوق کے نام پر بےحیائی برائیوں کو فروغ دینے کا کام یا تو چاہتے ہوئے اور یا نہ چاہتے ہوئے سر انجام دے رہے ہیں۔
ان لوگوں کے بارے میں میں وہ الفاظ استعمال کرنا پسند کرونگا جو سید قطب نے اپنے ملک کے اشتراکیت زدوں کے بارے میں عرض کئے تھے کہ "بات تو ان کی ٹھیک ہیں مگر مقصد غلط ہے۔" کیونکہ ان کے قول و فعل کا تضاد ہی ان کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔
اگر آپ ماضی قریب کے چند لمحوں کا مشاہدہ کریں تو سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔
جیسا کہ ہر سال مارچ کے مہینے میں چند لوگ عورت مارچ کے نام سے ایک جلوس منعقد کرتے ہیں جس میں وہ جو نعرہ بازی کرتے ہیں وہ بھی سب کو خوب معلوم ہیں، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اصل مقصد عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
اسی مارچ کو ہر سال ہمارے معاشرے کے مغرب زدہ لوگ خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
درحقیقت یہ لوگ ہمارے معاشرے میں مغربی معاشرے کے دلال بن کر مغربی تہذیب کی اچھائی بیان کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
چند مہینے پہلے جب گوادر کی بیٹیوں اور ماؤں نے نہایت عظیم الشان ریلی نکالی تھی تو اس ریلی پر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق یہ گوادر کی سب سے بڑی ریلی تھی۔ جبکہ کچھ ملکی و غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق یہ ریلی بلوچستان کے تاریخ کی سب سے بڑی ریلی تھی۔
مگر اس پر کسی نے بھی یہاں تک کہ بڑے بڑے اینکروں نے بھی اس ریلی کے لیے کچھ بولنا تک بھی پسند نہ کیا۔
معروف عالم الدین اور بیسویں صدی کا محقق و مصنف سید ابوالاعلی مودودی نے اپنی کتاب "دین اور خواتین" میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں اور عورتوں کی آزادی کے بارے میں نہایت مدلل انداز میں لکھا ہے کہ "ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے اور یہ بھی ان شاءاللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہوگا۔
میں بارہا اپنے رفقا سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بدتر سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔
ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جن میں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔
کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تو معلوم کیا کیا درندگی اور وحشت ان سے صادر ہو۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔
انھیں اسلحے کا استعمال سیکھنا چاہیے، وہ سواری کر سکتی ہوں، سائیکل اور موٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ [ابتدائی طبی امداد ] جانتی ہوں، پھر صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں، بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بٹاسکیں۔
ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسلامی حدود کے اندر اندر کرنا چاہتے ہیں، ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔
قدیم زمانے میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحے کے استعمال اور مدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی لیکن اُنھوں نے پورے فنون سپہ گری اپنے باپوں، بھائیوں اور شوہروں سے سیکھے تھے اور پھر عورتوں نے عورتوں کو تربیت دی تھی۔
اب بھی یہ صورت بآسانی اختیار کی جاسکتی ہے کہ فوجی لوگوں کو اپنی محرم خواتین کی تربیت پر مامور کیا جائے اور پھر جب عورتیں کافی تعداد میں تیار ہو جائیں تو ان کو دوسری عورتوں کے لیے معلم بنا دیا جائے۔ "
تو ضرورت اس امر کو سمجھنے کی ہے کہ اس دنیا میں جو بھی انسان ہو؛ چاہے وہ مرد ہو یا عورت, اس شخص کو اس دنیا میں ان اصولوں ، قاعدوں ، پابندیوں اور آزادیوں کے محدود لکیروں کے اندر ہی زندگی گزارنی چاہیے جن لکھیروں کو خالق سماوات و الارض نے مقرر کئے ہیں۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، عربی ہو یا عجمی ، یورپ کا باشندہ ہو یا برصغیر کا وہ رب کے مقرر کردہ اصولوں سے مبرّا نہیں ہے بلکہ عین اس کا پابند ہے۔
جو بھی کام ہو شریعت کے دائرے میں رہ کر ہو, ایسا نا ہو جس سے اللہ اور اسکے رسول کی نا فرمانی ہو۔
No comments:
Post a Comment