Shauhar Apne Farz ko Samjhe aur Biwi ke Haque ko Ada Kare?
सवाल: अगर शौहर बीवी के साथ अच्छा सुलूक नहीं करता तकरीबन हर गलती का ज़िम्मेदार उसी को मानता है, हर वक़्त मोबाइल हाथ में होता है तो इस सूरत में बीवी के लिए जायज है के वह शौहर से बातचीत बन्द कर दे, बीवी का दिल शौहर से टूट चुका है वह सिर्फ अपने औलाद की खातिर शौहर के साथ रहती है। अब ऐसी हालात में वह क्या करे? क़ुरान ओ सुन्नत से रहनुमाई फरमाए
السلام و علیکم و رحمت اللہ و بر کاتہ!!
اگر شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تقریبا ہر علطی کا ذمیدار اسے ٹھراتا ہر وقت موبائل ہاتھ میں ہوتا تو اس صورت میں بیوی کے لئے جائز ہیں کے وہ شوہر سے بول چال بند کردے بیوی کا دل شوہر سے ٹوٹ چکا ہے وہ صرف اپنے بچوں کی خاطر شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔
رہنمائ فرمادیں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ شریعت نے ان تمام مسائل کا حل رکھا ہے اور وہ یہ کہ عورت خلع کی طرف رجوع کرے۔ اگر عورت مذخورہ اسباب کی وجہ سے خاوند کو ناپسند کرتی ہو اور وہ اس ناپسندیدگی میں حق پر ہوتو خاوند کو جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو بلاوجہ مارپیٹ کرے۔ اگر وہ کسی وجہ سے بیوی کو سزا دینا چاہے تو وہ سزا وعظ ونصیحت اس کو بستر پر چھوڑنے اور اس قسم کی کاروائی کے بعد ہونی چاہیے خاص طور پر اس نرمی کا بیان عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس حدیث میں بھی موجود ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا كَانَ الرِّفْقُ فِي شَيْءٍ إِلا زَانَهُ ، وَلا نُزِعَ مِنْ شَيْءٍ إِلا شَانَهُ " .[1]
"نرمی جس معاملے میں بھی ہوتی ہے وہ اس کو مزین کر دیتی ہے اور جس معاملے میں نرمی نہ ہووہ اس کو عیب دار کر دیتی ہے۔"
صحیح مسلم میں ہی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ"[2]
"بلا شبہ اللہ تعالیٰ نرم ہیں اور نرمی کو پسند کرتے ہیں اور نرمی سے وہ چیز عطا کر دیتے ہیں جو سختی کے ساتھ عطا نہیں کرتے ۔"
لہٰذا یہ مذکورہ شخص احمق ہے شریعت کی حدوں کو پھلانگ رہا ہے اس شخص پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان صادق آتا ہے جو بخاری و مسلم کی عائذبن عمرو کی حدیث میں ہے۔
(إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الحُطَمَةُ)[3]
"بلاشبہ ظالم حکمران بد ترین حاکم ہے۔
اس کی بیوی اس کو ناپسند کرتی ہے پس اگر یہ اس کو طلاق دے دے گا یا وہ اس سے خلع لے لے گی تو اس کی بچیاں آوارہ ہو جائیں گی جبکہ ان کوماں باپ کی تربیت کی ضرورت ہے۔
تو ہم کہتے ہیں کہ مرد کے لیے اپنی بیوی کو مارنا درست نہیں ہے الایہ کہ وہ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے اور"فاحشہ "کے مفہوم میں "نشوز"(نافرمانی ) بھی شامل ہے جیسا کہ یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ابو داؤد اور ترمذی میں معاویہ بن حیدہکی روایت میں ہے کہ بلا شبہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی شخص کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ ، أَوْ اكْتَسَبْتَ ، وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ ، وَلَا تُقَبِّحْ ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ"[4]
"جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ جب لباس خرید کر پہنو تو اس کو بھی پہناؤاور چہرے پر مت مارو اور اس کو گالی گلوچ نہ کرو اور اس سے قطع تعلقی صرف گھر میں ہی رہ کر کرو۔"
چنانچہ خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے معاملے میں عزوجل سے ڈرے وہ اپنے گھر کا نگران ہے اس سے اس کی نگرانی کے متعلق سوال کیا جائے گا خاص طور پر جب ان کو اس کی انتہائی ضرورت ہو۔ اس پر لازم ہے کہ جب اس کو غصہ آئے تو وہ نماز کی طرف لپکے اور اسکے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے ہم اللہ سے ہدایت اور توفیق کا سوال کرتے ہیں۔(محمد بن عبد المقصود)
[1] ۔صحیح مسند احمد (206/6)
[2]۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1830)
[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1830)
[4]۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2142)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
عورتوں کےلیے صرف
صفحہ نمبر 530
محدث